• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیشن ڈیزائننگ ،تخلیقی عمل اور چیلنجنگ کیریئر

دنیا کے عظیم ترین مصنفوں میں شامل مصنف،ڈرامہ نگاراور شاعر ولیم شیکسپیئر کا قول ہے کہ’’لباس انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ،،یہی وہ اہم سبب ہے جس نے فیشن کی بنیاد رکھی ۔اور دنیا بھر کے تمام لوگوں نے خود کومنوانے کے لئے ملبوسات کے نت نئے رجحانات اپنانا شروع کئے۔دور جدید میں مغرب ہو یا مشرق لباس کسی بھی انسان کے باذوق ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے اور انسان کی اسی خواہش نے یا یوں کہیں ضرورت نے فیشن انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ 

جس کے بعد دنیا اس دور سے باہر آگئی جس میں لڑکیوں کے لئے سلائی کڑھائی ایک لازمی صلاحیت سمجھی جاتی تھی ۔ان کی سلیقہ شعاری کادارومدار ان گھریلو کاموں اور ہنر کومدنظر رکھ کرکیا جاتا تھا بدلتے حالات نے اک نیا رخ اس وقت لیا جب سلائی کڑھائی کے بجائے اس ہنر کو’’فیشن ڈیزائننگ،، کا نام دیاگیا۔

اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میںفیشن ڈیزائننگ ایک پر کشش،گلیمرس اور منافع بخش فیلڈ سمجھی جاتی ہے ۔تخلیقی ذہن رکھنے والے حضرات کے لئےفیشن ڈیزائننگ اور اسٹائلنگ سے بہتر اور کوئی فیلڈ نہیں سمجھی جا تی۔

اکیسویں صدی میں فیشن ڈیزائننگ کا شعبہ ایک آرٹ کے طور پر تسلیم کیا جاچکاہےجو قدرتی حسن کو نکھارنے کے ساتھ افرادی قوت کی صلاحیتوںمیں اضافے اوروسائل کو ترقی دینے کے لئے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔

 ملک میں 100سے زائد دیگر شعبہ جات مثلاً(پرنٹ میڈیایعنی اخبارات ورسائل،الیکٹرانک میڈیا،ریڈیو،ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی دنیا کے علاوہ فوٹو گرافی کی صنعت اورمینوفیکچرنگ انڈسٹری شامل ہیں)بھی فیشن ڈیزائننگ سے منسلک کئے جاتے ہیں جس کے باعث لاکھوں افرادکے لئے روزگار کا حصول بھی آسان ہوگیا ہے۔

اب وہ دور گیا جب ٹیلر ایک فرد واحد کے طور پر گارمنٹ تیار کرتا تھا اب لباس کی تیاری کے لئے بہت سے ماہرین کی مہارتوں کو بروئے کار لایاجاتا ہے۔اب لباس صرف ٹیلر کے بجائے مختلف فیشن ہاؤسربے شمار ماہرین کی مدد سے تیار کرواتے ہیں۔ 

ان ماہرین میں فیشن ڈیزائنر، ٹیکنیکل ڈیزائنر، پیٹرن میکر، ٹیلر، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اسٹائلسٹ، پینٹر یا فوٹو گرافر، فیشن فورکارسٹر، ماڈلز اور فیشن جرنلسٹس شامل ہیں جن کا اس شعبے کی ترویج میں اپنا اپنا اور اہم کردار ہے۔

ددور جدید میں فیشن انڈسٹری کی شروعات انیسویں صدی میں ہوئی جہاںچارلس فریڈرک ورتھ (Charles Frederick Worth)وہ پہلا ڈیزائنرکے مانا جاتا ہے جس نے اپنا برانڈ متعارف کروایا۔ ورتھ نے ہی سب سے پہلے اپنے کسٹمرز کو لباس کے انتخاب کے لیے رہنمائی دینا شروع کی۔ 

جس کے بعد دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ڈیزائنر ملبوسات کے بڑ ھتے ہوئے رجحان نے فیشن ڈیزائننگ کے شعبے کو فروغ دینے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔آج دنیا بھر میں اس شعبہ نےایک اکیڈمی کی حیثیت حاصل کر لی ہےجہاں روایتی اور غیر روایتی دونوں طریقوں سے اس شعبہ کے ماہرین تیار کیے جارہے ہیں۔

اگر ہم مغرب کی بات کریں تو وہاں فیشن باقاعدہ نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے اصول لگے بندھے تو ہیں لیکن انہیں اگر توڑا جائے تو بھی فیشن کی حدودٹوٹتی نہیں بلکہ مزید پھیل جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں خواتین بھاری دبیز مردانہ کوٹ پہن لیں تو فیشن ہے اور پھٹی ہوئی جین کے اوپر شارٹ قمیض پہن لیں تب بھی فیشن ہے ایشیائی ممالک میں البتہ ایسا نہیں ہےلیکن صورتحال کافی بہتر ہے ۔

