• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مودی کا دورہ چین، محرکات کیا تھے؟

چین یا بھارت میں اٹھایا گیا کوئی بھی غیر معمولی قد م درست طور پر پاکستان میں توجہ حاصل کرلیتاہے۔اور اگریہ اقدام چین اور بھارت ہی کے مابین ہو تو ایسی صو ر ت میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے گزشتہ دنوں کےغیر رسمی دورہ چین کو پاکستان میں اسی نظر سے دیکھا گیا ۔ چین اور بھارت کے درمیان اختلافات کی کہانی طویل ہے۔برصغیرپر بر طا نو ی قبضے کے دوران برطانیہ نے چین کی مرضی کے خلاف ایک سرحد قائم کردی تھی۔ اس سرحد کو Mc mohan لائن کہا جاتا ہے۔ چین نے یہ سرحدی تقسیم تسلیم نہیں کی تھی ۔ چین میں یہ خیال تھا کہ برطانوی قبضے سے آزادی کے بعدبھارت چین سے ان سرحدی معاملات پر نئے سرے سے گفتگو کرے گا۔ 

اس لیے چین کی کمیونسٹ قیادت نے ہندوستان کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کی تھی۔ جب انگریزوں کی حکومت ختم ہوئی اور پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیر اعظم بنے تو چین نے بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی۔ ہند چینی بھائی بھائی کے خوب نعرے بھی لگے۔ لیکن بھارت نے ان مسائل کی جانب سے جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں جنہیں چین حل کرناچاہتاتھا۔پھرعالمی طاقتوںکی سرپرستی اورفوجی طا قت کے غرور میں بھارت نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ 1962میںدونوں ممالک کےدرمیان باقاعدہ جنگ ہوگئی۔اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی اور بدگمانی موجود رہی۔

اسی بدگمانی اور تلخی کے سبب گزشتہ برس چین اور بھا ر ت ڈوکلام کے مقام پر اس حد تک تنائو کی کیفیت میں آ گئے کہ وہاں پر فوجی تصادم کا امکان بہت بڑھ گیا۔ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیےنریندر مودی نے گزشتہ سال برکس تنظیم کے اجلاس میں اپنی موجودگی کا موقع استعمال کیا اور چین کے صدر سے مل کر کشیدگی کی سطح کم کرنےمیں کام یاب ہو گئے۔ اس وقت چین کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیاتھاکہ دونوں جانب کی قیادت نے Maturity and Wisdom کا مظاہرہ کیا۔

اس وقت اروناچل کے مسئلے پر تنازع بڑھ سکتا تھا ۔یاد رہے کہ اسے چین متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔اس کشیدگی کی وجہ یہ بھی تھی کہ دلائی لامہ نے ارونا چل کا دورہ کیا تھا اور چین نے اس دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا ۔ اسی طرح بھارتی وزیر دفاع کا اس علاقے کا دورہ بھی چین کے لیے نا قابل قبول تھا۔ چین ویسے بھی ارونا چل کے علاقے کو بھارتی پاسپورٹ کے دائرے سے علیحدہ تصور کرتا ہے۔ اسی لیے وہ ارونا چل کے باسیوں کو کاغذ پرویزاجاری کردیتاہےاوران کےساتھ بھارتی پا سپو ر ٹ نہیںہوتا۔تاہم دیگر بھارتی شہریوں کو بھارتی پا سپو ر ٹ پر چین کا ویزاجاری کیا جاتا ہے۔بھارت اس پر بہت تلملاتاہے، لیکن دونوں ممالک یہ تصور کرتے ہیں کہ مکمل جنگ اب ممکن نہیں اور نہ ہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

اسی لیے مودی چین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرکے اپنے عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں۔بھارت کے یہ عزائم ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اسے سب سے بڑی نہیں بلکہ تنہا بالا دست طاقت تسلیم کر لیا جائے۔ بھارت یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ چین کے اس کی سرحدوں پر موجود ہونے کے سبب وہ اس وقت تک اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتا جب تک چین جنوبی ایشیا میں بھارت سے ہٹ کر حکمت عملی تشکیل دیتا رہےگا۔پاکستان کی موجودگی بھارت کےلیے ایک اور مسئلہ ہے۔یہ مسئلہ اس وقت مزید شدت اختیار کرلیتا ہےجب پاکستان اور چین باہمی تعاون میں ایک د و سر ے کے ساتھ پرجوش نظر آتے ہیں۔

نریندر مودی چین کے علاقے ووہان میں اپنے اس دورے کے لیے پہنچے ۔اسے غیر رسمی دورہ قراردیے جا نے کی وجہ سے دونوں ممالک کی قیادتوں پرکوئی بڑا معا ہدہ کرنے یا معاملات میں بریک تھرو ہونے کا کوئی دبائو نہیں تھا۔ اس کے باوجود نریندر مودی نے چین کے ساتھ سرحدوں پر صورت حال برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ بھا رت میںبعض حلقے اس اعلان کو چین کے سامنے جھک جانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ لیکن مودی کی جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس ان کے شانہ بہ شانہ ہےجو بھارت میں مستحکم قیادت کی موجودگی کی نشان دہی کر رہی ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مستحکم سیاسی قیادت ہی بڑے فیصلے کرنے کی جرات کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں تو مستحکم قیادت کو غیر آئینی یا ایسے طریقےسے ہٹا دیا جاتاہے کہ دنیا ششدر رہ جاتی ہے۔ لہٰذا خارجہ پالیسی میں ڈومور ہی سننا نصیب بن جاتا ہے۔یہاں رائے عامہ کے سامنے جھکنے میں توہین محسوس کی جاتی ہے،لیکن بیرونی طاقتوں کے سامنے گرنے میں بھی توہین محسوس نہیں کی جاتی۔

اس دورے کے دوران نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے علامتی اقدامات بھی اٹھائے ۔ دونوں رہنماو ںنےووہان کی مشرقی ندی کے کنارے اکٹھے چہل قدمی کی۔اس کے بعد انہوں نے مشترکہ طورپرکشتی بھی چلا ئی ۔ اس اقدام کو Peace, Prosperity and Development کی مشترکہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان میں چین اور بھارت نے مشترکہ اقتصادی منصوبے پر بھی اتفاق کیا۔دونوں ممالک کے در میان اسٹریٹجک تعلقات پر بھی بات ہوئی۔ چین اوربھا رت نے ثقافت اور عوام کے درمیان بہ راہ راست رابطے کے لیے مشترکہ نظام قائم کرنےپر بھی اتفاق کیا۔

بھارتی وزیر اعظم نے چینی صدر کو معروف مصور کی بنائی ہوئی تصاویرتحفے میں دیںاورانہیں آئندہ برس بھارت کے غیر رسمی دورے کی دعوت بھی دی۔ واپس جاتے ہوئے مودی اپنا اصل مقصد بھی بیان کر گئے ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ عالمی قیادت کےلیے چین اور بھارت دو بڑی طا قتیں ہیں جو اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ چین سے تعلقات کے لیےانہوں نےپانچ نکاتی یہ ایجنڈا پیش کیا:مشترک سو چ،بہترین روابط، مضبوط تعلقات ،معاملات میں مشترک سوچ کا طریقہ کار اور مشترکہ حل کا نظریہ۔ یعنی غیر رسمی دورے میں ہر رسم ادا کرنے کے لیےتیار ۔

تازہ ترین