• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

ملک میں ان دنوں انتخابات کا موسم ہے اور ذرایع ابلاغ انتخابی اُمّیدواروں اور سیاسی راہ نماوں کی سرگر میو ں سے متعلق خبریں بھرپور طورپر عوام تک پہنچارہے ہیں ۔ذرایع ابلاغ کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹس بھی انتخابی مہم کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کی جارہی ہیں ۔ہر سیاسی جماعت اپنا انتخابی نشان رائے دہندگان کے ذہنوں پر نقش کردینا چاہتی ہے اور اس کے اُمّیدوار رائے دہندگان سے بہت لجاجت سے سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے میرے انتخابی نشان پر مہر لگائیے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے اور تاریخ اس بارے میں کیا کہتی ہے؟آئیے ،اس سوال کا جواب جاننے کے لیے تا ر یخ کے صفحات پلٹتے ہیں۔

پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

انتخابات کی تاریخ بہت پرانی ہے، اتنی ہی جتنی یو نا ن اور روم کی تاریخ۔ قرونِ وسطیٰ کے پورے زمانے میں رومی سلطنت کے لیے بادشاہ اور پوپ کے چناؤ کے لیے یہ ہی ذریعہ استعمال کیا جاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق بھارت میں 920ء صدی عیسوی میں تامل ناڈو میں گائوں کی اسمبلی کے اراکین کے انتخابات کے لیے پام کے در خت کے پتے استعمال کیے جاتے تھے۔ رائے دہندگان ان پر اپنے پسندیدہ امیدواروں کے نام تحریر کرکے مٹی کے برتن میں ڈال دیتے تھے۔ اسی طرح اس زمانے میں بنگال میں پالا کے بادشاہ گوپال کو بھی رائے دہندگان نے منتخب کیا تھا۔ ویدک زمانے میں راجائوں کو بھی اسی طرح سنگھاسن پر بٹھایا جاتا تھا۔ تاہم اس زمانے کے انتخابات کا انداز اور طریقہ آج کے انتخابات سے بہت مختلف تھا۔

پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

زمانۂ جدید میں انتخابات کے ذریعے حکومت یا سر کا ری حکام کا چنائو سترہویں صدی کے آغاز سے مختلف انداز میں ہونا شروع ہوا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں نمائندہ حکومت کا نظریہ شمالی امریکا اور یورپ میں جڑ پکڑ چکا تھا۔ تاہم امریکا اور برطانیہ میں زمانۂ جدید میں ہونے والے ابتدائی انتخابات میں دولت ، طاقت اور اکثریت کا سکّہ صدیوں تک چلتا رہا۔ دولت مندوں میں جاگیرداروں کا پلّہ سب سے بھاری ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ا نتخا بات کا طریقہ بدلتا رہا۔ تاہم جماعتی سیاست اور انتخابی نشا نات کی تاریخ سو، سوا سو برس سے زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس سے قبل نظریاتی بنیادوں پر قائم ہونے والے گروہ تو تاریخ میں ملتے ہیں، لیکن چوں کہ پہلے قومی ریاست کا تصور نہیں تھا لہٰذا ریاست کی سطح پر سیاسی جماعتیں اور ان کے انتخابی نشانات بھی نہیں ہوتے تھے۔

انتخابی نشان کی اہمیت اور فلسفہ

کسی سیاسی جماعت کا سیاسی یا انتخابی نشان کتنی ا ہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس بارے میں ماہرین سیاسیات بہت پُر مغز بحث، مباحثے کرچکے اور مقالے لکھ چکے ہیں ۔ اس ضمن میں کئی نکتہ ہائے نظر موجود ہیں۔ امریکا میں اس بارے میں ایک تحقیق وسکونسن ایڈورٹائزنگ پروجیکٹ کے تحت کی گئی تھی جس میں 1998ء سے 2008ء تک منعقد ہونے والے چھ صدارتی انتخابات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ماہرین سیاسیات کے نزدیک سیاسی یا انتخابی نشان کے انتخاب اور استعمال کے پس منظر میں سیاسی، سماجی، تاریخی اور نفسیاتی فلسفے اور نکات ہوتے ہیں۔ جب کوئی امیدوار انتخابات میں اپنی جماعت کا انتخابی نشان استعمال کرتا ہے تو وہ یہ تمام فلسفے اور نکات صرف ایک نشان کے ذریعے اپنے حلقے کے رائے دہندگان تک بہت آسانی سے پہنچا دیتا ہے۔ دوسری جانب رائے دہندگان کو ووٹ دیتے وقت زیادہ مشکل پیش نہیں آتی اور وہ ہر امیدوار کا نام اور شناخت یاد رکھنے کے بجائے محض ایک انتخابی نشان یاد رکھتا ہے جس کے بارے میں اس نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہوتا ہے۔

