• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حج و عُمرہ احکام و مسائل

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو ہر صاحبِ حیثیت، بالغ مسلمان مرد اورعورت پر زندگی میں صرف ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ حج قولی، بدنی، قلبی و مالی عبادات کا مجموعہ ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں افراد ہر سال ادائیگئ حج کے لیے مکّہ مکرمہ کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے، جو پہلی بار فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کرتے ہیں۔ ایسے عازمینِ حج کی آگاہی کے لیے ذیل میں حج و عمرے سے متعلق احکام و مسائل اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔تاہم، تفصیلات کے لیے عازمین اپنے مسلک کے علمائے کرام کی مستند کتب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

سورئہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(ترجمہ) ’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اللہ کے اس گھر (کعبہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے۔‘‘ سورۃ البقرہ میں بھی ارشاد فرمایا کہ(ترجمہ)’’اور اللہ کی خوش نودی کے لیےحج اورعمرے کو پورا کرو۔‘‘ امام الانبیاء سرکارِ دو عالم، حضور رسالت مآب کا ارشادِ گرامی ہے’’لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا، لہٰذا حج کرو۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک اور جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’حجِ مبرور کا بدلہ صرف جنّت ہے۔‘‘(صحیح بخاری)۔

ایّامِ حج اور اقسام: 8ذوالحجہ سے 13ذوالحجہ تک یعنی چھے دن ’’ایّامِ حج ‘‘کہلاتے ہیں۔حج کی تین اقسام ہیں، حجِ افراد، حجِ قِران اور حجِ تمتّع، پاکستانیوں کی اکثریت حجِ تمتّع کرتی ہے، جس میں میقات یا اس سے پہلے عمرے کا احرام باندھتے اور نیّت کرتے ہیں۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد احرام کھول کر عام کپڑے پہن لیتے ہیں،8 ذوالحجہ کو حج کی نیّت کرکے دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور حج کی ادائیگی کےبعد عام کپڑے پہن لیتےہیں۔

حج کی تیاری: رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’مجھ سے حج کے مسائل سیکھ لو۔‘‘ اس حکم کی روشنی میں عازمینِ حج پر لازم ہے کہ وہ’’ مناسکِ حج وعمرہ‘‘ کی ضروری تربیت حاصل کرکے بیت اللہ شریف کا قصد کریں، تاکہ حج و عمرے کے جملہ اراکین و واجبات، احرام کے احکام، پابندیاں، طواف، سعی، قیامِ منیٰ، وقوفِ عرفات، وقوفِ مزدلفہ، رمَی، طوافِ زیارت، طوافِ وداع کے بارے میں مکمل آگاہی ہوسکے اور تمام امور احکامِ شرعیہ کی روشنی میں بہ حسن و خوبی انجام پاسکیں۔ حج اور عمرےکے دوران پڑھی جانے والی مسنون دعائیں یاد کرنا بھی مستحب اور حج کی تیاری کا حصّہ ہے۔

ارکانِ حج: ٭8ذوالحجہ کو حدودِ حرم میں حج کا احرام باندھنا۔ ٭نیّت کرنا، تلبیہ پڑھنا۔ ٭ 9ذوالحجہ کو حدودِ عرفات میں وقوفِ عرفہ کرنا۔ ٭طوافِ زیارت۔ ٭صفا و مروا کی سعی۔ یاد رہے کہ ان چاروں ارکان میں سے ایک رکن بھی رہ گیا، تو حج مکمل نہیں ہوگا۔

حج کے واجبات: 10ذوالحجہ کی رات مزدلفہ میں قیام اور وقوفِ مزدلفہ۔ ایّامِ تشریق میں منیٰ میں قیام اور جمرات پر شیطان کو کنکریاں مارنا۔ 10ذوالحجہ کی رمی کے بعد قربانی کرنا۔ قربانی کے بعد حلق یا قصر کروانا۔ طوافِ وداع کرنا (یاد رہے کہ کسی بھی ایک واجب کے چھوٹ جانے کی صورت میں فدیہ، یعنی قربانی مکّے ہی میں دینی ہوگی)۔

شرائطِ حج: مسلمان، عاقل و بالغ، تن درست وصحت مند اور صاحبِ استعداد ہونا، راستے کا پرامن ہونا، خواتین کے لیےخاوند یا محرم کا ساتھ ہوناضروری ہے۔ محرم کی تعریف میں وہ تمام افراد آتےہیں، جن کے ساتھ عورت کا نکاح حرام ہے۔

آغازِ سفر: حج کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل تمام ضروری احکامات و ہدایات کو مدّنظر رکھیں۔ اپنے جملہ معاملات درست کرلیں۔ کسی سے ناراضی ہے، تو اسے دور کرلیں۔ احرام باندھنے سے قبل غسل کرکے جسم کو پاک صاف کریں، غسل کرنا مسنون ہے۔ناخن بڑھے ہوئے ہیں ، تو تراش لیں۔ دو بغیر سلی سفید چادریں مَردوں کا احرام، جب کہ عام سلے ہوئے کسی بھی رنگ کے کپڑے، خواتین کا احرام ہیں۔ خواتین سر کے بال کسی رومال سے چھپالیں۔ حج پر روانہ ہوتے وقت صرف عمرے کی نیّت سے میقات سے پہلے، احرام باندھیں۔ احرام گھر سے نکلتے وقت، ائرپورٹ پر یا جہاز میں بیٹھ کربھی باندھ سکتے ہیں۔ میقات وہ مقام ہے، جو حج یا عمرے کا احرام باندھنے کی آخری حد ہے۔ حضور اکرمﷺ نے ایسے پانچ مقامات متعیّن فرمادیئے ہیں، گھر سے نکلتے وقت، اگر ممنوع وقت نہ ہو، تو دو رکعت نوافلِ شکرانہ ادا کریں۔ 

پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھنا افضل ہے۔ عمرے کی نیّت جہاز پر بیٹھ کر کریں۔ میقات پہنچنے سے قبل احرام باندھتے وقت یہ نیّت کریں۔ ’’اے اللہ! میں تیری رضا کے لیے عمرے کا ارادہ کرتا / کرتی ہوں، اسے میرے لیے آسان اور قبول فرما۔‘‘ زبان سے نیّت کے الفاظ ادا کرنے کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں، مرد بلند آواز سے اور خواتین آہستہ پڑھیں۔ تلبیہ عربی میں پڑھا جاتا ہے، جو اس طرح ہے ’’لَبَّیْک،َ اَللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ،لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ،اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَة ،لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘ تلبیہ کے بعد عازمین حالتِ احرام میں آجاتے ہیں، جس کے بعد احرام کی پابندیاں لازم ہوجاتی ہیں۔

حج و عُمرہ احکام و مسائل

احتیاط: احرام کی حالت میں مرد، ایسا جوتا نہ پہنیں کہ جس سے پائوں کی اوپر ابھری ہوئی ہڈی چھپ جائے، دوپٹّی کی چپل بہتر ہے۔ مرد، سر اور چہرے کو کپڑے سے نہ ڈھکیں۔ خواتین، سر کے بالوں کو چھپائیں، لیکن چہرے پر کپڑا نہ ہو، خیال رہے کہ احرام کی حالت میں بال ٹوٹنے نہ پائیں، نہ ناخن کاٹیں، نہ خوشبو اور تیل لگائیں اور غیر ضروری، فضول دنیاوی باتوں سے گریز کریں۔

عمرے کے فرائض: میقات سے پہلےاحرام باندھنا، نیّت کرنا اور تلبیہ پڑھنا۔ بیت اللہ کا طواف (سات چکّر) مکمل کرنا۔ (اگر ایک فرض بھی چھوٹ گیا، تو عمرہ مکمل نہ ہوگا)۔

عمرے کے واجبات: صفا و مروا کی سعی۔ حلق یا قصر کروانا (اگر ایک بھی واجب چھوٹ گیا، تو دَم یعنی قربانی مکّے ہی میں کرنی ہوگی)۔

مسجد الحرام میں حاضری: مسجد الحرام میں باوضو داخل ہوں، پہلے سیدھا پائوں اندر رکھیں اور یہ دعا پڑھیں ’’اللہ کے نام سے مسجد میں داخل ہوتا ہوں، رسول اللہﷺ پراللہ کی رحمت اور سلامتی ہو، اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے پر اللہ سے خوب دعا کریں، یہ دعائوں کی قبولیت کا وقت ہے۔ خواتین معذوری کی حالت میں مسجد میں داخل نہ ہوں، وہ اپنی قیام گاہ ہی میں رہتے ہوئے دعا واذکار کرتی رہیں، غسلِ طہارت کے بعد عمرہ ادا کریں۔

آغازِ طواف: طواف شروع کرنے سے پہلے حجرِاسود کی سیدھ میں کعبہ شریف کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں اور نیّت کریں۔ ’’اے اللہ میں تیری رضا کے لیے عمرے کے طواف کے سات چکّروں کی نیّت کرتا / کرتی ہوں، اسے میرے لیے آسان اور قبول فرمالے۔‘‘

اضطباع: طواف شروع کرنے سے قبل اپنے دائیں کندھے کو کھول لیں، چادر دائیں بغل سے نکال کر بائیں مونڈھے پر ڈال لیں، اسے اضطباع کہتے ہیں، طواف مکمل ہونے کے بعددایاں کاندھا دوبارہ ڈھک لیں۔

استقبالِ حجر اسود: نیّت اور اضطباع کے بعد حجرِ اسود کے سامنے تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کاندھوں تک اٹھائیں، جس طرح نماز میں تکبیرِ تحریمہ میں اٹھاتے ہیں۔ تکبیر یہ ہے۔’’بسمہ اللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، یہ حجر اسود کا استقبال ہوگیا۔

حجر اسود کا استلام: حجر ِاسود کی طرف ہتھیلیوں سے چھونے کا اشارہ کرتے ہوئے تکبیر کہیں ’’بسم اللہ، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ پھر ہتھیلیوں کو چوم لیں، یہ حجر ِاسود کا استلام ہوگیا، ہر چکّر کی ابتدا استلام سے کریں گے۔

رمل: عمرے کے طواف میں مرد شروع کے تین چکّروں میں رمل (اکڑ اکڑ کر چلنا) کریں گے، خواتین رمل نہیں کریں گی۔ ہر چکّر حجرِ اسود سے شروع ہوکر حجرِ اسود ہی پر ختم ہوگا۔ ہرچکّر کی ابتدا تکبیر کہتے ہوئے استلام سے کریں گے۔ دورانِ طواف تیسرا اور چوتھا کلمہ پڑھنا مسنون ہے، لیکن کتاب دیکھ کر پڑھنے سے بہتر ہے کہ جو دعائیں یاد ہیں، انہیں پڑھیں۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرسکتے ہیں۔ رکن یمانی سے حجرِ اسود کے درمیان یہ دعا پڑھیں ’’رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ تین چکّروں کے بعد رمل نہ کریں اور باقی چار چکّر عام رفتار سے چلیں۔ خواتین رمل نہیں کریں گی، سات چکّر مکمل ہونے پر سیدھا کندھا ڈھک لیں، ساتویں چکّر کے اختتام پر آٹھویں مرتبہ حجرِ اسود کے استلام کے بعد طواف مکمل ہوجائے گا۔

ملتزم پر دعا: طواف کے بعد ملتزم پر عاجزی وانکساری کے ساتھ دعائیں مانگنا مسنون ہے۔ یہ دعائوں کی قبولیت کی جگہ ہے۔

مقامِ ابراہیم پرنفل: اب مقامِ ابراہیم پر، اگر وہاں رش ہو، تو جہاں بھی جگہ ملے، دو رکعت ’’تحیتہ الطواف‘‘ ادا کریں۔ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھنا مستحب ہے، تاہم مکروہ وقت کا خیال رکھیں۔

آبِ زم زم: قبلہ رخ کھڑے ہوکر بسم اللہ پڑھ کر سیدھے ہاتھ سے پیٹ بھرکر آبِ زم زم پینا سنّت ہے، حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ روئے زمین پر سب سے اچھا پانی آبِ زم زم ہے۔ یہ دعا بھی ، دوا ، غذا اور شفا بھی ہے۔ مومن پیٹ بھر کر آبِ زم زم پیتا ہے، جب کہ مشرک گھونٹ گھونٹ پیتا ہے۔ یہاں بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

صفا ومروہ کی سعی: سعی کے لیے روانہ ہوتے وقت ایک بار پھر دور سے حجرِ اسود کا استلام کریں۔ یہ نواں استلام ہوگا، اب صفا کی جانب چلیں اور یہ آیت پڑھیں ’’اِنَّ الصَّفَا وَ المَروَۃَ مِن شَعَائِرِ اللّٰہِ‘‘ صفا پر قبلہ رخ کھڑے ہوکردعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں اور تین مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر سعی کی نیّت کریں، ’’اے اللہ! میں تیری رضا کے لیے صفا اور مروہ کے سات چکّر لگانے کا ارادہ کرتا/ کرتی ہوں، اسے میرے لیے آسان کردے اور قبول فرمالے۔‘‘ نیّت کے بعد عاجزی کے ساتھ دعائیں کریں اور مروہ کی جانب بڑھیں۔

میلین اخضرین: صفا اور مروہ کے درمیان دونوں کناروں اور چھت پر ٹیوبز لگی ہوئی ہیں، جنہیں ’’میلین اخضرین‘‘ کہتے ہیں، اس سبز حصّے میں مرد تیز تیز یعنی دوڑ کر چلیں، جب کہ خواتین عام رفتار سے چلیں۔ دورانِ سعی تکبیر و تہلیل کہتے رہیں، مروہ پہنچ کر قبلہ رو ہوکر دعائیں کریں۔ اس طرح مروہ پر ایک چکّر پورا ہوگیا، اب واپس صفاکی جانب چلیں، صفا پہنچنے پر دو چکّر پورے ہوجائیں گے، اسی طرح ساتواں چکّر مروہ پرختم ہوگا۔ سعی مکمل ہونے کےبعد قبلہ رخ ہوکر دعائیں کریں۔ طواف اور سعی کے دوران کتاب کھول کر دعائیں پڑھنا مناسب عمل نہیں ہے، یہ پڑھنے کا نہیں، مانگنے کا وقت ہے۔ جو دعائیں یاد ہیں، انہیں دہرائیں یا اپنی زبان میں دعائیں کریں۔

حلق یا قصر: اگلا مرحلہ حلق یا قصر کا ہے، سر کا منڈوانا یعنی حلق کروانا افضل ہے۔ رسول اکرمﷺ نے سر منڈوانے والوں کے لیے کئی مرتبہ دعا فرمائی ہے، خواتین سر کے کم از کم چوتھائی حصّے کے بالوں میں سے ایک پور کے برابر بال کٹوالیں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بال کھول کر لٹکالیں اور تمام بالوں میں سے ایک پور کے برابر بال خود یا اپنے محرم سے کٹوالیں۔ یاد رہے کہ بالوں کی لٹ پکڑ کر اس میں سے ذرا سے بال کاٹ لینا مناسب نہیں ۔ حلق یا قصر کے بعد عمرہ مکمل اور احرام کی پابندیاں ختم، اب غسل کے بعد عام کپڑے پہنیں اور خوشبو لگائیں۔

حج کا احرام: معلّم کی ہدایت کے مطابق 7 ذوالحجہ کی رات یا 8 ذوالحجہ کی صبح، حج کا احرام باندھیں، اس سے پہلے جسم کی صفائی کریں، ناخن تراشیں، غسل کرنا افضل ہے، احرام باندھ کر دو رکعت ’’تحیۃ الاحرام‘‘ ادا کریں۔ ممکن ہو، تو مسجدالحرام میں نفل ادا کریں۔ ممنوع وقت کا خیال رکھیں، پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔ حج کی نیّت کریں،’’اے اللہ! میں تیری رضا کے لیے حج کا ارادہ کرتا / کرتی ہوں، اسے میرے لیے آسان کردے اور قبول فرمالے۔‘‘ نیّت کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں۔ مرد اونچی آواز میں، خواتین آہستہ پڑھیں، تلبیہ عربی میں پڑھنا لازم ہے۔ تلبیہ پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھیں، اور پھر یہ دعا مانگیں، ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری رضا اور جنّت کا سوال کرتا / کرتی ہوں اور تیرے غضب اور آگ سے پناہ چاہتا / چاہتی ہوں۔‘‘ اس دعا کے بعد احرام کی پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

8ذوالحجہ، حج کا پہلا دن: حاجی منیٰ کے خیموں میں قیام کریں گے۔ ظہر، عصر، مغرب عشاء اور اگلے دن فجر کی نماز منیٰ ہی میں ادا کریں گے۔ منیٰ میں قیام کے دوران کثرت سے تلبیہ، تلاوتِ کلام پاک، ذکر واذکار اور تکبیر و تہلیل کرتے رہیں۔ فضول لایعنی اور دنیاوی باتوں سے گریزکریں۔

9؍ذوالحجہ، حج کا دوسرا دن: نمازِ فجر کے بعد تمام حاجی میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہوں گے۔ منیٰ سے عرفات کا فاصلہ 12کلومیٹر ہے۔

عرفات میں قیام: میدانِ عرفات میں ’’مسجدِنمرہ‘‘ ہے، یہاں امام صاحب زوال کے وقت کے بعد خطبہ دیں گے، پھر ظہر اور عصر کی نمازِ قصر ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھائیں گے، جو حاجی مسجدِ نمرہ میں جا کر نماز پڑھیں گے، وہ اسی طرح پڑھیں گے، لیکن خیموں میں پڑھنے والے اپنے فقہ کے علماء کی ہدایت کے مطابق نماز ادا کریں۔ فقہ حنفی میں خیمے میں نماز پڑھنے کی صورت میں ظہر کی چار رکعت ظہر کے وقت اور عصر کی چار رکعت عصر کے وقت پڑھیں گے۔

وقوف عرفات: حج کا رکنِ اعظم ’’وقوفِ عرفات‘‘ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو سب سے بہترین اور افضل قرار دیا۔ یہ گناہوں سے بخشش اور جہنّم سے آزادی کا دن ہے۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوال کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے، لہٰذا ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کھلے آسمان تلے قبلہ رو کھڑے ہو جائیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں، درود شریف پڑھیں، تلبیہ پڑھیں، توبہ استغفار کریں، اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کریں۔ 

یہ عمل مسلسل جاری رکھیں۔ عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت میدانِ عرفات کا نہایت قیمتی وقت ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں موسلادھار بارش کی مانند برستی ہیں۔ آنکھوں سے بہتے اشکوں اور آب دیدہ ہوتے ہوئے، لرزتے ہونٹوں اور کانپتے وجود کے ساتھ گڑگڑاتے، بلبلاتے بارگاہِ خداوندی میں التجائیں کریں، رب کو راضی کریں۔ دینی اور دنیاوی، جو جو دعائیں کر سکتے ہیں، کرلیں۔ اللہ سے جو مانگ سکتے ہیں، مانگ لیں کہ اس روز کوئی اس کی بارگاہ سے خالی ہاتھ نہ لوٹے گا۔ تھکن کی صورت میں کچھ دیر بیٹھ کر پھر کھڑے ہوجائیں۔ یہ سلسلہ غروب آفتاب تک جاری رکھیں۔ یاد رہے، یہ وہی میدانِ عرفات ہے جو حشر کا میدان ہو گا کہ جہاں سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ نیک انسان کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ اور برے انسان کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا۔

مزدلفہ روانگی: حاجی غروبِ آفتاب کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر میدانِ عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے۔ مغرب کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کا حکم ہے۔ یوں تو عرفات سے مزدلفہ کا فاصلہ 7کلومیٹر ہے، لیکن لاکھوں حاجیوں کے ایک ہی جانب سفر کی وجہ سے یہ راستہ کئی گھنٹوں میں طے ہو پاتا ہے۔ عرفات اور منیٰ کے درمیان ایک وادی کا نام ’’مزدلفہ‘‘ ہے۔ 

اللہ کے حکم کے مطابق، یہاں قیام کرنا لازم ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور پھر جب عرفات سے واپس ہونے لگو، تو مشعرالحرام (مزدلفہ) میں اللہ کا ذکر، اس طرح کرو، جس طرح اس نے تمہیں سکھایا ہے۔‘‘ نبی کریمؐ نے حجۃ الوداع میں عرفات سے واپسی پر یہیں قیام فرمایا تھا۔ یہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کریں۔ کچھ دیر آرام کرلیں، یہیں سے رمی کے لیے چنے یا کھجور کی گٹھلی کے برابر 70عدد کنکریاں چن لیں۔ انہیں دھونے یا پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ مزدلفہ کی یہ رات بڑی افضل رات ہے، اسے سوتے ہوئے نہ گزاریں۔ جتنی عبادت اور دعائیں کرسکتے ہیں، کریں۔ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر کعبۃ اللہ کی جانب منہ کر کے کھڑے ہو جائیں اور ہاتھ اٹھا کر رب کے سامنے گڑگڑائیں، آنسو بہائیں، رب کو راضی کریں، دعائیں مانگیں۔ یہ وقوفِ مزدلفہ کہلاتا ہے، جو واجب ہے۔ اس کا وقت صبحِ صادق سے طلوعِ آفتاب سے پہلے تک ہے۔ یہ بھی قبولیتِ دعا کا افضل اور خاص وقت ہے۔

10؍ذوالحجہ، حج کا تیسرا دن: وقوفِ مزدلفہ کے بعد، معلّم اور امیرِ حج کی ہدایت کے مطابق، مزدلفہ سے منیٰ روانگی۔ مزدلفہ سے منیٰ کا فاصلہ 5کلومیٹر ہے۔ منیٰ پہنچ کر 10؍ذوالحجہ کا پہلا کام بڑے شیطان کو سات کنکریاں مارنا ہے، جب کہ 12,11اور 13؍ذوالحجہ کو تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں، جو واجب ہیں۔ بڑے شیطان کو جمرئہ کبریٰ اور جمرئہ عقبہ بھی کہتے ہیں۔ جس دیوار پر کنکریاں ماری جاتی ہیں، اسے جمرات کہتے ہیں اور رمی کے معنیٰ مارنے کے ہیں۔ کنکریاں مارنے کا مسنون وقت طلوعِ آفتاب سے مغرب تک ہے، تاہم اب سعودی علماء نے مغرب کے بعد بھی کنکریاں مارنا جائز قرار دے دیا ہے۔ حاجی اپنے معلّم کی ہدایت پر عمل کریں۔ سات کنکریاں الگ کرلیں، احتیاطاًچندکنکریاںزیادہ رکھ لیں۔ جو کنکری جمرات کی دیوار سے نہیں ٹکراتی، وہ ضائع ہوجاتی ہے۔ اس کی جگہ دوسری ماریں۔ 

زمین پر پڑی کنکریاں نہ اٹھائیں، وہ مردود ہوچکیں۔ کنکری کو داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑیں اور ’’بسم اللہ، اللہ اکبر، وللہ الحمد‘‘ کہہ کر ایک، ایک کر کے ماریں۔ ہر مرتبہ تکبیر پڑھیں۔ اگر سب کنکریاں ایک ساتھ مار دیں، تو وہ ایک ہی کنکری کہلائے گی، جب کہ ہر شیطان کو 7-7 کنکریاں مارنا ضروری ہے۔ عموماً حاجی 12؍ذوالحجہ کو منیٰ سے واپس ہو جاتے ہیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 12ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں قیام فرما کر 13؍ذوالحجہ کو شیطان کو کنکریاں مار کر روانگی فرمائی تھی۔

قربانی: حجِ تمتّع میں قربانی واجب ہے۔ آج کل سعودی قوانین کے مطابق، قربانی کی رقم جمع کروا کر ٹوکن دے دیئے جاتے ہیں، جن پر قربانی کا وقت درج ہوتا ہے۔ لہٰذا مقررہ وقت کے ایک یا دو گھنٹے کے بعد حلق یا قصر کروا لیا جائے۔ حلق یا قصر کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں، سوائے ازدواجی تعلقات کے۔ یہ پابندی طوافِ زیارت کے بعد ختم ہو گی۔ احرام اتار کر عام لباس پہن لیں، خوشبو لگا لیں۔

طوافِ زیارت: طواف زیارت حج کا فرض رکن ہے، جس کے بغیر حج مکمل نہ ہوگا۔ اس کا افضل وقت تو 10؍ذی الحجہ ہی ہے، لیکن 12؍ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک کرنا لازم ہے۔ طوافِ زیارت میں نہ احرام ہوتا ہے اور نہ اضطباع، یہ عام کپڑے پہن کر ہوتا ہے۔تاہم، باوضو ہونا ضروری ہے۔ پہلے تین چکّروں میں ’’رمل‘‘ کریں گے، اس میں صفا و مروہ کی سعی بھی ہوتی ہے۔ طوافِ زیارت سے فارغ ہو کر واپس منیٰ جا کر قیام کریں، بلاکسی شرعی عذر، مکّے میں قیام درست نہیں ہے۔

ایّام تشریق : 11 ،12اور13 ؍ذوالحجہ کو ’’ایّام تشریق‘‘ کہتے ہیں۔ ان تین دنوں کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے۔ عموماً حاجی 12؍ذو الحجہ کو غروب آفتاب سے پہلے رمی کے بعد منیٰ سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے 13؍ذی الحجہ کی رات بھی منیٰ میں قیام فرمایا تھا اور دوسرے دن رمی کر کے واپس لوٹے تھے۔

طوافِ وداع: مکّہ مکرمہ سے روانگی کے وقت آخری طواف ’’طوافِ وداع‘‘ کہلاتا ہے۔ میقات کی حدود سے باہر رہنے والے حاجیوں کے لیے یہ طواف، واجب ہے، نہ کرنے پر دَم (قربانی) لازم ہوگا۔ طوافِ وداع میں نہ احرام ہوتا ہے، نہ اضطباع، نہ رمل اور نہ صفا و مروہ کی سعی، طواف ہمیشہ باوضو ہوتا ہے۔ یہ آخری طواف ہے، لہٰذا اللہ کے گھر سے روانگی کے وقت نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ سب کے لیے دعا کریں، دوبارہ بلاوے کی درخواست کریں۔

حالتِ احرام کی پابندیاں: (مرد اور عورت دونوں کے لیے، حالتِ احرام میں بال کاٹنا، ناخن تراشنا، دستانے پہننا، خوشبو لگانا، خوشبودار صابن کا استعمال، حرم کی حدود میں درخت یا پھول پودے توڑنا، گری ہوئی چیزیں اٹھانا، شکار کرنا، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ کرنا، ازدواجی تعلقات اور نکاح کرنے، کروانے کی ممانعت ہے۔

صرف مَردوں کی پابندیاں:(یہ پابندیاں مشترکہ پابندیوں کے علاوہ ہیں) سلے ہوئے کپڑے پہننا، سر یا چہرہ ڈھانپنا، موزے پہننا، ٹخنے ڈھکے جوتے پہننا۔

صرف خواتین کی پابندیاں: ( یہ پابندیاں مشترکہ پابندیوں کے علاوہ ہیں) چہرہ ڈھانپنا (لیکن نامحرم سے چہرہ چھپائیں) چہرے سے کپڑا مس کرنا، میک اپ کا استعمال۔

حالتِ احرام میں اجازت: ناپاک یا میلی ہونے کی صورت میں احرام کی چادریں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔ بہتر ہے کہ احرام کا ایک اضافی سیٹ ساتھ رکھیں، اس طرح خواتین بھی اپنے کپڑے تبدیل کرسکتی ہیں، بند جوتے پہن سکتی ہیں۔ رقم یا ضروری کاغذات کی حفاظت کے پیشِ نظر گلے میں بیگ اور کمر پر بیلٹ بھی باندھ سکتے ہیں اور گھڑی، چشمہ، موزےرکھنے کی اجازت ہے ۔

خواتین کے لیے چند مخصوص احکامات: خواتین کے لیے محرم کے ساتھ حج پر جانا شرط ہے۔ان کا احرام، ان کے عام کپڑے ہیں۔ سر کے بال کسی کپڑے، رومال یا اسکارف سے ڈھانپنا ضروری ہے۔ ناخن پالش لگی ہونے کی صورت میں غسل یا وضو نہیں ہوگا۔ خواتین دورانِ طواف رمل (تیز چلنا) اور اضطباع (دایاں کندھا کھولنا) نہیں کریں گی۔ اسی طرح سعی میں سبز بتیوں کے دوران اپنی عام رفتار ہی سے چلیں گی۔ طواف کے دوران خواتین کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن یہ خیال رہے کہ چہرے پر کپڑا نہ لگے۔ خواتین کے لیے کم از کم چوتھائی سر کے بال، بہ قدر ایک انگلی کتروانا واجب ہے۔ حائضہ خواتین غسل کر سکتی ہیں، یہ طہارت کا نہیں، نظافت کا غسل ہو گا۔احرام باندھتے وقت خواتین بھی وہی سب کام کریں گی جو مرد کرتے ہیں، یعنی غسل کرنا، بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا، نیّت کرنا، تلبیہ پڑھنا۔ خواتین آہستہ آواز میں پڑھیں گی۔ حائضہ عورت بھی یہ سب کام کرے گی، لیکن وہ نماز نہیں پڑھ سکتی۔ مسجدالحرام اور مسجد نبوی ؐ میں داخل نہیں ہو سکتیں، لہٰذا طواف بھی نہیں کرسکتیں۔ 

حائضہ خواتین مکّے میں اپنی قیام گاہ ہی پر رہ کر زبانی تلاوتِ کلام پاک، ذکر و اذکار، درود شریف اور دعائیں کر سکتی ہیں۔ایّام حج میں ایک حائضہ عورت، جو افعال انجام دے سکتی ہے، وہ یہ ہیں۔ احرام کی نیّت کرنا، عرفہ میں قیام، وقوفِ عرفہ کرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، وقوفِ مزدلفہ اور جمرات پر کنکریاں مارنا۔ البتہ طواف اس وقت تک نہیں کریں گی، جب تک کہ پاک نہ ہوجائیں۔ علمائے کرام کے فتوے کے مطابق، دورانِ حج خواتین مخصوص ایّام روکنے کی دوائیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کرسکتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین