• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ پھلوں اور سبزیوں کے بارے میں

احمد ندیم قاسمی

چند برس پہلے کا ذکر ہے کہ لاہور کے ایک گرلزا سکول میں ایک بچی سے گھڑا ٹوٹ گیا۔ اس پرا سکول کی ہیڈ مسٹریس نے آٹھ سو بچیوں پر فی بچی ایک گھڑا جرمانہ کر دیا۔ سارا صوبائی دارالحکومت دم بخود رہ گیا کہ یہ ایک گھڑے کے بدلے آٹھ سو گھڑے حاصل کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ہلاکو خاں بھی اپنے ایک سپاہی کے سر کے بدلے میں دشمن کے زیادہ سےزیادہ ایک سو سپاہیوں کے سروں کا مینار بناتا تھا۔ ہیڈ مسٹریس نے اہل لاہور کے اس شوروغوغا کا نہایت مستند جواب دیا۔ انہوں نے کہا، اگرہر ہفتے ایک گھڑا ٹوٹے تو یہ آٹھ سو گھڑے پندرہ سال تک کفالت کریں گے، سو اگر اہل لاہور کو طویل المیعاد منصوبوں کا کوئی شعور نہیں تو وہ شور نہ مچایا کریں۔

ایک اور ہیڈ ماسٹر کے بارے میں مشہور ہے کہ، انہیں اسکول کے ڈیڑھ ہزار بچوں کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک حوض بنانے کی سوجھی۔ اگلے مہینے سے ہر بچے کو حوض فنڈ ادا کرنے کا پابند کر دیا گیا۔ یہ حوض فنڈ سالہا سال تک لیا جاتا رہا اور مجموعی طور پر اتنی رقم جمع ہو گئی کہ، اگرہیڈ ماسٹرصاحب چاہتے تو حوض کی بجائے بحرالکاہل تعمیر کرا لیتے، مگر حوض پھر بھی نہ بنا۔ بات نکلی اور تحقیقات ہوئی تو پتا چلا کہ اس حوض فنڈ کی برکت سے ہیڈ ماسٹر صاحب کے تین صاحبزادے امریکن یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آ چکےہیں اور عنقریب وہ خود بھی ایک ہوائی جہاز چارٹر کرکے کرہء ارض کے سیر سپاٹے پر نکلنے والےہیں۔

ہم سمجھتے تھے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور کم سے کم اب تو کسی کو بھی اتنی دور کی نہیں سوجھے گی، مگر کل ایک اخبار کے اسٹاف رپورٹر کی طرف سے ایک خبر شائع ہوئی کہ پھل اور سبزیوں کی ہوشربا گرانی کے پیش نظر بعض مقامی ا سکولوں کےا سٹاف نے یہ چیزیں مفت حاصل کرنے کا ایک انوکھا منصوبہ بنایاہے۔ وہ بچوں کو ہدایت کرتےہیں کےہفتے میں ایک بار موسم کے پھل، اور ایک بار سبزیاں لائیں۔ بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ جب یہ پھل اور سبزیاں جمع ہو جاتی ہیں، تواستادوں، استانیوں اور دوسرے اسٹاف میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ بچوں کو پھل ضرور چکھا دیے جاتے ہیں، مگر سبزیاں ساری کی ساری معلمین و معلمات کے حصے میں آتی ہیں اور یوں پھلوں اور سبزیوں کی گرانی کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جسے بھی سوجھی ہے، خوب سوجھی ہے، مگر نئی نہیں سوجھی، خاص طور پر گرلزا سکولوں میں تو یہ روایت بہت عرصہ سے قائم ہے کہ بچیوں کو امورخانہ داری کا عملی سبق دینے کے لیے، انہیں گھر سے برتنوں کے ساتھ مختلف اشیائے خوراک لانے کو کہا جاتا ہے۔ جب بچیاں یہ عملی سبق مکمل کر لیتی، یعنی جب کھانا پک جاتا تو شاید اس خوف سے کہ پڑے پڑے ٹھنڈا ہو جائے گا اور خواہ مخواہ ضائع ہو گا، اساتذہ ہی اسے زہرمار کر لیتی ہیں۔ یہ اچھے دنوں کی روایت تھی، مگر اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی نوالہ منہ کی طرف لے جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے سونا کھا رہا ہے۔ گوبھی کے نرخ یوں چڑھےہیں، جیسے زمین پر نہیں اگتی بلکہ امریکی خلا باز چاند پر سےنمونہ لائےہیں۔ شلغم کے نرخ سن کر مزاج شل ہو جاتا ہے۔ مولی خریدئیے تو جیسے کھوپڑی پر مولا بخش کی ضرب پڑجاتی ہے ۔ اس عالم میں ، بچوں سے یہ کہنا کہ گھر سے سبزیاں لاؤ، ایساہی ہے، جیسے انہیں سکھایا جائے کہ گھر میں نقب کیسے لگائی جاتی ہے۔

رہے پھل تو وہ چاہے شاہدرہ سے آئیں، چاہے چک درہ سے، مجال ہے جو نرخوں میں کہیں ذرا بھی کمی ہو۔ کیلاجب حلق سے اترتا ہے تو جیسے سینے میں کھونٹے کی طرح گڑ گیا ہو۔ محض قیمتوں کی وجہ سے اب سردے کا نام گرما اور گرمے کا نام انگارہ رکھ دینا چاہیے۔                    

تازہ ترین