• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے الیکشن ہوں گے یا احتساب؟

سوات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا یہ کہنا کہ’’میں جہاں بھی ہوں اور جہاں سے بھی آپ کو ہدایت کروں آپ نے عمل کرنا ہے‘‘ اسی جلسہ عام میں مریم نواز نے بھی اپنی تقریر میں کچھ ایسے ہی اشارے دیئے۔ جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف آنے والے دنوں میں اسیری کی اذیتوں سے لیکر جلا وطنی کی صعوبتوں تک تمام حالات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں لیکن اپنے مخالفین اور اُن کی جانب سے پیدا کیے جانے والے حالات کے سامنے سرنگوں نہیں ہونگے۔

سوات کے جلسہ عام میں اپنے خطاب کے آخر میں میاں نواز شریف نے جلسے کے شرکا سے ہاتھ اُٹھوا کر اس بات کی یقین دہانی حاصل کی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں بھی اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ اُن کے سیاسی مخالفین جو ابتدا سے ہی اس بات کے دعوے کررہے تھے کہ سابق وزیراعظم کی اگلی منزل یا تو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل ہے یا پھر وطن بدری تو اُنہیں اس بات کا علم ہوچکا تھا۔

دانندگان راز اس متوقع یا غیر متوقع صورتحال میں موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ وہ آنے والے دنوں کے پیش نظر محاذ آرائی سے گریز کریں ۔

بالخصوص انہوں نے سینٹ کے انتخابات اور چیئرمین سینٹ پر الزامات کے حوالے سے جو طرز عمل اختیار کررکھا ہے اُس پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ سینیٹرز کو یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ سینٹ کے اجلاس میں اس حوالے سے کاروائی میں خلل ڈالیں۔ سینٹ کا اجلاس 9 اپریل کو اور قومی اسمبلی کا اجلاس 10 اپریل کو طلب کیا گیا ہے ۔

گو کہ قومی اسمبلی میں بدستور پاکستان مسلم لیگ (ن)کو اکثریت حاصل ہے لیکن سینٹ کے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اب ’’حالات‘‘ ایسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی جیتی ہوئی ہار سے صورتحال کو تبدیل کرسکے۔ یقیناً قومی اسمبلی میں تو کئی حوالوں سے ہنگامہ آرائی۔ احتجاج۔ واک آؤٹ اور بائیکاٹ ہوگا۔

لیکن سینٹ میں اب سب کچھ لاحاصل ہوگا۔ پھر کسی بھی پارلیمانی الیکشن کے بعد چھ ماہ تک تحریک عدم اعتماد یا اس طرح کی کوئی اور کوشش کی راہ میں قوانین حائل ہیں۔ ویسے بھی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی جانب سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بیانات پر احتجاج اور ردعمل کے بعد عملی اظہار کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اس ضمن میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پیٹرولیم کے وزیر مملکت جام کمال نے استعفیٰ دے دیا ہے جو منظور بھی کرلیا گیا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ یہ ابتدا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں عام انتخابات وقت مقررہ پر ہونے چاہئیں اور الیکشن کے انعقاد میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔ اس حوالے سے ماسوائے ایک یا دو سیاسی راہنماؤں کے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین میں اتفاق ہے۔ لیکن اس کے باوجود سب کو ہی یہ خدشہ ہے کہ الیکشن میں تاخیر کے اسباب پیدا بھی کیے جاسکتے ہیں۔

جواز بھی پیش کیے جاسکتے ہیں، جیسا کہ حال ہی میں حکومت کی اتحادی جماعت اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے غیر مبہم انداز میں کہا ہے کہ اُنہیں الیکشن وقت مقررہ پر دکھائی نہیں دیتے اور امرواقعہ ہے کہ اگر الیکشن میں دو تین ماہ کی بھی تاخیر ہوئی تو یہ ماہ کئی سال میں بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیا پہلے الیکشن ہونگے یا احتساب ۔ تاخیر کے جو جواز پیش کیے جاسکتے ہیں اُنہیں دور کرنے کے لیے سیاستدان کیا کررہے ہیں اور اُس سمت کیا پیش رفت کی جارہی ہے کہ انتخابات میں تاخیر کے تمام جواز اور خدشات ختم ہوجائیں۔ ایسی کوئی بات، کوئی اقدام اور کوئی حکمت عملی دیکھنے میں تو کُجا محسوس بھی نہیں ہوتی۔

اس کے برعکس الزامات کے گندی پوٹلیاں جلسوں، سڑکوں اور چوراہوں میں کھولی جارہی ہیں، ایک دوسرے کی تذلیل اور تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جارہا۔ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے طے شدہ اُمور کریدے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔

کسی دوسری طاقت یا ادارے کو ان کے خلاف کیا کرنا یہ تو خود ہی ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں اور اس ساری صورتحال میں بسا اوقات تو اس بات پر یقین ہونے لگتا ہے کہ اگر ملک میں جمہوریت کو خطرہ ہے تو وہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود جمہوریت کے دعویداروں سے ہی ہے

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

انتخابی عمل میں حصہ لینے والے سیاستدانوں اور جماعتوں کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ آنے والے انتخابات میں انتخابی قوانین اور قواعد وضوابط ماضی کے مقابلے میں ایک طرف تو خاص سخت ہوں گے اور دوسری طرف اُن پر نظر رکھنے اور عملدرآمد کرانے کا طریقہ کار ، اُس سے بھی زیادہ سخت، جس کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندوں پر اس بات کی پابندی عائد کردی ہےکہ وہ الیکشن کے انعقاد تک جتنی بھی ترقیاتی سکیموں اور منصوبوں کا اپنے حلقہ نیابت میں افتتاح کریںگےاور سنگ بنیاد رکھیں گے اسکی کسی قسم کی تشہیر نہیں کی جائے گی۔

اسی مناسبت سے وہ تختیاں اور تشہیری مواد جو اس سے پہلے کیے گئے منصوبوں کے حوالے سے آویزاں ہے اُسے بھی رواں ماہ کے آخر تک ہٹا دینے کی ہدایت کردی گئی ہے الیکشن کمیشن کا مؤقف یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کو ان سکیموں اور منصوبوں کے لیے رقوم سرکاری خزانے سے دی جاتی ہیں اور سرکاری رقوم سے عوامی نمائندوں کو ذاتی تشہیر کرنے اور حلقے کے لوگوں پر احسان جتانے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن یہ ابھی ابتدا ہے آنے والے وقت میں جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آتی جائے گی الیکشن کمیشن کی جانب سے کئ سخت انتخابی قوانین سامنے آسکتے ہیں۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین