• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور پریس کلب
پشاور پریس کلب

سلطان صدیقی ،پشاور

(عکّاسی :فرمان اللہ جان )

افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے گیٹ وے، پشاور میں اخبارات و رسائل کا آغاز تحریکِ آزادی کے دَوران ہی ہو گیا تھا۔ بابائے قوم، حضرت قائدِ اعظم محمّد علی جناح کے 1935ء اور1945ء میں صوبے کے دوروں کی خبریں مقامی اخبارات، بالخصوص’’ دی خیبر میل‘‘ پشاور کی زینت بنیں، تاہم پشاور میں صحافیوں کے مل بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں تھی۔ کبھی اِدھر، تو کبھی اُدھر مجلس جم جایا کرتی ۔ اس ضمن میں پہلی بار 1960ء میں اُس وقت کی حکومت نے پشاور صدر میں واقع تاریخی’’ ڈینز ہوٹل‘‘ کا ایک کمرا صحافیوں کے لیے مخصوص کردیا، جسے’’ پریس روم‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ تاریخی ہوٹل اب ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ’’ ڈینز ٹریڈ سینٹر‘‘ کی دیوہیکل عمارت کھڑی ہے۔ ڈینز ہوٹل کے مذکورہ کمرے میں پریس روم لگ بھگ چار سال تک قائم رہا۔ احسان طالب اُس کے انچارج اور مقصود شفقی سیکرٹری تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پریس روم میں ایک رجسٹر رکھا گیا تھا، جس میں صحافی اپنی آمد و رفت کے اوقات کا اندراج کیا کرتے تھے، ایک بار اس رجسٹر کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ایک صحافی کا سب سے زیادہ آنا جانا ہے، جس پر ملازم سے دریافت کیا گیا کہ وہ اس قدر کثرت سے کیوں آتے ہیں؟ تو پتا چلا کہ وہ پریس روم آتے ہی باتھ روم جاتے ہیں اور ہاتھ منہ دھو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اُس وقت صحافیوں کی تعداد ایک درجن سے بھی کم تھی۔

پشاور پریس کلب

1964ء میں چوک یادگار، پشاور میں میونسپل کمیٹی کے دفاتر قائم کیے گئے، تو پریس روم وہاں منتقل کر دیا گیا اور اُسے’’ پریس کلب‘‘ کا نام دیا گیا، تاہم یہاں بھی پریس کلب زیادہ عرصے نہ چل سکا، کیوں کہ تین برس بعد 1967ء میں میونسپل کمیٹی کے دفاتر ہشت نگری منتقل کیے گئے، تو میونسپل کمیٹی کی اس تاریخی عمارت کو گرا دیا گیا، جہاں آج کل بینک اسکوائر کی بلڈنگ قائم ہے۔ یوں عمارت کی مسماری کے سبب پشاور کے صحافی بھی پریس کلب سے محروم ہوگئے۔ یہ سلسلہ آٹھ برس جاری رہا۔ اس دَوران افضل نیوز ایجینسی، صادق کمیشن ایجنٹس اور سرحد نیوز ایجینسی ہی صحافیوں کا ٹھکانہ رہی۔ 1974ء میں اُس وقت کے سینئر وزیر، حیات محمّد خان شیرپائو نے صحافیوں کے مطالبے پر عجائب گھر کے احاطے میں واقع دو کمروں اور ایک ریڈنگ روم پر مشتمل آرکائیوز لائبریری دوسری جگہ منتقل کر کے عمارت پریس کلب کے نام کر دی اور یوں صحافیوں کو ایک ایسی باعزّت جگہ مل گئی، جو گورنر، وزیراعلیٰ ہائوس اور سِول سیکرٹریٹ کے قریب تھی۔ یہاں صحافی حالاتِ حاضرہ پر بحث مباحثے کرتے، پریس کانفرنسز ہوتیں اور راتوں کو گپ شپ کی محفلیں بھی جمتیں۔ 

صحافیوں کی تعداد بڑھی، تو میوزیم کے خُوب صورت وسیع لان کو کھیل کود اور تقریبات کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا، جس پر1998 ء میں وزیراعلیٰ، سردار مہتاب احمد خان کی ہدایت پر صوبائی حکومت نے پریس کلب کے لیے نہ صرف یہ کہ ایک اور مقام پر قطعۂ اراضی دینے کی منظوری دی بلکہ خود اُنہوں نے 28اکتوبر1998ء کو نئی عمارت کی تعمیر کا سنگِ بنیاد بھی رکھا۔ 25 جولائی2001ء کو اُس وقت کے گورنر خیبر پختون خوا، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سیّد افتخار حسین شاہ نے پریس کلب کی نو تعمیر شدہ عمارت کا افتتاح کیا۔ بعدازاں، اُنھوں نے اس عمارت سے متصل دو کنال کا سرکاری پلاٹ بھی پریس کلب کے نام کر دیا، جہاں کلب کا خُوب صُورت لان بنایا گیا۔ اس لان کا افتتاح گورنر، افتخار حسین شاہ نے 17فروری2003ءکو کیا۔ 

