• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلقہ بندیوں پر اعتراضات انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں؟

حلقہ بندیوں پر اعتراضات انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں؟

2013 میں کرپشن فری گڈ گورننس کا نعرہ لگا کر تیسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نہ صرف عنان اقتدار سے بے دخل کردئیے گئے ہیں بلکہ انہیں پارٹی کی قیادت کے لئے بھی نااہل قرار دے دیا گیا ہے، گوکہ پارٹی نے انہیں تاحیات سپریم قائد تسلیم کرلیا ہے مگر صرف نواز شریف ہی نہیں ان کی بیٹی ، داماد اوردونوں صاحبزادوں کے خلاف کرپشن ریفرنسز فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولنے والے نوازشریف اور اس کے خاندان ہی نہیں شریف فیملی کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے اور باپ بیٹی کی ’’ جیل یا تیرا‘‘ کی پیشگوئی بھی کررہے ہیں ان کاکہنا ہے کہ نواز شریف سویلین بالادستی کی بات کرکے انقلابی بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں جنرل ضیا ء الحق کے دور میں اس وقت سیاست میںا تارا گیا تھا۔ 

جب وہ کونسلر بھی منتخب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کی طرف سے ’’اقامہ‘‘ کی بنیاد پر نااہل قراردے کر اقتدار سے نکال دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کے بعدنواز شریف ہی نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پوری کی پوری قیادت عدالتی فیصلے پر تنقید اپنا حق سمجھتی ہے اور کئی تو توہین عدالت کی زد میں بھی آچکے ہیں، صرف دو افراد جن میں ایک پارٹی سربراہ منتخب ہوگیا ہے آج بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ فوج عدلیہ اور سیاستدان مل کر کام کریں، شہبازشریف جسے اسٹیبلشمنٹ نواز بھی کہا جاتا ہے، پارٹی کو مخالفین کے شکنجے سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ؟ بڑی اہمیت رکھتا ہے کامیابی اقتدار کا تسلسل ہوگی بلوچستان حکومت کی تبدیلی ،سینٹ انتخابات میں کھلی ہارس ٹریڈنگ اور چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے نتائج میں ’’ نواز شریف بیانیہ‘‘ کو شکست دے دی گئی ہے ۔ 

نواز شریف نے چیئرمین سینٹ کے انتخابات کے بعد آصف زرداری کوتنقید کا نشانہ بنایا تو جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی لہجے میں نواز شریف پر براہ راست وار کرتے ہوئے کہہ دیاکہ چابی کا سب بڑا کھلونا تو خود میا ں صاحب ہیں، پرانی چابی اندر ٹوٹ گئی ہے نئی چابی سے یہ پھر چل پڑ ے گا۔ 

سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے حالات کے تناظر میں پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ بن چکی ہے جہاںقومی سلامتی سے متعلق ادارے گلوبل صورتحال کا مقابلہ کرنے کی ازخود منصوبہ بندی کرنے پر بھی مجبور ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت پاکستان کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعے ہی وفاق کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے ، سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے حلیف تبدیل کرسکتی ہے ، موجودہ حکومت کے دور اقتدار کے آخری صرف9 ہفتے باقی رہ گئے ہیں یقینا نئے سیاسی اتحاد بنیں گے، بلاول بھٹو زرداری کاکہنا ہے کہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیت کر مریم نواز کے نعرے روک سکو تو روک لو کا جواب دے دیا ہے۔ 

حلقہ بندیوں پر اعتراضات انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں؟

سیاسی تجزیہ نگاروںکا کہناہے کہ2007 اور2013 کے انتخابی نتائج اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے برعکس سامنے آئے تاہم آصف علی زرداری نے مسند اقتدار پر موجود رہنے کیلئے بھرپور انداز میں اختیارات کی قربانی دی اوردوسروںکو بھی مشورہ دیا کہ جتنا اقتدار ملتا ہے اس پر ہی صبر و شکر کرو مگر نواز شریف عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر تیسری بار بھی سویلین بالادستی کی بات کرتے پائے گئے، سویلین بالادستی کے لئے انہیں پارلیمنٹ کو ساتھ رکھنا ضروری تھا مگر اس پر تو توجہ نہیں دی گئی بلکہ پارلیمنٹ میں موجود بیشتر سیاسی جماعتوں کو اپنی سیاسی اور ذاتی مخالفت کھل کر کرنے کا موقع فراہم کیا گیا سیاسی تجزیہ نگارمیاں شہباز شریف کی طرف سے سیاستدان، عدلیہ اور فوج مل کر کام کریں تو’’ جمہوریت‘‘ کی بات قرار دیتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اس تجویز کو سنجیدگی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے حالانکہ نواز شریف کے دست راست سابق وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی اس جرم میں معتوب ٹھہرے، ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کو ہم آہنگی سے آگے بڑھنا چاہیے۔

 پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نئے سربراہ محمد شہباز شریف کو اپنے بیانیہ کو شرف بازیابی کے حصول میں کتنی کامیابی ملتی ہے چند دنوںمیں واضح ہوجائے گا الیکشن کی آمد آمد ہے ، عمران خان 29 اپریل سے انتخابی مہم باقاعدہ شروع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، حالانکہ 2013 کے انتخابات میں 120 نشستیں جیتنے کا ہدف نہ ملنے پر انہوں نے جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا وہ بغیر کسی وقفے کے 2018 میں داخل ہوچکی ہے عمران خان اپنے موقف کے مطابق نئے پاکستان کے قیام کے سلسلے میں کے پی کے میں کتنا عملدرآمد کرنے میں کامیاب رہے ہیں ان کی پارٹی خود بھی تجزیہ کرتی ہوگی، عوام کا ردعمل2018 کے انتخاب میں یقینا سامنے آئے گا، پاکستان مسلم لیگ (ن) سخت مخالفت کے باوجود عملاً بہت کچھ کرنے کا دعویٰ کررہی ہے موسم گرما شروع ہوچکا ہے لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو اس کا بھی ن لیگ کو جواب دینا پڑے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نئے صدر شہباز شریف کیلئے اپنے مضبوط ساتھیوں کو بچا کر رکھنا سب سے مشکل کام ہوگا ۔ 

ایک تجزیہ نگار کا دعویٰ ہے کہ ہر آٹھواں پارلیمنٹرین اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر پارٹی بدلنے کا فیصلہ کرتا ہے، اب یہ سوال سامنے آرہا ہے کہ 2018کے انتخابات میں عمران خان کیا بلاول بھٹو کی وزارت عظمیٰ کیلئے معاون بننے کیلئے تیار ہو جائیں گے؟ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف کرپشن کا علم بلند کرکے بھی عوام نے انہیں منتخب نہ کیا تو کیا وہ عوام کی بات مان لیں گے یا 2013 کی طرح انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے سیاسی فساد برپا کر دیں گے۔

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مذہبی ووٹ بنک بریلوی مکتبہ فکر کے پاس ہے مگراس کی قیادت کے لب و لہجہ کو دینی جماعتوں کا عمران خان گروپ قرار دیا جارہا ہے، تحریک لبیک یا رسول اللہ ایسے انتخابی حلقوں میں ن لیگ کے امیدواروں کی ناکامی کا موجب بنے گی جہاں کامیابی میں صرف دس ووٹ کا گیپ ہوگا، سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ابھی تک تو حالات جمہوریت کو مسلمہ تسلیم کرتے ہیں مگر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو لپیٹنے کے لئے صرف چھ منٹ اور میڈیا کو خاموش’’ مکو ٹھپنے‘‘ کیلئے بارہ منٹ ہی کافی ہونگے۔ 

سیاسی تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہوئی ہیں حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی سر اٹھا رہے ہیں یہ اعتراضات انتخابات موخر کرنے کا موجب بھی بن سکتے ہیں، وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے 31 مئی تک اپنی حکومت موجود ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ دعویٰ برحق رہے گااس حوالے سے تو وہ بھی پرامید نہیں ہونگے، انتخابات کی آمد کے ساتھ ساتھ اس پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے بھی استقبال کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں، خصوصی عدالت پرویز مشرف کو وطن واپس اور عدالت میں پیش ہونے کیلئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دے چکی ہیں۔ 

تازہ ترین