• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتنے افسانوں کا عنوان بنا عید کا چاند

’’چاند رات‘‘ کا تصور اردو شاعری میں رومانوی حیثیت رکھتا ہے،جس کی سرشاری وخمار کومعروف شعراءکرام اپنے کلام میں ادا کرتے رہے ہیں۔عید الفطر کے لیے’’چاند کی روئیت‘‘ شعراءکرام کی تشبیہات اورتصور جاناں کی غماز ہوتی ہے ،وہیں حقیقت میں ہر مسلمان کے لیے رمضان المبار ک کی فیوض و برکات سمیٹے ’’ایک خاص دن عید الفطر‘‘کی آمد کا اعلان بھی ہوتی ہے اورروئیت کے اس اعلان کے لیے بچے،بوڑھے اور جوان بے تاب نظر آتے ہیں،یوں محسوس ہوتا ہے کہ عید کی تیاری کے سارے کام اس ایک رات کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔

’’چاند رات‘‘ نزدیک آتے ہی شہر میںرونق عودآتی ہے۔ اگرچہ عید میں دودن ہی باقی ہیں اور بازار خریداروں سے بھر چکے ہیں۔ اپنوں کے ساتھ عید کا جشن منانے کے لیےبازار میں چہل پہل بڑ ھ گئی ہے۔ خواتین ہوں یا مرد،بچے ہوں یا بوڑھے ہر کوئی نئےکپڑوں اور جوتوں کی خریداری کے لیے پورے جوش و خروش کے ساتھ بازار کا رُخ کررہاہے۔تاہم خواتین پر جو دوہری ذمے داری آجاتی ہے وہ یہ کہ جہاں انہیں اپنی تیاری کے ساتھ گھریلو آرائش کی اشیاء کی خریداری بھی کرنی ہوتی ہے وہیں عید کا چاند نمودار ہونے کے بعدعید کی دعوت کے اہتمام کے لیے مختلف قسم کے پکوان کے بارے میں سوچنے لگتی ہیں اوراس کے لیے سامان ترتیب دینا شروع کر دیتی ہیں،خصوصاً’’سوئیوں‘‘اور’’شیر خرمے‘‘کے بغیرعید کا تصور ممکن نہیں ہوتا،جبکہ لڑکے، لڑکیاں چاند رات کی خریداری کی تیاری کرنے کے لئے اودھم ہی مچا دیتے ہیں، کسی کو چوڑیا ں اور مہندی خریدنا ہوتی ہے تو کسی کو جوتے اور ٹوپیاں جبکہ کوئی بناؤ سنگھار کا سامان خریدنے کی جلدی میںہوتا ہے۔ سب سے زیادہ رونق چھوٹے بچوں کے چہروں پر ہوتی ہے جنھیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ انھوں نے خریدناکیا ہے مگر وہ بازار جانے کے لئے سب سے زیادہ پرجوش نظر آ رہے ہوتے ہیں ،لہذا ہر شخص اپنی بساط،سہولت اور وسائل کے مطابق اس مذہبی تہوار کومناتا ہے۔

چاند رات کو شہروں کی بڑی مارکیٹوں میں عوام کا رش دیدنی ہوتا ہے ،خاص طور پر بازار کے وہ حصے، جو خواتین کی شاپنگ کے لئے مخصوص ہوتے ہیں، میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسا نہیں کہ سب ہی لوگ شاپنگ کرنے کے لئے آتے ہیں بلکہ بہت سے نوجوان چاند رات کی رونق سے لطف اندوز ہونے کے لئے ویسے ہی گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بدنظمی سے بچنے کے لئے انتظامیہ کو سکیورٹی اہل کاروں کی مدد لینا پڑتی ہے جو ہرمارکیٹ کے داخلی راستے پر کھڑے نظر آتے ہیں،تاہم اس موقعے پر منچلے نوجوان ’’ون ویلنگ‘‘سےبھی نہیں چوکتے اور اپنی شوخیوں کے کارن پولیس کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔تاہم چاند رات میں خواتین کی پھرتیوں سمیت پریشانیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین عید کے موقعے پر منفرداور جاذبِ نظر دکھنا چاہتی ہیں۔خوشیوں کے تہوار آئیں تو سجنےسنورنے کی خواہش ہوتی ہے۔ گئے وقتوں کے ملبوسات اور سولہ سنگھار زمانے کے لحاظ سے منفرد تھے،تاہم اب موجودہ دور میں لباس کی تراش خراش اور ایمبرائیڈری میں نفاست کے ساتھ ساتھ مہارت اور دلآویزی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عید کے کپڑوں کی تیاری کا مرحلہ ہو تو ہر خاتون کے ذہن میں یہ سوالات اُبھرتے ہیں، کون سا رنگ فیشن میں ہے؟ سلائی کے کیسے اندازکیا ہیں؟ان سوالات کے جواب ڈھونڈھنے کے لیے وہ زیادہ تر فیشن میگزینز کا سہارا لیتی ہیں اور عید کے حسین جوڑے کا خواب آنکھوں میں سجائے ’’درزی‘‘کی دکان کا رخ کرتی ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے اور خصوصاً ’’چاند رات‘‘ کو سب سے اہم اور ’’موسٹ وانٹڈ‘‘ آدمی ’’درزی‘‘ ہوتا ہے۔ درزی چاہے زنانہ مبلوسات کی سلائی کا ہو یا مردانہ، سلوک وہ سب کے ساتھ یکساں ہی کرتا ہے۔ اس کی زبان پر زیادہ تریہی جملہ ہوتا ہے ’’باجی ! آج شام تک آپ کا سوٹ تیار ہوجائے گا‘‘ اور رمضان بھر یہ جملہ سنتے سنتے وہ ’’باجی‘‘ چاند رات کو بھی درزی کی دکان کے باہر لائن میں کھڑی پائی جاتی ہیں، اسی لیے دانا لوگ کہہ گئے ہیں۔ ’’مرضی صرف درزی کی....‘‘ اور اگر درزی وعدے کے مطابق آپ کو عید کا جوڑا سی کر دے بھی دے ،تو اچھے سے اچھا درزی اس جوڑے میں ایسی ایسی من مانیاں کرتا ہے کہ ’’لگ پتہ جاتا ہے‘‘ چنانچہ ’’چاند رات‘‘ اسی جھک جھک اور کھنچا تانی میں گزرتی ہے کہ جوڑے کی فٹنگ درست نہیں یا گلے کا ڈیزائن وہ نہیں ہے جو میں نے کہا تھا۔ لہٰذا درزی کی دکانوں پر موجود رش میں سوٹ سلنے کے خواہش مندوں کے ساتھ ’’آلٹر‘‘ کروانے والے ’’سائلوں‘‘ کا بھی رش بڑھتا چلا جاتا ہے۔ہم نے گلشن اقبال میں واقع ایک درزی کی دکان پر موجود اسماء نامی خاتون سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو تقریباً جھنجھلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ماسٹر صاحب نے میرے عید کے جوڑے میں ’’چاکوں پر پائپنگ‘‘ نہیں لگائی، جبکہ میں نے کپڑا دیتے ہوئے ہدایت بھی کی تھی، اب میں یہاں سے تب تک نہیں جائوں گی، جب تک ماسٹر صاحب سوٹ مکمل نہیں کریں گے‘‘۔ہم نے ان سے کہا،آپ کو سلائی کے لیے رمضان سے پہلے کپڑے دینے چاہیے تھے تاکہ اس پریشانی سے بچ جاتیں تو انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو پندرہ شعبان کو ہی ماسٹر صاحب کو سلائی کے لیے برانڈڈ سوٹ دے گئی تھیں اوردو دن بعدعید ہے لیکن لباس مکمل نہیں اس حوالے سے دکان پر موجود ماسٹر صاحب نے نہایت رکھائی سے کہا۔ ’’یہ ’لوڈ کا سیزن‘ ہےاور جیسا ان خاتون نے کہا تھا میں نے ویسی ہی سلائی کی ہے‘‘۔ ماسٹر صاحب کسی صورت اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں تھے اور دکان پربڑھتا ہوارش دیکھ کر تھوڑی دیر میں چپ چاپ کاریگروں پر دکان چھوڑ کر کھسک لیے۔ مسئلہ کس طرح حل ہوا یا’’چاند رات ‘‘ تک ٹل گیا ہم یہ جانے بناآگے بڑھ گئے۔

زیادہ تردیکھا گیا ہے کہ درزی کی بے رخی یا’’ایڈوانس بکنگ ‘‘ختم ہونے کی صورت میںبعض افراد عیدکے جوڑے کے لیے ریڈی میڈملبوسات کی دکانوں کا رخ کرتے ہیں ،جس کی خریداری کے لیے ان کا انتخاب ’’چاند رات‘‘ہی ہوتی ہے۔ خواتین ،بچوں، بوڑھوں کاازدحام بوتیکس اور جوتوں کی دکانوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق خریداری کا اصل مزہ ہی ’’چاند رات‘‘ کو ہے عموماً بوتیکس اور ریڈی میڈ گارمنٹس پر ملبوسات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں لیکن ’’چاند رات‘‘ کا ’’تھرل‘‘ بڑھانے کے لیے زیادہ دام دینا بھی برا نہیں لگتا۔ جس طرح درزی کی دکانوں پر لوگوں کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ سائز درست نہیں یا ڈیزائن اچھانہیں بنایا....اسی طرح ریڈی میڈ گارمنٹس میں بھی کچھ نہ کچھ کسر ضرور رہ جاتی ہے۔ اکثر ریڈی میڈ گارمنٹس اور جوتوں کی دکانوں پر موجود رش میں سے ان افراد کی تعداد بھی خاصی دکھائی دیتی ہے جو یا تو سائز کی تبدیلی کے لیے آتے ہیں یا پھر انہیں ڈیزائن یا رنگ تبدیل کروانا ہوتا ہے۔ یہ سارے کام’’چاند رات‘‘ کو بہ خوبی اور پورے جوش و خروش سے سر انجام دیے جاتے ہیں۔ طارق روڈ پر واقع جوتوں کی ایک دکان پر موجود سیلز مین نوشاد سے بات کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یہاں عید کی خریداری کازیادہ رش نظر نہیں آرہا اس کی کیا وجہ ہے؟ نوشاد نے بتایا’’ دراصل ان دنوں کراچی میں گرمی کی شدت بہت زیادہ ہے، لوگ دن کے اوقات میں شاپنگ کے لیے نہیں آرہے ۔ تاہم افطار کے بعد رش بڑھ جاتا ہے۔ جہاں تک جوتوں کی شاپنگ کا تعلق ہے تو ہماری دکان پر زیادہ رش’’چاند رات‘‘ کو ہوتا ہے ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے تہیہ کیا ہوتا ہے کہ ’’جوتے تو چاند رات کو ہی لیں گے‘‘، لہٰذا چاند رات کو رش بڑھ جانے کی وجہ سے جلد بازی میں جوتوں کے سائز بھی غلط لے جاتے ہیں اور بعد میں تبدیل کروانے کے لیے آتے ہیں تو لڑائی جھگڑے سے بھی گریز نہیں کرتے‘‘، مذکورہ دکان کے مالک ندیم احمد سے بات کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ عام دنوں میں اور عید کے موقعے پر خریداری میں کتنا فرق دیکھتے ہیں؟ تو ندیم کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں عام دنوں کے مقابلے میں عید کے موقعے پر دو سو فیصد منافع ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں فروخت زیادہ ہوتی ہےیہ بات تو مشہور ہے کہ چاند رات کو تو مٹی بھی فروخت ہوجاتی ہے،کیوں کہ گاہک کو ضرورت ہوتی ہے وہ معیار اور قیمت پر سمجھوتہ کر لیتا ہے‘‘ ۔ دکان پر موجود ایک خریدار خاتون جو تقریباً چار جوڑے جوتوں کے ٹرائی کرچکی تھیں پھر بھی مطمئن نظر نہیں آتی تھیں،اُن سے بات کرتے ہوئے ہم نے پوچھا جوتوں کے ڈیزائن میں گزشتہ برس کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے یا کچھ جدت کے ساتھ اس مرتبہ ڈیزائن متعارف کروائے گئے ہیں؟ تو ان خاتون نے بتایا کہ ’’نہیں ڈیزائن تو تقریباً وہ ہی ہیں جو گزشتہ برس تھے اور قیمتوں میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔‘‘آپ عید کے لیے جوتا اسی دکان سے خریدیں گی؟ اس سوال کے جواب میں خاتون کا کہنا تھا کہ’’ نہیں ابھی تو میں صرف ڈیزائن دیکھنے آئی ہوں۔ چاند رات کو آکر خریدوں گی کیا پتہ تب تک مزید اچھے ڈیزائن آجائیں‘‘۔ مذکورہ دکان پر نت نئے ڈیزائن کی سینڈلز کی وسیع رینج تھی جبکہ ایک جوڑی جوتے کی قیمت 1200سے 4000تک کے درمیان تھی۔ اس حوالے سے دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ’’ یہ قیمتیںصرف ہماری دکان پر ہی نہیں ہیں ،آ پ مارکیٹ کا وزٹ کرلیں ہر دکان پر کم و بیش یہی قیمتیں ہیں، ’’فکس پرائس‘‘ کی وجہ سے لوگ ہماری ہی قیمتوں پر جوتے لے جاتے ہیں‘‘۔جب ہم نےکرتوں کے معروف برانڈکی دکان کی طرف قدم بڑھائے ،مرکزی دروازے تک ہی رسائی مل سکی،نوجوانوں کی بڑی تعداد عید کی نماز کے لیے دیدہ زیب کرتوں کا انتخاب پورے انہماک سے کر رہی تھی،قریب ہی کھڑے نوجوان سے ہم نے پوچھا،آپ کے خیال میں یہاں کرتوں کی قیمتیں مناسب ہیں؟اُن کا کہنا تھا’’کرتے کچھ مہنگے ہیں لیکن ان کا فیبرک اور سلائی معیاری ہے لہذا اچھی چیز لینے کے لیے قیمت پر کامپرومائزتو کرنا ہی پڑتا ہے،کیوںکہ سال میں ایک مرتبہ معیاری چیز لینے کے لیےزیادہ قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے‘‘۔ اسی طرح جیولری ،ہینڈ بیگز یا پرس بھی خواتین اور بچیوں کی عید کی تیاری میں شامل ہوتے ہیں۔ بچیوں کے لیے تو چھوٹے چھوٹے پرس ان کی کل کائنات ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں گھر کے بڑے بوڑھوں اور عزیزو اقارب سے ملنے والی’’ عیدی ‘‘رکھنی ہوتی ہے،جبکہ خواتین عید کے موقعے پر آنے جانے کے لئے ہینڈ بیگز کو اہم سمجھتی ہیں۔ نوجوان لڑکیاں عموماً چھوٹے ہینڈ بیگز پسند کرتی ہیں۔ عید کے موقعے پر بازاروں میں نہایت سستے داموں میں ہینڈ بیگز دستیاب ہیں۔

کتنے افسانوں کا عنوان بنا عید کا چاند

چاند رات کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس رات فضا میں مہندی کی بھینی بھینی عجب مہک چہار سو پھیلی ہوتی ہے، تو ساتھ ہی چوڑیوں کی کھنک سے فضا میں گنگناہٹ سی پیدا ہوجاتی ہے۔ خواتین عید کی تیاریوں میں خاص کر چاند رات کے لیے چوڑیوں کی خریداری اور مہندی لگوانے کے لیے وقت ضرور نکالتی ہیں،کیوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چوڑیوں اور مہندی کے بغیر عید کا مزا کر کرا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے لباس کے ہم رنگ جدید انداز کی چوڑیوں کی خریداری سرفہرست ہوتی ہے۔ عید کے موقعے پر لباس کی میچنگ کا کوئی بھی زیور میسر ہو نہ ہو لیکن چوڑیوں سے کلائیاں ضروربھری ہونی چاہیں۔ تاہم چاند رات کو چوڑیوں کی خریداری بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتی اسی لیے رمضان کے آخری عشرے میں طارق روڈ، حیدری، صدر، ناظم آباد چورنگی، لالو کھیت ، کریم آباد اور دیگر بازاروں میں پتھارے والوں کی بن آتی ہے۔وہاںخواتین کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے، جوتوںاور جیولری کے ساتھ چوڑیوں کے بھی عارضی اسٹالز بڑی تعدادمیں دکھائی دیتے ہیں۔ حیدری مارکیٹ میں ایک بڑی چوڑیوں کی دکان کے مالک فراز مختار نے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ۔ ’’چوڑیوں کے ہر سال ہی نت نئے ڈیزائن متعارف کرائے جاتے ہیں، جن میں سادہ کانچ ، افشاں، مخمل اور جڑائو کی چوڑیاں بھی شامل ہیں۔ خواتین زیادہ تر کانچ کی چوڑیوں میں دل چسپی لیتی ہیں، تاہم قیمتوں پر بہت بھائو تائو کرتی ہیں۔‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ چوڑیوں کا ایک سیٹ کی کتنی قیمت ہوتی ہے۔ فراز مختار نے بتایا’’ ہر چوڑی کی بناوٹ کے لحاظ سے قیمت ہوتی ہے۔ ایک سادہ سیٹ 150روپے کا بھی مل جائے گا،جبکہ کامدار جڑائو والی چوڑیوں کے سیٹ کی قیمت 500سے آٹھ سو روپے تک بھی ہوسکتی ہے۔ یہ چوڑیوں کی بناوٹ اور ان پر کیے جانے والے کام پر منحصر ہے‘‘۔ زیادہ تر حیدرآباد سے چوڑیاں منگوائی جاتی ہیں لیکن اب کراچی میں بھی چوڑیوں کے کارخانے کام کررہےہیں جہاں سے ہر بازار میں چوڑیاں سپلائی ہوتی ہیں‘‘۔ دکان پر موجود خریدار ثمینہ رضا نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’چوڑیوں کے بغیر تو عید ادھوری ہے۔ میں ہر سال عید پرکپڑوں سے میچنگ کےدو سیٹ ضرور لیتی ہوں اور زیادہ سے زیادہ قیمت بھی ادا کردیتی ہوں،کیوں کہ عید کے دن ہم قیمتی مبلوسات تو زیب تن کرلیں، لیکن کلائیاںسونی ہوں تو تیاری بھی ادھوری ہی لگے گی‘‘۔ ایک چوڑی کے اسٹال پر موجود ساتویں کلاس کی طالبہ عمارہ فہد کا کہنا تھا کہ’’ مجھے دھاگے سے بنی چوڑیاں اور کڑے بہت پسند ہیں میں نے عید کے قیمتی جوڑوں سے میچنگ کے تین چوڑیوں کے سیٹ خریدے ہیں جن میں دو سیٹ دھاگے کی چوڑیوں کے ہیں اورایک مخمل اور افشاں سے بنا ہوا سیٹ ہے‘‘۔

اسی طرح ایک زمانے میں مہندی لگانے میں مینا بازار (کریم آباد میں واقع مارکیٹ) کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس مارکیٹ کی اہم بات یہ ہے کہ یہاں خواتین ہی دکان دار اور خریدار دونوں ہیں لہٰذا دو عشرے قبل تک ’’مینا بازار‘‘ کا نام ہر عورت کی زبان پر ہوتا تھا جہاں دیدہ زیب ملبوسات کے علاوہ چوڑی اور خصوصاً مہندی اور آرائش حسن کا سارا سامان موجود تھا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئی اور شہر بھر میں بیوٹی پارلرز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے آرائش حسن کے انداز بدل دئیے ۔ ایک بات جو مینا بازار کو منفرد کرتی ہے وہ یہاں کی ’’مہندی‘‘ ہے۔ خواتین آج بھی چاند رات کو مہندی لگوانے کے لیے کریم آباد کا رخ کرتی ہیں ،تاہم شہر کے چھوٹے بڑے تمام بیوٹی پارلرز بھی مہندی لگانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ گلی، محلوں میں چاند رات کو چھوٹی چھوٹی قناتیں لگا کر مہندی لگانے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔فی زمانہ مہندی کے بھی انداز جدا ہوگئے ہیں، جن میں عربی، افریقی، سوڈانی ، پاکستانی اور انڈین زیادہ مقبول ہیں۔ عربی مہندی کے ڈیزائن آدھے ہاتھ پر بنائے جاتے ہیں،جبکہ افریقی و سوڈانی مہندی کے اسٹائل میں باریک لائنیں ، نقطے اور مختلف اشکال شامل ہوتی ہیں۔ پاکستانی اور انڈین مہندی کے اسٹائل کی مہندی لگانا وقت طلب کام ہے، کیوں کے ہاتھ بھرا ہوا نظر آتا ہے تو ہر کونے کی فلینگ پہ توجہ دی جاتی ہے۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی مہندی کا رنگ گاڑھا اور دیرپا ہو۔ مختلف قسم کے مہندی کے بیل بوٹوں سے ہتھیلیوں کوآراستہ کرکے خواتین عید کے روز جب مکمل تیاری سے عزیز وا قارب میں ملنے جاتی ہیں تو دیگر خواتین سے خود کو یکتا محسوس کرتی ہیں کہ ان کے بقول ’’عید کے روز مہندی کے بنا سنگھار ادھورا ہے....‘‘چاند رات تک جاری رہنے والی عید کی خریداری کے لیے خواتین جہاں میک اپ، جیولری ، جوتوں کی دکانوں پر بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں، وہیں دوپٹوں کی رنگائی اور پیکو کی دکانوں پر بھی موجود ہوتی ہیں۔ عید کے لباس کو منفرد اور پرکشش بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف انداز میںدوپٹے کی رنگائی اور نت نئے ڈیزائن کے پیکو کے لیے طویل انتظار انہیں بالکل نہیں کھلتا۔ رنگائی اور نت نئے ڈیزائن بنواکر وہ اپنے لباس کو زیادہ دل کش بنانا چاہتی ہیں۔ رنگریز اورپیکو کا کام ایسا کاروبار ہے جو عام دنوں کے ساتھ خصوصاً عید پر زیادہ چلتا ہے۔ دوپٹے رنگنے کے ساتھ ساتھ ان پر پیکو کروانا خواتین کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اس حوالے سے جامع کلاتھ میں رنگریز رضوان نے جنگ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’عید کے دنوں میں کاروبار بہت گرم ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ہمیں ’’ہیلپرز‘‘ رکھنے پڑجاتے ہیں۔ خواتین کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر ان کے مطابق دوپٹے پر رنگ نہ آئے یا انیس، بیس کا ہی فرق ہو تو ٹھیک ٹھاک ہنگامہ کھڑا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں ،لہٰذا یہ مکمل توجہ اور مہارت کا کام ہے ‘‘۔اس سوال کے جواب میں ایک دوپٹے کی کتنی رنگائی لیتے ہیں ؟رضوان کا کہنا تھا کہ’’ یہ دوپٹے کے کپڑے پر منحصر ہےکہ دوپٹہ جارجٹ کا یا کاٹن کا ہے۔ عموماً سو سے ڈھائی سو روپے رنگائی ہے کیونکہ خواتین دوپٹوں پر کبھی ٹائی اینڈ ڈائی کرواتی ہیں اور کچھ خواتین چنری کے دوپٹے رنگوانا بھی پسند کرتی ہیں۔اسی طرح دوپٹے کے پیکو بھی آج کل منفرد انداز میں کئے جارہے ہیں۔ جن میں زک زیک ، لہر یہ ڈیزائن، جاپانی پیکو، موتی والی پیکو اور کروشیا پھول دار پیکو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔سادہ پیکو دس روپے جبکہ ڈیزائن دار پیکو 100سے300روپے میں ہوتے ہیں‘‘۔ رنگریز کی دکان پر ہی پیکو کی مشین پر بیٹھے کاریگر عبداللہ کا کہنا تھا کہ’’خواتین دوپٹوں پر نت نئے پیکو بنوانا پسند کرتی ہیں،لیکن رمضان کے آخری عشرے میں رش بہت بڑھ جاتا ہے،ان دنوں ہم دن رات کام کرتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ چاند رات تک آرڈر مکمل کردیا جائے، لیکن خواتین میں صبر نہیں ہوتا، ہمارے کام میں چھوٹے چھوٹے ایسے نقص نکالتی ہیں کہ جھنجھلاہٹ ہوجاتی ہے، مگر کسٹمر کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، چاند رات کو رات تین بجے تک ہماری دکان کھلی رہتی ہے‘‘۔ عید کے دن زرق برق لباس اور اس سے ہم آہنگ چوڑیوں ، جیولری کے ساتھ اگر خاتون خانہ کا چہرہ نکھرا نکھرا اور بال سیلقے سے تراشیدہ نہ ہوں تو عید بھی مکمل نہیں ہوتی، لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے،تیاری سب کی مکمل ہی ہوتی ہے۔ چاند رات یا اس سے ایک دن پہلے شہر کے معروف بیوٹی پارلرز سے لے کر محلے کے ایک کمرے کے بیوٹی پارلر تک پر خواتین کے ازدحام کی کہیں مثال نہیں ملتی، تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ’’مین سیلونز‘‘ کی بڑھتی ہوئی تعداد اور تبدیل ہوتے ہوئے ٹرینڈز کے پیش نظر مرد حضرات بھی حسن کو نکھارنے میں پیچھے نہیں رہے۔خواتین کی طرح مرد حضرات بھی فیشل ،ہیر کٹنگ اور مینی ،پیڈی کیور اوردیگر سروسزکے لیے سیلونزکے باہراپنی باری کے انتظار میں بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ بیوٹی پارلر دو دن پہلے سے بکنگ کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ رش سے بچا جاسکے۔گلشن اقبال میں واقع معروف بیوٹی پالرکی ورکر ساحرہ ارشد نے بتایا کہ’’یوں تو ہمارے پارلر میں سارا سال ہی خواتین کا رش رہتا ہے ،لیکن ظاہر ہے عید کی تیاری ہی خاص ہوتی ہے اور ہر عورت ہی خوب صورت نظر آنا چاہتی ہے تووہ خواتین جو عموماًپارلر کا رخ کم ہی کرتی ہیں ،وہ بھی چاند رات کو یہاں موجود ہوتی ہیں۔زیادہ تر خواتین بالوں کی ڈائی اور فیشل کے لیے آتی ہیں،ہمارے پاس فیشل میں بہت ورائٹی ہے اور اسی حساب سے قیمتیں بھی ہیں لیکن عید کی تیاری کے لیے خواتین پیسوں کی پرواہ نہیں کرتیں اور تمام بیوٹی سروسز لینا ضروری سمجھتی ہیں‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ چاند رات میں آپ کی گھرکے لیے واپسی کب تک ہوتی ہے یاآپ خود کیا تیاری کرتی ہیں ؟ساحرہ کا کہنا تھا کہ’’ظاہر ہے کہ ہماری واپسی رات دیر تک ہوتی ہے اور درحقیقت یہی کمائی کا وقت ہوتا ہےلہذا اپنے اوپر اتنی توجہ نہیں ہوتی‘‘۔

بلاشبہ عید الفطر مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کے روزوں کا انعام ہے،لہذا اس خوشی کو منانے کے لیے اس کی تیاریاں بھی نہ صرف اہمیت رکھتی ہیں بلکہ ان کا ہر رنگ ہی جدا ہوتا ہے جن کا اہتمام ہر خاص وعام اپنی بساط سے بڑھ کر کرتا ہے ۔

نہ ڈاک کا خرچ نہ ڈاکیے کا انتظار

پاکستانی معاشرے میں گزشتہ کچھ عرصے سے وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ خصوصاً آئی ٹی انقلاب کے بعد لوگوں کے روزمرہ کے برتائو اور سماجی رابطوں میں بہت تبدیلی آئی ہے۔کسی زمانے میں دل کی بات کہنے کے لیے عید کارڈز سے اچھا ذریعہ اور کوئی نہیں تھا، لیکن جب سے لوگوں کے ہاتھوں میں موبائل فون آیا ہےگویا سارے ہی کام آسان ہوگئے ہیں۔ لوگوں نے موبائل فون کوعیدکی مبارک باددینے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھ لیا ہے،لہذا عید کارڈز کے ذریعے مبارک باد دینے کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک عید کارڈز ہی اپنے پیاروں کو عید کی مبارک باد دینے کا اہم ذریعہ تھا۔ دکانوں، چوراہوں اور مرکزی مارکیٹوں میں نت نئے پھولوں، چاند تاروں کی تصاویر اور میوزیکل عید کارڈز کے اسٹالز لگائے جاتے تھے۔ جہاں سے جوق در جوق بچے بوڑھے، جوان عید کارڈز خرید کر اُس میںنہ صرف عزیز و اقارب اور دوستوں کو اشعار لکھ کر دیتے، بلکہ ڈاک کے ذریعے بیرون ممالک بھی کارڈز بھیجے جاتے تھے۔عید کارڈز کی خریداری بھی عید کی تیاریوں میں شامل ہوتی تھی۔ لڑکیاں اپنی سہیلیوں کو عید کارڈ کے ساتھ چوڑیاں اور جیولری وغیرہ بھی تحفے میں دیتی تھیں، تاہم اب یہ رواج ختم ہورہا ہے،لیکن عید کارڈز کے اسٹالز اب بھی کراچی کی چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی دیگر مارکیٹوں کے ساتھ حیدری مارکیٹ کے فٹ پاتھ پر بھی عید کارڈز کے چند اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ ایک اسٹال کے معین نامی دکان دار سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی توقع کے مطابق کارڈز کی فروخت ہوجاتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’’ میں سات رمضان المبارک سے ہی عید کارڈ اور خواتین کی ہلکی پھلکی جیولری کا اسٹال لگالیتا ہوں۔ جیولری تو پھر بھی فروخت ہوجاتی ہے لیکن عید کارڈز کی فروخت سال بہ سال بہت کم ہوگئی ہے۔ جب سے واٹس ایپ کے ذریعے عید کے پیغامات دینے کا سلسلہ چلا ہے، عید کارڈز کی فروخت بہت کم ہوگئی ہے۔ لوگوں کی دل چسپی نہیں ہے۔ اکاّ دکاّ کارڈز فروخت ہوجاتے ہیں۔‘‘ اسٹال پر شاپنگ کی غرض سے موجود مہہ جبین سے جب پوچھا کہ آپ عید کارڈز کی خریداری کے لیے آئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ نہیںمیں میچنگ جیولری کی تلاش میں آئی ہوں۔ کارڈ تو بس یونہی دیکھ رہی تھی، جب میں اسکول میں تھی تو اپنی سہیلیوں کو کارڈز اور گفٹس بھی دیتی تھی لیکن اب کالج میں آنے کے بعد چوں کہ میری کوئی سہیلی مجھے کارڈز نہیں دیتی لہٰذا میں بھی اسے نہیں دیتی۔ ہم فیس بک اور واٹس ایپ پر مبارک باد دیتے ہیں۔

تازہ ترین