• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشیوں کے انداز بدل گئے

ڈاکٹر رضوانہ انصاری،حیدرآباد

میرے سامنے پھیلے اخبار میں، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ عید ایڈیشن، عید کلیکشن برانڈڈ ملبوسات، جیولری میک اپ، عید کے خاص پکوان عید کے لیے گھر کی سجاوٹ کا خاص سامان، چادریں تکیئے، کشن، کراکری، وغیرہ وغیرہ کے اشتہارات ہیں۔ ساتھ ہی خوبصورت روشن چہرے حسین لباس میں مرد، عورت اور بچوں کی شکل میں روشنیاں بکھیرتے ہوئے۔ عید تین حروف پر مشتمل لفظ ہے،جس کے لفظی معنی مسرت و انبساط کے ہیں اور لغوی اعتبار سے ’’لوٹ کر آنا ہیں‘‘ عید کا لفظی اور لغوی مطلب کچھ ہو، ہمارے لیے یہ ایک خوش کن لفظ ہے جس کا مطلب خوشی مسرت، شادمانی، اور فرحانی ہے اور یہ خوشی اور فرحت کے لوٹ آنے کا دن ہے۔بلکہ غور سے دیکھیں تو ہمیں عید کا منا سا چاند بھی ’’ع‘‘ کی شکل میں نظر آنے لگتا ہے۔ ویسے بھی عید کا دن عید کے چاند سے جڑا ہوا ہے۔ جو ہر سال ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو آتا ہے۔ جو پوری دنیا کے مسلمانوں کےلیے خوشی اتحاد اور اخوت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن اللہ کریم کی جانب سے روزے داروں کےلیے انعام اور اجر کا دن ہے یہ ماہ صیام سے حاصل ہونے والی فضیلتوں پر شکر خدا وندی ادا کرنے کا دن بھی ہے۔ آسماں پر چاند تو ہر ماہ نکلتا ہے مگر شوال کے چاند کا انتظار پوری دنیا کے مسلمان کرتے ہیں۔اور اس کے نظر آتے ہی خوشی اور مسرت کی لہر ہر طرف دوڑ جاتی ہے۔ ہر طرف چاند مبارک، چاند رات مبارک چاند رات مبارک سنائی دینے لگتا ہے۔

گئے وقتوں میں لوگ چھتوں، منڈیروں اور بالکونیوں میں کھڑے آسمان کی جانب سے رخ کر کے چاند دیکھنے کی کوشش کررہے ہوتے تھے، مگر آج کل ٹی وی لگاکر چاند نظر آنے کے باضابطہ اعلان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ خود سے چاند تلاش کر کے دیکھنے کا لطف ہی کچھ اورہوتاہے۔ میڈیا نے ہماری یہ خوشی بھی ہم سے چھین لی۔ چھین تو اس نے ہم سے عید کارڈ کا رومانس بھی لیا ہے، وہ خوشبو میں بسے دعائوں اور پھولوں سے مزین عید کارڈز جو روح تک کو مسرور کردیتے تھے، اُن کی جگہ ’’عید مبارک‘‘کے میسجز نے لے لی ہے۔پہلے جب چاند نظر آتا تھا تو ایک شور سا مچ جاتا تھا، چاند نظر آگیا، چاند نظر آگیا اور ہاتھ دُعا کےلیے بلند ہوجاتے تھے۔ طلوع چاندسے عید تک کی رات آنکھوں میں کٹ جاتی تھی۔ بچے بزرگوں سے ملتے اور دعائیں لیتےتھے۔ ہر گھر میں ساری رات عید کی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔ خواتین عید کے خصوصی پکوان تیار کرنے لگ جاتیں۔ لڑکیاں اپنے کپڑوں، خصوصاً دوپٹوں پر گوٹا کرن ٹانکتی نظر آتیں۔ خاندان کی لڑکیاں جمع ہوکر ایک دوسرے کو مہندی لگاتیں۔ چوڑیاں پہنتیں، امائیں گھر کی صفائی اور سجاوٹ کا دھیان رکھتیں۔ بچے اٹھ اٹھ کر اپنے نئے کپڑے اور جوتے دیکھتے، جو کہ زیادہ تر ایک گھر کے بچوں کے ایک جیسے ہوتے۔ سب خوش اور مطمئن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چاند رات کی خوب صورت روایات ختم تو نہیں ہوئیں، ہاں البتہ تبدیل ضرور ہوگئی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے چاند نظر آنے کی خبر ملتے ہی لوگ بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ بازاروں مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں رونق قابل دید ہوتی ہے۔ ایک میلہ سا لگا ہوتا ہے۔ ہر دکان پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے، خصوصاً ریڈی میڈ کپڑوں، جوتوں، جیولری اور چوڑیوں کی دکانوں پر، جہاں خواتین بچے اور بڑے پر مسرت چہروں کے ساتھ اپنی عید کی تیاریاں مکمل کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی ہجوم کھانے پینے کی دکانوں اور ریستورانوں میں نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی بیوٹی پارلرز میں خواتین اور لڑکیوں کی بڑی تعداد مہندی لگوانے،فیشل کرانے کےلیے اپنی باری کا انتظار کرتی نظر آتی ہیں۔ چوڑیوں کی کھنک اور مہندی کی مہک سے عید کی خوشیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے بغیر کوئی عورت کوئی لڑکی عید کا تصور بھی نہیں کرسکتی، کلائیوں میں بھری چھنکتی چوڑیاں، مہندی کی بھینی بھینی خوشبو، جوتے، چنبیلی کے مہکتے گجرے اور عید کے روایتی کھانوں کی سوندھی مہک ہنستے مسکراتے چہرے ہی دراصل چاند رات کا خاصا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور رحمت و بخشش پر ہمیں خوشی منانے کا حکم صادر فرایا ہے۔

