• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسلیدس پر پے چیدہ سالموں کی دریافت

زحل ہمارے نظام شمسی کا چھٹا سیارہ ہے جو مشتری کے بعدباقی آٹھ سیاروں میں حجم میںدوسرے نمبرپر ہے۔ زحل کے گرد رنگوںیاحلقوں کا ایک مکمل نظام ہے، جس کی وجہ سے اسے دیگر سیاروں میں انفرادیت حاصل ہے۔ ا س وسیع رنگ سسٹم کو 1610 میں مشہور سائنس دا ن گلیلیو گلیلی نے دریافت کیا تھا ۔1659 سے 1666 کے دوران کر سچیئن ہائیجنز نامی سائنس داں نے زحل کے رنگ سسٹم پر مزید تحقیق کر کے ان کی اصل خصوصیات دریافت کرنے کے علاوہ اس کا سب سے بڑا سیٹلائٹ دریافت کیا تھا ۔ہائیجنز کی تحقیق کے مطابق زحل کے حلقوں میں دو حلقے زیادہ چوڑے تھے جنہیں ہائیجنز نے اے اور بی نام دیا تھااور دو نسبتاًپتلے دکھائی دینے والے حلقوں کو 'سی اور ڈ ی نام دیا تھا۔

چوں کہ زحل کی گردشی رفتاربہت تیزہے لہٰذا اس و جہ سے اس کی شکل ناریل کی طرح ہے۔اوریہ نیم ر و ا ںحالت میںہے، یعنی نہ ہی ٹھوس اورنہ ہی مایع۔بلکہ ان دو نو ں کا مجموعہ۔ جیسے کہ ایگر جیلی،جو ربر کی طرح نرم و ٹھو س ہوتی ہے، مگر اس سےمایع نفوذکرسکتاہے۔ زحل کی آب و ہو ا میں ہائیڈروجن کی بہتات ہے اور اس کی چٹانی زمینی تہہ ( کور)کےاوپر دھاتی ہا ئیڈ ر و جن کی ایک تہہ ہے ،جس کے نیچے سپر کریٹیکل ہائیڈروجن مالیکیولز کی تہہ موجود ہے ۔

کرسچیئن ہائیجنز کی دریافت کےچندسالوںبعد 1671 ءمیں ڈومینیکو کیسینی نامی سائنس داں نے زحل کےحلقوںاےاوربی کےدرمیان خلادریافت کیا جسے سائنس داں کے نام پر 'کیسینی ڈو یژن 'کا نام دیا گیا۔1789 ءمیں ولیم ہرشل نے ان حلقو ں کی موٹائی کو ناپتے ہوئے اس کے دو چاند دریافت کیے جو 'ای رِنگ کے اندرتھے۔ ان چاندوں کو میماس اور انسلیدس کے نام دیے گئے۔ زحل کا یہ ای رنگ باہر کی جا نب واقع دوسرا بڑا حلقہ ہے، جس کے ا ندر کل پانچ چاند ہیں ۔یہ تمام کروی شکل کے چاند ہیں جن کی کثافت کم ہے اور ان کی زیادہ تر سطح پانی اور برف پر مشتمل ہے، جس کے ساتھ ایک چھوٹی سلیکا کی اندرونی تہہ یا کور ہے۔

انسلیدس کے علاوہ ای رِنگ کے اندر واقع تمام چاند جغرافیائی طور پر متحرک نہیں ہیں،اس لیےسائنس دانوں کی تمام تر توجہ کا مرکز انسلیدس رہا ہے۔ زحل اور اس کے حلقوں،چاند وںاور سیٹلائٹ کےبارےمیںمزید معلو ما ت حاصل کرنے کےلیے ا مریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نا سا اور یورپین اسپیس ایجنسی نے مل ایک خلائی منصوبے کا آغاز کیا۔جسے’’کیسینی ہائیجنز‘‘ مشن کا نام دیا گیا ۔ اس منصوبے کے تحت کیسینی خلائی گاڑی 1997 میں زحل کی جا نب بھیجی گئی جوسات سال تک سفر کرنےکے بعد 2004 میں زحل کے مدار میں داخل ہوئی ۔ اس اسپیس کرافٹ کو ز حل کی جانب بھیجنے کا بنیادی مقصد اس کے حلقوںکے ڈ ھانچےاور حرکات (ڈائنامکس )کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے علاوہ وہاں کے ماحول اور آب وہوا ، زحل کے منجمد سیارچے اور اس کی جغرافیائی تاریخ کے با ر ے میں معلومات حاصل کرنا تھا ۔ ابتدا میں اس مشن میںٹا ئٹن اور لیپٹس پر موجودسیاہ مادوں (ڈارک میٹرز)کی کھو ج لگاناشامل کیا گیا تھا اور ای رنگ کے اندر واقع چاند ا نسلیدس کو اس مشن میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن بعدازاںکیسینی مشن کےذریعےجوتاریخی تحقیق اوردریا فتیں ہوئیںان میں انسلیدس کو مرکزی حیثیت حا صل ہوگئی ۔

مشن کے دوران کیسینی خلائی گاڑی نے انسلیدس کے قریب سے گزرتے ہوئےاس کے جنوبی قطب کی جا نب کچھ جغرافیائی حرکات کا مشاہدہ کیا ۔ واضح رہے کہ کیسینی کو اگرچہ کافی عرصے پہلے ڈیزائن کیا گیا تھا ،مگر اس میں مستقبل کی ضروریات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جدید آ لا ت نصب کیے گئے تھے جن میں دوا سپیکٹرومیٹر بھی شامل تھے ۔ ان کا کام زحل کے رنگ سسٹم میں موجود برف کے ذرات اور گیسز کا مشاہدہ کرنا تھا ۔ان میںسے ایک کو کا سمک ڈسٹ اینالائزر اور دوسرے کو آئن اینڈنیوٹرل ا سپیکٹرو میٹر کا نام دیا گیا تھا۔اس خلائی گاڑی میںایک میگنیٹو میٹر بھی نصب تھا،جس کاکام انسلیدس کے قریب مقنا طیسی میدان میں غیر معمولی حرکات کا پتا چلاناتھا۔ دراصل 2005 میں کیسینی کے زحل پر پہنچنے کے فوراً بعد سائنس دا نوںنے اس خلائی گاڑی پر موجودان آلات سے در یا فت کیا کہ زحل کے چاند انسلیدس کے جنوبی قطب کی جا نب پانی کے بخارات اور برف کے ذرات (گرینز ) وافر مقدار میں خارج ہورہے ہیں ۔ یقینا ًیہ ایک بہت حیر ا ن کن امر تھا کہ زمین سے باہر ہمارے نظام شمسی میں ایک ایسا چاند موجودہےجہاںمسلسل جغرافیائی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں ۔برف کے ذرات سے حلقے بن جانے کا یہ ما ڈ ل 2008 میںپیش کیاگیاتھا،جس کےمطابق ا نسلید س کے جنوبی قطب پر پانی مایع حالت میں موجودہے، کیوں کہ بر ف کےیہ ذرات ٹھنڈے ہوکربخارات کے ذر یعے اوپر کی جانب اٹھ رہےتھے۔ اسی دوران یہ با ت بھی سا منے آئی کہ برف کے کچھ ذرات میں نمکیات وا فر مقد ا ر میں موجود تھیں ،جس سے پہلی دفعہ یہ تصدیق ہو ئی کہ انسلیدس پر ایک زیریں سمندر موجود ہے جو مختلف طر ح کی نمکیات سے بھرا ہواہے۔ جن میں سوڈیم کے نمکیا ت جیسے کہ سوڈیم کلورائیڈ ، سوڈیم بائی کاربونیٹ ا و ر سوڈیم کاربونیٹ شامل تھے ،جو لا محالہ انسلیدس کی چٹانی تہہ سے پانی میں تحلیل ہورہے تھے ۔ ان نمکیات کی آ ن بورڈ اسپیکٹرومیٹر سے باقاعدہ تصدیق بھی کی گئی۔

ان نمکیات سے بھرپور برف کے ذرات کی وضا حت کے لیے ایک نیا ماڈل تشکیل دیا گیا، جس کے مطابق انسلیدس کی فضا میں موجود گیسوں مثلاً کاربن ڈائی آ کسا ئیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین اور نائٹروجن کی اوپر کی جانب حرکت کی وجہ سے ایروسول جیسے پانی کے قطرات بن رہے تھے، جس کی وجہ سے برف کے چینلز میں موجود پانی میں بلبلے بن کر پھٹتے تھے اور انھی کی وجہ سے برف کے ذرات انسلیدس کی فضا میں سینکڑوں میٹر تک اچھل کر اوپر جا رہے تھے۔ ان میںسے زیادہ تر ذرات انسلیدس کی سطح پر واپس گر جاتے تھے ، مگر ان میں سے چند اس چاند کی کشش ِ ثقل سے فرار ہوکر زحل کے گرد مسلسل برف کے ذرات کا حلقہ بناتےجارہےتھے۔ انسلیدس پرزیریںسمندرکی تصد یق کے لیے کیسینی خلائی گاڑی تین دفعہ اس کے بہت قر یب سے گزری اور اس پر موجود مرکزی انٹینا سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے انسلیدس کی چار گنازیادہ گریوی ٹیشنل فیلڈ کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں اور یہ تصدیق بھی ہوئی کہ چاند کے چٹانی خول (کرسٹ) کا ز یریں سمندر سے براہ ِ راست رابط ہے۔

کیسینی خلائی گاڑی پر موجود آلات ( سی ڈی ا ے اور آئی این ایم ایس)کے ذریعے انسلیدس کی سطح پر موجو د ایک زیریں سمندر میں چھوٹے نامیاتی ما لیکو ل در یافت کیے گئے،جس کے بعد سائنسدانوں کی توجہ اس کی جانب مکمل طور پر مبذول ہوگئی ،کیوں کہ زمین سے باہر کسی اورسیارےپر زندگی کے آثاردریافت کرناہمیشہ سے ا نسان کی خواہش رہی ہے اور انسلیدس پر چھوٹے نامیاتی مرکبات کی موجودگی اس امر کی جانب اشارہ کرتی تھی کہ یہاں بڑے اور پیچیدہ مالیکیولز بھی موجود ہوں گے۔ دراصل سائنسدان جب زمین کے علاوہ کسی بھی دوسرے سیار ے یا اس کے چاند پر زندگی کی موجودگی کی تلاش شروع کرتے ہیں تو تین علامات سب سے پہلے ڈھونڈی جاتی ہیں،جن میں پہلے نمبر پر مائع حالت میں پانی ، دوسرے نمبرپر سورج کی طرح توانائی کا ایک مستقل ماخذ اور تیسرے نمبر پر نامیاتی مالیکیول شامل ہیں ۔

ان پیچیدہ نامیاتی مالیکیول کی تلاش کے لیے 2015 میں کیسینی خلا ئی گاڑی نے انسلیدس کے جنوبی قطب کے انتہائی قریب جاکر ڈیٹا اکھٹا کیا، جس سے یہاں مالیکیولر ہائیڈ روجن کی تصدیق ہوئی۔اگرچہ ابتدا میں اس مالیکیولر ہائیڈروجن کا اصل ما خذ واضح نہیں تھا لیکن آخر کا ر سائنسدان اس نتیجےپر پہنچے کہ بہت زیادہ مقدار میںیہ ہا ئیڈروجن اسی زیریں سمندر سے ہی خارج ہورہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی سائنسدانوں کو یہاں متحرک ہا ئیڈ ر و تھر مل وینٹس کا سراغ ملا ، اس طرح کی ہائیڈرو تھرمل وینٹس ہمارے سیارے زمین پر موجود سمندروں کی گہرائی میں بھی ہیں جہاں صرف خوردبینی جاندار پائے جاتے ہیں ۔اور ان کا تعلق زمین پر زندگی کی ابتدا ئی ادوار سے جوڑا جاتا ہے۔ان خورد بینی جانداروں کو میتھانوجینس کہاجاتا ہے جو ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے قریب روشنی اور آکسیجن کی غیر موجودگی میں نشونما پاتے ہیں ۔اور یہی ہائیدروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو میتھین میں تبدیل کرتے ہیں۔ انسلیدس پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق اگر زمین پر موجود ان میتھانوجنس کو کسی طرح انسلیدس کے سمندر میں منتقل کیا جائے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہاں ان کی افزائش ہوسکے گی۔

اگرچہ کیسینی مشن کو ستمبر 2017 میں ختم کردیا گیا تھا اور یہ خلائی گاڑی زحل کی سطح سے ٹکرا کر تباہ ہوگئی تھی، مگر اس سےبرسوں سے جو ڈیٹا حاصل ہوتا رہا ہے اس کا اب بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ سائنسدانوں کی اس ٹیم کی سرکردگی ڈاکٹر فرینک پوسٹ برگ کر رہے تھے جب کہ ان کےساتھ ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر نزیر خواجہ بھی تھے۔ اس ٹیم کو دوران تحقیق زحل کے چاند انسلیدس پر ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکیول کا سراغ ملا ہے جو سائز میں بھی بڑے ہیں۔ جو بڑے اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیول یہاں دریافت کئے گئے ہیں وہ جاندار اور بے جان ذرائع دونوں ہی میں معاونت کر سکتے ہیں ۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ ان نامیاتی مالیکیول کا ماخذ کوئی جاندار شے رہی ہوگی، نا ہی یہ کہا جا سکتاہے کہ انسلیدس پر زندگی کے آثار موجود ہیں یا یہاںکسی بھی صورت میں زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اس ٹیم نے اپنے مقالے میں یہ تصور پیش کیا ہے کہ یہ پیچیدہ مالیکیولز انسلیدس کے زیریں سمندر کی گہرائی میں موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس سے وجود میں آئے ہیں۔

کیسینی سے حاصل ہونے والے ماس اسپیکٹرکے مطا بق ان پیچیدہ نا میاتی مالیکیلولز کاا سٹرکچر زمین پر موجود ایسے نامیاتی ما لیکیولز سے ملتا جلتا ہے جو آپس میں جڑ کر رنگ کی شکل کے ایرومیٹک ،ہائیڈرو کاربن یا نامیاتی مرکبات بناتے ہیں۔ان مالیکیول میں زیادہ تر کا ماس 200 اٹامک ماس یونٹ ہے جب کہ کچھ کا 8000 اٹامک ماس یونٹ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ لہٰذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسلیدس نظام ِشمسی میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی پنپ سکتی ہے۔ اب تک کی تحقیقات سے انسلیدس پر ان تینوں بنیادی علامات کی موجود گی کی تصدیق ہوگئی ہے جو زمین سے باہر زندگی تلاش کرنے کے لیے بنیادی علامات سمجھی جاتی ہیں ۔ اور اب ان پیچیدہ نامیاتی مالیکیول سے متعلق نئی تحقیق نے سائنسدانوں کے اس یقین میں مزید اضافہ کیا ہے کہ انسلیدس کے زیریں سمندر میں پیچیدہ نامیاتی مرکبات کافی زیادہ مقدار میں موجود ہیں۔

یہ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انسلیدس پر زندگی کو سپورٹ کرنے والا ایک سمندر موجود ہے۔ لہٰذا سائنسدانوں کی مکمل توجہ کا مرکز اس وقت انسلیدس ہے،کیوں کہ یہ زمین سے باہر ہمارے نظام ِ شمسی میں دریافت ہونے والا ایک ایسا مقام ہے جہاں زندگی کی ابتدا ء یا ارتقا ء کے حوالے سے بھی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح زمین سے باہر زندگی کی تلاش کے لیےایک اور اہم جگہ مشتری کا چاند یورپا ہے، جس پر تحقیق کے لیے ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی 2020 ءمیں 'یورپا کلپر اور 'جیوپیٹر آئیسی مون ایکسپلوررجیسے مشنز بھیجنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔

ماہرین کو اُمید ہیں کہ جلد ہی انسلیدس کی جانب ایک نیا مشن بھیجا جائے گا ، جس سے اس کے زیریں سمندر کو کھوجنے میں مزید مدد ملے گی، کیوں کہ کیسینی خلائی گاڑی پر موجود آلات بے حد پرانے ہوچکے تھے اس کے باوجود ہمیں ان سے بہت زیادہ اہم معلومات حاصل ہوئیں ہیں جو ابتدا میں مشن میں شامل بھی نہیں کی گئی تھیں۔ ماہرین کے مطابق آج ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ لہٰذا ایک نئے مشن سے انسلیدس اور اس پر موجود زیریں سمندر کی کیمسٹری کو پوری طرح سمجھنا ممکن ہوگا۔ اس دوران کیسینی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر بھی تحقیقات جاری رہیں گی اور اب تک دریافت ہونے والے پیچیدہ نامیاتی مرکبات کی مزید خصو صیات بھی سامنے آئیں گی۔ اس کے بعد ہی شاید سائنسداں یقینی طور پر یہ کہہ سکیں کہ انسلیدس پر موجود ان نامیاتی مالیکیول کا ماخذ کوئی جاندار شے ہے، مگر ابھی تک یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ انسلیدس پر زندگی کے آثار موجود ہیں یا کسی بھی صورت میں یہاں زندگی کی افزائش ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین