• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر

بنت بشیر،(لیکچرر،فضائیہ ڈگری کالج،کراچی)

شدید گرمی میں جب سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جانے کا دل چاہ رہا، ہو ایسے میں بریانی کی فرمائش اچھے خاصے بندے کو آگ لگانے کے لیے کافی ہوسکتی ہےاور اس وقت میںجہنم کی گرمی کا ٹریلر دیکھتے ہوئے بریانی کے لیے گوشت چڑھانے میں مصروف تھی اتنے میں عالیہ کے رونے کی آواز نے مجھے سیخ پا ہی کردیا۔ لاکھ لاڈ پچکار کے باوجود عالیہ خاموش ہونے کو تیار نہیں تھی۔ایسے میں سوائے موبائل فون کے اسے کوئی چپ کرا بھی نہیں سکتا تھا۔زاروقطار روتی عالیہ کے آنسو موبائل دیکھتے ہی ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔عالیہ موبائل میں مصروف ہوئی تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا۔اور دوبارہ اپنا کام شروع کردیا۔

ڈیڑھ سالہ عالیہ کو مہارت سے ٹچ اسکرین پر ہاتھ چلاتے دیکھ کر میں اکثر حیران رہ جاتی ہوں کہ میری جیسی کتاب دوست کی اولاد میں یہ کون سے جراثیم آگئے جو وہ موبائل فون کی اتنی رسیا ہے ۔ایک عالیہ پر ہی کیا موقوف چھ سال کی سمن اور نو سالہ عمر بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ عالیہ چھوٹے ہونے کا فائدہ اٹھاتی ،تو عمر اکلوتے ہونے کا ....میں ،جسے اسکول سے آتے ہی اخبار پڑھنے کی لت لگی ہو۔جس نے نونہال، آنکھ مچولی ،پھول ،بچوں کی دنیا سمیت بچوں کے آٹھ ، نو رسائل ہر ماہ پڑھے ہوں، اس کی اولاد کسی کتاب کی شکل دیکھنے کی روادار کیوں نہیں ہے ۔ایکسپو سینٹر میں کتابوں کی نمائش لگتی تو میں بچوں کو لے کر وہا ں ضرور جاتی، انہیں ان کی پسند کی کتابیں دلاتی، لیکن وہ کتابیں گھر میں لاوارثوں کی طرح پڑی رہتیں ۔

کڑھتے دل کے ساتھ میں یہ چیزیں سمیٹتی،بچوں کو ڈانٹتی، پھٹکارتی ،لیکن اتنی فرصت کسے تھی کہ بچوں کو لے کر بیٹھتی اور انہیں کتاب میں سے کہانیاں پڑھ کر سناتی ،جب کھانے پکانے اور بچوں کے پیچھے دوڑنے سے فرصت ملتی تو جوڑ جوڑ دکھ رہا ہوتا تھا ،ادھر کمر ٹکاتی تو نیند سے بے حال ہوتی یا خیال آتا کہ تین دن ہوگئے امی کی خیریت معلوم نہیں کی ۔فون کال پر آدھا ایک گھنٹہ تو پتا ہی نہیں چلتا تھا ،اس کےبعد نیند سے آنکھیں بے حال ہوتیں اور میں سوئے ہوئے بچوں پر نظر ڈال کر اطمینان سے سو جاتی ۔

آج بھی بڑی بہن سے بچوں کی شرارتوں اور ہٹ دھرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے موبائل اور لیپ ٹاپ کو برا بھلا کہنے میں مصروف تھی تو باجی نے مجھے ٹوک دیا۔

عاصمہ ،ایک بات بتاؤ ،باجی نے مجھ سے پوچھا۔کیا تم نے کبھی اپنے ماں، باپ، بڑے بہن بھائیوں کے ہاتھوں میں موبائل فون دیکھا تھا؟ارے باجی ہمارے زمانے میں یہ سب خرافات تھیں ہی کب.....آپ کو یاد نہیں ،پاپا صبح ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اخبار پڑھ کے جاتے تھے اور اسکول سے آتے ہی ہم بہن بھائیوں کی لڑائی اخبار پڑھنے پر ہوتی تھی ۔پہلے میں پڑھوں گی،نہیں پہلے میں،

میں اور باجی بچپن کی لڑائی کو یاد کرکے ہنسنے لگیں....

ہاں یہی تو میں کہنا چاہ رہی ہوں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کے ہاتھ میں ہمیشہ اخبار یا کتاب دیکھی ،اسی لیے ہم بہن بھائیوں کو کتاب دوستی ورثے میں ملی ،یاد ہے امی پاپا کی طرح ہم سب کو بھی اخبار رسالہ یا کتاب پڑھے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔اب تم یہ بتاؤکہ تم نے کتنے عرصے سے کوئی کتاب نہیں پڑھی،باجی کے سوال نے مجھے شرمندہ ہی تو کردیا۔عرصہ ہو ا کسی کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا،اب تو محض بچوں کی نصابی کتب پڑھنے اور رٹنے میں مصروف تھی۔ گذشتہ سال کتب میلے سے عبدالمجید سالک کی ’’سرگزشت‘‘ اور عبداللہ حسین کی’’ اداس نسلیں ‘‘ بڑے چاؤ سے خریدی تھیں ۔دو چار صفحے پڑھے بھی لیکن پھر فرصت کے لمحوں کے انتظار میں کتابوں پر گرد بڑھتی چلی گئی ۔

تمہیں بڑا غم ہے کہ تمھارے بچوں کو کہانیوں ،کتابوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں صرف موبائل پر کارٹون،گیمز، الا بلا بہت پسند ہیں، تو یہ بتاؤ کہ، انہیں یہ سب کیوں نہ پسند ہوں؟بچے سب سے زیادہ ماں کے قریب ہوتے ہیں ،چلو مان لیا کہ ماں کو گھر کے کاموں سے فرصت نہیں ،تو گھر کے باقی افراد کیا کررہے ہیں؟تمھارا تو ماشاء اللہ بھرا ،پرا گھر ہے ۔بیس بائیس افراد میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ادبی ، سماجی یا عمومی موضوعات کی کتابوں کا شوقین ہو۔میں تو جب آتی ہوں ساس سے لے کر سسر تک ہر کوئی بس موبائل کی شکل دیکھنے میں مصروف نظر آتاہے، پھر آخر بچوں سے کیسی شکایت،ہمارے گھر اخبار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک جاتے جاتے عجیب گندا میلا سا ہوجاتا تھا لیکن تمھارے گھر میں اتنے افراد ہونے کے باوجود اخبار ہمیشہ صاف ستھرا نیا نکور سا ملتا ہے،اب اسے صفائی پسندی کہوں یا اس تازہ اخبار کو بچوں نے تو کیا بڑوں نے بھی ہاتھ لگانے کی زحمت گوارا نہیں کی.....

اب یہ بتاؤ کہ تم نے عمر کو آخری بار اخبار کب پڑھوایا تھا؟اب باجی کو اس بات کا کیا جواب دیتی کہ عمر کو تو کیا پڑھواتی، مجھے تو خود ہفتوں اخبار کی شکل دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔مجھے شرمندہ دیکھ کر باجی کو شاید مجھ پر ترس آگیا۔دیکھو عاصمہ، سادہ سی بات ہے ،مقابلے کی فضا نے ہمارے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے،آج بچوں کو یہ تو معلوم ہے کہ کس برانڈ کا پیزا سب سے اچھا ہے اور کس ریسٹورنٹ میں کانٹی نینٹل فوڈ ملے گا اور کہاں فاسٹ فوڈ،کس شاپنگ مال کا پلے لینڈ سب سے اچھا ہے اور کس پارک میں کون سا جھولا سب سے شاندار۔کیونکہ ہم نے انہیں اسی دوڑ میں لگادیا ہے،ماؤں کو گھر کے کاموں سے فرصت نہیں اور روایتی نانی ،دادیوں کو شاید دیمک چاٹ گئی کہ وہ بھی اب گھر میں کم شاپنگ سینٹرز میں زیادہ نظر آتی ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو شہر بھر کے پلے لینڈز تو گھماتے پھرتے ہیں لیکن کیا کبھی باغ جناح ،لیاقت لائبریری ،نیشنل میوزیم لے کر گئے؟علاقے کی قریب ترین لائبریری چار قدم کی دوری پر ہونے کے باوجود بچوں کو لائبریری کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں، کیونکہ وہ وہاں کبھی گئے ہی نہیں۔میری بہن جہاں زمانہ بدلا ہے وہاں صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی بدل چکے ہیں،کیوں کہ ان کی ترجیحات میں کتاب اور علم شامل ہی نہیں ہے۔بچوں کو ایک سے ایک کپڑا تو ہم فوراً دلا دیتے ہیں لیکن سو روپے کی کتاب دلاتے ہوئے بھی ہمیں مہنگائی یاد آجاتی ہے۔بچوں کو توچھوڑو بڑے بھی کسی صحت مندسرگرمی کاحصہ بننے کے بجائے چھٹی کا دن انعامی نیلام گھر دیکھنے میں گزارتے ہیں، جہاں ہر بے تکی ا ور بے ہودہ حرکت پر انعامات کی بارش ہو تو وہاں علم دوست بچوں کی خواہش رکھنا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔

باجی کی حقیقت پر مبنی باتوں سے کون انکار کرسکتا تھا۔لیکن میرے گھر کے اپنے مسائل تھے۔لیکن باجی میں کیا کروں ،آپ کو میرے سسرال کا ماحول پتا ہی ہے ۔یہاں کھانا اور گھومنا پھرنا ہی جیسے اصل مقصد حیات ہے۔ بچوں کو ہر وقت تفریح چاہیے، کبھی پارک کبھی، فن لینڈ کبھی کہیں ،کبھی کہیں۔ایسے میں وہ میرے ہاتھ لگتے ہی کب ہیں ،جو انہیں کتابوں سے پڑھ کرکہانیاں سناؤں۔

دیکھو عالیہ بچوں کو ابھی پکڑ سکتی ہو تو پکڑ لو،پھر و واقعی تمہارے ہاتھ نہیں لگیں گے،جو جو انہیں گھمانے پھرانے لے جانے کی بات کرے، اسے کہہ دو کہ پہلے ان بچوں سے کتاب پڑھواؤ، پھر لے جاؤ ،دیکھنا باہر جانے کے لالچ میں کیسے فر فر پوری کتاب چاٹ جائیں گے۔باجی کی باتیں میرے دل کو لگیںاور میں نے رفتہ رفتہ ان باتوں پر عمل شروع کیا۔

دور بدلا ہے تو ہمیں بھی بدلنا ہوگا۔ سنگل فیملی میں رہنے والی خواتین شاید بچوں کی پرورش اپنے انداز اور پسند سے کرلیتی ہوں لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ناممکن نہ سہی لیکن مشکل ضرور ہے ۔گھریلو مصروفیات بھلے جتنی بھی ہوں ۔ اپنے بچوں کو اپنی ترجیحات میں نمبرون رکھیں ۔اگر آپ انہیں کتاب دوست بنانا چاہتی ہیں تو چھوٹی عمر سے سونے سے پہلے مختلف قصے کہانیاں سنانے کی عادت ڈالیں۔گھریلو مصروفیات چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہوں انہیں اخبار اور رسائل کا مطالعہ ضرور کرائیں۔عموما ًچھوٹے بچے ماں یا باپ کے ہاتھ میں اسمارٹ فون دیکھ کر لپکتے ہیں،اس لیے ماؤں کو خاص طور پر چاہیے کہ وہ اسمارٹ فون کا استعمال کم سے کم رکھیں،انہیں کتابوں کا تحفہ دیتی رہیں ،ہر ہفتے نہ سہی مہینے میں ایک بار لائبریری کا چکر ضرور لگائیں ۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرکے دیکھیے تو یقینا ًمیرے بچوں کی طرح آپ بھی اپنے بچوں کے رویئے میں واضح فرق محسوس کریں گی۔

تازہ ترین