رسول پاک ؐ کا ارشاد ہے کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ رب کائنات کے اس عظیم انعام و اکرام اور فضل و کرم پر خوشی منانے کےلئے ہمیں عیدالفطر کا دن عطا کیا گیا۔ عید کے دن کا آغاز رب تعالیٰ کے شکر یعنی نماز عید سے ہوتا ہے۔ عید کے دن غسل کرنا، خوشبو لگانا، عمدہ لباس زیب تن کرنا اور نماز عید سے پہلے میٹھی چیز کھانا سنت نبوی ہے۔ عید کے دن کی سب سے اہم خوشی وہ روحانی مسرت ہے جو صدقہ فطر ادا کر کے ہر مسلمان کو حاصل ہوتی ہے۔ نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ یہ روزوں کی خامیوں کا کفارہ ہے تو دوسری طرف مساکین کےلئے ہمدردی اور اخوت کا اظہار بھی۔

چاند رات کے سب ہی رنگ عید کے دن نظر آتے ہیں۔ مہندی کی مہک، چوڑیوں کی کھنک، نئے ملبوسات کی چمک اور مختلف پکوانوں کی خوشبوئوں سے گھر کی فضا مہکی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر رنگ ہر انداز کتنا انوکھا کتنا روشن۔ دوست احباب سے عید ملنا عیدی دینا اور لینا رشتے داروں سے ملنے جانا، مہمانوں کو گھر پر مدعو کرکے خوشی کے لمحات دوبالا ہوجاتے ہیں۔

کبھی سوچا یہ تین حرفی لفظ ’’عید جو اپنے اندر ہزاروں خوشیاں سمیٹے ہوئے ہے کسی کےلئے دکھ کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ کبھی دیکھا کہ عید کا چاند جہاں چہروں پر مسرت اور شادمانی بکھیرتا ہے وہیں کسی کے چہرے پر پریشانی لے آتا ہے۔ کبھی غور کیا کہ مہندی کا لال رنگ جہاں خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے، وہیں یہ آنسوئوں کو چھپاتی آنکھوں کی سرخی بن جاتا ہے۔ کبھی محسوس کیا کہ خوشبو میں بسے لباس سانسیں مہکا رہے ہوتے ہیں تو وہیں نئے لباس کے نام پر کسی کی سانس ہی رکتی محسوس ہوتی ہے، لفظ عید کہیں چہروں پر دھنک رنگ بکھیرتا ہے تو کہیں چہروں پر تفکر کی لکیریں گہری ہوجاتی ہیں،کہیں عید کی خوشیاں بانٹنے کے خیال کی مسرت تو کہیں پیسوں کا انتظام نہ ہونے کی سیاہی، کہیں دعوتوں کے مکمل انتظامات کا اطمینان تو کہیں عید کے دن مناسب کھانا پکانے کی مشکلات، کہیں نئے لباس کا فخر سے دمکتا رنگ تو کہیں بچوں کے نئے کپڑوں کے انتظام نہ ہوسکنے کے خوف سے پیلا پڑتا رنگ۔ یہ خوشی کیا ہے؟ صرف ایک لفظ، ایک احساس، ایک یاد، ایک واقعہ اور کیسی بات ہےکہ یہی خوشی عارضی بھی اور حقیقی بھی۔ عارضی خوشی جہاں وقتی مسرت کا سبب بنتی ہے، وہیں حقیقی خوشی مستقل سرور کا سبب بنتی ہے۔ عارضی خوشی عموماً ہمیں نظر آنے والی چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً اچھا لباس پہن کر، عمدہ اور خوش ذائقہ کھانا کھا کر، کھیل کود اور تفریح سے، نئی گاڑی یا نئے گھر کے حصول سے، مگر حقیقی خوشی نظر نہ آنے والی چیزوں سے اور رویوں سے حاصل ہوتی ہے۔ جو دوسروں کو خوش کر کے انہیں خوش ہونے کے مواقع فراہم کر کے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کر کے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں لانے کا سبب بن کر حاصل ہوتی ہیں۔ بے وسیلوں کا وسیلہ بن کر، یتیموں اور محتاجوں کی مدد کرکے، دوستی کے نصاب جان کر، محبتوں کا عہد نبھا کر، اپنائیت کا لہجہ اپناکر، روشنی کے خوابوں کی تعبیر بن کر اور اسی خوشی کا دوسرا نام عید ہے۔ عید محض کسی انفرادی خوشی کا نام نہیں، بلکہ یہ ہماری اجتماعی خوشی کا نام ہے۔ حقیقی اور دیرپا خوشی کا نام ہے۔ عید کا حقیقی مقصد و مفہوم باہمی میل ملاپ اور یکجہتی ہے۔ مسلمانوں کی روایات میں شامل ہے کہ عید کی خوشیوں میں اپنے غریب رشتے داروں اور پڑوسیوں کو شامل رکھا جائے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جائے، صدقہ فطر کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ہم پر لازم ہے کہ صلہ رحمی کے طور پر اُن کی اس حد تک مالی مدد کریں کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ ان کے لئے بھی بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدی جائیں، یہ جو امیری غریبی، آسودہ اور ناآسودہ کے تضادات ہیں، کبھی سوچا کہ کب تک رہیں گے۔اُس وقت تک جب تک ہم خود انہیں ختم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، یہ جو خوشی ہے، یہ ایک رویہ ایک احساس ہی تو ہے۔ جو نظر نہیں آتا اور نہ ہی خریدا جاسکتا ہے۔ ہاں حاصل ضرور کیا جاسکتا ہے اخبار، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر نظر آنے والے اشتہارات دیکھیں۔ کپڑے جیولری، جوتے کراکری اور گھریلو سجاوٹ کا سامان ضرور خریدیں۔ چاند رات کو بازاروں کی جانب بھی جائیں، خصوصی پکوان پکائیں، گھروں کو سجائیں، لوگوں سے ملیں، دعوتیں کریں، خوب انجوائے کریں، مگر عید کی حقیقی خوشی حاصل کرنے کی سعی بھی کریں۔ اپنے غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں، ناآسودہ غریبوں اور مسکینوں کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ کوشش کریں کہ آپ کی وجہ سے آپ کے کانوں کے جھمکے کی چمک کسی کی آنکھوں میں بھی ہو۔ چوڑیوں کی کھنک جیسی کھنکتی ہنسی کسی کے چہرے پر بھی ہو، جیسی آپ کی مہندی مہک رہی ہے، اسی طرح کسی کے گھر میں پکوان کی مہک بسی ہو۔ جیسے آپ کے نئے کپڑوں میں زرق برق ہے اسی طرح کسی غریب کا گھر خوشی کی روشنی سے منور ہو۔ خدا کرے اس عید پر ہم سب محصور ہوجائیں۔مسکراہٹوں کے حصار میں، شفقت بھری آنکھوں کے حصار میں، احساس تحفظ کے حصار میں اور دل سے نکلی دعائوں کے حصار میں۔ آمین!ہماری طرف سے آپ سب کو پیشگی…

تازہ ترین