• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کی سیاست . . . کل اور آج

مہتاب اکبر راشدی

’’اپریل 1946ء میں سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے جی ایم سید کو فیلڈ مارشل ، وسکائونٹ ویول (Viscount wavel) نے جو کیبنٹ مشن کی سربراہی کررہے تھے، برصغیر میں اختیارات کی منتقلی اور صوبائی گروہ بندیوں پر ان کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے ملاقات کے لئے شملہ بلایا، جس میں جی ایم سید نے ہندوستان کے ہر صوبے بشمول صوبہ سندھ کے حق خودارادیت اور ایک ’’بااختیار یونٹ‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کا تقاضہ کیا‘‘

’’قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنے والی قیادت، اپنی خواہشات کی غلام نکلی، یہاں تک کہ نہ وہ پاکستان کے صوبوں کو باہم متحد رکھ سکی اور نہ ہی صوبوں کے مفادات کو تحفظ دے سکی،سندھ کی سیاست میں آنے والی تبدیلیاں  دو قسم کی تھیں۔ اول یہ کہ سندھ کے متمول طبقے نے اپنے مفادات کے بچائو کا کھیل کھیلا،دوئم سیاست پر حاوی اور موجود رہنے کے گرُ سیکھے لیکن ساتھ ہی پس پردہ ایک نوجوان، پڑھا لکھا دانشور، ایسا طبقہ بھی ابھر کر سامنے آیا جو اپنی زمین ، زبان ، روایات، پانی اور لوگوں کے حقوق کے بات کرنے لگا‘‘

آج جب ہم پاکستان کی تاریخ کےایک اور انتخابات کی طرف جا رہے ہیں۔ اس وقت سندھ کی سیاست پر بات کرنا اور اس کا تجزیہ کر کے مستقبل کی سیاست پر اس کا کسی بھی صورت اثر انداز ہونا، اتنا آسان نہیں ہے۔ ملک کی آزادی کے ستر سالوں کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد، آج شاید ان محرکات کو سمجھنا آسان ہو گیا ہے، جن کی وجہ سے، ملک، سیاسی افراتفری، سیاسی جماعتیں اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور معیشت ، بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ سرحدوں کی صورتحال ، اپنے پڑوسی ممالک سے کشیدہ یا سرد تعلقات ہیں،لیکن جب شہروں اور دیہات میں امن و امان کا ذکر ہو گا تو اندرونی اور بیرونی طور پر ملک کو درپیش مسائل کے محرکات (جن میں دہشت گردی بھی شامل ہے) کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سندھ کی سیاست کا سیر حاصل جائزہ لینے اور تبصرہ کرنے کے لئے ہمیں قیام پاکستان سے کچھ پہلے، انگریز کے زیر تسلط حکومتوں اور قانون ساز اسمبلیوں کو دیکھنا پڑے گا۔سندھ کی قدیم تاریخ اور اس کے اتار چڑھائو کو دیکھنےکے بجائے ہم برطانوی راج میں 1937 سے لے کر 1947تک سندھ کو ملی ہوئی خود مختاری پر نظر ڈال کر، اس وقت کی سیاست، سیاستدانوں کے مختلف طبقات اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بھی دیکھیں گے کہ فرنگیوں کے برصغیر پر طویل قبضے اور زیر انتظام حکومتوں میں آبادی کے مختلف طبقوں کو مذہب اور گروہوں میں کس طرح تقسیم کیا گیا اور اسی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی بناء پر منافرت کے بیج کس طرح بوئے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ طبقہ جو ذاتی انا اور مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و وطن کی خاطر مشکل حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور دوسرا وہ، جو ذاتی اور گروہی مفادات کا حامل ہوتا ہے اور اپنے آپ کو ارزاں قیمت پر بیج ڈالنے میں دیر نہیں کرتا۔

اسی طرح کی سیاست ہمیں پاکستان بننے سے ایک دھائی قبل بھی نظر آتی ہے۔ انہیں دس سالوں میں ہندوئوں اور مسلمانوں نے ذاتی حرص و ہوس اور اپنے مطلب کے منصوبوں کی تکمیل کے خاطر ایک دوسرے سے ملی بھگت جاری رکھی اور اس چیز کا خاص خیال رکھا کہ ہر قیمت پر انہیں برطانوی گورنر کی خوشنودی حاصل رہے۔ سندھ کی بدقسمتی کی بنیاد بھی اسی آخری دھائی میں پڑنا شروع ہوئی، جن میں بڑا کردار سندھ کی یکم؍فروری 1937، 21جنوری 1946ء اور دسمبر1947کی قانون ساز اسمبلیوں میں کئے گئے فیصلے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

پہلی فروری 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں، سندھ قانون سازاسمبلی جو 60ممبران پر مشتمل ایک ایوان تھا، اس میں جی ایم سید کی سربراہی میں ’’سندھ یونائیڈ پارٹی نے 22 نشستیں حاصل کیں ۔ شیخ عبدالمجید سندھی کی ’’سندھ آزادی پارٹی‘‘ کی 3، سر غلام حسین ہدایت اللہ کی جماعت ’’سندھ مسلم پارٹی‘‘ کی 4، سندھ ہندو سبھا (بعد میں ہندو انڈپنڈسینڈنٹ پارٹی) کی 11نشستیں، انڈین نیشنل کانگریس 8، آزاد ممبراں 8(مسلمان 6۔ ہندو 2)۔ یو رویبی ممبر 3،اور مزدور ایک۔اس ایوان میں جی ایم سید کی سندھ یونائٹیڈ پارٹی کو 22 ممبران کی واضع اکثریت حاصل تھی جو باقی ہم خیال پارٹی یا ممبران سے مل کر حکومت بنا سکتی تھی، اس وقت کے گورنر، گراہم نے تمام جمہوری روایات پس پشت ڈال کر چار نشستیں رکھنے والے،ہندوستان میں سرکارکے پسندیدہ اور ’’آزمائے‘‘ ہوئے دوست ’’سر‘‘ غلام حسین ہدایت اللہ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔

اسٹیبلشمنٹ کی مہربانی سے غلام حسین ہدایت کی سربراہی میں حکومت تو بن گی۔ اسمبلی کی رکنیت رکھنے والےممبران کی اکثریت صاحب حیثیت لوگوں کی تھی، وہ امیر تھے اور عوام کی اکثریت سے کٹے ہوئے تھے۔ وہ تاجروں کے ووٹوں سے جیتنے والے، ہندو فرقہ پرست اور سیٹھ تھے۔ مسلمان جاگیردار اور زمیندار اپنے زرعی اور ذاتی مفادات کی وجہ سے عام لوگوں کے مسائل سے دور اور غافل رہے۔ معاشرے میں کسی بھی قسم کی اصلاحات ان کے مفادات سے متصادم تصور کی جاتی تھیں۔ اس لئے یہ حکومت بمشکل ایک سال ہی نکال سکی 18 مارچ 1938 کو سر غلام حسین ہدایت اللہ کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہوئی اور حکومت کر گئی۔ لیکن سر غلام حسین ہدایت اللہ کااقتدار سے باہر رہنا مشکل تھا، لہٰذا وہ بننے والی ہر حکومت میں کسی نہ کسی صورت جگہ بناتے رہے، یہاں تک کہ دو مرتبہ خان بہادر اللہ بخش سومرو کی کابینہ میں 1941میں میر بندہ علی خان کے ماتحت، حکومت میں شامل رہے۔ جب انہیں اسمبلی میں ایک بھی ممبر کی حمایت حاصل نہ رہی تو وہ پہلی مرتبہ مسلم لیگ کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس وقت سندھ کے گونر Sir Hugh Dow ان پر مہربان تھے اور پھر آگے جا کر جناح صاحب کی کرم نوازی سے ایک دفعہ پھر سندھ کے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے عہدے کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا) کی جگہ سنبھالی اور پاکستان کے قیام تک اسی منصب پر براجمان رہے۔ سر غلام حسین ہدایت اللہ نے 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں کو جتوانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں کرائےگئے دو الیکشنز میں کھلم کھلا دھاندلی کی تھی۔ غالباً انہیں خدمات کے صلےمیں موصوف کو نومولود پاکستان میں سندھ کے گورنر کے منصب سے نوازا گیا، جس پر وہ اپنی آخری سانسوں تک موجود رہے۔

انہیںدس سالوں میں 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ، انڈین نیشنل کانگریس کے سامنے نمودار ہوئی۔ بہت سے مسلمان سیاستدان جو کانگریسیوں کے عوام کی بے رخی اور غیر پارلیمانی سلوک سے بیزار ہو گئے تھے۔وہ اس ابھرتی ہوئی قوت کی طرف متوجہ ہوئے۔ سندھ سے جی ایم سید بھی جناح صاحب کے طرز استدلال اور بھرپور نقطہ نظر اور ان کی تسلیوں کے بعد 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ ان کے سوچ اور تصور میں سندھ میں ایک صاف ستھری انتظامیہ کا یقینی بنانے تھا، اچھی حکمرانی اور بے ریا قانون سازی کو عمل میں لانا تھا۔ ایسے عمل جو سندھ کو ایک آزاد اور روشن خیالی کی طرف لے جائے۔ اس طرح سندھ کا ایک بڑا طبقہ بتدریج، آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوتا چلا گیا۔

اسی خواب کی تعبیر کے حصول کے لئے 3مارچ 1943ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی میں محترم جی ایم سید نے قیام پاکستان کی قرارداد پیش کی، جس میں سید صاحب نے سندھ کے عوام کی طرف سےمن و عن وہی تصور وضاحت کے ساتھ پیش کیا، جو 1940 لاہور میں پیش کی گئی قرارداد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس میں ’’پاکستان‘‘ کو ایک فیڈریشن کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور اسی فیڈریشن (وفاق) میں سندھ کا تصور ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر موجود تھا۔

9اپریل 1946ء کو سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے جی ایم سید صاحب کو فیلڈ مارشل ، وسکائونٹ ویول (Viscount wavel) نے جو کیبنٹ مشن کی سربراہی کررہے تھے، برصغیر میں اختیارات کی منتقلی اور صوبائی گروپ بندیوں پر ان کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لئے ملاقات کے لئے شملہ بلایا، جس میں محترم جی ایم سید نے ہندوستان کے ہر صوبے بشمول صوبہ سندھ کے حق خودارادیت اور ایک ’’بااختیار یونٹ‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کا تقاضہ کیا۔ (حوالہ: ’’اختیارات کی منتقلی‘‘۔ جی ایم سید اور فیلڈ مارشل وسٹکائونٹ ویول کی ملاقات 2اپریل 1946ء۔ ملاقات کے نوٹس صفحہ 92-93)

قیام پاکستان سے پہلے صوبہ سندھ کی سیاست کے یہ دس سال ویسی مماثلت رکھتے ہیں جو آج ہم پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اور سیاسی اتار چڑھائو میں دیکھتے آئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل، سیاسی جوڑ توڑ سے حکومتیں بنانا اور گرانا انگریز بہادر کے اشاروں اور ان کی پسند اور جنبش ابرو کی محتاج ہوتی تھیں، اور ان کے جانے کے بعد یہی اطوار ’’کالے‘‘ انگریزوں نے جو انہی کے تربیت یافتہ تھے، اسی مملکت خداد میں اپنالئے۔

اس کی سب سے بڑی مثالیں وہ سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی چال بازیاں اور انگریزوں کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ایسی حکومتوں کو بنانا اور چلانا تھا جو حقیقی معنوں میں ایوان میں اکثریت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی طرح 1946ء میں ہونے والی انگریز انتظامیہ کے زیراہتمام ہونے والے انتخابات میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا اور مسلم لیگ کے حمایت یافتہ خان بہادر محمد ایوب کھوڑو کو 35 میں سے 25 ممبران کی حمایت حاصل تھی لیکن سر غلام حسین ہدایت اللہ نے چونکہ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت سے ناطے جوڑ نے کے لئے میر بندہ علی کی معرفت اوپر تک رسائی حاصل کرلی تھی، لہٰذا ایک مرتبہ پھر سندھ کی حکومت کے لئے قراء فال اسی کے نام نکلا۔

جی ایم سید نے ریکارڈ کی درستگی اور حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے 9دسمبر 1946ء میں کرائے گئے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف اعتراضات اٹھائے اور (دادو کے حلقے ، جہاں سے وہ خود بھی امیدوار تھے) مسلم لیگ کے نامزد امیدوار قاضی محمد اکبر کے انتخاب کو چیلنج کیا۔ یہی پٹیشن 18نومبر 1947ء میں الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کی گئی اور پورے دو سال کی تحقیقات کے بعد 2فروری 1949ء کو سندھ کے گورنر کو رپورٹ پیش کی، جس میں قاضی محمد اکبر پر دھاندلی کے تمام الزامات صحیح قرار پائے گئے۔ اس رپورٹ اور تحقیقات کے نتیجے میں قاضی محمد اکبر کے انتخاب کو نہ صرف رد کیا گیا بلکہ چھ سال کیلئے انہیں ووٹ لینے اور دینے سے بھی منع کردیا گیا۔ اسی طرح پیر الٰہی بخش پر بھی ووٹرز کو خریدنے، جعلی ووٹ ڈالنے والوں کی ہمت افزائی اور ان سے ووٹ ڈلوانے کے الزامات ثابت ہونے پر چھ سال کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں قاضی اکبر کو اسمبلی کی سیٹ چھوڑنی پڑی اور پیرالٰہی بخش ،جو ان دنوں سندھ کابینہ میں وزیر تھے، ان سے وزارت بھی واپس لے لی گئی اور اسمبلی کی رکنیت بھی۔ (قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے یہ بات بتاتی چلوں کہ قاضی اکبر صاحب کے فرزند علی قاضی اور میرپورخاص اور پیر الٰہی بخش کے پڑپوتے پیر مجیب الحق حالیہ انتخابات میں دادو کے حلقوں سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں)۔

سندھ کی سیاست . . .کل اور آج

ان حقائق کو قارئین کے سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ اس چیز کو واضح کردیا جائے کہ اس خطے کی لگ بھگ پون صدی کی تاریخ میں چاہے وہ انگریزوں کے زیرانتظام ہندوستان کی مرکزی حکومت ہو یا قیام پاکستان کے بعد والی سندھ اور پاکستان کی مرکزی حکومتیں ہوں، پاکستان میں انتخابات کا عمل ایک مذاق ہی بنارہا ہے۔ الیکشن کے قواعد اور ضوابط، اسٹیبلشمنٹ اور ان کو احکامات دینے والی کئی (خفیہ) ایجنسیوں کی ہدایتوں پر چلنے سے متنازعہ ہی ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان میں باقی عوامل کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کا کردار بھی منفی رہا ہے، جس کی وجہ سے کبھی بھی مضبوط اپوزیشن ابھرنے نہیں پائی اور نظریاتی سیاست آہستہ آہستہ دم توڑتی نظر آرہی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پہلی آئین ساز اسمبلی آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت بنائی گئی، لیکن بغیر کسی موثر تنظیمی ڈھانچے کے، کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہ ہوپایا، خود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار نئے ملک کے انتظامی کاموں، کرنسی، فوج اور اثاثوں کی تقسیم اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری جیسے معاملات میں ایسے الجھ کر رہ گئے کہ انہیں آئین سازی کا موقع ہی نہیں مل پایا، حالانکہ قائداعظم اپنی مختلف تقاریر اور تحریروں کے ذریعے پاکستان میں مستقبل کےحکومتی اور جمہوری نظام کو کس طرح چلایا جائے گا،اس کے متعلق اشارے دیتے رہے، لیکن لیڈران اور آئین ساز اسمبلی کے اراکین اس معاملے میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے، جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ بار بار آئین توڑنے ، جمہوری حکومتیں ختم کرنے اور مختلف قسم کے تجربے کرنے کے باوجود ہم ابھی تک کسی ایسے نکتے پر نہیں متفق ہوپائے ہیں کہ آخر قائداعظم کے سامنے کیسا نظام حکومت تھا؟ وحدانی طرز حکومت یا وفاقی؟ انتخابات کا طریقہ کار کس طرح کا ہونا چاہئے تھا؟ یہ ایک اور لمبی بحث ہے جس میں تحقیق کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔ اس بحث میں جائے بغیر، سندھ کی طرف لوٹ کر ان محرکات کو واضح کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے سندھ کی سیاست پر مختلف اثرات نمودار ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد،سب سے کٹھن، افسوس ناک اور نومولود ملک کے وسائل پر بوجھ ڈالنے والا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان لوگوں کی نقل مکانی تھا، شاید ہی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے انجان علاقے کا رخ کیا ہوگا، لاکھوں لوگ اپنے آبائواجداد اور اپنے گھر چھوڑ کر ایک نئی منزل کی طرف نکل پڑے۔ مذہبی جنون پرستوں کے ہاتھوں کئی بے گناہ مارے گئے، اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے۔ تاریخ میں اس طرح کی قتل و غارتگری اور لوٹ مار کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ لاکھوں لوگ پاکستان کی سرزمین پر نقل مکانی کرکے پہنچے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے آنے کا کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا۔ ان کے لئے ایک نوزائیدہ ملک کے لئے رہائش، خوراک اور روزگار کا انتظام کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ اس کا اثر پورے پاکستان پر پڑنا تو تھا ہی، لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ تھا ،کیونکہ ہندوستان سے آنے والے لاکھوں خاندانوں کی اکثریت نے سیدھا سندھ کا رخ کیا، جس کی وجہ سے صوبہ سندھ کی معیشت بیٹھ گئی۔

دسمبر 1947ء تک 80لاکھ مہاجرین پاکستان میں آچکے تھے۔ جن میں اکثریت سندھ میں آباد ہوگئی تھی۔ اس وقت 3لاکھ کی آبادی والے شہر کراچی میں جو نہ صرف سندھ کا دل تھا، اور بندرگاہ کی وجہ سے مشرق کا ستارہ کہلاتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے کچی آبادیوں والا شہر بن گیا۔ 80لاکھ ہندوستان سے آنے والے لوگوں کے مقابلے میں سندھ سے نقل مکانی کرنے والے ہندوئوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 12لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ دونوں ملکوں سے ہونے والی اس نقل مکانی کا اثر پنجاب اور دوسرے صوبوں پر نہ ہونے کے برابر پڑا۔ جب کہ اس صورتحال کی وجہ سے نہ صرف سندھ معاشی بلکہ سماجی اور آبادی کے بے شمار مسائل سے دوچار ہوا۔ زبان ثقافت اور رسوم و رواج بھی ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی وجہ سے سندھ کی سیاست میں بڑی تبدیلی آئی۔

