• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس، خیبر پختونخواہ، جنید خان سے خصوصی گفتگو

ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس، خیبر پختونخواہ، جنید خان سے خصوصی گفتگو

انٹرویو :سلطان صدیقی، جاوید علی خان ،پشاور

(عکّاسی :تنزیل الرحمٰن بیگ)

پاکستان میں کھیلوں کی مقبولیت اور فروغ میں صوبۂ خیبر پختون خوا کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس صوبے سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت کھلاڑیوں نے دُنیا بَھر میں پاکستان کا نام روشن کیا اور آج بھی اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ صوبے کے نوجوان کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور دُور دراز علاقوں سے نکال کر مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس، خیبر پختون خوا خدمات انجام دیتا ہے، جس کی سربراہی اس وقت23جنوری 1982ء کوپیدا ہونے والے ایک ذہین و محنتی ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس، خیبر پختون خوا،جنید خان کے پاس ہے۔وہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں ایم ایس کے علاوہ ڈیولپمنٹ اکنامکس میں ایم ایس سی، بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے، ایم بی اے (فنانس) اور ایل ایل بی بھی کر چُکے ہیں۔ انہوں نے 2006ء میں پبلک سروس کمیشن، خیبر پختون خوا کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور 27جنوری 2008ء کو پراوِنشل مینجمنٹ سروس میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت وہ گریڈ 18میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جنید خان نے پی ایم ایس آفیسرز کے66ویں کورس کے جائزہ امتحان میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کی۔

بعدزاں، 2010ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت سی ایس ایس کا امتحان دیا اور پاکستان بَھر میں 20ویں پوزیشن حاصل کی۔ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز فروری 2008ء میں محکمۂ خزانہ، خیبر پختون خوا میں سیکشن آفیسر کی حیثیت سے کیا اور اس عُہدے پر اگست 2008ء تک تعیّنات رہے۔ ستمبر 2009ء سے اکتوبر 2010ء تک اسسٹنٹ کمشنر، درگئی (مالاکنڈ)، دسمبر 2010ء سے جون 2012ء تک ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ مینجمنٹ، ڈائریکٹوریٹ آف پراجیکٹس، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ، فاٹا، جون 2012ءسے نومبر 2012ء تک پروجیکٹ ڈائریکٹر، ایریا ڈیولپمنٹ پروجیکٹ برائے فرنٹیئر ریجنز، دسمبر 2012ء سے جنوری 2014ء تک پی اینڈ ڈی فاٹا میں چیف اکنامسٹ، فروری 2014ءسے فروری 2015ء تک ڈپٹی سیکریٹری ایڈمنسٹریشن، پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ، خیبر پختون خوا، فروری 2015ء سے اپریل 2016ء تک وزیرِ اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی سیکریٹری اور اپریل 2016ء سے فروری 2017ء تک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، کوہاٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پھر انہیں ڈائریکٹر جنرل اسپورٹس، خیبر پختون خوا تعیّنات کیا گیا اور اس وقت اسی عُہدے پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں صوبے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے ان کا خصوصی انٹرویو کیا، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س:ڈی جی اسپورٹس کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ نے صوبے میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے؟

ج:ڈائریکٹوریٹ جنرل آف اسپورٹس نے پچھلے 4برس سے کھیلوں کی سرگرمیوں میں اضافے پر اپنی توجّہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں سالانہ ترقّیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کے حجم میں اضافے سے اسپورٹس کے شعبے میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔ ہم نے تین پہلوئوں پر خصوصی توجّہ دی۔ صوبے بَھر میں کھیلوں کے فروغ کے لیے انفرا اسٹرکچر کا قیام، ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس کی ری اسٹرکچرنگ، تزئین و آرائش اور عملے کی اپ گریڈیشن اور زیادہ سے زیادہ مقابلوں کا انعقاد۔ خیال رہے کہ اسپورٹس کا شعبہ کھلاڑیوں کے دَم ہی سے قائم ہے۔ اگر ہم انہیں سہولتیں اور مواقع فراہم نہیں کریں گے، تو کھیلوں کو کیسے فروغ ملے گا۔ 

