• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی خواتین کو باشعور بنانے میں میڈیا کا کردار

پاکستانی خواتین کو باشعور بنانے میں میڈیا کا کردار

سلیم انور عباسی

 میڈیا دور حاضر کا ایک اہم "ہتھیار" ہے۔ اہمیت کے پیشِ نظر اسے "قومی ستون" کا درجہ دینا بے جا نہ ہوگا۔ میڈیا عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کرتا ہے اور حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔

میڈیا نے بنایا خواتین کو باوقار خودمختار

اردو اور انگریزی اخبارات کی بات کیجائے تو میں عورتوں کو صرف خواتین کے صفحے تک محدود رکھا جاتا تھا۔ 80 کے عشرے میں نفیسہ ہود بھائی نے ڈان کے لئے کرائم رپورٹنگ شروع کی تھی۔ رضیہ بھٹی کی ادارت میں نیوز لائن نے جرات مند صحافت کی شاندار مثال قائم کی ان کے بعد ریحانہ حکیم نے اس روایت کو جاری رکھا۔ 

2000ء کے بعد ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز کی تعداد میں اضافہ کی بدولت عورتوں کے لئے کام کے مواقع میں اضافہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اب خواتین ہر موضوع پر مضامین ،کالم ،فیچرز،انٹرویوز،رپورٹنگ جیسے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے عورتوں کے مسائل سے نکل کر سیاست، ادب، تعلیم،تجارت،تعمیرات، صحت، کھیل کھلاڑی،سائنس و ٹیکنالوجی،صنعت و معیشت، شوبز،ادب،کھانا خزانہ، آرائش، ڈیزائننگ، فیشن اینڈ بیوٹی،اسکن کیئرجیسے ان گنت موضوعات پر اپنے قلم کے جوہر دکھانے لگی ہیں۔

ان میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والی ایسی کئی لڑکیاں ہیں جنہوں نے اپنے قلم سے صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور صحافت کے میدان میں عورتیں بہت تیزی سے اپنی اہمیت جتا رہی ہیں ۔میڈیا سمیت تمام ملٹی نیشنلز میں آفس ڈیکورم برقرار رکھنے کے لیے خواتین کو لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔

ہمہ صفات خواتین

پاکستان کی کل آبادی میں خواتین کا تناسب 52 فیصد کے قریب ہے مگر عملاََ 3 سے 5 فیصد خواتین عملی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں ۔

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے مڈل کلاس کے گھرانوں میں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق سوچ میں بڑی روشن خیال تبدیلی واقع ہوئی ہے۔وہ قدامت پرست گھرانے جو کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کی بیٹیاں ڈاکٹر یا استاد بننے کے علاوہ کوئی اور پروفیشن اختیار کرسکتی ہیں‘آج ان کی بچیاں وکیل،انجینئر،اداکارائیں،ماڈل،فیشن ڈیزائنر، سیاستدان،ائیر فورس میں پائلٹ،سول سروس آفیسر،کرنل،میجر اور میڈیا میں اینکر پرسن کے طور پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں۔

آج پاکستان کے گھرانوں کی اکثریت کو اپنی بیٹیوں کے مخلوط تعلیمی اداروں میں اور مختلف دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔ خواتین مردوں سے بہتر لیڈر شپ یا منتظم یا تخلیقی صلاحیتوں والی ادیبہ،شاعرہ،مصورہ یا کھلاڑی دکھائی دیتی ہیں۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ انسانی سماج کی اول صورت ماں اور دوسری سماج تھا اور بڑی اماں ہی بطور سردار سارے قبیلے کے نظام کو چلاتی تھیں۔دنیا میں بھی جہاں عورت اور مرد میں برابری تسلیم کر لی گئی ہے وہاں سماج کا ارتقائی عمل بہت تیز ہے۔مقبوضہ عورت والے سماجوں میں عورتوں میں سماجی شرمیلاپن‘جذباتیت‘جھجک اور احساس کمتری نسل در نسل وراثت میں منتقل ہوتی ہے۔

نیوز شوز

پاکستان کی سیاسی خبروں نے خواتین میں اپنے حقوق کا شعور اجاگر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور شہری خواتین کے ساتھ دیہی خواتین میں بھی ووٹ ڈالنے کارجحان بڑھا حتیٰ کہ خیبر پختون خوا جیسے مردم معاشرے میں بھی خواتین نے ووٹ ڈالنے میں فعال دلچسپی دکھائی۔