امریکا میں ہاتھی اور گدھے کا نشان

بعض ممالک میں سیاسی جماعتوں کے مخصوص سیاسی نشانات ہوتے ہیں جنہیں وہ دہائیوں سے انتخابی نشانات کے طور پر بھی استعمال کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس ضمن میں بھارت اور امریکا کی بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی کا سیاسی نشان دہائیوں سے ہاتھی اور ڈیموکریٹک پارٹی کا گدھا یا خر چلا آرہا ہے۔ ہاتھی کا یہ نشان ایک کارٹونسٹ تھامس ناسٹ نے تخلیق کیا تھا اور یہ پہلی مرتبہ نومبر 1874ء میں ہارپرز ویکلی میں شایع ہوا تھا۔ بعد ازاں وہاں دوایسے واقعات رونما ہوئے کہ یہ نشان ری پبلکن پارٹی سے منسلک ہوگیا۔ اسی کارٹونسٹ نے مذکورہ واقعات کے تناظر میں ایک کارٹون بنایا تھا جس میں علامتی طور پر ری پبلکنز کو ہاتھی اور ڈیموکریٹس کو گدھے سے تشبیہہ دی گئی تھی جو ہاتھی سے ڈرا ہوا تھا۔ اس کے بعد کئی کارٹونسٹس نے ہاتھی کو ری پبلکنزسے تشبیہ دی۔ یوں ڈیموکریٹک پارٹی کے حصے میں گدھا آگیا۔ تب سے آج تک یہ جانور ان دونوں امریکی سیاسی جماعتوں کے سیاسی اور انتخابی نشانات چلے آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ امریکا میں پہلے انتخابات 26 اپریل 1607ء میں ہوئے تھے جب کیپٹن جان اسمتھ نے جیمز ٹائون میں انگریزی امریکا میں پہلی نوآبادی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ انتخابات اس کالونی کے صدر اور اس کی کونسل کے سات اراکین کے چنائو کے لیے منعقد ہوئے تھے اور اس میں چند مخصوص افراد کو رائے دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے بعد چار سو برس تک امریکیوں نے مختلف سیاسی تجربات کیے۔

وہاں 1828ء میں صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اینڈریو جیکسن کے ہر دل عزیز نظریات اور نعروں کی وجہ سے انہیں "JACKASS" کا خطاب دیا گیا تھا۔ جس کے معنی گدھا یا خرکے ہیں۔ جیکسن نے یہ خطاب اپنی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنے کا سوچا اور اپنے تمام پوسٹرز پر گدھے کی تصویر طبع کرائی۔

انتخابی نشان کی تشہیر

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں جمہوری طریقے سے انتخابات کی تاریخ تقریباً دوسو برس پرانی ہے۔ اس وقت سے وہاں سیاسی مہمات کے دوران پوسٹرز، براڈ سائیڈز اور انتخابی نشانات کسی نہ کسی انداز میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ امریکا میں اموس کینڈل وہ پہلا قابل ذکر پولیٹیکل کنسلٹنٹ گردانا جاتا ہے، جس نے اینڈریو جیکسن کو امریکا کا صدر منتخب ہونے کے ضمن میں مدد دی تھی۔ اس نے اس مقصد کے لیے ایک پوری مہم (کمپین) ترتیب دی تھی جس میں پمفلٹ، ہورڈنگز اور بینرز کے ساتھ نیوز آرٹیکلز، اینڈریو کے لیے تقریریں، پریڈز (جلوس) اور اس طرح کی دیگر سرگرمیاں شامل تھیں۔ اس نے یہ پوری مہم مختلف طبقات اور گروہوں کو مدنظر رکھ کر ترتیب دی تھی۔ وہ دنیا کے ان چند گنے چنے لوگوں میں سے پہلا شخص تھا جس کا تعلق بہ یک وقت اخباری صنعت، اشتہاریات، تعلقات عامہ اور ساری دنیا میں مارکیٹنگ کے شعبوں سے تھا۔ وہ سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے لیے بھی خدمات فراہم کرتا تھا۔