ان مسائل اور اختلافات میں متروک املاک کی تقسیم، ہندوستان سے آنے والوں کے دعوے، اٹھتے ہے بدعنوانیوں کے نذر ہوگئے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے قوانین میں سندھ کے اصلی باشندوں سے یہ زیادتی کی گئی کہ کوئی رہائشی مکان یا دوکان کی خریداری کی صورت میں مقامی سندھی دس ہزار سے زیادہ قیمت کانہ کوئی گھر خریدنے کا مجاز تھا اور نہ ہی دوکان۔ ان تمام حالات کے نتیجے میں سندھی مسلمان اپنی ہی زمین پر بے گھر رہے۔ مرکز میں بیٹھے، حکومتی دعویداروں نے یہ احکامات نافذ کئے کہ ان املاک اور زمینوں پر صرف انہی لوگوں کا حق ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے ہیں۔ سندھ کے سیاستدان جو اکثر سرمایہ دار طبقے اور جاگیر دار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے وہ اقتدار کی جنگ میں الجھ گئے اور عام سندھی یہ زیادتیاں (فی الحال) صبر سے برداشت کرتا رہا۔ سندھ کے مسلمان نے تو یہ سمجھا تھا کہ آزادی کے بعد انہیں سماجی انصاف میسر آئے گا لیکن یہ شاید ان کی بھول تھی۔ قیام پاکستان تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا جس نے یہ موقع فراہم کیا تھا، لیکن سندھ کے لوگوں کے لیے یہ صرف آقائوں کی تبدیلی ہی ثابت ہوا۔

سندھ کی سیاست میں تبدیلی لانے والے محرکات

اس بات کو مان لینے میں کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان بننے کےبعد مسلسل 23سال مسلم لیگ اپنی کاہلی اور صحیح ترجیحات طے نہ کرنے کی وجہ سے نہ ہی نئے ملک کے لیے آئین بناسکی اور نہ ہی قانون سازی کا کوئی عمل شروع ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ اپنا تمام سلسلہ کار، اسی سامراج کے بنائے ہوئے قانون انڈیا ایکٹ آف 1935کے تحت ہی چلانا پڑا، جن سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی گئی اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آنے والی قیادت، اپنی خواہشات کی غلام نکلی، یہاں تک کہ نہ وہ پاکستان کے صوبوں کو باہم متحد رکھ سکی اور نہ ہی صوبوں کے مفادات کو تحفظ دے سکی۔

سندھ کی سیاست میں آنے والی تبدیلیاں دو قسم کی تھیں۔ اول یہ کہ سندھ کے متمول طبقے نے اپنے مفادات کے بچائو کا کھیل کھیلا اور سیاست پر حاوی اور موجود رہنے کے گرُ سیکھے لیکن ساتھ ہی پس پردہ ایک نوجوان، پڑھا لکھا دانشور، ایسا طبقہ بھی ابھر کر سامنے آیا جو اپنی زمین ، زبان ، روایات، پانی اور لوگوں کے حقوق کے بات کرنے لگا۔قیام پاکستان کے 23سال کے دوران باہر سے آنے والوں کے لیے غیر قانونی داخلے کے راستے کھلے رہے۔ اور ان کے نام پر سندھ کی شہری اور مضافاتی دولت کے نام پر لوٹ مار جاری رہی، نئے آنے والوں کے نام پر تعلیمی نظام میں سندھی مادری زبان کو ذریعہ تعلیم کے بجائے اردو کو قومی زبان کا درجہ دےدیا گیا اور بشمول سندھ مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں پر ایک بڑے صوبے پنجاب کے تابع ’’ون یونٹ‘‘ کا نظام مسلط کردیا گیا۔

تاریخ بھی ایک عجیب علم ہے، اس کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی بھی ظہور پذیر ہوتے ہوئے واقعات کے دوران نہیں لکھی جاتی، بلکہ وقت گزرنے کے بعد ہی لکھی گئی ہے، کبھی سالوں بعد، کبھی دہائیوں بعد اور کبھی صدیوں بعد، اس دوران وقت کا بہتا دریا بہت سارے نشانات مٹاتا چلا جاتا ہے یا پھر حقائق پر مصلحتوں کی دھول پڑ جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ سارے حقائق دھند لے پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان اور سندھ کی تاریخ بھی تاریخ کے اسی جبر کا شکار رہی ہے اور حقائق کو آنکھوں سے دیکھنے، حالات وواقعات کا حصہ بننے والے لوگ بھی حقیقت بتانے سے گریزاں رہے اور آج بھی منہ کھولنے کو تیار نہیں، لہٰذا ہماری تاریخ مسخ ہی ہوتی رہی ہے۔ ’’ون یونٹ‘‘ بننے کی تاریخ بھی اصلی محرکات اور حقائق کے سرسری ذکر سے بھی محروم رہی ہے،کیونکہ جو اس سازش میں شریک تھے، وہ نہ صرف ان حقائق سے پردہ اٹھانے کو تیار نہیں، بلکہ جو زندہ تھےیاہیں وہ بھی مصلحتوں کا شکار بنے رہے۔ مختصراً یہ کہ نوکر شاہی اور حکمران ٹولے نے اپنے مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھ کر 14دسمبر 1954میں ایک میٹنگ بلائی، جس میں مغربی پاکستان کے گورنر اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بلا کر ’’ون یونٹ‘‘ بنانے کی تجویز پر اس کے حق میں فیصلہ کروالیا۔ون یونٹ بن گیا اور پنجاب ’’بڑے بھائی‘‘ کا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں اتر پڑا۔ اتحاد کے نام پر چھوٹے صوبوں کے حقوق صلب کرنے کے تمام انتظام کردئیے گئے۔ تمام صوبوں کے تمام فائل لاہور بھیج دئیے گئے۔

کراچی کا ملک کی معیشت کی شہ رگ ہونا، صنعتی شہر بننے کے روشن امکانات، دو بیراج بننے کے بعد سندھ کی زرخیز زمینیں ہی اس کے لیے بد قسمتی بن گئیں۔ صرف حوالے کے طورپر یہ بتادوں کہ زمینوں کی بندر بانٹ اس طرح کی گئی کہ اس وقت کے وزیر آب پاشی قاضی فضل اللہ نے جنوری 1957کے ایک اجلاس میں بتایا کہ کوٹری بیراج کی ایک لاکھ ایکڑ زمین جو فوجیوں کے لیے مختص کی گئی تھی اور اس وقت تک 25ہزار ایکڑ ڈھائی سو روپے ایکڑ کے حساب سے جنرل محمد ایوب خان، جنرل موسیٰ، میجر جنرل محمد ابرار خان، بریگیڈیر سید غواث، کرنل مظفر اور کرنل حیدر وہ نام ہیں جو اس سے مستفید ہوئے اس کے ساتھ ہی سیاست کے میدان میں اس وقت کے موسمی پرندے اور آج کی زبان میں ’’ٹولے‘‘ مسلم لیگ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں جا بسے۔

سندھ میں اقتدر کے اس جھولے میں جھولنے والوں میں میر غلام علی ٹالپر، سید نور محمد شاہ، عبدالستار پیرزادہ، میر علی احمد ٹالپراور قاضی فضل اللہ سب ریپبلکن حکومت میں شامل ہوگئے۔ون یونٹ کو بنانے والوں میں محمد ایوب کھوڑو سب سے زیادہ سرگرم اور بے چین تھے۔ وزارت اعلیٰ کو برقرار رکھنے کے لیے وہ سندھ کا سودا کرنے کو تیار تھے۔ ون یونٹ کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج اور مخالفت کو دیکھتےہوئے وہ یہ کارنامہ بھی کر گزرے کہ اسمبلی میں اجلاس بلانے کے بجائے، (اسمبلی کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا) حیدرآباد کے دربار ہال میں ون یونٹ کا بل پیش کیا گیا۔

11دسمبر 1954کو سندھ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے جب لوگوں کے منتخب نمائندوں نے اپنے صوبے کے تمام مالی وسائل اور اختیارات اپنے ہاتھوں سے ایک مرکزی سرکار کے سپرد کرئیے اور خود کو بے بس اور ان کا محتاج بنادیا، محض ایک وزارت یا اسمبلی ممبر کی سیٹ کو بچانے کے لیے۔110کے ایوان میں آٹھ ممبر غیر حاضر یا نظر بند کئے گئے اور چار ممبران عبدالحمید جتوئی، غلام مصفطیٰ خان بھرگڑی، پیر الہٰی بخش اور شیخ خورشید احمد نے مخالفت میں ووٹ ڈالے، جب کہ جی ایم سید گھر پر نظر بند کردئیے گئے۔

محمد ایوب کھوڑو کے اس عمل نے اسے تاریخ میں اس مقام پر کھڑا کردیا کہ اس جرم کو سندھ کے لوگ نہ بھولے ہیں اور نہ ہی معاف کرنے کوتیار ہیں،آگے کے معاملات کافی طویل ہیں ،جس میں پھر جی ایم سید ، خان عبدالغفار خان کی سربراہی میں ایک اینٹی ون یونٹ فرنٹ بناکر اس کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس واقعے کو سندھ کی سیاست میں ایک ایسا موڑ کہہ سکتے ہیں ، جس نے سندھ کے دانشور اور قوم پرست عناصر کو ایک نقطہ پر ایک جگہ جمع کردیااور، ریپبلیکن پارٹی کی حکومت کو گرانے اور ون یونٹ کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کی ،ان کی اس جدوجہد میں مشرقی پاکستان کے حسین شہید سہروردی اور مولانا بھاشانی جیسے کہنہ مشق اور محب وطن لیڈر بھی شامل ہوگئے ۔ سندھ میں دانشوروں کے ساتھ شاگردوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی ساتھ مل گئی۔

پاکستان کو متحد کرنے، صوبائی عصبیت کو ختم کرنے کے نعرے اور حقیقت میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کرنے والے ’’ون یونٹ‘ کے اس تجربے نے پاکستان کو عمومی اور صوبوں کو خاص طورپر بہت سے دھڑوں میں بانٹ دیا۔ اس درمیان پاکستان جنرل ایوب خان مارشل لا بھی لگا،جو عوامی تحریکوں اور احتجاج کے بعد جب ختم ہوا تو اقتدار پھر ایک فوجی جنرل محمد یحییٰ خان کے حوالے کیا گیا، جس کا اختتام پاکستان کی تاریخ کا ایک تکلیف دہ باب ہے۔ جب مشرقی پاکستان جدا ہوکر نئے ملک بنگلہ دیش کی صورت میں نمودار ہوا۔پندرہ سالہ ’’ون یونٹ‘‘ کا یہ تجربہ، قوم کو تو کیا ملاتا، ملک کو ہی دو لخت کرگیا۔ ان پندرہ سالوں میں ہندوستان سے دوسری جنگ ہوئی اور 30ستمبر 1955سے مسلط کیا ہوا ون یونٹ یکم جولائی 1970میں بڑی خواریوں اور تلخ یادوں کے ساتھ توڑ دیا گیا ،اس کے بعد صوبوں کو اپنا تشخص واپس ملا۔

اس عرصے میں پاکستان اور سندھ کی سیاست میں ایک انقلاب انگیز اور طوفانی تبدیلی آئی۔ یہ تبدیلی لانے والی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، جو ایوب خان کی کابینہ کے بہت معتبر وزیر تھے۔ اپنی چرب زبانی، اعلیٰ تعلیم، بے پناہ ذہانت اور کرشماتی شخصیت کی بنا پر بہت جلد اعلیٰ حلقوں میں اپنی جگہ بنالی، وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالا۔ بین الاقوامی ملکوں اور حلقوں میں اپنی اور پاکستان کی جگہ بنائی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی 1965کی جنگ کے بعد 10جنوری 1966میں تاشقند امن معاہدہ ہوا،جس کےاختلافات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو ، ایوب خان کی حکومت کو چھوڑ کر باہر نکل آئے اور 30نومبر 1967کو لاہور میں سید مبشر حسن کے گھر پر ایک نئی سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی، جسے پاکستان پیپلز پارٹی کا نام دیا ،ان کے دئیے گئے ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کے نعرے اور اسلام ہمارا دین ، سوشلزم ہماری معیشت کے تصور نے پاکستان کے لبرل، ترقی پسند، سوشلسٹ طبقوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں اور خواتین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نعرے نے مزدور اور کسانوں کو اپنی طرف کھینچا اور عوام کے پسے ہوئے طبقے کو زبان دی۔ 1970کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے نمودار ہوئی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی سندھ کے سرمایہ دار، جاگیردار اور Electerblesکو اپنی پارٹی کی بنیاد فراہم کی، لیکن شیخ رشید ، مولانا کوثر نیازی، معراج محمد خان، طارق عزیز، مبشر حسن جیسے بہت سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پر جوش نوجوان، دانشور، شاعر، مزدور اور کسان، جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔سندھ کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کی آمد نے پوری کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ سیاست کے نئے اطوار سندھ میں نمودار ہوئے۔ امید حوصلے اور ترقی کی نئی راہیں کھلنے لگیں۔ جمہوری دور شروع ہوا۔ اسمبلیاں آباد ہوئیں۔ سندھ میں ترقی کے لیے نئے منصوبے شروع ہوئے۔ شہری اور دیہی علاقے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کھڑے تھے۔ کرچی سے بھی اردو بولنے والے پیپلز پارٹی کی طاقت کا ستون تھے۔ اس دور سے شروع ہونے والی سیاست نے سندھ میں رجعت پسندوں کو پچھاڑ دیا۔ جی ایم سید کی قوم پرستی والی سیاست موجود تو رہی لیکن پیپلز پارٹی کا جادو توڑنےمیں وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا مختصر دور حکومت ایک ہنگامہ خیز دور رہا، جس میں آئین بھی بنا، غیر ملکی سطح پر پاکستان بین الاقوامی سطح پر عزت سے پہچانا جانے لگا۔ ون یونٹ کے ٹوٹنے اور ملک کے تقسیم ہونے اور اس کے نتیجے میں 90ہزار فوجیوں کو ہندوستان کی قید سے رہائی کے بعد معمول کی زندگی میں دوبارہ واپس لانا اور معیشت کو بڑھاوا دینا کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ اس کے کئے ہوئے کافی فیصلے بہت متنازعہ گردانے گئے، جن میں صنعتوں اور اسکولوں کا قومیائے جانے کے بڑی منفی اثرات ہوئے یہاں تک بینک بھی اس کی زد میں آئے۔ مذہبی حلقوں کی طرف سے اس کی پالیسیوں پر اختلاف نے ایک دوسرا پنڈورا بکس کھول دیا اور سندھ میں اسمبلی سے سندھی زبان کو اسکولوں کو پڑھانے کو قانونی شکل دینے پر لسانی تنازعے سر اٹھا کر کھڑے ہوگئے۔1970سے 1977تک بھٹو کا دور حکومت ایک رولر کوسٹر (Roller Coaster) کی طرح کا دور تھا۔ ایک طوفان تھا جو جب تھما تو بین الاقوامی سازشونںکے نتیجے میں بھٹو کے دور حکومت کا خاتمہ ہوا، اس کے ساتھ ہی اسلامی ملکوں کی مجتع قوت بھی بکھر کے رہ گئی۔

1977میں جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کے دس سال تک فوجی حکومت کو ملک پر مسلط رکھا۔ ا س بدترین دور میں ملک سمیت، سندھ میں پیپلز پارٹی جہاں مستعد رہی تکلیفوں کے باوجود قائم رہی، وہیں بہت ساری دوسری سیاسی قوتوں کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔ ضیا الحق کے دور حکومت میں ہی پیر پگارا کی سربراہی میں مسلم لیگ کے محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنے۔ سندھ میں بھی انہیں آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی، یہی وہ عرصہ ہے جب سندھ میں الطاف حسین کراچی میں نمودار ہوئے اور لسانی بنیادوں پر سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کو ایک علیحدہ شناخت دی۔

مہاجر قومی موئومنٹ سندھ کی سیاست میں طلبا کی ایک تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کے پلیٹ فارم سے نمودار ہوئی۔ اس تنظیم کو جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم کے مقابلے میں بنایا گیا ۔ایم کیو ایم نے متوسط اور اس سے بھی نچلے طبقے کو بہت موثر انداز میں اپنی طرف کھینچا۔ اس کے پاس تنظیمی صلاحیتیں تھیں۔ مہاجر قومی موئومنٹ نے 1986-1990، 1990-1999اور 2001سے لے کر کافی آگے تک مختلف پارٹیوں اور طرز حکومتوں کے ساتھ اقتدار بانٹا۔ اس میں ضیا الحق کے دور سے لے کر پیپلز پارٹی تک، ہر ایک پارٹی کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹے۔ پیپلز پارٹی کے حالیہ فلسفے ’’مفاہمت‘‘ ان کا بھی مطمع نظر رہا۔ ایک حکومت اگر پیپلز پارٹی کے ساتھ بنائی تو دوسری مرتبہ پیپلز پارٹی کی مخالف پارٹی کے ساتھ بھی بیٹھ گئے، اس طرح تقریباً تین دھائیوں سے ایم کیو ایم، سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں اپنا پورا کنٹرول رکھتی رہی ۔ شہروں کے بلدیاتی ادارے ان ہی کے زیر اثر اور زیر انتظام رہے ۔ ملک کے مقتدر حلقوں کا ہاتھ بھی انہی کے سر پر رہا ہے۔

ایم کیو ایم ’’مہاجر‘‘ لفظ ہٹاکر ’’متحدہ‘‘ میں بدل گئی۔ متحدہ قومی موئومنٹ مہاجروں سے ہونی والی زیادتیوں مثلاً کوٹہ سسٹم کے خلاف اپنا بیانیہ لے کر چلی۔ اسی دوران لسانی اور تعصبی سیاست نے سندھ کی شہری اور دیہی آبادی کو بانٹ کر رکھ دیا اور پھر خود ایم کیو ایم بھی دھڑے بندی کا شکار ہوگئی ہے۔ مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پی آئی بی والی ایم کیو ایم اور عامر خان اور خالد مقبول صدیقی والی بہادر آباد ایم کیو ایم سب میدان میں اترے ہوئے ہیں اور اس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ اردو بولنے والوں کے ووٹ انہی کو پڑیں گے۔

حالیہ انتخابات اور سندھ کی سیاست

اب جبکہ 2018ء کے انتخابات ہوا ہی چاہتے ہیں۔ پورے ملک کے ساتھ ساتھ سندھ میں بھی صورت حال کسی طور واضح نہیں ہے۔ جو تبدیلی سندھ کے دارالحکومت کراچی کی ہے، اس میں سب سے بڑی تبدیلی ایم کیو ایم کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ ہے، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی یا ایم ایم اے، این این پی کراچی اور مضافاتی علاقوں میں ایس یو پی کے امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ وفاق ہو یا پنجاب، سندھ اور دوسرے صوبوں کی حکومتیں، واضح اکثریت کسی پارٹی کی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک مخلوط حکومتیں بنتی نظر آرہی ہیں۔ دیکھیےآگے آگے ہوتا کیا ہے؟ انتخابات ہورہےہیں،جو نتائج نکلیں گے،سب کے سامنے آجائیں گے۔

تازہ ترین