ہمارے یہاںبھی کئی ادارے فیشن ڈیزائننگ میں ڈگری اور سرٹیفکیٹ کورسز کے ساتھ ساتھ نئے ڈیزائنرز کو متعارف کروانے اوربین الاقوامی اداروں کے ساتھcollaborationکے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔معروف جامعات اور کالجز سمیت پبلک سیکٹر اور نجی تعلیمی اداروں میں فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں بیچلرز اور ماسٹرز لیول کے کورسز متعارف کروائے جا رہے ہیں۔ 

ان اداروں میں طلبہ کو پیٹرن میکنگ، سیونگ، ٹیکسٹائل ڈیزائن ،فائونڈیشن ڈیزائننگ، لباس کی تاریخ، ڈیزائن تھیوری،ٹیکسٹائل تھیوری،ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی سے متعلق تربیت فراہم کرتے ہیں ۔

مغربی ممالک کی طرح پاکستانی عوام بھی روایتی ٹیلرنگ سے ہٹ کرفیشن برانڈز قبول کرنے لگی ہے جس کے باعث فیشن ڈیزائننگ کا شعبہ ہمارے یہاں بھی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کررہا ہے۔گزشتہ برسوں میں پاکستان کو ایشیا میں ایک فیشن مرکز کے طور پر قبول کیا گیا ۔

آج پاکستان کو فیشن کی دنیا میں بہت بڑے بڑے نام پیدا کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے آج ہمارے ڈیزائنر نہ صرف پاکستان بلکہ مغربی ممالک میں بھی مقبول ہونے لگے ہیں ۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے فیشن برانڈز کے صارفین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہےاور شاید یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں آنے والوں کو کامیابیاں بھی مل رہی ہیں اور آئے روز نت نئے برانڈز مارکیٹ میں متعارف ہو رہے ہیں۔

فیشن ڈیزائننگ سے منسلک شعبوں میں سے چھوٹے پیمانے پر قائم کئے گئے بوتیک ہیں جو گھریلو معاشیات کے شعبے کا بھی حصہ ہیں جو خواتین ڈیزائننگ اور اسٹائلنگ میں دلچسپی نہیں رکھتی وہ اس شعبے میں رہتے ہوئے عام طور سے لان اور کاٹن کے اوسط درجے کے برانڈڈ سوٹ فروخت کرکے اپنے حالات میں بہتری کے ذریعے وسائل میں اضافہ کررہی ہیں۔ جس سے صحتمندانہ مسابقت کی فضا پیدا ہورہی ہے جو کہ ایک خوش آئند اور ترقی کی جانب اہم قدم تسلیم کی جاتی ہے ۔

فیشن ڈیزائننگ ہی وہ شعبہ ہےجس کے ذریعے پاکستانی خواتین کو معاشی ترقی کی راہ میں حصہ دار بنایاجاسکتا ہے چونکہ دنیا بھر میں خواتین کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جانے ہے اور فیشن ڈیزائننگ ،ڈریس اسٹائلنگ میں خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر بہتر انداز میں دکھا سکتی ہیں اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس شعبے کے ذریعےخواتین کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہےاس عمل کے ذریعے انھیںمعاشرے کو ترقی کی راہ پربآسانی ڈالا جاسکتا ہے ۔

 یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی خواتین کی طرح ہماری خواتین میں ٹیلنٹ موجودہےاور اس فیلڈ میںان کے لئے لامحدود مواقع موجود ہیںچنانچہ یہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرد حضرات سے زیادہ اچھی ڈیزائنر ثابت ہو سکتی ہیں۔

پاکستان میں فیشن ڈیزائننگ کی بڑھتی مقبولیت اور جدیدملبوسات کی ڈیمانڈ دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ شعبہ آنے والے وقت میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے مزیدبہتر اورمکمل طور پر بھر پورکردار ادا کرسکے گا لیکن اگر ضرورت ہے تو بس اس امر کی جس کے تحت طلبہ کو اس ہنرکا حصول بآسانی فراہم کیا جائے ان کے لئے فیشن ڈیزائنر کے طور پر روزگار کا حصول مشکل کے بجائے آسان کیا جائے ۔

ساتھ ہی اس تاثر کو ختم کیا جاسکے جس کے تحت ہمارے معاشرے کے اکثر والدین کو یہ خدشہ رہتا ہے کہ فیشن کی دنیا اچھی نہیں ہے ۔والدین کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس فیلڈ میں موجود سارے لوگ خراب نہیں آپ کی اولاد خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی ا پنا بوتیک اور فیشن ہائوس چلا سکتا ہےیا پھر وہ کسی ایسے فیشن ہائوس کے لیے کام کرسکتا ہے جہاں اسے اپنی تخلیقی صلاحیتیں آزمانے کا موقع ملے۔

ہمیں تسلیم کرنا ہوگافیشن ڈیزائننگ ایک تخلیقی عمل ہے اس حوالے سے والدین کی مدد اور اس کی راہ نمائی بھی اہم تصور کی جاتی ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین