• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭براہِ مہربانی یا براے مہربانی؟

براہِ مہربانی کے لفظی معنی ہیں ’’مہربانی کی راہ سے‘‘۔ اسی لیے اس کو ’’ازراہِ مہربانی‘‘ (یعنی مہربانی کی راہ سے)بھی لکھا جاتا ہے ۔اسی طرح ’’ازراہِ کرم‘‘ (یعنی کرم کی راہ سے )کی ترکیب بھی مستعمل ہے۔گویادرست ترکیب ہے براہِ مہربانی ،لیکن آج کل لوگ بالعموم ’’براے مہربانی ‘‘ بولتے اور لکھتے ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے۔ ’’براہِ مہربانی ‘‘یا ’’مہربانی فرما کر ‘‘لکھنا چاہیے۔

امید ہے کہ آپ براہِ مہربانی آئندہ’’براہِ مہربانی‘‘لکھا کریں گے نہ کہ براے مہربانی۔

٭’’کا شکریہ ‘‘یا ’’کے لیے شکریہ‘‘ ؟

ایک اور بدعت، جو زبان کے معاملے میں جائز تصور کرلی گئی ہے، وہ انگریزی محاورے یا روزمرہ کا لفظی اردو ترجمہ ہے۔ مثلاً اردو میں جب کسی چیز یا کام کا شکریہ ادا کرنا ہو تو کہا جاتا ہے ’’کا شکریہ‘‘۔ جیسے کتاب کا شکریہ، تشریف لانے کا شکریہ۔ انتظار کرنے کا شکریہ۔ لیکن اب ہم ٹی وی پر بھی اور عام گفتگو میں بھی کچھ اس طرح کے جملے سنتے ہیں کہ ’’کتاب کے لیے شکریہ‘‘ یا ’’انتظار کرنے کے لیے شکریہ‘‘ ۔ اردو روزمرہ کے لحاظ سے یہ بالکل غلط ہے اور غالباً انگریز ی کی ترکیب Thank you for کا لفظی ترجمہ ہے، جو اردو میں بہت بھونڈا معلوم ہوتا ہے ۔صحیح استعمال ہوگا ’’کا‘‘ شکریہ۔ بہرحال، اس تحریر کو یہاں تک پڑھنے ’’کا‘‘ شکریہ۔

٭پروا یا پرواہ؟

فارسی میں ایک لفظ ہے ’’پروا‘‘اور انہی معنوںمیں آتا ہے، جن معنوں میں اردو میں رائج ہے یعنی کسی بات کا لحاظ ، خیال، دھیان، فکر ، توجہ وغیرہ۔ لیکن نجانے کیوں اس کے آخر میں ایک ’’ہ‘‘ کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ صحیح املا ہے ’’پروا‘‘ ۔ اس کو ’’پرواہ ‘‘ لکھنا یا بولنا بالکل غلط ہے اور اگر آپ درست املا کی ذرا بھی’’ پروا‘‘ کرتے ہیں تو پھر اس سے بنے ہوئے ایک اور لفظ یعنی ’’پروائی‘‘ میں بھی ’’ہ ‘‘ نہ لکھا کیجیے ۔ کیونکہ لاپروائی کو ’’لاپرواہی‘‘لکھنا ایک طرح کی ’’لاپروائی‘‘ اور غلطی ہے۔ پروا ،بے پروا، لاپروا، بے پروائی اور لاپروائی میں سے کسی میں بھی ’’ہ ‘‘ نہیں ہے۔

