• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابنِ انشاء

جن لوگوں کو انتخابات میں کسی نہ کسی پارٹی کا ٹکٹ مل گیا ہے وہ شادماں پھر رہے ہیں، حالانکہ ٹکٹ ملنا اور بات ہے سیٹ ملنا اور۔ آپ سینما کا ٹکٹ لیں سینما میں سیٹ یقینی ہے، ڈاک کا ٹکٹ لیں اور لفافے پر چسپاں کریں تو وہ منزل پر پہنچے نہ پہنچے لیکن بیرنگ ہر گز نہیں ہوگا، بس کا ٹکٹ لیں تو بس میں جگہ مل جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو جگہ مل جاتی ہے، پیسے بھی دے دیئے جاتے ہیں لیکن ٹکٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، ریلوے میں بھی ٹکٹ ملنے کے بعد سیٹ ملنا بڑی حد تک یقینی ہو جاتا ہے، اگر کوئی اہلکار نذرانہ لے کر آپ کی سیٹ پر کسی اور کو نہ بٹھا دے، چڑیا گھر کا ٹکٹ لینے کے بعد بھی یقین جانیےکہ آپ جانوروں کو اور جانور آپ کو جی بھر کر دیکھ سکیں گے لیکن الیکشن میں کسی پارٹی کا ٹکٹ، یہ صورت الگ ہے،یہی وجہ تھی کہ گزشتہ الیکشنوں میں ہمارے ہم محلہ میر دلدار علی سابق ریلوے گارڈ کو کسی پارٹی کا ٹکٹ نہ ملا، دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے کی ساری جماعتوں کی منتیں کر دیکھیں تو ریلوے ٹکٹ پر ہی کھڑے ہو گئے اور ٹکٹ بھی ریڑن لیا کہ اسمبلی میں نہ جا سکیں تو لوٹ کر اپنے گھر کو تو آسکیں ۔

میر صاحب نے اعلان کیا کہ میں تحریک پاکستان کے مخلص کارکنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کروں گا، ان کے تجربے کے پیش نظر یہ وعدہ کچھ غلط نہ تھا لیکن قوم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونے کو راضی نہ تھی کہ بھیڑ ہو جاتی ہے، پس جب انتخابات کا نتیجہ برآمد ہوا تو ہمارے میر صاحب کے باب میں گاڑی نکل چکی تھی، پٹڑی چمک رہی تھی شکست و فتح تو خیر نصیبوں سے ہے لیکن میر صاحب کی مہم خوب چھکا چھک چلی، دھواں دھار تقریریں کرتے تھے اور ایسا فراٹا بھرتے تھے کہ بڑے بڑے جنکشنوں پر بھی نہ رکتے تھے، بس ایک آدھ جگہ ٹھہرتے تھے وہ بھی پانی لینے کے لئے یعنی پانی پینے کے لئے ان کی تقریر کا پیرا کچھ یوں ہوتا تھا۔

”صاحبان! یہ دنیا مسافر خانہ ہے، ہم سب یہاں پسنجر کے موافق ہیں۔ نفرت اور عناد کو ہمیشہ لال جھنڈی دکھانی چاہئے اور محبت اور اخوت کا سگنل ڈاؤن رکھنا چاہئے اس وقت ہمارا معاشرہ پٹڑی سے اترا ہوا ہے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس تو عیش کی سیٹیاں بجاتے ہیں اور تھرڈ کلاس لوگ جوتیاں چٹخاتے ہیں“ ۔

ایسا بھی ہوتا کہ حاضرین میں سے کوئی نعرہ لگاتا ”اسلام خطرے میں ہے“ میر صاحب ترنت ڈانٹ دیتے ”اسلام خطرے میں نہیں ہے، بار بار خطرے کی زنجیر مت کھنچو، جرمانہ دینا پڑے گا“۔ ریلوے کی ٹکٹ پر بھی کبھی کبھی رش ہو جاتا ہے، بس ہمارے کرم فرما خان بنارس خان نے لانڈھی سے اور منی بس کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا بہتر سمجھا، انہوں نے الیکشن کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنےکارکنوں کو اشارہ کیا۔ ”جانے دو بس“ اپنی تقریر کا آغاز وہ ہمیشہ کسی حسب حال شعر سے کرتے۔

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

ان کا نعرہ تھا ” ہارن دے کر پاس کریں“ اور تقریر کچھ یوں ہوتی تھی ”بھائیو! اوپر آجاؤ، پائیدان پر مت کھڑے ہو، جیب پاکٹ سے ہوشیار آج کل ووٹ کترے بہت ہو گئے ہیں،تم ام کو سیٹ پر بٹھاؤ ام تم کو سیٹ پر بٹھائے گا، ہمارے مقابلے میں جتنے امیدوار ہیں سب کنڈم ہیں کسی کی باڈی پرانی ہے، کسی کی بریک فیل ہے ، کسی کا ٹائی راڈ کھلنے والا ہے ، کسی کا سائلنسر ناکارہ ہے ان لوگوں کا تو چالان ہونا چاہئے“ ایسا بھی ہوتا کہ لوگ اٹھ کر کوئی مخالفانہ نعرے لگاتے یا جانے لگتے۔ ایسے میں ہمارے بنارس خان صاحب فرماتے۔ ”پپو یار تنگ نہ کر“ ۔

ہر بشر کو ہے یہ لازم صبر کرنا چاہئے

جب کھڑی ہو جائے گاڑی تب اترنا چاہئے

بابو محمد دین سابق پوسٹ ماسٹر ڈاک کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے، ان کی تقریر بھی ہم نے سنی۔ محترم حضرات السلام علیکم مزاج شریف، خیریت موجودہ خیریت مطلوب ، دیگر احوال یہ ہے کہ ہمارے تھیلے میں باتیں تو بہت ہیں لیکن ان کو سارٹ کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ حضرات یہ جو دوسرے امیدوار ہیں ان سب کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے ان کی باتیں لفافہ ہیں یہ تو پوری قوم کو ڈیڈ لیٹر آفس میں دھکیل دیں گے ۔پوری قوم کو بیرنگ کر دیں گے، پس التماس ہے کہ میرے خط کو تار سمجھتے ہوئے الیکشن کے روز اپنے سارے ووٹ قریب ترین لیٹر بکس میں ڈال دیں۔ والسلام۔

مشہور اداکار متوالا سینما کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے ان کی تقریر کا مکھڑا عموماً مقبول عام فلمی گیت پر مبنی ہوتا تھا مثلاً

اے دیکھنے والے دیکھ کے چل

ہم بھی تو ”کھڑے“ ہیں راہوں میں

اس کے بعد فرماتے ۔ حضرات! قوم کی خدمت بڑی مشکل ہے لیکن

جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

اور چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا

کھڑا ہونا میرا کام تھا وہ میں نے کر لیا اب ممبر بنانا آپ کا کام ہے ”،تہاڈی عزت دا سوال اے“ صاحبان ! آپ کے پاس طرح طرح کا امیدوار آکر ڈائیلاگ بولے گا۔ ایکٹنگ کرے گا لیکن ان سب سے ہوشیار ، خاکسار کی ساری عمر قوم کی خدمت میں ریہرسل کرتے گزری ہے، اب اسے قومی ہیرو بننے کا موقع ملنا چاہئے، آپ اس ”شیراں دے شیر“ کو ووٹ نہیں دیں گے تو اور کسے دیں گے“۔

خان شیر خان گاندھی کے علاقے سے کھڑے ہوئے تھے اور ان کے پاس چڑیا گھر کا ٹکٹ تھا ان کی تقریر بھی سننے کی ہوتی تھی۔

”صاحبان! آج کل ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے، دھاڑ رہا ہے ، چنگھاڑ رہا ہے لیکن ہاتھی کی طرح ان لوگوں کے کھانے کے دانت اور ہیں دکھانے کے اور ہیں، قربانی کا وقت آئے گا تو سب کو سانپ سونگھ جائے گا، طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیں گے۔ دم دبا کر بھاگ جائیں گے۔ یاد رکھئے ان لوگوں کا آگا شیر کا پیچھا بھیڑ کا ہے۔ بگلا بھگتوں کو ووٹ مت دیجیئے مجھے دیجیئے کہ شاہیں رابلنداست آشیانہ“۔

سب سے مختصر تقریر مرزا برکت اللہ کی ہوتی تھی آپ لاٹری کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے، فرماتے تھے۔

”بھائی صاحبان! میں کوئی لمبے چوڑے وعدے نہیں کرتا ،صرف اتنا کہوں گا کہ مجھے ووٹ دیجیئے اور اسمبلی میں پہنچائیے، پھر میں آپ کی خدمت کرتا ہوں یا آپ کو دھوکہ دیتا ہوں یہ آپ کی قسمت پر منحصر ہے۔ٹکٹوں میں یہی ٹکٹ تھا جو خصوصیت میں کسی پارٹی ٹکٹ سے قریب ترین کہا جا سکتا تھا۔ 

تازہ ترین