• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے مخالفین۔۔۔ احسان فراموشی نہ کریں

عمران خان کے مخالفین۔۔۔ احسان فراموشی نہ کریں

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان پاکستان کے وہ واحد سیاست دان ہیں، جو اپنے خلاف ’’ایشوز‘‘ بنانے کے لیے اپنے مخالفین کو زحمت نہیں دیتے، بلکہ اس معاملے میں اُن سے ’’تعاون‘‘ کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً خود ہی ایسے تنازعات پیدا کردیتے ہیں کہ جو اُن کے مخالفین کے ذہنوں میں بھی نہیں آسکتے۔ اب اسے اُن کے مخالفین کی سیاسی نا اہلی ہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان ایشوز سے کماحقہ یا نتیجہ خیز فائدہ نہیں اُٹھا پاتے۔ پھر عمران خان کا یہ کمال بھی ملاحظہ ہو کہ جب اُن کا پیدا کردہ کوئی تنازع پس منظر میں جانا شروع ہوتا ہے اور اُس پر دھول پڑنے لگتی ہے، تو وہ مضطرب ہو جاتے ہیں اور بلا تاخیر اپنے خلاف کوئی نیا متنازع معاملہ پلیٹ میں رکھ کر مخالفین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں کہ’’ لیجیے جناب طبع آزمائی کیجیے۔‘‘ جب سے عمران خان سیاست میں سرگرمِ عمل ہوئے ہیں، تب سے اب تک ایسے واقعات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ مثلاً جب وہ تسلسل کے ساتھ تضاد بیانی کا شکار ہوتے تھے، تو اُن کا نام ’’یو ٹرن خان ‘‘پڑ گیاتھا۔ یہ اُن کے غیر ذمّے دارانہ طرزِ عمل اور روّیوں کی انتہا تھی کہ اُنہیں پسند کرنے والے بھی اُن پر اعتماد کے لیے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ 

یہی وجہ ہے کہ خود عمران خان اس بات کا بار ہا اعتراف کر چُکے ہیں کہ ماضی میں جب وہ لوگوں کے پاس جا کر اُنہیں پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کی دعوت دیتے ، تو اُن کا مذاق اُڑایا جاتا اور لوگ انہیں چائے پِلا کے فارغ کر دیتے۔ عمران خان کی ماضی کی سیاست اس طرح کے بے شمار واقعات سے پُر ہے۔ اگر ہم ماضیٔ قریب ہی کا ایک سرسری سا جائزہ لے لیں، تو یہ اندازہ ہو گا کہ عمران خان کے مزاج میں اب بھی کوئی بڑی تبدیلی رُونما نہیں ہوئی۔

اگر ان کمالات کا جائزہ لینے کا آغاز چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف کی ریہام خان سے ملاقات سے کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ وہ اسلام آباد میں جاری دھرنے کے دوران ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے عمران خان کا انٹرویو لینے آئی تھیں یا بھیجی گئی تھیں۔ انٹرویو کے دوران ہی یا ریہام سے دوسری یا تیسری ملاقات میں خان صاحب نے اُنہیں ’’فرسٹ لیڈی‘‘ بننے کی پیش کش کردی۔ ’’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘‘ کے مصداق مطلقہ اور بال بچّے دار ریہام کو اور کیا چاہیے تھا۔ لہٰذا، انہوں نے شاید ’’ہاں‘‘ کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مناسب نہ سمجھا، مبادا کہیں دیر نہ ہو جائے، لیکن اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ 

اس واقعے نے عمران خان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ۔ تاہم، کمال یہ ہے کہ جب غیر اعلانیہ طور پر ریہام خان سے تمام معاملات طے پا گئے، تو انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا کہ’’ مَیں نیا پاکستان اس لیے بنانا چاہتا ہوں کہ دوسری شادی کر سکوں۔‘‘ اس واقعے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر رُکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والی عائشہ گلالئی اور عمران خان کا بلیک بیری ’’ہاٹ ایشو‘‘ بنا۔ اس موقعے پر عائشہ گلالئی نے ہر فورم پر بِلاجھجک و بے دھڑک عمران خان پر یہ الزام عاید کہ وہ انہیں قابلِ اعتراض ایس ایم ایس بھیجتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی کئی روز تک چلتا رہا اور اس دوران مخالفین نے عمران خان کی جانب سے مبیّنہ طور پر عائشہ گلالئی کو بھیجے جانے والے پیغامات کا خوب ڈھنڈورا پیٹا اور اُنہیں رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

عمران خان کے مخالفین۔۔۔ احسان فراموشی نہ کریں

بعد ازاں، عمران خان نے اُس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے ہوئے ایوان میں جانے سے انکار کر دیا کہ جہاں جانے کے لیے وہ کئی برس سے مسلسل جدوجہد اور تگ و دو میں مصروف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق، ایوان کے غیر حاضر ارکان میں چیئرمین، پی ٹی آئی نہ صرف سرِ فہرست تھے، بلکہ وہ قومی اسمبلی میں واحد پارلیمانی لیڈر تھے کہ جنہوں نے غیر حاضریوں کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اسی طرح پاکستان تحریکِ انصاف کے ارکانِ اسمبلی استعفے دینے کے بعد پارلیمنٹ میں واپس آگئے اور خود عمران خان بھی ایوان میں تقاریر اور بہ حیثیتِ رُکنِ قومی اسمبلی پوری تن خواہ اور تمام مراعات حاصل کرتے رہے، جس پر اُن کے مخالفین نے اُن کی ’’اُصول پسندی‘‘ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ 

یہ معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ اچانک عمران خان کی تیسری اہلیہ، بشریٰ بی بی کے چرچے شروع ہو گئے، جو ریہام خان کی طرح جوان بچّوں کی والدہ تو تھی ہیں، تاہم، اُنہیں مطلقہ بنانے میں مبیّنہ طور پر بڑا کردار خود خان صاحب نے ادا کیا اور یہ واقعہ نہ صرف سیاسی بلکہ غیر سیاسی حلقوں میں بھی زیرِ بحث رہا۔ اس موقعے پر عمران خان کے بعض مخالفین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چیئرمین، پی ٹی آئی بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کی ’’روحانیت ‘‘سے متاثر ہو کر اُن کے گھر جایا کرتے تھے، لیکن اسی دوران اُنہوں نے اُن کی ازدواجی زندگی میں ’’نقب‘‘ لگائی اور طلاق کے بعد عدّت کی متعیّنہ مدّت پوری ہونے سے قبل ہی اُن سے بیاہ رچا لیا۔ عمران خان کے اس اقدام پر اُن پہ خاصی تنقید ہوئی، بالخصوص گھریلو خواتین نے کپتان سے انتہائی بے زاری کا اظہار کیا۔ یہ معاملہ بھی اخبارات، ٹی وی چینلز اور مخالفین کی جانب سے الزامات اور بیانات کی شکل میں کافی عرصہ زیرِ بحث رہا۔

جوں ہی عمران خان کی تیسری شادی کے تنازعے کی دُھول بیٹھنے لگی، تو ریہام خان کی کتاب کی مبیّنہ اشاعت ایک ہنگامے کی شکل میں سامنے آگئی۔ اس موقعے پر عمران خان نے قدرے عقل مندی سے کام لیا اور خود پسِ منظر میں رہتے ہوئے اپنے ایک ساتھی اور اداکار، حمزہ علی عباسی کو اس ہنگامے سے نمٹنے کی ہدایت کر دی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کتاب کے مبیّنہ مندرجات اور تفصیلات کا تذکرہ ریہام خان نے نہیں کیا، بلکہ انہیں خود تحریکِ انصاف نے اُچھالا۔ یہ معاملہ ابھی ختم تک نہیں ہوا، البتہ قدرے دب ضرور گیاہے۔ تاہم، عمران خان کو خاموشی پسند نہیں آئی اور نگراں حکومت کے قیام کے موقعے پر ایک نئے تنازعے نے جنم لیا۔ ہوا یوں کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا کے نگراں وزیرِ اعلیٰ کے لیے ایک شخصیت کا انتخاب کیا تھا ۔

اُن کی ملاقات بھی بنی گالا میں عمران خان سے کروائی گئی ، لیکن چند روز کی خاموشی کے بعد پی ٹی آئی نے کوئی معقول وجہ بتائے بغیر خود ہی یہ نام مسترد کر دیا، جس پر طرح طرح کی افواہیں سامنے آئیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے لیے پہلے ناصر کھوسہ کے نام پر رضا مندی ظاہر کی، لیکن پھر یہ کہتے ہوئے نام واپس لے لیا کہ غلط فہمی کے سبب ناصر کھوسہ کو نام زد کیا گیا تھا۔ اس اہم ترین قومی معاملے پر عمران خان کے اس بچکانہ طرزِ عمل کو بھی خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

عمران خان کے مخالفین۔۔۔ احسان فراموشی نہ کریں

عام انتخابات 2018ء کے لیے ٹکٹس کی تقسیم کے دوران بھی بنی گالا میں بھرپور سیاسی ناپختگی اور غیر سنجیدگی نظر آئی، جس پر مُلک بَھر کے سیاسی حلقوں نے پی ٹی آئی کا مذاق اُڑایا اور عمران خان پر کڑی نکتہ چینی کی۔ اسی طرح جب چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف نے عُمرے کا قصد کیا، تو اہلیہ، بشریٰ بی بی کے ساتھ اپنے انتہائی قریبی دوست، زلفی بخاری کو بھی ساتھ لے جانے کا عزم کیا، حالاں کہ یہ بات عمران خان کے علم میں تھی کہ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے، لیکن زعم میں مبتلا خان صاحب نے اپنے دوست کو تسلّی دیتے ہوئے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ تاہم، جب وہ اپنے دوست کے ساتھ نجی طیّارے میں سعودی عرب روانہ ہونے والے تھے، تو زلفی بخاری کو امیگریشن حُکّام نے روک لیا۔ اس موقعے پر عمران خان نے مبیّنہ طور پر نگراں وزیرِ داخلہ، اعظم خان کو فون کر کے اُن سے زلفی بخاری کے بیرونِ مُلک جانے کی اجازت طلب کی، جو فوراً مل گئی۔ جب یہ معاملہ منظرِ عام پر آیا، تو اس پر بھی خوب ہنگامہ آرائی ہوئی۔ 

مختلف ٹاک شوز میں عمران خان کے خوب لتّے لیے گئے اور اُن کے مخالفین نے واضح الفاظ میں اُن پریہ الزام عاید کیا کہ چوں کہ نگراں وزیرِ داخلہ کسی زمانے میں اُن کے اسپتال سے وابستہ رہ چُکے ہیں، اس لیے انہوں نے عمران خان کی ہدایت پر زلفی بخاری کو بیرونِ مُلک جانے کی اجازت دے دی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ عُمرے کے دوران اُن کی اہلیہ، بشریٰ بی بی، اداکارہ نور کے ساتھ سیلفیز بنوانے میں مصروف رہیں۔ خیال رہے کہ اداکارہ نور نے ماضی میں ایک ہندو سرمایہ دار سے شادی کی تھی اور ان کے ایک سابقہ شوہر، عمران خان کے بہت قریبی دوست بھی ہیں،تو اس معاملے پر بھی خاصی لے دے ہوئی۔

اب آگے چلیے۔ عُمرے کی ادائیگی کے کچھ ہی دن بعد عمران خان اپنی تیسری اہلیہ کے ساتھ رات گئے بابا فرید الدّین گنج شکرؒ کے دربار پر حاضری کے لیے پاک پتن پہنچ گئے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی، لیکن خان صاحب نے صاحبِ مزار کو سلام کرنے اور مزار پر فاتحہ پڑھنے کے ساتھ جب مزار کی دہلیز پر عقیدت سے سجدہ کیا اور چوکھٹ کو چوما (یقیناً اپنی بیگم کی ہدایت پر)، تو اس پر ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور مزاروں اور آستانوں میں عقیدت کے اس انداز کو شرک کی حد تک ناپسند کرنے والے افراد نے، جن کی اس مُلک میں ایک بہت بڑی تعداد ہے، سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان پر شدید تنقید کی۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے استقبال کے لیے مزار کے بہشتی دروازے کے فرش پر گلابوں کی چادر بچھائی گئی، جس پر بیٹھ کر بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر کو نہ صرف سرشاری سے دُعا مانگنے کا قرینہ بتایا، بلکہ اُن کے کان میں دُعائیہ کلمات بھی کہتی رہیں، جنہیں عمران خان دُہراتے رہے۔ 

یاد رہے کہ عمران خان نے اپنی ابتدائی زندگی کا تمام حصّہ مغرب میں گزارا اور وہ گویا مغربی تہذیب میں رچ بس گئے تھے۔ اسی وجہ سے اُنہیں’’ Play Boy ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، لیکن اب بشریٰ بی بی، جنہیں پہلے ’’پنکی پیرنی‘‘ کہا جاتا تھا، انہیں’’ Pray Boy‘‘ بنا رہی ہیں۔ سو، عمران خان کو یہ سب کچھ تو سیکھنا ہی پڑے گا۔ اس کے علاوہ اِن دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے بھاری رقوم کے عوض ٹکٹس فروخت کیے،بالخصوص خواتین کو ٹکٹس کی فراہمی کے حوالے سے خاصے قابلِ اعتراض معاملات ایک بڑے اسکینڈل کی شکل میں سامنے آنے والے ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عمران خان کے مخالفین یہ بتائیں کہ انہوں نے عمران خان کے خلاف کون سے کارنامے انجام دیے ہیں۔ عمران خان اور اُن کی جماعت نے تو خود اپنے لیے مسائل و تنازعات کھڑے کیے اور اس کے نتیجے میں مخالفین کی پوائنٹ اسکورنگ بھی انہی کے مرہونِ منّت ہے۔ سو، خان صاحب کے مخالفین احسان فراموشی کی بہ جائے اُن کے شکر گزار ہوں اور اپنے میڈیا وِنگز اور ٹاک شوز میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کی عقل پر ماتم کریں کہ عمران خان کی اس ’’فراخ دلی‘‘ کے باوجود وہ اپنے مقاصد میں کام یاب نظر نہیں آتے ۔

بشریٰ بی بی کا سیاسی کردار شروع ہو چُکا ہے

عمران خان کے مخالفین۔۔۔ احسان فراموشی نہ کریں

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان کی موجودہ اہلیہ، بشریٰ بی بی بھی اس وقت غیر محسوس طریقے سے اپنے شوہر کے لیے انتخابی مُہم چلانے میں مصروف ہیں۔ تاہم، اس بات کا علم صرف عمران خان اور اُن کے انتہائی قریبی دوستوں ہی کو ہے۔ بشریٰ بی بی، جنہیں اُن کے سیاسی حلقۂ احباب میں بھی ایک ’’روحانی شخصیت‘‘ کی حیثیت حاصل ہے، ایک طرف تو دَم درُود، وظائف اور عبادات کے مختلف طریقوں سے اپنے شوہر کی کام یابیوں کے لیے دُعا گو رہتی ہیں، تو دوسری جانب وہ اپنے حلقۂ احباب، بالخصوص ’’مریدین‘‘ پر بھی پوری طرح اثر انداز ہو رہی ہیں کہ وہ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کو کام یاب کروانے کے لیے نہ صرف ووٹ ڈالیں، بلکہ اپنے اپنے طور پر اُن کی کام یابی کے لیے راہ بھی ہم وار کریں۔ نیز، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بشریٰ بی بی اپنے اس مقصد میں غیر معمولی حد تک کام یاب ہیں۔ 

اس کا ایک مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب عمران خان لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ میں موجود تھے، تو پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے وہاں پہنچ کر ٹکٹ نہ ملنے پر مظاہرہ شروع کر دیا اور نعرے بازی اور احتجاج کرتے ہوئے دھرنا بھی دیا۔ اس مرحلے پر بشریٰ بی بی نے ان خواتین سے ملاقات کی، جنہوں نے اُنہیں بتایا کہ پنجاب میں ٹکٹس کی تقسیم میں خواتین کے ساتھ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوئی ہے۔ طویل عرصے سے پارٹی کے لیے کام کرنے والی خواتین کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور بعض ایسی خواتین کو ٹکٹ دیا گیا کہ جو پارٹی میں قطعی طور پر نو وارد ہیں۔ 

انہوں نے پارٹی کے لیے کبھی کوئی کام نہیں کیا اور اُن کا کوئی سیاسی پس منظر بھی نہیں ہے، بلکہ ذاتی سطح پر بھی اُن کی ساکھ اس حد تک خراب ہے کہ پارٹی میں اُن کا ہونا بھی پارٹی کے لیے کسی طور بھی مناسب نہیں۔ وہاں موجود ایک خاتون عینی شاہد کے مطابق، بشریٰ بی بی نے تمام خواتین کی باتیں تحمّل اور پوری توجّہ سے سُنیں اور پھر 5منٹ تک اُن سے گفتگو کی، جسے احتجاج کرنے والی ان تمام خواتین نے سَر جُھکا کر مکمل خاموشی سے سُنا اور پھر یہ کہا کہ ’’بی بی! ہم آپ کی باتوں پر عمل کریں گے۔ ہمیں ٹکٹ ملے یا نہ ملے، ہم انتخابی مُہم کے دوران پہلے سے زیادہ محنت کریں گے۔ ہماری آپ سے ملاقات اور بات چیت بھی ہمارے لیے کچھ کم نہیں۔‘‘ اس کے بعد یہ تمام خواتین عمران خان کے حق میں نعرے لگاتی ہوئی وہاں سے رخصت ہو گئیں۔

تازہ ترین