تبدیلی کا محرک میڈیا

جب ہم شعور کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خواتین کے لائف اسٹائل کو کئی حوالوں سے تبدیل کیا ہے ۔جس پر نظر ڈالی جائے تو آپ میڈیا کی طاقت کو کسی طور پسِ پشت نہیں ڈال سکتے کہ جہاں اس نے خواتین کو پراعتماد اور باروزگار بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں اسی میڈیا سے خواتین نے کئی فوائد بھی حاصل کیے اور متاثر بھی ہوئیں۔

ڈرامے

عورتوں میں اعتماد سے گفتگو کرنے کے حوالے سے ہر موضوع پر دکھائے جانے والے ڈرامے عورتوں کی اعتماد سازی کے سب سے بڑے محرک رہے ہیں۔اس ضمن میں جیو نے عورت کو باوقار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ایسی جرئت مند عورتوں کے کردار پیش کئے کہ جن کی گونج کبھی ختم نہ ہوگی۔ایسے ہی بے مثال ڈراموں میںبھولی بانو اور اب خانی کے لوگ اسیر رہے۔

اس طرح جیو نے اپنے منفد ڈراموں سے جرئت مند خواتین کی ایسی تصویر پیش کی جو اپنے حق میں آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتی ہیں اور اسی ٹرینڈ کو آگے بڑھایا جو حسینہ معین کے ڈراموں کا خاصہ ہوا کرتا۔نیک پروین،مبارک ہو رشتہ آیا ہے اور تہمت کا شمار ان ڈراموں میں ہوتا ہے جنہوں نے عورت کے ذہن و دل کو نئ سوچ سے ہم آہنگ کیا۔

ٹاک شوز

نئے الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز نے مکالمے کی ایک منفرد روایت کو جنم دیا جس سے برداشت اور دوسرے کا برعکس موقف سننے کا حوصلہ بڑھا۔اس حوصلے سے ہمت پاکر خواتین نے بھی اپنی آزادی کے لیے آواز اٹھائی۔ہمارے ملک میں ایسے گرما گرم مباحثوں نے اپنی اصلاح کی نئی رہیں ہموار کیں۔

ریڈیو نساء

میڈیا میں خواتین کی آواز کی بات ہو اور نسا ءریڈیو نیٹ ورک کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے جسے عورتوں کی طاقت و اختیار کے لیےوومنٹی فاؤنڈیشن نے جاری کیا۔اسے 2009 میں شروع کیا گیا اور آج فلسطین کے خواتین کے حقوق کی بلند ترین آواز ہے۔

سوشل میڈیا

پاکستان کی لڑکیوں اور خواتین کے لیے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ،بلاگر اور آن لائن جرائد کا وسیع و عریض پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے نہ صرف وہ نام نہاد دانشوروں کے بلاخوفِ تردید یا تذبذب ِاشاعت دبنگ موقف پیش کرتی ہیں۔

فیس بک ،ٹویئٹر نے اب پاکستانی عورت کو ایک ایسی آواز دی ہے جس کے سامنے آج کا ہمارا روایتی میڈیا بھی پریشان ہے کہ کیوں گر اس مفت کی شہرت پر قابو پایا جائے۔پہلے ہر کس ناکس اپنی تحریر چھپوانے کا طلب گار تھا لیکن فیس بک،ٹویٹر پر ایسی رونق آگئی کہ تمام خواتین کے لیے یہ آسان ہوگیا کہ وہ گھر بیٹھے دل کی بات کہہ سکیں ۔

مارننگ شوز

ہر صبح مارننگ شوز میں آنے والی شخصیات اور تازہ ترین رجحانات پر گفتگو نے خواتین کو پراعتماد بنانے کے ساتھ ملبوسات کے نت نئے فیشن کے حوالے سے بھی بیش بہا معلومات فراہم کی۔اتنا ہی نہین بلکہ باصلاحیت خواتین کے کارہانے نمایاں کو پیش کرتے ہوئے خواتین کے لیے رول ماڈل کے طور پر پاکستان کی باصلاحیت خواتین کے کارناموں کو بھی دکھا کر عام عورتوں کو اعتماد بخشا کہ ہم بھی کچھ کرسکتی ہیں۔

تازہ ترین