پشاور پریس کلب

اکرم خان درانی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دَور میں پشاور پریس کلب سے منسلک صحافیوں کو’’ درانی میڈیا کالونی‘‘ میں آسان اقساط پر پانچ مرلے کے پلاٹس دینے کا اعلان کیا۔ اُن کے بعد، امیر حیدر خان ہوتی نے اپنے دَور میں پلاٹس کا سائز پہلے پانچ مرلے سے سات اور پھر دس مرلے کرنے کے علاوہ، کالونی میں ترقیّاتی کاموں کی بھی منظوری دی، جب کہ اُنھوں نے ہی پریس کلب کے لیے سالانہ گرانٹ منظور کی۔ سابق وزیراعلیٰ، پرویز خٹک نے اپنے دَور میں نہ صرف یہ کہ پریس کلب کی سالانہ گرانٹ دُگنی کر دی، بلکہ درانی میڈیا کالونی میں صحافیوں کے پلاٹس کی بقایا اقساط بھی سرکاری خزانے سے ادا کر دیں اور کالونی میں ترقیّاتی عمل تیز کروایا۔ ساتھ ہی’’ نیو پشاور سٹی‘‘ میں میڈیا انکلیو کا بھی وعدہ کیا۔

پشاور پریس کلب

سیاسی جدوجہد اور جمہوری اقدار کی پاس داری میں تو مُلک کے ہر چھوٹے بڑے پریس کلب کا نمایاں حصّہ ہے، تاہم چالیس سال سے مسلسل وار رپورٹنگ کا مرکز ہونے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے دَوران پشاور پریس کلب خود بھی ایک خُود کش بم بار کا نشانہ بنا۔22دسمبر2009ء کو پریس کلب میں سابق ایم این اے، مولانا عبدالاکبر چترالی کی پریس کانفرنس جاری تھی کہ دن گیارہ بج کر چالیس منٹ پر خود کُش حملہ ہوگیا۔ خود کُش بم بار، عام شہری کے رُوپ میں پریس کلب پہنچا، تو ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کار، ریاض الدّین نے اُس کی معمول کے مطابق تلاشی لی اور اندر جانے دیا، تاہم شک پر اُسے پھر روکا اور دوبارہ تلاشی لینی شروع کی، تو بم بار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یوں ریاض الدّین کی قربانی نے جانی نقصان کو کم سے کم کیا۔ اس دھماکے میں ریاض الدّین کے علاوہ، پریس کلب کے اکائونٹنٹ، سیّد محمّد اقبال شاہ اور پریس کلب کے سامنے کی سڑک سے رکشے پر گزرنے والی ایک خاتون، روبینہ شاہین، جو اے جی آفس میں آڈیٹر تھیں، شہید ہوئیں جب کہ پریس کلب کے دو ملازمین سمیت درجن بھر افراد زخمی ہوئے۔ اس خود کُش دھماکے کی ذمّے داری کسی عسکریت پسند تنظیم نے قبول نہیں کی۔ اس واقعے کے بعد یو ایس ایڈ کے تعاون سے فاٹا سیکرٹریٹ نے پریس کلب کے داخلی گیٹ کے پاس دو بم پروف کمرے تعمیر کروائے۔ 

صحافیوں نے حملے سے خوف زدہ ہونے کی بجائے، جمہوریت کی راہ اپناتے ہوئے 30دسمبر کو بروقت سالانہ انتخابات منعقد کروائے ۔2014ء میں پریس کلب کے 50سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ خیبر پختون خوا کے صحافیوں نے بھی مُلک میں جمہوریت کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر دَور میں قربانیاں دیں۔ ضیاء الحق کے دَور میں درجنوں صحافی گرفتار کرکے مُلک کی مختلف جیلوں میں بند رکھے گئے، تاہم اُنھوں نے حق اور سچ کا راستہ تَرک نہیں کیا۔ موجودہ پریس کلب میں سابق گورنر اور وفاقی وزیر داخلہ، جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کی پریس کانفرنس کے موقعے پر پارٹی قیادت کو اپنے خلوص کا ثبوت دینے کے لیے پی پی پی کے رہنما، خورشید خان ایڈووکیٹ نے پستول سے اپنے ہاتھ پر فائرنگ کر کے خود کو زخمی کیا، تو پریس کلب انتظامیہ نے اس اقدام پر اُن کے کلب میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ مسلم لیگ (ق) کے اُس وقت کے صوبائی صدر، امیر مقام کے حامیوں نے ایک موقعے پر پریس کلب پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی، جس پر کلب انتظامیہ نے اُن کے بھی پریس کلب میں داخلے پر پابندی اور تقریبات کی کوریج کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، تاہم بعدازاں روایتی جرگوں کے ذریعے بات چیت سے معاملہ حل ہوا اور ان پر عاید پابندی ختم کر دی گئی۔ پشاور پریس کلب نے صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے اور اس میں نکھار کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔ 

پشاور پریس کلب

اس ضمن میں انٹر نیوز اور یو ایس ایڈ سے معاہدے بھی کیے ہیں، جن کے تحت ان اداروں نے وقتاً فوقتاً رپورٹنگ، فوٹو گرافی، ویڈیو ریکارڈنگ اور کمپیوٹر سے متعلق مختلف تربیتی پروگرامز کا انعقاد کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسی طرح صحافیوں اور اُن کی فیملیز کے لیے مختلف اوقات میں فِری میڈیکل کیمپس اور کھیلوں کے ٹورنامنٹس کا انعقاد بھی پریس کلب کی روایت بن چکا ہے۔ پشاور پریس کلب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ممتاز کشمیری حریّت پسند رہنما، مقبول بٹ، جنہیں بعدازاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے جیل میں پھانسی دے دی تھی،66-1964ء اور70-1968ء تک پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری رہے ۔

پریس کلب کے چیئرمین اور صدور

قلندر مومند1964ء‘مرتضیٰ ملک 1966ء‘ احسان طالب 1968ء‘اشرف مرزا 1970ء‘مرتضیٰ ملک 1972ء‘مقبول کاشمیری 1974ء‘ اے آر جلال 1976ء‘شمشاد صدیقی 1980ء‘مقبول کاشمیری 1989ء‘ بہروز خان 1993ء اور سید بخار شاہ 1995میں پریس کلب کے چیئرمین رہے ‘ اس کے بعد چیئرمین کے عُہدے کو تبدیل کرکے صدر کر دیا گیا، جس کے تحت سیّد بخار شاہ 1997ء‘ فیض الرحمٰن 1998ء‘ جہانگیر خٹک 1999ء‘ سہیل قلندر 2000ء‘ انتخاب امیر 2002ء ‘ جان افضل 2003ء‘ محمّد ریاض 2004ء‘ سیّد بخار شاہ 2006ء‘ محمد ریاض 2007ء ‘ شمیم شاہد 2009ء‘ سیف الاسلام سیفی 2011ء‘ ناصر حسین 2013ء‘ سیّد بخار شاہ 2014ءاور پریس کلب کے موجودہ صدر، عالم گیر خان ہیں ۔

پشاور کے سینئر صحافی

1950ء ‘ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں کے سینئر صحافیوں میں، جن میں کئی ایک اب دنیا میں نہیں رہے‘ احسان طالب‘ عسکر علی شاہ‘ مقبول بٹ‘ قدّوس صہبائی‘ قلندر مومند ‘ راجا محمّد اصغر‘ ایم آئی لشکر‘ اصغر سرحدی‘ اے کے امین‘ نعیم شاہد‘ یعقوب خان‘ غلام غوث صحرائی‘ سیّد عبد اللہ شاہ‘ ایس عبد الستّار غزالی‘ ایس ایم رضوی‘ شریف فاروق‘ اشرف مرزا‘ جوہر میر‘ احمد بخاری‘ حسن گیلانی‘ راحت ملک‘ سلیم علوی‘ شیخ سلیم اللہ‘ مقبول کاشمیری‘ اقبال ریاض‘ شمشاد صدیقی‘ ناشاد طاہر خیلی‘ مسعود انور شفقی‘ نواز صدیقی‘ حبیب الرحمٰن‘ حفیظ الفت‘ حفیظ قریشی‘ مرتضیٰ ملک‘ عبدالواحد یوسفی‘ باری ملک‘ میاں نعیم رضا‘ سیّد شکیل احمد‘ جمیل اختر‘ اے آر جلال‘ حافظ ثناء اللہ اور فیض الرحمن شامل ہیں۔

تازہ ترین