پولیٹیکل مارکیٹنگ

وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام وسعت اختیار کرتا گیا اور اس میں آرٹسٹ اور گرافک ڈیزائنرز کا کام بھی شامل ہوگیا۔ یہ لوگ ان سیاسی نعروں اور تشبیہات کا تعلق آرٹ اور گرافکس سے جوڑنے لگے جو پولیٹیکل اور ایڈورٹائزنگ کنسلٹنٹس سیاسی جماعتوں اور افراد کے لیے تخلیق کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ مغرب میں آج سیاسی مہم چلانا بھی بہ ذات خود ایک آرٹ اور صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ بعد ازاں اس شعبے میں ایک اور طرح کے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جنہیں جدید اصطلاح میں کمیونی کیشن اسپیشلسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ دراصل تعلقات عامہ کے شعبے سے آئے تھے۔ یہ افراد اخباری اور اشتہاری صنعتوں، تعلقات عامہ، آرٹ اور گرافکس کے شعبوں، تاریخ اور سیاسیات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں اور ان تمام صنعتوں اور شعبوں کو انتخابی مہمات میں ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ مغرب میں اب سیاسی مہم کو پولیٹیکل مارکیٹنگ بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی جس طرح تجارتی مصنوعات کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے اسی طرح اب و ہاں سیاسی خیالات اور نکات کی بھی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تجارتی مصنوعات فروخت کرکے نقد رقوم حاصل کی جاتی ہیں اور سیاسی افکار اور نکات پیش کرکے سیاسی عہدے حاصل کیے جاتے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مادی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر کے فیصلے بھی کرنے یا ایسے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت حاصل کی جاتی ہے۔

امریکا میں سیاسی مہم میں پوسٹر یا براڈ سائیڈ کے استعمال کے شواہد سولہویں صدی عیسوی میں بھی ملتے ہیں۔ تاہم وہاں اسے جولزچیریٹ نے ترقی دی اور حقیقی معنوں میں پہلا باقاعدہ پوسٹر اس نے 1860ء کی دہائی میں تخلیق کیا تھا۔ بعض امریکی محققین کا خیال ہے کہ یہ کام اس سے پہلے 1840ء کی دہائی میں کیا جاچکا تھا۔ لیکن، زیادہ تر محققین جولز کے نام پر متفق نظر آتے ہیں۔ جولز اور اس کے بعد آنے والوں نے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے جو پوسٹر بنائے تھے ان میں تصاویر اور رنگوں کو کافی استعمال کیا گیا تھا۔ لتھوگرافی کی تیکنیک ایجاد ہونے کے بعد رنگوں کا استعمال بڑھتا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط تک وہاں چھوٹے لتھوگرافک پوسٹرزطباع ہونے لگے تھے جن میں سے زیادہ تر انتخابی مہمات کے موقعے پر طباع کرائے جاتے تھے۔ انہیں مکانوں کی کھڑکیوں اور دکانوں پر لگایا جاتا تھا۔ ان کا نام ’’ونڈوکارڈ‘‘ رکھا گیا تھا۔ عموماً ان کارڈز پر انتخابی امیدواروں کی تصاویر طباع ہوتی تھیں۔ یہ کتھئی رنگ کے ہوتے اور 8 ضرب 11 انچ کے کاغذ پر چھاپے جاتے تھے۔ ان پر امیدواروں کی تصویر کے ساتھ کوئی نعرہ بھی درج ہوتا تھا۔

بینرز اور پوسٹرز کے ذریعے نشانات کی تشہیر

انیسویں صدی کے وسط ہی میں وہاں بینرز بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگے تھے۔ یہ بینرز ہاتھ سے بنائے جاتے تھے اور شروع میں ان کا استعمال بہت کم تھا۔ لتھوگرافی کی تیکنیک کے ماہر نتھانئیل کُریر نے بینرز کے لیے ڈیزائن طبع کرنا شروع کیے تھے۔ یہ ڈیزائن کاغذ پر طبع کیے جاتے اور انہیں امریکا کے صدارتی انتخابات کی مہم میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں بعض نشانات بھی طبع کیے جاتے تھے، مثلاً عقاب، جھنڈے، شیلڈز، کسان، محنت کش اور ماضی کے صدور کی تصاویر وغیرہ۔ 1852ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایسے بینرز بنوائے تھے۔ بعد میں یہ بینرز کپڑوں سے بنائے جانے لگے تھے اور اب وینائل پر بنائے جاتے ہیں۔ ان بینرز پر بلاک لیٹرز استعمال کیے جاتے اور انہیں جلسے، جلوسوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ امریکا میں 1892ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقعے پر ڈیمو کریٹک پارٹی نے جو ٹکٹ جاری کیا تھا اس پر اوپر کی طرف ایک بڑا سا کپڑے کا بینر دکھایا گیا تھا جس پر گورنر کلیولینڈ اور ایڈلائی اسٹیونسن کے پورٹریٹ بنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ الی نائے کے گورنر پیٹر الگیلڈ کی تصویر بھی موجود تھی۔

لتھوگرانی کی تیکنیک کی ترقی کی وجہ سے 1890ء کی دہائی تک زیادہ تر مغربی ممالک میں سیاسی اور انتخابی مہمات کے لیے پوسٹرز کا استعمال بہت بڑھ گیا تھا۔ 1962ء میں فرانس میں صدر کے انتخاب اور اس کے اختیارات کے ضمن میں ہونے والے ریفرنڈم میں پہلی مرتبہ بہت بڑا بل بورڈ پیرس میں بنایا گیا تھا۔ 1953ء میں اٹلی کی کرسچین ڈیموکیسی پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک پوسٹر پر خوب صورت خاتون کی تصویر طبع کرائی تھی۔ تاہم بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں مغربی دنیا میں پوسٹرز کا استعمال بہت حد تک کم ہوگیا تھا کیوں کہ وہاں ریڈیو اور ٹی وی پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر بہت زیادہ حد تک استعمال کیے جانے لگے تھے۔

امریکا میں 1876ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر چلائی جانی والی انتخابی مہم میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن، دونوں جماعتوں نے ایسے پوسٹرز استعمال کیے تھے جن پر امیدواروں کی اور بعض دیگر تصاویر طبع تھیں۔ تاہم 1888ء میں وہاں انتخابات کے دوران ایسا موقع بھی آیا تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے بروکلین (نیویارک) میں واقع فوارے کے ساتھ محافظ کھڑے کردیے تھے کیوں کہ اس نے الزام لگایا تھا کہ ری پبلکن پارٹی نے بعض غنڈوں کی خدمات حاصل کی ہیں جو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کلیولینڈ کے پوسٹرز اور پلے کارڈز پھاڑ دیتے ہیں۔ تاہم ان انتخابات میں کلیولینڈ کو شکست ہوگئی تھی اور ری پبلکن امیدوار بنجمن ہیریسن کام یاب قرار دیے گئے تھے۔

امریکا میں 1964ء میں ہونے والے انتخابات میں ٹیلی ویژن کافی استعمال کیا گیا تھا۔ ری پبلکن پارٹی نے اس انتخاب کے لیے پولیٹیکل ایڈورٹائزنگ کی مد میں پچاس لاکھ ڈالرز کا بجٹ رکھا تھا۔ یہ بجٹ ٹی وی اسپاٹس اور پروگرامز کے لیے رکھا گیا تھا۔ ٹی وی اسپاٹس میں امیدوار کی تصویر اور انتخابی نشان کو نمایاں رکھا جاتا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق وہاں اس موقع پر دس ہزار ٹی وی اسپاٹس نشر کیے گئے تھے جنہیں میڈیا اسپیشلسٹس نے بنایا تھا۔

فرانس کی حکومت اور پروشیا کے درمیان 1871ء میں ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد وہاں 1876ء میں ہونے والے انتخابات کے موقعے پر پیرس کی دیواریں پوسٹرز سے رنگین ہوگئی تھیں۔ ان پوسٹرز پر امیدواروں کی تصاویر اور الیکٹورل پتے بہت نمایاں انداز میں طبع تھے۔ اس انتخابی مہم میں حکومت نے سفید رنگ کے کاغذ اور حزب اختلاف نے نیلے، پیلے اور دیگر رنگوں کے کاغذ پوسٹرز اور بینرز کے لیے استعمال کیے تھے۔ برطانیہ میں بھی سیاسی اور انتخابی مہم کے دوران پوسٹرز اور ہینڈ بلز کے استعمال کی تاریخ پرانی ہے۔ وہاں 1945ء میں لیبر اور نیشنل پارٹی نے انہیں اپنے پیغامات عوام تک پہنچانے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا تھا۔ تاہم اس سے قبل بھی وہاں ایسے مواقع پر ان کے استعمال کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔میکسیکو نے 1821ء میں اسپین سے آزادی حاصل کی تھی لیکن وہاں طویل عرصے تک سیاسی عدم استحکام رہا۔ 1910ء میں وہاں صدارتی انتخابات ہوئے تو فرانسسکو مڈیرو اور ڈائز کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔ اس موقع پر وہاں ڈائز کی تصاویر والے پوسٹرز دیواروں پر چسپاں کیے گئے تھے۔

مغرب میں اہمیت کم کیوں؟

مغربی دنیا میں انتخابی نشانات کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح ہمارے ہاں دی جاتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ وہاں ماضی کی طرح آج بھی زیادہ سیاسی جماعتیں نہیں ہوتیں۔ دوم یہ کہ بہت سے مغربی ممالک میں زیادہ تر دو جماعتیں ہوتی ہیں جن کے انتخابی نشانات دہائیوں سے ایک جیسے ہی چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں امیدواروں اور انتخابی نشانات کے بجائے رائے دہندگان سیاسی جماعتوں کے منشور پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

بھارت میں ہاتھی اور ہاتھ مقبول نشانات

بھارت میں کانگریس پارٹی کا سیاسی اور انتخابی نشان دہائیوں سے ایک ہی چلا آرہا ہے جو پھیلا ہوا ہاتھ ہے۔ 1951ء میں وہاں آل انڈیا فارورڈ بلاک (روکر گروپ) نے بھی ہاتھ کو اپنا سیاسی نشان بنایا تھا، لیکن اس ہاتھ میں یہ فرق تھا کہ اس کی انگلیاں علیحدہ علیحدہ تھیں یا ایک دوسرے سے ملی ہوئی نہیں تھیں۔ 1962ء کے انتخابات میں وہاں اکالی دل نے پہلی مرتبہ ہاتھ کا وہ نشان استعمال کیا تھا جو بعد میں کانگریس کا نشان بنا۔ 

پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

کانگریس نے 1970ء کی دہائی میں یہ نشان اپنایا تھا۔ دراصل 1980ء کے انتخابات سے قبل اندراگاندھی کو ان کے ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ہاتھی اور ہاتھ کے نشانات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔ اس وقت تک وہاں یہ دونوں نشانات کسی جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں تھے۔ اس وقت کانگریس تقسیم ہوگئی تھی اور الیکشن کمیشن نے تقسیم شدہ کانگریس کے ہر گروہ کو اس کا ماضی کا انتخابی نشان ’’کوّے اور گوسالہ‘‘ استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ اس موقع پر اندراگاندھی نے ہاتھ کا نشان منتخب کرلیا تھا۔ وہاں 1951ء، 1952ء میں ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا شیڈولڈ کاسٹ فیڈریشن نے ہاتھی کو اپنا انتخابی نشان بنایا تھا۔

پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

لیکن 1984ء میں اسے بہوجن سماج پارٹی نے اپنا لیا تھا اور آج تک وہ اسی کا نشان چلا آرہا ہے۔ اس جماعت کے زیادہ تر حمایتیوں کا تعلق دلِت ذات کے لوگوں سے ہے۔ دلِت ذات کے لوگوں کے لیے بودھ مت کی خاص اہمیت ہے اور بودھ مت میں ہاتھی کو دماغی طاقت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہندو مت میں بھی ہاتھی کا خاص مقام ہے۔ ہندوئوں کے دیوتا گنیش کا سر ہاتھی کا دکھایا جاتا ہے۔2007ء میں بہوجن سماج پارٹی نے ہاتھی کے انتخابی نشان کے ذریعے اونچی ذات کے ہندوئوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کی تھی۔

پاکستان اور دیگر ممالک کی سیاسی تاریخ

بھارت میں بائیسکل بھی ایک مقبول سیاسی اور انتخابی نشان ہے۔ وہاں تین ریاستوں میں تین ریاستی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنا رکھا ہے۔ ان میں سے ایک سماجی وادی پارٹی ہے جس نے اترپردیش کے انتخابی میدان میں اترکربہوجن سماج پارٹی کے دانت کھٹے کردیے تھے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں غریبوں میں یہ سواری بہت مقبول ہے، خصوصاً دیہی علاقوں میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت کارآمد سواری اور باربرداری کا ذریعہ ہے جو ہر طرح کے راستوں پر، ہر موسم میںاور ہر وقت استعمال کی جاسکتی ہے۔ اسے استعمال کرنے پر خرچ بہت کم آتا ہے۔ اسے طویل عرصے تک استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہر عمر کے افراد آسانی سے چلا سکتے ہیں۔

سواستیکا کی قدیم تاریخ

سیاسی اور مذہبی نشانات میں سب سے قدیم تاریخ سوا ستیکا کی بتائی جاتی ہے۔ تاہم بعض محققین اس بارے میں متفق نظر نہیں آتے۔ سواستیکا دراصل سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ اچھائی یا بھلائی کے ہیں۔ اس کے دیگر معنیٰ بھی بیان کیے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر مثبت عوامل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ نشان دو مساوی لکیروں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے چار بازو ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر لکیر کا بازو مخالف سمت میں مڑا ہوتا ہے۔ اس نشان کا سب سے قدیم ثبوت وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب سے ملا ہے جو ایک زیور پر بنا ہواتھا۔ یہ نشان اس کے علاوہ دنیاکی کئی قدیم تہذیبوں میں بھی ملتا ہے۔ تاہم ہندی مذاہب میں اسے وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا، خصوصاً بودھ مت، ہندو مت اور جین مت میں۔ مشرقی ایشیا میں سواستیکا ایک چینی لفظ ہے جسے زیادہ تر بودھ مت کی کلاسیکی کتابوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ یورپ میں بھی اس کے استعمال کی قدیم تاریخ ہے۔ جدید تاریخ میں اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغربی یورپ میں جرمنی کی نازی پارٹی نے 1920ء میں اسے اپنی جماعت کے نشان کے طور پر منتخب کیا تھا۔ 

نازی اسے آریائوں کی نسل کی نمائندگی کرنے والے نشانی کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ آریا نسل کے لوگ دنیا کی تمام اقوام کے مقابلے میں ہر لحاظ سے ارفع و اعلیٰ ہیں اور انہیں دنیا پر حکم رانی کرنے کا حق ہے۔ ہٹلر 1933ء میں اقتدار میں آیا تو اس نے نازی پارٹی کے جھنڈے پر سواستیکا کولازمی قرار دے دیا اور پھر اسے جرمنی کا قومی پرچم بنا دیا گیا تھا۔ اس وقت سے سواسیتکا کا تعلق نازی ازم، فاشزم اور گوروں کی بالادستی جیسے نظریات سے جڑ گیا۔ 

تاہم بعد میں جرمنی اور دیگر ممالک میں ان معنوں میں اس کے استعمال پر پابندی عاید کردی گئی تھی جو آج تک برقرار ہے۔ آج بھی کئی سیاسی انتہا پسند اور نیونازی گروپ مثلاً رشین نیشنل یونٹی، سواستیکا یا اس سے ملتے جلتے نشانات استعمال کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اسے دولت اور خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بھارت اور نیپال میں بیلٹ پیپرز پر دائرے کی شکل میں بنائے گئے سواستیکا کی مہر ثبت کی جاتی ہے۔

تازہ ترین