• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شریک حیات

فائزہ بتول

’’شادی‘ کسی بھی خاتون کی زندگی میں خوبصورت اور زبردست دور کا آغاز ہوتاہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کے جذبات کی دنیا میں خوب چکا چوند ہوتی ہے، لیکن پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ معاملات بہترین سے کم تر اور بدتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ کو سوچنا ہوتا ہے کہ آپ کو وہ رویہ قبول کرنا چاہیے جو کسی حال میں بھی آپ کے لیے قابلِ برداشت نہیں یا حالات میں بہتری لانے کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ درحقیقت یہ کوئی مناسب طرزِ عمل نہیں کہ آپ ان مسائل کی موجودگی کا انکار کرتی رہیں۔اگرکہیں کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں سب سے پہلے اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی مسئلے کو تسلیم کرنے سے ہی اس کاحل نکالا جا سکتاہے۔

شادی کے کچھ عرصے بعد ہی خواتین کی ایک عام شکایت ہوجاتی ہے کہ شوہر ان کی خوبصورتی اور ان کے کئے گئے کام کی تعریف نہیں کرتے۔ہر شوہر کامحبت کے اظہار کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔کچھ شوہر لفظوں کے ذریعے اپنی بیگم کی تعریف کر دیتے ہیں اور کچھ اپنے عمل اور کاموں کے ذریعے بیگم کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔ شوہر کا اپنی بیوی کو’’تمہارا شکریہ‘‘ کہنے کا ایک زبردست طریقہ مسکراہٹ میں بھی پوشید ہوسکتا ہے،لیکن اگر محبت کے اظہار کی بجائے وہ آپ کوگھر میں یا دوستوں اور رشتے داروں کے سامنے آڑے ہاتھوں لینے پر تلا ہوتو ایسا رویہ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح شوہر اور بیوی میں کسی بھی معاملے پر ایک دوسرے سے مختلف خیالات کا پایا جانا ایک عام سی بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں مختلف ماحول میں پلے بڑھے ہوں اور ان کا طرزِ زندگی ایک دوسرے سے الگ رہا ہو۔ مثال کے طور پر آپ کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ آپ کے شوہر موسیقی ،فلموں ، کامیڈی کے پروگراموں اور لباس کے انتخاب کے معاملے میں ایسے تصورات رکھتے ہیں جو آپ کی پسند ناپسند سے بہت مختلف ہیں۔اگر آپ کو اس طرح کا معاملہ در پیش آئے تو آپ آہستہ آہستہ انہیںاپنی پسند اور ناپسند کے بارے میں بتائیں،اگر وہ آپ کے مشوروں کا لحاظ نہ کریں، تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ وہ اپنے عادات میں بہت پختہ ہیں اور اس کے تبدیل ہونے کاامکان بہت کم ہے۔ کسی بھی دوانسانوں کے درمیان خیالات کے اختلاف کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے جسمانی یازبانی کسی بھی طرح کے استحصال کے سامنے بند باندھ دیں۔ اگر آپ پہلی دفعہ معاملات کو بگاڑ کی جانب جاتا دیکھ کر یہ امید کر تے ہوئے نہیں روکیں گی کہ مستقبل میں سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے تو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔اگر آپ ایسا کر یں گی تو صرف حالات کی خرابی کا شکار ہو جائیں گی۔محبت اور سخت گیری کے رویوں میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے۔ جب آپ کو دفتر میں رات دیر تک کام کرنا پڑے اور آپ کے شوہر کااصرار ہو کہ آپ فوراً گھر چلی آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کے شوہر کو آپ کے تحفظ کااحساس ہے۔ جب آپ کسی پارٹی میں ہوں اور آپ کو بار بار ان کی جانب سے ٹیلی فون آرہے ہوں تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ سخت گیری کے اظہار کے ذریعے جلد از جلد آپ کو گھر پردیکھنا چاہتےہیں۔

کسی بھی انسانی تعلق میں دولوگوں کے درمیان کسی بھی معاملے پر ناراضی کے جذبات کا پیدا ہوجانا ایک فطری امر ہے۔ مسئلے کے بارے میں بات کرنا اور اس کے حل کی جانب جانا وہ اصل کام ہے جس کی اس طرح کی صورتحال میں ضرورت ہوتی ہے،لیکن اگر آپ کےشوہر آپ کے غیر ارادی طور پر بولے گئے کسی لفظ پر آپ کو سزا دینے کے لیے تلےہوئے نظر آتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ معاملے کو بہت دور تک لے جانا چاہتے ہیں۔اس طرح کے رویے کے آگے بندباندھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ حال تو کیا مستقبل میں بھی آپ اور آپ کے شوہر کے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے ذاتی اور پیشہ ورانہ دائروں میں جدوجہد کرتے ہوئے وقتاً فوقتاًمشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے نشیب وفراز کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک سمجھ میں آنے والی حقیقت ہے کہ ہم سب اس طرح کی صورتحال سے عہدہ برآہونے کے لیے وقت اور ذہنی آمادگی چاہتے ہیں۔ اگر آپ کےشوہر دکھ کی کہانیاں بیان کر تے ہوئے مسلسل کہہ رہے ہوں کہ ان کے حالات میں بہتری نہیں آرہی تو یہ وہ مرحلہ ہے کہ آپ کو چوکس ہو جانا چاہیے۔ ہم نے لوگوں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ آج کل میاں بیوی کے تعلقات میں وہ پہلے جیسی محبت کا اظہار نہیں دیکھا جارہا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے شوہر آپ کو اتنے موبائل پیغامات اور کالیں نہ کرتے ہوںجتنی آپ انہیں کرتی ہیں،لیکن اگر وہ مہینوں تک آپ سے محبت بھری باتیں نہ کریں تو یہ وہ مرحلہ ہے کہ آپ اس سے بات کریں اور اگر اس بات چیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلے تو آپ کو سارے معاملے پر سنجیدہ غوروخوض کرنا چاہیے۔اسی طرح یہ ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ بہت سے شوہر گھر کے کام کرنے میں اپنی بیویوں کے مددگار نہیں ہوتے یا کم ازکم وہ کام کرتے بھی ہیں تو اتنے نہیں کرتے جتنے کام بیویاں کرتی ہیں۔ لیکن کچھ مرد جب گھر آتے ہیں تو گھر کے کاموں میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔ اگر آپ کا شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف آپ کی ہی ذمے داری ہے کہ آپ کھانا پکائیں،برتن دھویں اور کپڑے دھویں تو یہ ایسا معاملہ ہے جس کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔یہ وہ وقت ہے کہ جب آپ کو دل کے معاملات کو عمل سے جوڑنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے آپ اختلافات کو دور رکھ سکیں گی اور اپنے شوہر سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکیں گی ،بشرطیکہ یہ تعلقات آپ دونوں کے باہمی محبت اور عزت کے رویے کی بنیاد پر قائم ہوں۔

تازہ ترین