٭الحاج یعنی چہ؟

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ جو ایک حج کرے وہ ’’حاجی‘‘ ہے اور جو ایک سے زیادہ حج کرے وہ ’الحاج‘‘ہے ۔ اسی لیے بعض حضرات جب دوسرا حج کرکے آتے ہیں تو اس کا اعلان یوں کرتے ہیں کہ اپنے نام سے پہلے حاجی کی بجائے الحاج لکھنے لگتے ہیں۔ خدا جانے یہ بے بنیاد بات کیسے مشہور ہوگئی، کیونکہ ’’ال ‘‘ تو محض عربی کا حرفِ تخصیص ہے، جوکسی اسم کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے، جیسے الکتاب ۔ حج کرنے والے کو عربی میں ’’حاج‘‘ کہتے ہیں۔ حاج کی جمع حُجّاج ہے(حے پر پیش اور جیم پر تشدید)۔قیوم ملک نے اپنی کتاب ’’اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ ‘‘ میں ’’حاجی ‘‘کے عنوان کے تحت لکھا ہے ’’عربی میںحاج ُ‘ ، الحاج۔ بول چال میں عرب لوگ حاجی بھی کہہ لیتے ہیں۔ ‘‘ (ص ۱۵۹)۔ حاج کے ساتھ ’’ال‘‘ لگانے سے الحاج بن گیا۔ اس میں ’’ایک سے زیادہ حج ‘‘کا مفہوم یاروں نے کیسے نکال لیا، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ اردو والوں نے ’’حاج ‘‘کو ’’حاجی ‘‘ ہی بنادیاہے ۔ چلیے یہاں تک تو درست ہے ، لیکن حاج یا الحاج یا حاجی کا مفہوم ہے: جس نے حج کیا ہو ( چاہے ایک حج کیا ہو یا زیادہ) ۔لہٰذا کئی بار حج کرنے والے حاجی صاحبان یعنی حجاج ِکرام سے درخواست ہے کہ خود کو الحاج لکھیں بھی تواسے ’’جس نے حج کیا ہو‘‘ کے معنی میںسمجھیں ،نہ کہ’’ بہت سارے حج کرنے والا‘‘ کے مفہوم میں۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو بقول ِغالب: حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی ۔ ( جاری ہے)

٭ایک سو چار واں یعنی چہ؟

خاصے عرصے قبل ایک کرکٹ میچ پر رواں تبصرہ کرتے ہوئے مبصر نے بتایا کہ سامعین یہ پاکستان کا ایک سو چارواں میچ ہے۔ بڑا تعجب ہواکہ ریڈیو پر رواں تبصرہ کرنے والے اردو کی گنتی کے بارے میںکتنی کم معلومات رکھتے ہیں۔ خیراب تو بچے اردو کی گنتی مشکل ہی سے سمجھتے ہیں اور اگر آپ کہیںمثلاً’’ سینتیس ‘‘ تو وہ حیران ہوکر پوچھیں گے کہ یہ کیا ہوتا ہے ۔ آپ کہیں کہ ’’تھرٹی سیون‘‘، تو جواب ملے گا ’’انکل‘‘ یوں کہیں نا!لیکن جب ہم بچے تھے تب بھی ہمیں معلوم تھا کہ اردو میں ’’ایک واں‘‘ ،’’دو واں‘‘،’’ تین واں ‘‘اور’’ چار واں‘‘ نہیں ہوتے، بلکہ انھیں پہلا ، دوسرا، تیسرا اور چوتھا کہتے ہیں۔ گویا وہ پاکستان کا’’ ایک سو چوتھا ‘‘میچ تھا۔ اسی طرح ’’ایک سو پہلا ‘‘ہوگا نا کہ’’ ایک سو ایک واں‘‘۔ جیسے انگریزی میں ہوگا’’ فرسٹ ‘‘ناکہ ’’ ونتھ‘‘ ۔اوہو،انکل یوںکہیے نا!

٭ادائی یا ادئیگی ؟

اگرچہ ’’ادائیگی ‘‘ لکھنے اور بولنے کا رواج بہت عام ہوگیا ہے اور جو چیز زبان میں رائج ہوجائے، اسے بدلنا مشکل ہوتا ہے لیکن ’’ادائیگی‘‘ اصولاً غلط ہے اور اسے ’’ادائی‘‘ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ ’’ادا ‘‘ سے ہے ۔ اور اگر ادا سے ادائیگی ہے تو کیا جدا سے جدائیگی اور خدا سے خدائیگی ہوگا؟ ظاہر ہے کہ جدا سے جدائی ہے اورخدا سے خدائی ہے تو ادا سے ادائی ہوگا ناکہ ادائیگی۔

’’گی‘‘ تو فارسی کا لاحقہ ہے، جو اُن فارسی الفاظ کے آخر میں لگتا ہے، جن کا اختتام ’’ہ ‘‘ پر ہوتا ہو اور اس صورت میں ’’ہ‘‘ کو ہٹا کر ’’گی‘‘ لگاتے ہیں ، مثال کے طور پر سنجیدہ ، رنجیدہ، آمادہ،دیوانہ اور گندہ وغیرہ کے آخر میں سے ’’ہ‘‘ نکال کر ’’گی ‘‘ لگائیں گے تو علی الترتیب یہ اسم ِ کیفیت بنیں گے : سنجیدگی، رنجیدگی، آمادگی، دیوانگی اور گند گی وغیرہ۔

اب یہ بتائیے کہ ادا کے ساتھ ’’گی‘‘کس قاعدے کے تحت لگ سکتا ہے؟ صحیح لفظ ہے ’’ادائی‘‘نہ کہ ادائیگی۔

٭دیہات یا دیہاتوں ؟

عربی میں ایک لفظ ہے ’’دیہہ‘‘ ۔ اس کے معنی ہیں گائوں ، بستی ۔ جمع ہے اس کی ’’دیہات ‘‘ ۔ شان الحق حقی کی فرہنگ تلفظ کے مطابق دیہہ کا ایک املا ’’دہ‘‘ بھی ہے۔اسی طرح اس کی جمع دیہات اور دِ ہات دونوں طرح سے درست ہے۔

یعنی جب یہ کہنا ہو کہ ہمارے گائوں میںتو بجلی نہیں آئی، لیکن آس پاس کے سارے گاوئوں میں آگئی ہے تویوں بھی کہہ سکتے ہیںکہ ہمارے ’’دیہہ ‘‘ میں تو بجلی نہیں آئی لیکن آس پاس کے سارے ’’دیہات ‘‘ میں آگئی ہے۔

یہاں دیہات کی جگہ دیہاتوں بولنایا لکھنا غلط ہوگا ،کیونکہ دیہات تو خود جمع ہے، اس کی اردو کے قاعدے سے مزید جمع بنانا بے تکی بات ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے’’ خیال‘‘ کی جمع خیالات بناتے ہیں تو پھر یوں نہیں کہتے کہ خیالاتوںمیں کھویا ہوا ہے، بلکہ خیالات میں کھویا ہوا ہے یا خیالوں میںکھویا ہوا ہے بولتے ہیں، لیکن اس کا کیا علاج کہ اب ’’لفظ ‘‘کی جمع یعنی ’’الفاظ ‘‘کی بھی جمع الفاظوں بنائی جارہی ہے۔اصولاً کہنا چاہیے ’’لفظوں میں‘‘یا کہیے ’’الفاظ میں‘‘۔ ’’الفاظوں میں‘‘ بولنا یا لکھنا بالکل غلط ہے۔جیسے بعض لوگ بے خیالی یا لاعلمی میں عالم کی جمع یعنی علما کی بھی مزید جمع بناکر اردو میں’’ علمائوں ‘‘بھی بولتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اسی طرح

’’ دیہات میں‘‘کہنا کافی ہے ، ’’دیہاتوں میں‘‘لکھنا یا بولنا غلط ہے۔

٭سِیاحت یا سَیّاحت؟

ایک غلط تلفظ ،جو اب بہت عام ہوچلا ہے وہ ’’سیّاحت ‘‘ہے ۔عربی کے لفظ ’’سِیاحت ‘‘ میں تشدید بالکل نہیں ہے ۔ نہ اس میں سین کے اوپر زبر ہے۔ اس میں سین کے نیچے زیر ہے، اس لیے اسے ’’سَیّاحت ‘‘ بولنا قطعاًغلط ہے۔ یہ ’’سِیاست ‘‘ کے وزن پر ہے، جو بہت سِیاست کرے اسے عربی کے قاعدے سے ’’سَیّاس‘‘ کہیں گے اور جو بہت سِیاحت کرے، اسے ’’سَیّاح ‘‘(تشدید کے ساتھ)کہتے ہیں، یعنی سَیّاح میں تو تشدید ہے، لیکن سِیاحت میں بالکل نہیں ہے۔ اسی طرح سیاح کے سین پر زبر ہے ۔ سیّاح میں تشدید کی وجہ سے سیاحت میں بھی تشدید لگادی جاتی ہے، مگر لفظوںکے ساتھ یہ تشدد ٹھیک نہیں ہے۔

٭دست کاری یا دس تکاری؟

تلفظ کی بات چلی ہے تو یاد آیا کہ اردو میں لفظوں کوملا کر لکھنے کا جو رجحان ہے، اس سے بسا اوقات تلفظ میں بڑی گڑ بڑ پیدا ہوجاتی ہے اور اسی لیے رشید حسن خان اور بعض دیگر علماے زبان لفظوں کو توڑ کر لکھنے کے قائل ہیں ۔ مثلاً مجنوں گورکھ پوری کو جب ملا کر مجنوں گورکھپوری لکھا جاتا ہے تو بچے گور کو الگ اورکھپوری کو الگ پڑھتے ہیں۔ اسی طرح دست کاری کو جب ملا کر دستکاری لکھا جاتا ہے تو بچے اسے دس تکاری پڑھتے ہیں ۔

بچے تو خیر بچے ہیں، لیکن اب ٹی وی پر خبریں پڑھنے والے بھی اسے ’’دس تکاری ‘‘ہی بولتے ہیں ۔کل کوکوئی پوچھ لے گا کہ بھئی دس ہی کیوں ؟ بیس تکاری کیوں نہیں؟ کیونکہ انھیں علم ہی نہیں کہ دست، فارسی میں ہاتھ کو کہتے ہیں اور دست کاری کے معنی ہیں ہاتھ کاکام ۔

٭دست گیر یا د س تگیر؟

اسی طرح کراچی میں ایک علاقہ ہے دست گیر کالونی، جس کا نام اب مختصر ہوکر صرف دست گیر ہوگیا ہے، لیکن شاید ہی کوئی اسے ’’دست گیر‘‘ بولتا ہو،کیونکہ اسے عام طور پر ملا کر یعنی دستگیر لکھا جاتا ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اسے ’’دس تگیر‘‘ پڑھتے ہیں۔یہاں بھی فارسی کا دست، یعنی ہاتھ ہے او ر’’گیر ‘‘ فارسی کے گرفتن یعنی پکڑنا سے ہے، گیر کا مطلب ہے پکڑنے والا۔ گویا دست گیر کے معنی ہیں ہاتھ پکڑنے والا۔ مرادی یا مجازی معنی ہیں مددگار، حامی و ناصر۔ اللہ تعالی کو بھی کہتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ آپ کی دست گیری کرے اور آپ لفظوں کے تلفظ کی درست’’ادائی‘‘ کیا کریں ۔

٭غیظ یا غیض؟

غیظ عربی کا لفظ ہے اور قرآن شریف میں بھی آیا ہے اور اسی املے کے ساتھ آیا ہے۔اس کے معنی ہیں غصہ، قہر۔ اسے’’ظ‘‘ کی بجاے ’’ض‘‘ سے یعنی غیض لکھنا بالکل غلط ہے۔ درست املا ہے : غیظ۔اسی طرح ترکیب کا درست املا ہے ’’غیظ و غضب‘‘، ناکہ غیض و غضب۔

تازہ ترین