• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری

موٹاپے کا ایک سبب چکنائی کی زیادتی بھی ہے۔ اس لیے زیادہ تر افراد اسمارٹ نظر آنے کے لیے اِدھر اُدھر کے مشوروں اور اشتہاری ادویہ کا سہارا لیتے ہوئے مکمل طور پر چکنائی کا استعمال ترک کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ جہاں خوراک کے اجزائے ترکیبی کی زیادتی مختلف عوارض کا سبب بنتی ہے، وہیں ان کی کمی بھی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک صحت مند فرد کو اوسطاً 600گرام غذائی اجزاء درکار ہوتے ہیں، جو وہ نشاستے، لحمیات، چکنائی اور وٹامنز کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ غذا میں ان اجزاء کا شامل ہونا ہی ’’متوازن غذا‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی متوازن غذا سے مُراد وہ غذا ہے، جس میں ایسے غذائی اجزاء شامل ہوں، جن سے جسم کی نشوونما بہتر ہو، صحت برقرار رہے اور روزمرّہ کے امور عُمدگی سے انجام دیئے جا سکیں۔ ماہرینِ اغذیہ نے غذا کو چار گروپس میں تقسیم کیا ہے۔

پہلے گروپ میں جسم کی بہتر نشوونما کے لیے درکار اجزاء میں دالیں، دودھ اور اس سے بنی اشیاء، انڈے، گوشت، مٹر اور مونگ پھلی وغیرہ شامل ہیں، جب کہ دوسرے گروپ میں جسم کو توانائی اور حرارت فراہم کرنے والی غذائیں گندم، چاول، مکئی، جَو، باجرہ اور آلو اور اس سے تیار کردہ اشیاء شامل کی گئی ہیں۔ اور تیسرے گروپ میں روزمرّہ امور کی انجام دہی کے لیے جسم کو طاقت فراہم کرنے والی غذائوں میں شکر، چینی کے علاوہ چکنائی، سویابین، کھوپرا، سرسوں، زیتون، مونگ پھلی، سورج مکھی اور مختلف اقسام کے بیجوں سے تیار کردہ تیل اور مارجرین وغیرہ شامل کیے گئے ہیں۔ چوتھا گروپ ہاضمے کو تقویت فراہم کرنے اور غذا کی افادیت بڑھانے والے غذائی اجزاء وٹامنز اور نمکیات پر مشتمل ہے، جنہیں سورج کی روشنی اور دیگر غذائوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً گہرے ہرے رنگ کی پتّوں والی سبزیاں، ٹماٹر، گاجر، سلاد اور پھلوں میں آم، پپیتا، لیموں اور سنگترا وغیرہ۔ علاوہ ازیں، متوازن غذا کا ایک اہم جز پانی بھی ہے، جو ہمارے جسم میں مختلف غذائی اجزاء کو بافتوں تک پہنچانے اور ہضم ہونے والے اجزاء کے اخراج میں کام آتا ہے۔

جب ہماری غذا میں کسی ایک جزو کی پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، چکنائی، نمکیات، وٹامنز اور پانی کی بھی کمی ہوجائے اور باقی اجزاء کا تناسب بھی برقرار نہ رہے، تو پھر کئی طبّی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ چہرے اور پیٹھ پر کیل، مہاسے، جِلد پر سُوجن، جِلد کا بے رونق ہوجانا، جِلد کی سُرخی، خشکی اور مچھلی کی جِلد جیسے نشانات ظاہر ہونا، سورائسز، ایگزیما، جسم کی جھرّیاں، بینائی کا متاثر ہونا، بال خشک اور بے رونق ہو جانا، بالوں کا گرنا، یاسیت، یادداشت کی کم زوری، چال میں لڑکھڑاہٹ، چلتے ہوئے پیروں کا مُڑ جانا، عضلات میں درد اور کم زوری، ایڑی کا پھٹ جانا، بازو یا کہنی پر اُبھار بننا، ناخنوں کا سُست رفتاری سے بڑھنا، آنکھوں اور مُنہ کا خشک رہنا، کانوں میں میل کی زیادتی، زیادہ پیاس لگنا، دمہ، جوڑوں میں سختی، ذیابطیس اور خاص طور پر خواتین میں دورانِ ماہ واری شدید تشنّج جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔ پھر اگر کوئی شخص ان علامات میں سے کسی ایک یا زائد کے ساتھ معالج سے رجوع کرتا ہے، تو مرض کی تشخیص کے لیے بلڈ ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے فیٹی ایسڈ کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ 

عموماً چکنائی کی کمی کے شکار مریضوں کو جب یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں کوئی مرض نہیں، بلکہ یہ علامات چکنائی کی کمی کے سبب ظاہر ہو رہی ہیں، تو زیادہ تر افراد غیر یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ روزانہ کھانوں میں LipidFats کی مقدار60سے130مائیکروگرام فی ڈیسی لیٹر، ایل ڈی ایل کی مقدار40، ایچ ڈی ایل200، کولیسٹرول کی مقدار10سے 150مائیکرو گرام فی ڈیسی لیٹر ہونی چاہیے، جب کہ روزانہ ہی ٹرائی گلیسرائڈز (Triglycerides) اور وی ایل ڈی ایل (VLDL) کی2سے38مائیکرو گرام فی ڈیسی لیٹر مقدار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر کوئی فرد موٹاپے کا شکار ہے اور وہ اس سے نجات کے لیے چکنائی کا استعمال ترک کر بیٹھا ہے، تو وزن میں کمی کے ساتھ وہ کئی طبّی مسائل کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ سو، سب سے بہتر تو یہی ہے کہ وزن میں کمی کے لیے کسی ماہر معالج سے رجوع کیا جائے تاکہ وہ آپ کیلئے جسم کو درکار غذائی اجزاء کی ضرورت کے مطابق ایک غذائی چارٹ مرتّب کر سکے۔

(مضمون نگار، ڈاؤ یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ رہے)

تازہ ترین