یہی وجہ ہے کہ ہم نے جامع ری اسٹرکچرنگ اور پائے دار اصلاحات پر خصوصی توجّہ دی، جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور نئے مالی سال میں کھیلوں کی سرگرمیوں کو مزید فروغ ملے گا۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ ہمیں سابق سیکریٹری کھیل، اعظم خان کی، صوبے کے چیف سیکریٹری کے طور پر، معاونت حاصل رہی۔ ہم اُن کے تجربے کی روشنی میں اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کام یاب ہوئے۔ پھر چُوں کہ ڈی جی اسپورٹس کے عُہدے پر فائز ہونے سے قبل مُجھے فنانس اور پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ سمیت مختلف انتظامی عُہدوں پر کام کا موقع ملا، تو اس دوران حاصل ہونے والے تجربات کی وجہ سے بھی مُجھے بہتر منصوبہ بندی کرنے میں سہولت ملی اور یوں ہماری پلاننگ اور حکمتِ عملی پر اعتراضات اُٹھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ہماری کوشش ہے کہ فی الحال تحصیل اور ٹائون کی سطح پر کھیلوں کے میدان تعمیر کیے جائیں اور بعد ازاں یونین کائونسل کی سطح تک اس سلسلے کو توسیع دی جائے۔ 

اس وقت صوبے کی مختلف تحصیلوں میں 50سے زاید گرائونڈز تعمیر کیے جا چُکے ہیں، جب کہ بعض نئے اضلاع اور تحصیلوں جیسا کہ بلی ٹنگ، گمب، بکا خیل اور چترال وغیرہ میں بھی کھیل کے میدان بنائے جائیں گے اور جن علاقوں میں اراضی دست یاب نہیں، وہاں زمین کے حصول کے لیے کوششیں جاری ہیں۔7ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں سے 5میں اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیے جا چُکے ہیں۔ ایبٹ آباد میں 50کروڑ روپے کی لاگت سے اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے اور سوات میں اسپورٹس کمپلیکس کے قیام کی منظوری دی جا چُکی ہے۔ علاوہ ازیں، صوبے بَھر میں 20اسکولز میں بھی گرائونڈز بنائے گئے ہیں، جب کہ انفرااسٹرکچر کے حوالے سے 30مزید منصوبوں پر کام جاری ہے، جن میں اِن ڈور گیمز ہال، حیات آباد، اسپورٹس کمپلیکس، ہنگو، مردان میں ہاکی ٹرف کی تنصیب اور بنّوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ایتھلیٹکس ٹریکس کی تنصیب شامل ہیں۔ ان 30منصوبوں پر مجموعی طور پر 72کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ 

سابقہ صوبائی حکومت کی اسپورٹس میں دِل چسپی کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے گزشتہ 3برس کے دوران تواتر کے ساتھ انٹر ریجنل گیمز انڈر 19کا انعقاد کیا۔ 2016ء میں منعقد ہونے والے ان مقابلوں میں 6ہزار اور 2017ءمیں 8.5ہزار کھلاڑیوں نے حصّہ لیا، جب کہ 2018ء میں منعقدہ انڈر 23گیمز میں 11ہزار کھلاڑی شریک ہوئے۔ نیز، قائد اعظم انٹر پراوِنشل گیمز میں بھی ہمارے صوبے کے کھلاڑی بھرپور حصّہ لیتے ہیں اور حالیہ بین الصّوبائی مقابلوں میں ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والی 6لڑکیوں نے جوڈو کے مقابلوں میں طلائی تمغے حاصل کیے۔

س:ٹرف اور ٹارٹن ٹریک کی تنصیب پر کتنے اخراجات آئیں گے؟

ج:اسلامیہ کالج، پشاور کی کھیلوں کے حوالے سے خدمات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ سو، اسلامیہ کالج میں ٹرف بچھائی جائے گی۔ اس کے علاوہ 85لاکھ روپے مالیت کی ٹرف کلیننگ مشین بھی منگوائی گئی ہے۔ ہر ٹرف گرائونڈ کی الگ مشینری ہو گی، جو وہاں مستقل موجود رہے گی۔ بنّوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور کوہاٹ میں ٹارٹن ٹریک بچھانے اور پشاور میں ٹریک کی تبدیلی پر مجموعی طورپر 36کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ بنّوں میں ٹرف کی تنصیب مکمل ہو چُکی ہے، جس پر 5.5کروڑ روپے لاگت آئی، جب کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان، کوہاٹ اور چارسدّہ میں ٹرف کی تنصیب پر کم و بیش 35کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔

س :اسپورٹس کے لیے تعمیر کر دہ انفرااسٹرکچر اور فراہم کردہ سہولتوں کی نگرانی کون کرے گا؟

ج:کھیل کے میدانوں اور دیگر سہولتوں کی نگرانی کے لیے مقامی سطح پر منتخب نمایندوں، ضلعی حُکّام اور مختلف کھلاڑیوں پر مشتمل نگراں کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور ان کمیٹیز کے ارکان کو باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی ہے۔ یہ کمیٹیز ہی گرائونڈز کی دیکھ بھال اور ٹورنامنٹس وغیرہ کی فیس کا تعیّن کریں گی۔ ان کمیٹیز کے لیے قانون و ضوابط کا تعیّن کیا جا رہا ہے۔ اے کیٹیگری میں شامل میدانوں میں سیاسی اجتماعات پر پابندی ہو گی۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اے کیٹیگری کے گرائونڈز میں جلسوں کے انعقاد کے لیے کسی کو بھی این او سی جاری نہ کریں۔

س:کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدمات کیے جا رہے ہیں؟

ج:کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے میڈلز جیتنے والے کھلاڑیوں کو دی جانے والی انعامی رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ڈیلی الائونس بھی بڑھایا گیا ہے اور ایک جامع پیکیج کے تحت 2016ء سے میڈلز جیتنے والے کھلاڑیوں کو تعلیمی وظائف بھی دیے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ خیبر پختون خوا وہ واحد صوبہ ہے کہ جہاں میڈلز جیتنے والے کھلاڑیوں کو میٹرک تک ایک ہزار، انٹر تک 2ہزار، گریجویشن تک 3ہزار اور ماسٹرز تک 4ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جارہا ہے۔ جو کھلاڑی مقابلوں میں شرکت کے لیے صوبے سے باہر جاتے ہیں، ان کے لیے اسپانسر شپ کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈوومنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے اور تنگ دستی کے شکار ماضی کے چیمپئنز کو وَن ٹائم گرانٹ بھی دی جا رہی ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کے دُور دراز اور پس ماندہ اضلاع، ٹانک اور ہنگو میں کھیلوں کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ ان سہولتوں سے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، اورکزئی اور کُرّم ایجینسی وغیرہ کے کھلاڑی بھی مستفید ہوں گے۔ اس وقت بام خیل، صوابی میں 20کروڑ روپے مالیت کے ایک منصوبے پر کام جاری ہے، جس کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو گا۔ پشاور کے ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن بھی جاری ہے، جس پر 138کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ اپ گریڈیشن کے نتیجے میں اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 18ہزار سے بڑھ کر 32ہزار ہو جائے گی۔ 

خوش قسمتی سے پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختون خوا کے نوجوان زیادہ با صلاحیت کرکٹر ثابت ہوتے ہیں اور تحصیل کی سطح پر گرائونڈز کی تعمیر سے دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ بہترین کرکٹرز بھی سامنے آئیں گے۔ ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے طرز پر ایک اکیڈمی کی تعمیر بھی شامل ہے، جس میں نوجوان کرکٹرز کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے گا۔ پشاور ہی میں ایک ایتھلیٹکس ٹریک بھی بچھایا جا رہا ہے اور سائیکلنگ کے لیے ویلوڈ روم بھی بنایا جا رہا ہے۔ یونین کائونسلز میں گرائونڈز کی تعمیر سے مقامی سطح پرکھیلوں کو فروغ ملے گا اور صوبائی و قومی سطح کی ٹیموں کے لیے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔ یہ سب کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود ہی کے لیے کیا جا رہا ہے۔

س :ڈائریکٹوریٹ آف اسپورٹس کے ملازمین کی بہتری اور اپ گریڈیشن کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج :ڈی جی اسپورٹس کا چارج سنبھالنے کے بعد مَیں نے دیگر اصلاحات کے ساتھ منظوری کے لیے حکومت کے سامنے ملازمین کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی پیش کیا، جسے حکومت نے نہ صرف منظور کیا، بلکہ محکمۂ خزانہ نے باقاعدہ اعلامیہ بھی جاری کیا۔ اس منصوبے کے تحت ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسر کو ریجنل اسپورٹس آفیسر کا درجہ دیا گیا ، جس کا گریڈ 18ہو گا، جب کہ دیگر اضلاع میں ڈسٹرکٹ اسپورٹس افسران کو 16ویں سے 17ویں گریڈ میں ترقّی دی گئی ہے۔ اس اپ گریڈیشن سے نچلی سطح کے ملازمین کو بھی فائدہ پہنچا اور اب وہ دل جمعی کے ساتھ کھیلوں کے فروغ کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، اپ گریڈیشن کی منظوری کے بعد اب ہم سروس رُولز پر کام کر رہے ہیں۔

س :وزیر باغ، پشاور میں واقع گرائونڈ کو ہر دَورِ حکومت میں نظر انداز کیا گیا اور اب اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس علاقے کی گنجان آبادی کو کھیلوں کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے بھی کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے؟

ج :پشاور ٹائون وَن کی حدود میں واقع تاریخی وزیر باغ 120کنال پر مشتمل ہے، جس میں سے 80کنال پر پراوِنشل ہائوسنگ اتھارٹی (پی ڈی اے) کثیر المنزلہ فلیٹس بنانا چاہتی ہے، جب کہ بقیہ 40کنال محکمۂ کھیل کی ملکیت ہے۔ اس اراضی کی ملکیت کے حوالے سے عدالت میں مقدّمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں قبضہ مافیا اور پی ڈی اے فریق تھے اور گزشتہ 5برس سے عدالت نے حکمِ امتناعی دے رکھا تھا۔ جب ہم نے حالات کا جائزہ لیا، تو پتا چلا کہ یہ زمین محکمۂ کھیل کی ملکیت ہے۔ 

پھر ہم نے اس مقدّمے میں فریق بننے کی درخواست دی۔ اب عدالت نے حکمِ امتناعی ختم کر دیا ہے اور اس اراضی پر گرائونڈ کی تعمیر کے لیے ٹینڈر بھی منظور ہو چُکا ہے۔ نیز، کنٹریکٹر کو ورک آرڈر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ وزیر باغ میں گرائونڈ کی تعمیر سے مقامی نوجوانوں کو کھیل کُود کی سہولتیں میسّر آئیں گی۔ علاوہ ازیں، پشاور میں تحصیل کی سطح پر گرائونڈ کی تعمیر کے لیے حکومت نے محکمۂ کھیل کو اراضی منتقل کر دی ہے اور گڑھی بلوچ گرائونڈ کی منظوری دی جا چُکی ہے، جب کہ میرہ کچوڑی کے علاقے میں میدان کی تعمیر کے لیے افغان مہاجرین کے کیمپ کی زمین کو ہم وار کیا گیا ہے۔ ہم ریگی اور حیات آباد فیز تھری گرائونڈ کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔ اسے پی ڈی اے تعمیر کرنا چاہتی ہے، جب کہ ہم اسے لیز پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

س :صوبائی اسپورٹس پالیسی میں کتنی پیش رفت ہو ئی ہے؟

ج :سابقہ صوبائی کابینہ نے اپنی نوعیت کی پہلی خیبر پختون خوا اسپورٹس پالیسی کی منظوری دی۔ اس پالیسی کے تحت سرکاری و نجی تعلیمی ادارے کھیلوں کے فروغ کے لیے نرسریز کا کام انجام دیں گے۔ مذکورہ پالیسی کے تحت اسپورٹس کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے گا اور اسکولز کی سطح پر کھیلوں کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی، جب کہ نیا ٹیلنٹ سامنے لانے کے لیے بڑے پیمانے پر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی صوبائی سطح پر اسپورٹس مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جب کہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں سہولتوں اور انعامات کی فراہمی کا طریقۂ کار بھی پالیسی کا حصّہ ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین