• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

فرزانہ روحی اسلم

غیرت کے نام پر قتل،گینگ ریپ،تیزاب پھینک کر جلا نے، طلاق، جہیز، بچوںکی کفالت،جنسی ہراسانی ،بچپن کی شادی وغیرہ سے متعلق خواتین کے حق میں ساز گار قوا نین کا فوری اطلاق یقینی بنایا جا ئے گا

پاکستان پیپلز پارٹی

قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں،بالخصوص پولیس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ یقینی بنانا،خواتین کے خلاف جرائم اور عدالتی مقدمات کی حیثیت کا ایک قومی کیٹلاگ بنایا جائے گا

پاکستان مسلم لیگ (ن)

وراثت میں خواتین کا حصہ محفوظ بنانے کے لیے قانونی ڈھانچے کی اصلاح کریں گےاور اسے مضبوط بنائیںگے،ریاست کی جانب سے فراہم کیے جانے والے چھوٹے قرضوں میں خواتین کا حصہ بڑھایا جائے گا

پاکستان تحریک انصاف

وہ خواتین جو تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ان کے لیے تعلیمِ بالغان کا اہتمام ان کے علاقے میں ہی کیا جا ئے گا تاکہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی خواندگی کی شرح کوبھی بڑ ھایا جا سکے

پاک سرزمین پارٹی

جدید دنیا میں خواتین کی ترقی کو قابلِ اہم سمجھتے ہوئے،پاکستان کے قدامت پرست معاشرے نے بھی عورتوں کو ان کی نجی زندگی سے باہر لانے کا آغاز کردیا تاکہ ان کی صلاحیتوں سے ملک و قوم کو بھی فائدہ پہنچ سکے۔تعلیم،صحت،معیشت،اور کھیل کے میدان میںان کی نمایاںکار کردگی کو دیکھتے ہوئے اب عام خواتین کو سیاسی جماعتوں نےزیادہ سے زیادہ شر اکت کے مواقع فراہم کیئے ہیں۔لہذا اس بار ۲۰۱۸ کے الیکشن میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ خواتین کو انتخابی میدان میں اپنی اہمیت ثا بت کرنےاور کھلے عام مقابلہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے جلسوں اور دھرنوںمیںگز شتہ چند سال سے جواں عزم خواتین جوق در جوق شمولیت اختیا رکرتی دکھائی دے رہی ہیں۔نچلی سطح سے لے کر بلند پروازی تک،ہر جگہ اب اس ’’ نصف جہاں ‘‘نے خود کو’’ کل کائنات ‘‘کے تمام امور میں شامل کرنے کا تہیہ بھی کر لیا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں کی منشور سازی میں فیصلہ سازخواتین شامل ہیں انھوں نے عام عورت کی تمام کلفتون کو دور کرنے کے لیئے بہت سے نکات شامل کیےہیں۔

بد قسمتی سے قیام پا کستان کے بعد سماجی ،معاشی اور سیاسی ابتلائوں کے علاوہ عام زندگی کے معاملات اس قدر گنجلک ہو گئے ہیں کہ ان سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو تی ہیں۔تاہم انھوں نے شکست کھانے کے بجائےاپنے قدموں سے لپٹتے خار زارو کو نظر انداز کر کےکامرانیوں کے سفر پر خود کو گامزن کر دیا ہے۔

پاکستان کی قابلِ ذکرسیاسی جماعتوں،پاکستان پیپلز پارٹی،مسلم لیگ (ن)متحدہ مجلسِ عمل ،پاکستان تحریکِ انصاف اور پاک سر زمین پارٹی کے منشور کا جائزہ لیا جائےتو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کوقومی دھارے میںشامل کرنااز حد ضروری ہے۔جماعتوں کے ٹکٹ اور منشور سے قطع نظر،خوش آئند امر یہ ہے کہ حالیہ منعقد ہونے والے الیکشن میںپورے پاکستان سے ساٹھ خواتین آزاد امید وار کے طور پربھی حصہ لے رہی ہیں۔متحدہ مجلسِ عمل نے چودہ خواتین کو میدانِ انتخابات میں اتارا ہے۔تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ نون،ہر دو نےگیارہ گیارہ خواتین کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیئے ٹکٹ فراہم کیئے۔ اللہ اکبر پارٹی جو جماعتِ دعوہ کے پلیٹ فارم سے ہے ان کی تین خواتین الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، جن جماعتوں نے خواتین کے لیے ٹکٹ مختص کیے،ان ہی کے منشور میں بنتِ حواکے دگر گوںحالات کو بہتر بنانے کے لیئے منصوبے بھی ر کھے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹکٹوں کی تقسیم حالیہ ۲۰۱۸ کے الیکشن میںہوئی ہے جس کی وجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی لگائی ہوئی وہ شرط ہے جس کے تحت تمام جماعتیں۵ فیصد ٹکٹ خواتین کو دیں گی ۔خواتین امیدواروںکے حلقے میں ان کا ٹرن آئوٹ اگر دس فیصد سے کم ہو ا تو اس حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا علاوہ ازیں کہیں بھی بشمول خیبر پختونخوا اور بلوچستان کےخواتین کے ووٹ ڈالنے کے عمل میںرکاوٹ ڈالی گئی تو اس حلقے کا نتیجہ بھی کالعدم قرار دیاجائےگااور ملوث شخص کو تین سال قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ہونے والے مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اس اجتماعی معاہدے کے ضمن میں ہےجو خیبر پختونخوا کی خواتین کو رائے دہندگی کے عمل میں شریک ہونے سے روکنے کے لئے کیا گیا تھا ۔ خواتین کے حقوق کے لیئے کام کرنے والی انجمنوںکا کہنا ہے کہ’’عام انتخابات میں شامل ہو نے والی خواتین محض مقابلے میں شامل ہوتی ہیں اگر یہ منتخب ہو جائیں تو نہ عورتوں کی ز ندگی کو بہتر بنانےکے لیئے کام کرتی ہیں، نہ ہی دنیا سے ان کی اہمیت تسلیم کروانے کے لیئے کو ئی راہ بتلاتی ہیںنہ ہی ویمن ایشوز پر پارلیمنٹ میںآواز اٹھاتی ہیں۔‘‘

دیکھا جائے تو خواتین کی تعلیم اور صحت پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں سب سے زیادہ کام کیے ہیں۔انھیں خودمختار بنانے کی جانب مکمل توجہ دی گئی ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے پسماندہ طبقے کی عورتوں کے لیئے سماجی تحفظ کا مثالی پروگرام پیش کیا ہےجس سے لاکھوں خواتین کو امداد مہیا کی گئی ۔دیگر جماعتوں کے پلان محض بلند و بانگ دعوے تک ہی محدود رہے۔آئیے اب ذیل میں ان جماعتوںکے منشور میں دیئے گئےان موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں جو خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے رکھے گئے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی

ماں اور بچے کی دیکھ بھال کا پرو گرام کے زیرِعنوان صحت،خاندانی منصوبہ بندی اور ابتدائی تربیت کے حوالے سے طلب میں اضافہ اوررویے میں تبدیلی کو تحریک دینے کی غرض سے ماں اور بچے کی دیکھ بھال کا پرو گرام۔(مدر اینڈ چائلڈ سپورٹ پرو گرام) شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے مقاصد میں ماںبچے کی صحت،بچے کی غذا ، رسد کی دیکھ بھال،رویے میںتبدیلی، تولیدی صحت،خاندانی منصو بہ بندی کے لیے مشاورت، بچے کی ابتدائی نشو نما،ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے عملی اقدامات،مانیٹرنگ کے لیے ڈیٹا بیس شامل ہیں۔یہ پروگرام مائوں (اور کنبوں) کو نقد رقم کی شکل میں ترغیب دے گا تاکہ وضع حمل سے لے کر بچے کی اسکول جانے کی عمر(پانچ سال) تک صحت ،غذا تعلیم اورصنفی برابری کے حوالے سے مثبت رجحان پیدا کیا جا سکے۔اس کے مندرجہ ذیل تین عوا مل ہوں گے۔

قبل از پیدائش مشا ورت کے لیے حمل کو رجسٹرڈ کرنا

٭ڈیٹا بیس میں کیس رجسٹرڈ ہو جانے کے بعدحاملہ خاتون کو ایک سوائپ کاردڈ مہیاکیا جا ئے گا ۔تا کہ وہ صحت ،ٹیکہ جات، غذا اور تعلیمی سروسز کے حوا لے سے کی ہوئی مشاورتوں کا ریکارڈ رکھے۔ پانچ سال کے دوران ہر اہم مر حلے پر اسے نقد واوچر کی شکل میں مرا عات دی جائیں گی۔یہ مراعات اور نقد واوچر مندرجہ ذیل مواقعوں پر فراہم کی جائیںگی۔

٭قبل از پیدائش تینوں وزٹس پر۔منظور شدہ صحت مرکز پر ڈیلیوری۔پیدائش کے بعد چیک اپ کے لیے وزٹس۔خاندانی منصوبہ بندی کے لیئے مشورہ،بشمول رضا کارانہ مانع حمل سروسز۔ بچے کو حفا ظتی ٹیکے لگا نے کے تمام مرا حل۔ با قا ئدگی سے چیک اپ، اور بعد کے سالوں میں

٭بچے کی تعلیم کے حوالے سےابتدائی مشاورت۔

٭تولیدی صحت اور خاندانی منصو بہ بندی کے عنوان کے تحت خو اتین اور مردوں کو صحت مندانہ زندگی گزارنے اور بچوں کی صحت اور نشو نما کاخیال رکھنے کے قا بل بناتی ہے ۔سندھ میں بچپن کی شادی کی ممانعت کا قا نون،صوبائی پا لیسی برائے تو لیدی صحت، بچہ پیدا کرنے میںسمجھ داری کا فروغ،اور خاندانی منصو بہ بندی کی سروسز کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میںنمایاں اضا فہ شامل ہیں۔ جن کے نتیجے میں مانع حمل کا رجحان بڑ ھا ۔آئندہ کے اقدامات درجِ ذیل ہیں۔

٭ بچے پیدا کرنے والی تمام مائوں اور ان کے مر دوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی سہو لیات تک رسائی یقینی بنانا۔

٭تمام پیدا ئشی اسٹیشنوں پروضع حمل کے بعدسروسز اور کائونسلنگ،قبل از پیدا ئش اور بعد از پیدائش وارڈز اور بیرونی مریضوں کے شعبے قائم کر نا ۔

٭تمام نئی او ر پرا نی ہیلتھ ورکرز کو خاندا نی منصو بہ بندی ،خدمات کی فراہمی،ایڈ وو کیسی،ابلاغ اور کو نسلنگ کی تر بیت دینا ۔

٭خاندانی منصوبہ بندی اور صحت کی تر غیب و فروغ کے لیئے ذرائع ابلاغ اور تشہیری مہم کے ذریعےآگا ہی دینا ۔

٭تو لیدی صحت کے حقوق کے لیے قانون سازی ۔

٭لیڈی ہیلتھ ورکر،زچہ و بچہ کی صحت اورغذائی پرو گرا م کے ذریعےآبادی کی منصو بہ بندی اور صحت کو یکجا کرنا ۔

زرعی خواتین کا بے نظیر پروگرام

خواتین ملک کی کل ذرعی افرا دی قوت کانصف سے زاید حصہ ہیں۔مگر محنت ،اجرتوں اور عدم امتیا ز کے قوا نین موجود ہو نے کے با وجود حکومت ،کمیو نیٹیز اور خاندان کی جانب سے ان کی اقتصا دی حصہ داری کو تسلیم نہیںکیا جا تا ۔ زراعت اور لا ئیو اسٹاک میں بہت سی بنیا دی سرگر میاں تقریباَکلی طور پر خواتین ہی انجام دیتی ہیں ۔زراعت اور لا ئیو اسٹا ک کی پالیسیوں میں محنت کش خواتین کی پریشانیونںکو مدِ نظر نہیں رکھا جا تا ۔اور متعلقہ سرکا ری محکموں کا کھیت مزدور اور کاشت کا ر خواتین کے ساتھ را بطہ نہ ہو نے کے برا بر ہے۔زرعی اور لائیو اسٹاک سر گرمیوں میں خواتین کے کام کا محرک اپنے کنبوں کے ذرائع معاش اور غذائی تحفظ میں معاونت کرنا ہے۔

زرعی مزدور خواتین بے نظیر کسان کارڈ اور متعلقہ سہو لیات لینے کی مجاز ہوں گی۔زرعی مزدور خواتین کے کا م کو قا نو نی طو ر پر تسلیم کیا جا ئے گا۔ بے نظیر ویمن ایگری کلچرل ورکرز پرو گرام کے تحت ان کی رجسٹریشن ہو گی ۔قا نو نی طور پر تسلیم کیئے جا نے کی وجہ سے ان کو کئی حقوق اور امدادی اقدامات حا صل ہو ں گے ۔

٭معاوضے پر انفرادی حق،مساوی و کم از کم اجرت پر حق۔

٭زرا عت کے لیے سر کا ری زمین کی الاٹمنٹ میں زرعی مزدور خواتین کو ترجیح دینا ۔

٭زرعی مزدور خواتین کے لیے لائیواسٹاک کے شعبے میں سرما یہ کا ری ۔

٭خواتین کو عوامی زندگی کے مر کزی دھارے میں لانا ۔خواتین ،حکومت ،عدلیہ اور دیگر فیصلہ ساز، سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پر ملازمت کر سکیں ۔بالخصوص فوجداریا انصاف کے نظام میں۔

٭خواتین کو قومی خدمت کے دائرےمیں لائیں گے۔ماضی میںہم نے ایک بنیادی صحت کی فورس بنائی۔اب ہم خواتین کو پولیس میںبھرتی ۔

٭کریں گےاور ہر تھانے میں خواتین کے لیئے ایک ڈسک قائم کریں گے۔ہم بلدیاتی حکومتوں اور مختلف سطحوں پربھی خواتین کو لائیں گے۔

٭ہم اعلان کردہ ملازمتوں کے کوٹے کی پیروی یقینی بنانے کے لیئےایک انضباطی نظام وضع کریں گے۔

خواتین اور کاروبار

٭فرسٹ ویمن بینک کوایکویٹی مہیا کرنااور اس کی بدولت یقینی بنانا کہ خو اتین کوکریڈٹ تک کی خاطرِ خواہ رسائی حاصل ہو۔

٭اگر چہ خواتین کو کارپوریٹ سیکٹرکے بورڈ میں شامل کر نے کے بارے میںقانون موجود ہے۔لیکن ہم ایس ای سی پی کے اندر ادارتی نظام بنائیں گے تاکہ کارپوریٹ سیکٹر میںخواتین کی موجودگی کو فروغ دیا جاسکے۔

٭وفاقی اور صوبائی سطح پر کاروباری وتجارتی چیمبرز کی معاونت سے ویمنز بزنس کونسلز قائم کی جائیں گی۔

خواتین کو مرکزی قومی دھارے میں لانا

٭سیاسی عمل میں خواتین کی شمولیت بدستور کم ہے۔ووٹرٹرن آوٹ اور فیصلہ سازی والے عہدوں دونوںکے اعتبار سے۔جمہوریت کو مستحکم بنانےمیں ایک اہم عنصرخواتین کی سیاسی شمولیت کو توسیع دینا ہوگی۔

٭پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی اور قومی اسمبلی میں مخصوص نشتوںکا تنا سب مرحلہ بہ مرحلہ۱۷ فیصد سے بڑھا کر۳۳فیصد کر دیا جائے۔

٭پاکستان پیپلز پارٹی منتخب اداروں میںخواتین کا کردار مستحکم بنانے کے لیئے تعمیرِ استعداد،اسمبلی میں نمائندگی اور دیگر اقدامات کرے گی تاکہ خواتین ملک کی سیاسی زندگی میں پوری طرح حصہ لے سکیں۔

٭سیاست دان خواتین کو پارلیمنٹ کی تمام قائمہ کمیٹیوںمیں شامل کرنا چاہئے۔ نہ کہ صرف ان کی صنف سے متعلقہ سمجھی جانے والی کمیٹیوں میں۔پاکستان پیپلز پارٹی برداشت نہیں کرے گی کہ خواتین کو ان اداروں کی میٹنگز سے باہر رکھا جائےجن میں وہ منتخب ہو کر آئی ہیں،جیسا کہ بلدیاتی حکومت میں مشاہدہ کیا گیاہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے خواتین کو با اختیار بنانے کے عزم اور سیڈا( خواتین کے خلاف تعصب کی تمام صورتوں کے خاتمے کا کنونشن) کی حمایت اور مثالی قیادت کی ذاتی نظیر پیش کرتے ہوئےپاکستان پیپلز پارٹی وعدہ کرتی ہے کہ:

٭عام نشستوں پرامیدوارخواتین کو مکمل حمایت دی جائے گی تاکہ ان کی کامیابی کے ہر ممکن امکانات یقینی بنائے جائیں۔

٭خواتین کو پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کی ہر سطح پر شامل کیا جائے تاکہ انہیںبھرپور سیاسی اختیارحاصل کرنے اورسیاسی عمل میںحصہ لینے کا موقع ملے۔

٭عام انتخابات اورمخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کے انتخاب کے لیے میرٹ پر مبنی شفاف اصولوں سے عوام کو آگاہ کرنا۔

حقوقِ نسواں

ثقافتی طور طریقوںاورپدر سری معاشرےکی وجہ سے پاکستان میں خواتین کی حیثیت بہت حد تک مردوں کے ماتحت ہے۔عمومی طور پر بین الاقوامی برادریاں پاکستان کو خو اتین کے لیے ایک خطرناک مقام سمجھتی ہیں۔بایںہمہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحدایسی پارٹی ہے جس نےشہید ذوا لفقارعلی بھٹو،شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پی پی پی پی کے ادوارِ حکومت میں خواتین کو با اختیار بنانے کے اہداف کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔یہ پاکستان پیپلز پارٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہی حکومت تھی جس میں خواتین کے خلاف تشدد اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کا کنونشن(سیڈا ) کو مستحکم بنایا گیا ۔

٭پاکستان پیپلز پارٹی حقوقِ نسواں کے لیےترقی پسندانہ قانون سازی میں قائدانہ حیثیت کا ریکارڈ قائم رکھتے ہوئے(انفرادی اراکین پر انحصار کرنے کی بجائے) پارٹی سے حمایت یافتہ بلز کے ذریعے مزید قوانین تجویز کرےگی۔

٭قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں،بالخصوص پولیس میں خواتین کی تعداد میںاضافہ یقینی بنانا۔

٭خواتین کے خلاف جرائم اور عدالتی مقدمات کی حیثیت کا ایک قومی کیٹلاگ بنایا جائے گا اور خواتین کے خلا ف تشدد کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے ایک خصوصی پبلک پراسیکیوٹر تعینات کیا جائے گا ۔

٭خواتین کی حیثیت کے بارے میںقومی کمیشن کو مستحکم کرنے کے لیے قانون کے مطابق اس کی مالی اور انتظامی خود مختاری بڑھائی جائے گی۔قومی اور صوبائی بجٹ کی منصوبہ سازی کے عمل کو صنفی لحاظ سے حساس بنایا جا ئے گا ۔اور پالیسی ساز صنفی لحا ظ سے حساس بجٹنگ کریں گے،نیز بجٹ سے متعلقہ فیصلوں سے صنفوں پر پڑنے والے اثرات کا فیصلہ کریں گے،تاکہ مرد و خواتین کو پبلک سیکٹر کے اخرا جات میں مساوی فائدہ پہنچنا یقینی بنایا جا سکے۔

٭غیرت کے نام پر قتل،گینگ ریپ،تیزاب پھینک کر جلا نے ،طلاق ،جہیز ،بچوںکی کفالت،جنسی ہراسانی ،بچپن کی شادی وغیرہ سے متعلق خوا تین کے حق میں ساز گار قوا نین کا فوری اطلاق یقینی بنایا جا ئے گا ۔

٭فوری قانو نی اور نفسیاتی امداد کے لیے مخلف سطحوں پر ’’کرائسس سنٹرز فار وویمن‘‘ قائم کیے جا ئیں گے ۔

اس کے علا وہ بھی تفصیل کے ساتھ جس طرح دیگر عنوانات کے تحت خواتین کو روٹی ،کپڑا اور مکان کے حوالے سے سہولیات فراہم کی ہیںاس سے ظاہر ہے کہ پی پی پی نے معاشرہ اور روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے’’عورت کو انسان ‘‘ تسلیم کیا ہے۔خواتین کو کاروباری مالکان بناتے ہوئے ان کو متعلقہ منڈیوں سے منسلک کرنا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کوڈیلر شپ کا لائسنس لینے کی درخواست کی ترغیب دینا۔اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی اجرت میںاضافہ۔وفاقی اور صو بائی سطح پر تجارتی چیمبرز کی معاونت سے وومینز بزنس کونسل قائم کی جائیں گی۔خواتین کے خلاف تعصب کی تمام صورتوں کا خاتمہ۔خواتین کے خلاف جرائم کا قومی رجسٹر۔پولیس فورس میں خواتین کی بھرتی۔حقوقِ نسواں کے لیئے ترقی پسندانہ قانون سازی۔

مسلم لیگ (ن)

پاکستان مسلم لیگ نون نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح اپنے منشور میںخواتین کی صحت ،یعنی ماںبچے کی صحت کو اولیت دی ہے۔

٭ خواتین کو اسلام کی عطاکردہ عزت و وقار اور جائیداد کے حقوق کاتحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

٭قومی ترقی میںخواتین کی شراکت کو فروغ دیا جائے گااور تبدیلی کے عمل میں ان کےکردار کو تسلیم کرتے ہوئےانہیںسماجی ،سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے بااختیار بنایا جائے گا۔

٭پرائمری تعلیم میں خواتین اساتذہ کو ترجیح دی جائے گی۔

٭خواتین کی تعلیم بالخصوص پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت پرخصو صی توجہ دی جائے گی ا ور خواتین کی صحت کے خصوصی شعبوں اور پروگراموں کو فروغ دیا جائے گاتاکہ ان حوالوں سےعورت اور مرد کے درمیان فرق کودور کیا جاسکے۔

٭پالیسی اور فیصلہ سازی کے تمام کلیدی ا داروں میں خواتین کی موثر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

٭خواتین اور بچوں پر تشددکی روک تھام اورخواتین کے ساتھ منفی امتیازی سلوک کی رو ک تھام کے لیےنئی قانون سازی کی جائے گی۔موجودہ قوانین کو بہتر بنایا جائے گااور ان پہ موثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔

٭خواتین کو با اختیار اورروزگار کمانے کے قابل بنانے کے لیےانھیں خصو صی طور پرچھوٹے قرضوں کی پیشکش کی جائے گی۔

٭علاوہ ازیں بیوہ خواتین کومکان بنانے کے لیے خصوصی رعایتی قرضے بھی دیئے جائیں گے۔

٭معاشرے میںخواتین کا کلیدی کردار ہےاس حو الے سے خواتین کو معاشرے میںبااختیار اورفعال بنانے کے لیے ایک جامع پروگرام بنایا جائے گا۔اس پروگرام کا ایک کلیدی عنصرخواتین کی شرحِ خواندگی کو بہتر بنانا ہوگا۔

٭مالیاتی اداروں،اعلی عدلیہ،صحت اور تعلیمی انتظامیہ اور قانون نافذکرنے والوں اداروںمیں بالخصوص انتظامی سطح پرخواتین کی شمولیت کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا۔

٭حق دار خواتین کے لیے وراثت اور جائیداد میں حق کو تحفظ فراہم کیا جائے گا ۔

٭کارکن خواتین کو دفاتر اور کام کرنے کے دیگر مقامات میں ہراساں کرنے والوںکے خلاف محتسب تعینات کیئے جائیں گے۔

٭کارکن خواتین کی آسانی کے لیےڈے کیئر کی سہولت فراہم کی جائیں گی۔کاروبار کرنے والی خواتین کی ترقی کے لیے’’ویمن انٹر پرینرشپ فنانسنگ اسکیم‘‘کا اجرا کیا جائے گا۔

حقوق کے تحفظ کے زیرِعنوان،پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ۔تشددکی شکار خواتین کی بحالی۔عوامی مقامات تک خواتین کی با آسانی رسائی۔ملازمت پیشہ خواتین کی سہولت کے لیئے زچگی کی چھٹیاں۔فیئرریپریزینٹیشن آف ویمن ایکٹ منطور کر کے تمام سرکاری

اداروں اور کمیٹیوں میں خواتین کی ۳۳ فیصد نمائندگی۔خواتین کے جنسی وذہنی اذیت سے بچائو کے لیئے اینٹی ہراسمنٹ سیل۔دورانِ تحقیقات ہراسیمگی کا شکار خواتین کی شناخت مخفی رکھنے کو یقینی بنانا۔بنیادی حقوق سے آگاہی کی مہم۔خواتین ٹرانسپورٹ۔جنسی بنیادوں پر تنخواہوں کے فرق کا خاتمہ۔اعلی عہدوں پر خواتین کی شمولیت شامل ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف

پی ٹی آئی نےاپنے منشور میں’’صنفی مساوات کا فروغ‘‘ کے عنوان سےتحریر کیا ہےکہ:

٭ہم تعلیم ،صحت،معاشی مواقع اورقانونی تحفظ تک خواتین کی رسائی میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے موثر منصوبے کا آغاز کریں گے۔ورلڈ اکنامک فورم کی نظر میں پاکستان صنفی مساوات کی بدترین کیفیت کے حامل ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔خواتین کے لیےتعلیم کے غیر متناسب مواقع، نوکریوں اور ملازمتوں میں خواتین کی نہایت محدود شرکت،زچگی کے دوران بلند شرحِ اموات اور خواتین کے خلاف پر تشدد رجحانات کی موجودگی اس کی بنیادی وجوہات میں سے چند ہیں ۔

٭ہم خواتین کے لیے نئے تعلیمی اداروں کی تعمیر اور پہلے سے موجودگی اداروںکی اپ گریڈیشن پرترجیحی انداز میںسرگر می دکھائیں گے اور خواتین اور بچیوں کی تعلیم کے تسلسل کے لیے انہیں وظائف مہیاکریں گے۔

٭خواتین کو دورانِ زچگی معاونت ا ور خاندانی صحت و منصوبہ بندی سے بہرہ ور کرنے کے لیےقومی سطح پرمائوں کی صحت کا خصوصی پروگرام شروع کریں گے۔

ہم خواتین کے لیے معاشی مواقع فراہم کرنے کے لیے

٭وراثت میں خواتین کا حصہ محفوظ بنانے کے لیے قانونی ڈھانچے کی اصلاح کریں گےاور اسے مضبوط بنائیںگے۔

٭ریاست کی جانب سے فراہم کیے جانے والے چھوٹے قرضوں میں خواتین کا حصہ بڑھایا جائے گا۔

٭خواتین کارکنان کے لیے شہری علاقوں میںرہائشی سہولیات کی فراہمی کا انتظام کریں گے۔

٭ہم نظامِ انصاف کی بھی اصلاح کریں گے تاکہ صنفی جرائم کی اطلاع و تفتیش کے لیے تھانوں میں خواتین اہلکاروں اور افسران کی تعیناتیاںممکن ہو سکیں۔

٭صنفی جرائم کی مناسب تفتیش اور پراسیکیوشن یقینی بنائی جائے۔

٭خواتین کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کی راہ کھل سکے۔

٭جنسی زیادتی کے مقدمات کی مناسب تحقیق کے طریقہ کار میں بہتری لائی جا سکے۔

٭ملک بھر میں خواتین کی سماجی تحفظ یقینی بنانے کےلیےدار الامان کے نظام میں بہتری لائیںگےاور مزید وسائل صرف کریں گے۔

٭انتخابات میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی اور ووٹ کے حق کے استعمال میں ان کی معاونت یقینی بنانے کے لیے ملک گیر’’خواتین

٭ووٹرزرجسٹریشن‘‘ مہم چلائیں گے۔اور سیاسی طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کی جانب پیش قدمی کریں گے۔

پاک سر زمین پارٹی

پاک سر زمین پارٹی نے اپنے مختصر منشور میں’’خواتین‘‘کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے کہ:

خواتین پاکستان کی نصف آبادی پرمشتمل طبقہ ہے جو نہ صرف بری طرح نظرانداز کیا گیا بلکہ معاشی ،معاشرتی ،سماجی ،نفسیاتی ،علمی، ادبی،غرض کہ ہر سطح ہر جہت میں اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ خواتین پر مظالم کا دراز سلسلہ بھی ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔خوا تین کو گھروںمیں مظالم اور استحصال کا سامنا ہے۔ان پر عاید غیر انسانی پابندیاںاور ان کے حقوق سلب کر لینا عام ہے۔گھریلو تشدد مختلف سماجی طبقات میں کارو کاری،ونی کرنے(چائلڈ میرج)اس استحصال کی سادہ مثالیں ہیں۔تعلیم یافتہ اور حقوق و فرائص سے آگاہ خواتین نہ صرف آج ہما ری قوم کی ضرورت ہیں بلکہ مستقبل میںبھی ہماری نسلوں کی سدھار اور ہماری عظمت کا شعور اجاگر کرنے میںخواتین کے کر دار سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔موجودہ زمانے میں خواتین زندگی کے ہر میدان میں سر گرم ِ عمل ہیں۔ وہ گھروں میں ،فیکٹریوں،دفتروں اور تعلیمی اداروں میں،ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری خاندانی زندگی،روایات اور مذہبی فرائض و سماجی رسوم و اصولوں کی امین بھی ہیں۔خواتین کے حقوق کے ضمن میںان کے لیے عزتِ نفس کی یقین دہانی،معاشی خود مختاری ،جنسی استحصال سے تحفظ،حکومتی اور سماجی اداروں میںبرابری کی بنیاد پر ملا زمتیں،مردوں کے برا بر تنخواہیں،پسند کی شادی کا حق،جائیداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔

پاک سر زمین پارٹی مقامی حکو متوں کی سطح پرخواتین حقوق کمیٹیوں کے قیام کی خواہاں ہے۔یہ کمیٹیاں علاقائی سطح پر خواتین کی شکایت پرغور کریں گی۔اور ان کو گھر اور گھر سے باہر کسی بھی قسم کے استحصال کے خلاف تحفظ فراہم کریںگی۔اس سلسلے میں یہ کمیٹیاںمقامی خواتین پولس اسٹیشنز کے تعاون سے قانونی چارہ جوئی بھی کر سکیں گی۔پاک سر زمین پارٹی خواتین کے مسائل کے سلسلے میں راز داری کے اصول پر عمل کرنا چاہتی ہے۔تاکہ خواتین پورے اعتماد سے اپنے مسائل پر اپنی بات کر سکیں۔پی ایس پی خواتین کے حقوق کےلیے کی جانے والی اب تک کی قانون سازی کو اہمیت دیتی ہے۔اور ان پر عمل در آمد کا ارادہ رکھتی ہے۔نیز مستقبل میںبھی خواتین کے حقوق محفوظ کرنے کے لیے قوانین تشکیل دینے کی خواہشمند ہے۔

٭قومی سطح پر ایسےسیمینار یا ورک شاپس منعقد کیئے جائیں جس کے ذریعےخواتین اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں۔

٭موجودہ تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کےذریعے صنفی بیداری کو فروغ دیا جائے۔اور تعلیم کے ذریعےخواتین کو با اختیار بنایا جائے۔

٭خواتین کی سیاسی شمولیت کو ممکن بنا نے کے لیےموجودہ سماجی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہےجن میں خاندان کی ذمہ داری تحفظ اور عملی میدان میںآنے کے خوف کے حوالے سے موجودہ خدشات کودور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

٭تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے تربیت ،پیشہ ورانہ ترقی،اور ان کی صلاحیتوں اور ہنر کو اجاگر کرنے اور فر وغ دینے کی ضرورت ہے۔

٭قومی سطح پر ایسے تربیتی پروگرام منعقد کرنے چاہئیں جن کے ذریعے خواتین مارکیٹنگ کے رجحانات کے حوالے سے معلومات حا صل کر سکیںاور اپنی تیار کردہ مصنوعات کو صارف تک پہنچا سکیں۔

٭وہ خواتین جو تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ان کے لیے تعلیمِ بالغان کا اہتمام ان کے علاقے میں ہی کیا جا ئے گا تاکہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی خواندگی کی شرح کوبھی بڑ ھایا جا سکے۔

دیگر جماعتوں کے منشور میں

۲۰۱۸ کے انتخابات میں شامل بڑی جماعتوں کے علاوہ بشمول متحدہ قومی موومنٹ کے کسی کے منشور میںخواتین کے لیے تعلیم ،صحت،کاروبار، عائلی مسائل کے حل میںقانونی معاونت، کے کوئی خصوصی پلان شامل نہیں ۔بعض جماعتوں نے بچوں اور،اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا تذکرہ بھی شامل کرکے گویا اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اگر منشور کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو ما سوائے پا کستان پیپلز پارٹی کےکسی جماعت کے پاس پاکستان کی’’نصف سے ذیادہ آبادی‘‘کے دنیا کے مقابل آنےاور اپنی حیثیت و اہمیت تسلیم کروانے کے لیےکوئی ٹھوس منصوبہ موجود نہیں ۔ متحدہ مجلسِ عمل پاکستان جو کئی جماعتوں کا انتخا بی اتحاد ہے ،اس میںشامل جماعتیں ویسے ہی خواتین کو ایک حد تک محدود رکھتی ہیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی نےخواتین کے لیے نہ صرف تفصیل سے منصوبے پیش کیے ہیں بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کے نکات میں بھی خواتین کا تذکرہ کیاہے جب کہ دیگر جماعتوں نے پاکستانی خواتین کی صلاحیتو ں کو عالمی سطح پر شناخت دلانے کے لیے کوئی پروگرام اپنے منشور میںپیش نہیں کیا ۔

تازہ ترین