• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیل کی بڑھتی قیمتیں اور عالمی سیاست

دنیا بَھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو رہا ہے اور ان میں کمی کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک برس قبل تک پاکستان میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 60سے 70روپے کے درمیان جُھول رہی تھی، جب کہ اس وقت ایک لیٹر پیٹرول لگ بھگ ایک سو روپے میں دست یاب ہے اور آیندہ دِنوں اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ عموماً تیل کی قیمتوں کا براہِ راست تعلق اس کی طلب و رسد سے ہوتا ہے۔ تاہم، اکثر اس میں سیاست کا عُنصر بھی شامل ہو جاتا ہے، جو عالمی سیاست میں ہل چل کی نشان دہی کرتا ہے۔ گرچہ عام طور پر تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہی دیکھا گیاہے، جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ جاتی ہے، لیکن کبھی کبھار تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث بھی مختلف ممالک میں بُحران جنم لیتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر 1973ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے ایک برس بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے نے یورپ اور امریکا کو ہِلا کر رکھ دیا تھا، جب کہ1980ء کے عشرے میں قیمتوں میں کمی نے سوویت یونین کے انتشار کے عمل کو تیز تر کر دیا۔ پھر 2015ء میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں، تو ایک سال سے بھی کم عرصے میں 114ڈالرز فی بیرل سے کم ہو کر 28ڈالرز فی بیرل پر آ گئیں۔ اس موقعے پر تیل درآمد کرنے والے ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جب کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد ایک مرتبہ پھر تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ شروع ہو گیا اور امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو سعودی فرماں روا، شاہ سلمان کو ایمرجینسی کال کر کے درخواست کرنا پڑی کہ وہ فوری طور پر تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں، تاکہ عالمی مارکیٹ میں استحکام پیدا کیا جا سکے۔

عالمی اقتصادی نظام اور اس کے طریقۂ کار پر نظر رکھنے والے ماہرین تیل کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تیل کی رسد میں کمی سے نہ صرف ممالک کا ٹرانسپورٹ سسٹم متاثر ہوتا ہے، بلکہ صنعتوں کا پہیہ بھی جام ہونے لگتا ہے۔ نیز، معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ تیل کی مارکیٹ کا بڑی حد تک انحصارعالمی سیاست پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سابق امریکی صدر، باراک اوباما کی خواہشات کے برعکس مشرقِ وسطیٰ آج بھی امریکی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز ہے اور ٹرمپ انتظامیہ ایران اور 5عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہو چُکی ہے، جس کے بعد یہ معاہدہ صرف برطانیہ، چین، فرانس، رُوس، جرمنی اور ایران کے درمیان باقی رہ گیاہے۔ امریکی صدر نے نہ صرف اس ایٹمی ڈِیل کو مسترد کر دیا ہے، بلکہ موجودہ امریکی انتظامیہ نے ایران پر دوبار اقتصادی پابندیاں بھی عاید کر دی ہیں اور مستقبل میں مزید سخت پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

یاد رہے کہ ایرانی معیشت گزشتہ 10برس سے مسلسل دگرگوں ہے اور تیل اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت ایران دُنیا میں تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا مُلک ہے، جب کہ سعودی عرب اور امریکا سرِفہرست ہیں۔ آج دُنیا بَھر میں تیل کی کھپت تقریباً ایک کروڑ 10لاکھ بیرل یومیہ ہے اور اس کا نصف صرف امریکا استعمال کرتا ہے۔ اس مختصر سے جائزے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تیل کے میدان میں امریکا اور سعودی عرب کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب ہی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم، اوپیک کی ’’ڈرائیونگ فورس‘‘ ہے۔

آج سے 3برس قبل جب ایران پر عاید اقتصادی پابندیاں نرم کی گئیں، تو اس کے نتیجے میں اسے اپنے منجمد اثاثے واپس ملنے سے 40ارب ڈالرز کا فائدہ تو ہوا، لیکن تہران تیل درآمد کرنے کی اجازت کے ثمرات حاصل نہ کر سکا کہ تب تیل کی قیمتیں30ڈالرز فی بیرل سے بھی کم ہو چُکی تھی۔ نتیجتاً، ایران کے لیے بجٹ بنانا بھی مشکل ہو گیا کہ ایران کے معاشی ماہرین نے ایک سو ڈالرز فی بیرل سے زاید کا تخمینہ لگایا تھا۔یہ شارٹ فال ایرانی صدر، حسن روحانی کے لیے ایک چیلنج بن گیا اور ابتر معاشی صورتِ حال کے خلاف مُلک بَھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ علاوہ ازیں، شام اور یمن کی خانہ جنگی میں شمولیت بھی ایرانی معیشت پر بوجھ بن چُکی ہے اور ایران اور عرب ممالک کے درمیان جاری کشمکش دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ تہران اس دلدل میں دھنستا ہی چلا رہا ہے۔ جوہری معاہدے کے بعد یہ اُمید پیدا ہوئی تھی کہ ایران عالمی تجارت کا حصّہ بن کر اپنی معیشت میں بہتری لائے گا اور سابق امریکی صدر نے بھی اسی لیے ایٹمی ڈِیل کروائی تھی کہ وہ ایران کی اقتصادی پوزیشن مستحکم کر کے اسے مشرقِ وسطیٰ میں مرکزی کردار دینے کے خواہش مند تھے اور شامی مسئلے کے حل کی موہوم سی امید بھی رکھتے تھے، لیکن یہ سب ممکن نہ ہو سکا اور پھر امریکا جوہری معاہدے سے دست بردار بھی ہو گیا۔

تیل کی قیمتوں کی موجودہ صورتِ حال کا براہِ راست تعلق سیاست سے ہے۔ اس وقت ایران جوہری معاہدے میں شامل یورپی ممالک پر انحصار کر رہا ہے کہ شاید وہ امریکا کے مؤقف میں نرمی پیدا کرنے میں کام یاب ہو جائیں، لیکن ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب سے تیل کی پیداوار میں فوری اضافے کی درخواست سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپ، ایران کی توقّعات پر پورا نہیں اُتر رہا اور طاقت کا محور و مرکز امریکا ہی ہے۔ گرچہ ایران، امریکا کے خلاف سخت بیانات دیتا رہا ہے، جس میں یورینیم افزودگی بڑھانے کی دھمکی تک شامل ہے، لیکن اگر تہران نے اس دھمکی پر عمل درآمد کیا، تو اس کے یورپی ساتھی بالکل بے بس ہو جائیں گے اور انہیں لامحالہ امریکا کا ساتھ دینا پڑے گا، جس سے وہ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کے لیے ایک نئی مشکل یہ بھی پیدا ہو چُکی ہے کہ بھارت نے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، حالاں کہ یہی بھارت ایٹمی معاہدے سے قبل ایران پر عاید پابندیوں کے دوران بھی اس سے تیل درآمد کیا کرتا تھا۔ 

تاہم، گزشتہ ماہ بھارت نے ایران سے تیل کی خریداری میں 16فی صد کمی کر دی اور تہران نے دہلی سے شکایت کی ہے کہ وہ چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر میں بھی سُست روی اختیار کر رہا ہے۔اس موقعے پر ایرانی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کو امریکا سے براہِ راست مذاکرات کرنے چاہئیں۔ گو کہ تہران اس تجویز کو رَد کرتا ہے، لیکن ماہرین یہ یاد دِلاتے ہیں کہ آخر روحانی اس سے قبل بھی تو ایسا ہی کر چُکے ہیں کہ جب دونوں ممالک کے درمیان نفرت انتہا پر تھی۔ روحانی ہی کے دَورِ صدارت میں ایران اور امریکا کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہوئی اور تاریخی ایٹمی ڈِیل بھی ہو گئی۔ شاید اسی لیے بین الاقوامی تعلقات میں یہ کہا جاتا ہے کہ ممالک کے درمیان دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی، بلکہ صرف مفادات اہم ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ تیل کی قیمتوں اور پیداوار کا معاملہ پوری دُنیا ہی کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب تیل کی قیمتیں گریں، تو پاکستان اور بھارت سمیت تیل درآمد کرنے والے دیگر ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جب تیل کی قیمت 114ڈالرز فی بیرل تھی، تو تب پاکستان کا تیل کا سالانہ درآمدی بِل کم و بیش 13ارب ڈالرز تھا، جو قیمتیں گرنے کے بعد کم ہو کر 7ارب ڈالرز رہ گیا۔ یعنی درآمدی بِل میں 45فی صد کمی واقع ہوئی۔ 

اس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو خاصا سہارا ملا اور گزشتہ 3برسوں میں جی ڈی پی کی شرحِ نمو 3.5 سے بڑھ کر 5.2فی صد ہو گئی اور یہ کوئی معمولی کام یابی نہ تھی، لیکن اب صورتِ حال تبدیل ہونے والی ہے، جس کا ثبوت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔ عام انتخابات کے بعد پاکستان میں نئی حکومت وجود میں آنے والی ہے، جب کہ گزشتہ ایک برس سے برقرار بے یقینی کی کیفیت نے مُلکی معیشت کو ہِلا کر رکھ دیا ہے۔ اس دوران سیاسی جماعتیں یہ بُھول گئیں کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج گرتی معیشت کو سنبھالنا ہوتا ہے اور پاکستانی معیشت کو ٹریک پر لانا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ 

یاد رہے کہ معاشی ماہرین نے کئی ماہ قبل ہی مُلک کی اقتصادی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اب تیل کی بڑھتی قیمتوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ موجودہ صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کو قرضوں کے حصول کے لیے فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ گرچہ نئی حکومت کے پاس مُفت تیل اور اربوں ڈالرز کی امداد کے حصول کا متبادل راستہ بھی ہو گا، لیکن اسلام آباد اور خلیجی ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کے باعث اس آپشن پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ 

یاد رہے کہ اس سے قبل سعودی عرب 3مرتبہ تیل اور سرمائے کی صورت میں امداد فراہم کر کے پاکستان کو ’’بیل آئوٹ پیکیج‘‘ دے چُکا ہے۔ ماضی میں قطر اور متّحدہ عرب امارات نے بھی پاکستانی معیشت کو مشکلات سے نکالنے میں مثبت کردار ادا کیا، لیکن پاناما اسکینڈل منظرِ عام پر آنے کے بعدپاکستانی ذرایع ابلاغ میں جس طرح ان ممالک کو رگیدا گیا، اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ممالک بھی اب پاکستان کی مدد کے لیے آگے نہیں آئیں گے۔ سو ،لے دے کر چین ہی سے امید لگائی جا سکتی ہے۔ ہر چند کہ چینی بینکس نے پاکستان کو ایک ارب ڈالرز کے قرضے دیے ہیں، لیکن شاید یہ رقم ناکافی ہو گی۔ لہٰذا، ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر چار و ناچار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر تیل کی قیمتوں میں مزید کتنا اضافہ ہو گا؟ کیا یہ ایک بار پھر 114ڈالرز فی بیرل پر پہنچ جائیں گی یا 30 ڈالرز سے بھی نیچے آجائیں گی یا پھر کوئی درمیانی راہ نکالی جائے گی؟ یاد رہے کہ جب تیل کی قیمتیں کم ہوئی تھیں، تو اس کے نتیجے میں خلیجی ممالک کی معیشتیں ڈانواں ڈول ہونے لگی تھیں اور اب وہاں کئی تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اب خلیجی ممالک میں نِت نئے ٹیکسز لگائے جا رہے ہیں اور تارکینِ وطن کے لیے روزگار کے دروازے بہت سوچ سمجھ کر کھولے جا رہے ہیں۔ نیز، معیشت کو متنوّع بنایا جا رہا ہے اور اس ضمن میں سعودی ولی عہد، محمّد بن سلمان عرب دُنیا کے لیے ایک رہنما کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

علاوہ ازیں، سعودی ولی عہد اپنے مُلک میں بھی غیر معمولی اصلاحات بھی کر رہے ہیں۔ مثلاً، سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل چُکی ہے، حالاں کہ آج سے چند برس قبل تک اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کئی نئے شہر تعمیر کیے جا رہے ہیں، جن کی بنیاد ٹیکنالوجی پر رکھی جائے گی اور انہیں صنعتوں کی مدد سے سہارا دیا جائے گا۔ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ تیل کی قیمت 80ڈالرز فی بیرل مقرّر کی جائے، جب کہ امریکا تقریباً 70ڈالرز فی بیرل برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ 

گرچہ فی الحال تو ٹرمپ کی درخواست پر سعودی فرماں روا، شاہ سلمان نے فوری طور پر تیل کی پیداوار میں 10لاکھ بیرل اضافہ کر کے قیمتوں کو مزید بڑھنے سے روک دیا ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق، اس پر ایران کو شدید اعتراض ہے۔ تہران اسے اپنے معاملات میں مداخلت قرار دیتا ہے اور اسے برداشت کرنےپر آمادہ نہیں اور ایک موقعے پر اس معاملے میں فریقین کے درمیان تلخی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ امریکا نے ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز میں کسی بھی قسم کے فوجی اقدام کے خلاف مزاحمت کی دھمکی تک دے دی تھی۔ خیال رہے کہ عرب ممالک اور ایران کے تیل کی بڑی مقدار کی ترسیل آبنائے ہرمز ہی سے ہوتی ہے اور حربی حکمتِ عملی اور آبی گزر گاہوں کے ماہرین ان کلیدی سمندری مقامات کی اہمیت بہ خوبی سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب امریکا نے دُنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں پر ٹیکس عاید کر کے تجارتی جنگ کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بالخصوص، چین اور یورپ کی جانب سے اس پر شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ چین اور یورپ کا ماننا ہے کہ واشنگٹن ان کی برآمدات پر جتنی لاگت کا ٹیکس عاید کرے گا، بیجنگ اور برسلز بھی اتنے ہی حجم کا ٹیکس لاگو کریں گے، البتہ اس وقت چین کا رویّہ مفاہمانہ ہے، کیوں کہ اس کا نقصان زیادہ ہو گا۔اس صورتِ حال میں پاکستان کی طرح بھارت اور چین کو بھی اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا پڑی اور اگر امریکا اپنا دبائو برقرار رکھتا ہے، تو پھر یورپ کی معیشت بھی بہت زیادہ قابلِ بھروسا نہیں۔ سو، ان حالات میں تیل کی قیمتوں اور پیداوار میں یک دَم اضافہ چین کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی یورپ کے لیے، کیوں کہ یہ دونوں ہی تیل درآمد کرتے ہیں۔ 

اس وقت چین کے عرب ممالک سے کافی اچّھے تعلقات ہیں اور حال ہی میں دونوں کے درمیان بیجنگ میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں، لیکن یورپ اس وقت یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیوں کہ سعودی عرب، امریکا کے خاصے قریب آ گیا ہے اور نیو کلیئر ڈِیل کے معاملے پر ایران کے ساتھ اظہارِ یک جہتی بھی یورپ کو خاصا مہنگا پڑ رہا ہے۔ پھر ایک جانب شام کی خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں تارکینِ وطن کی آمد نے اسے پریشان کر رکھا ہے، تو دوسری جانب عرب ممالک تیل کے معاملے میں واشنگٹن کی رائے کو اہمیت دے رہی ہیں۔ پاکستان جیسے کم زور معیشت والے مُلک پر بھی تیل کی قیمتوں میں اُتار چڑھائو کے غیر معمولی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں اور اگر پیشگی اقدامات نہ کیے گئے، تو تجارتی توازن مزید بگڑ سکتا ہے۔ تاہم، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا1974ء اور 1980ء کے عشرے کی طرح تیل ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست میں فیصلہ کُن کردار ادا کرے گا؟

تازہ ترین