• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھیوری، اطلاقی جہت اور ہمارا ادب (دوسری قسط)

محمد حمید شاہد

بہ جا کہ لیبارٹری میں جاکر تجزیہ کرنے سے اس مائع کی تشکیل میں ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کے ایک ایٹم کا انکشاف ہو گا، مگر یہ الگ الگ اجزاء پانی نہیں ہیں۔ سو ادب میں یہ جو تجزیاتی مطالعات کا چلن ہو چلا ہے، کسی فن پارے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دیکھنے کا چلن، یہ کہیں کہیں اِنتہائی گمراہ کن ہو جاتا ہے کہ اس میں تخلیق کہیں الگ پڑی رہ جاتی ہے اور تخلیق کی کل سے کٹے ہوئے، مگر مختلف علوم کی آنچ پر مقطر کیے جانے والے معنیٰ بالکل الگ ۔

ایک اور نشست میںاُردو تنقید کے معاصر رجحانات پر بات کرتے ہوئے تھیوری کے ایک شارح کا فرمانا تھا کہ تنقید کے عالمی رجحانات کی جانب ہمارا عمومی مزاج ’دو جذبیت ‘والاہے ۔ یہ ’’دو جذبیت ‘‘والی اصطلاح اُنہی کی عطا ہے ۔غالباً وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہم مغرب سے محبت اور نفرت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ کہہ لیجئے لو اینڈ ہیٹ ۔ مگراس کا کیا کیا جائے کہ میں نے توخود تھیوری والوں کے ہاں حد درجہ مرعوبیت والا چلن دیکھا ہے ۔ ہم نے لگ بھگ تین دہائیاں ، تھیوری کے اصول و ضوابط سمجھانے اورایسے ہی طعنے سننے سنانے میں گنوا دی ہیں ۔ہمارے ناقدین، تھیوری کی اصطلاحات کو رٹ رٹ کر جب اپنے ادب پر اطلاق کا حیلہ کرتے ہیں تو چکرا کر رہ جاتے ہیں ۔ یہ چکرانے اور الجھ کر رہ جانے کا سبب اے کاش! تھیوری کے شارحین کو بھی سمجھ میں آجاتا.

تھیوری کے شارحین خود اپنی تشریحات اور اصطلاحات کی نادرست ترجمہ کاری کے سبب جس تواتر سے الجھتے رہے ہیں انہوں نے تھیوری کے بالکل سامنے کے موضوعات کو بھی الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی میں جو باتیں سہولت سے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہ اُردو میں ترجمانی کرنے والوں نے اپنی الجھی ہوئی اور خشک زبان میں اتنی مشکل بنا لی ہیں کہ’’ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ مجھے یہ نئی مغربی تنقید (اگر یہ تنقید کہی جا سکتی ہے تو، ورنہ میری نظر میں تو تھیوری کے سانچے میں متن کو ڈال کر تجزیانے کا عمل سرے سے ادبی تنقید نہیں ہے)محض ایک لسانی ، فلسفیانہ یا ثقافتی کسوٹی سانچہ لگتی ہے ، تاہم یہ جو کچھ بھی ہے ، اسے سمجھنے سمجھانے کا مناسب قرینہ یہ ہو سکتا تھا کہ ہمارے شارحین اس کی درست نادرست ترجمانی کرنے اور اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت رائج کرنے کے جتن کئے چلے جانے کی بہ جائے ،اس باب کی اہم کتب کا ترجمہ کرکے فراہم کردیتے اور خود اطلاقی جہات پر توجہ دیتے ۔ مجھے یقین ہے اگر ایسا کیا جاتا تو یا تو وہ خود ادبدا کر ایک طرف بیٹھ جاتے یا تھیوری کی ان خامیوں کو نشان زد کرنے کے قابل ہو جاتے جن کے سبب تھیوری کی لگ بھگ ہر شاخ ہمارے ادب (جی محض متن نہیں، ادب) کوآنکنے اور تعینِ قدر کا فریضہ سر انجام دینے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا ادب وہ پارس ہے، جسے چھو لینے سے یہ تھیوری تبدیل ہو کر ادبی تنقید بن سکتی تھی اور کہیں بہتر نتائج نکل سکتے تھے ۔

یہ مغرب سے بدکنے والا طعنہ یوں بھی درست نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لینے اور اسے اپنا بنا لینے کے معاملے میں بہت وارفتگی کا عالم رہا ہے۔ آپ کی ’دو جذبیت ‘ والا نہیں کھلے دل سے تسلیم کرنے والا۔ افسانہ اور نئی نظم اس باب کی سامنے کی مثالیں ہیں۔یادرہے کہ یہ دونوں تخلیقی عمل کے دوران عین مین ویسی نہیں رہی ہیں جیسی مغرب سے آتے وقت تھیں کہ یہی تخلیقی عمل سے سچائی کے ساتھ وابستہ ہونے کا تقاضا تھا ۔جب کالرج نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ شاعری تخیل کی تخلیق ہے اور فن خود اکتشافی کا عمل ہوتا ہے تو بات سمجھ آ جاتی تھی اور قابل ِقبول تھی ۔ چیمپ فلیوری کا یہ کہا بھی اجنبی نہ لگا تھاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے مصنف کا تعاقب اس کی کتاب کے ذریعے کرو کہ تخلیقی عمل کے دوران لکھنے والا وہ نہیں رہتا، جو وہ عام زندگی میں ہوتا ہے ۔ فلابیر نے جب یہ سمجھایا تھا کہ جس طرح خدا فطرت میں شامل ہے، مگر نظر نہیں آتا، اسی طرح تخلیق کار کو اپنے ادبی فن پارے میں ظاہر نہیں ہونا چاہیے تو ہم جان گئے تھے کہ فن کی اساس غیر شخصی ہوتی ہے۔ آسکر وائلڈ نے اعلیٰ تنقید کو تنقید نگار کی روح تک کہہ دیا تھا اور ہم مان گئےتھے،چونکے نہیں تھے۔ جب میتھیو آرنلڈ کہتے کہ بڑی تنقید بہتر ادب کے لیے فضا ساز گار کرتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا کہ ہم اُس میتھیو آرنلڈ کو جانتے تھے جو بڑے ادب کی شناخت کوتنقید کی ذمے داری سے الگ نہیں کرتا تھا ۔ بادلیئر نے جب یہ کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ شیطان ہے یا خدا ۔ یہی کافی ہے کہ وہ حسن ہے ۔ تو ہم حسن کے کارآمد یا ناکارہ ہونے کی بحث کو بھول گئے تھے ۔ یہ سب کچھ ہم مغرب سے لے رہے تھےاور بغیر الجھے لے رہے تھے ،مگر اب اُلجھ رہے ہیں تو اس کاکوئی تو سبب ہوگا ۔

(جاری ہے)

تازہ ترین