• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ای کامرس‘‘ کھربوں کا کاروبار اور صارفین کا کم ہوتا اعتبار

’’ای کامرس‘‘ کھربوں کا کاروبار اور صارفین کا کم ہوتا اعتبار

یہ شاید ہماری سرشت میں ہے کہ کوئی بھی چیز چاہے کتنی بھی چھان پھٹک کے بعد خریدیں،گھر لا کریہی احساس کچوکے دیتارہتاہے کہ شاید ہم زیادہ قیمت دے آئے ہیں یاپھر کوالٹی پتہ نہیں کیسی ہوگی، وغیرہ۔ اب بھلا جو چیزہر زاویےسےچیک کرنے کے بعد بھی ہم ا س کی قدروقیمت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں تو سوچیںآن لائن خریدی گئی چیزوں کے بارے میں ہم کیا کچھ منفی نہ سوچتے ہوں گے۔ آن لائن خریداری میں اکثر کمپنیاں اب یہ آپشن دینے لگی ہیںکہ آپ پراڈکٹ کو وصول کرتے وقت اچھی طرح چیک کریں اوراس کے بعدقیمت ادا کریں۔ اس سہولت کے باوجود بھی لوگ آن لائن شاپنگ کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

ہمارے ملک میں بھی بہت سی ای کامرس کمپنیاں کام کررہی ہیں، جن میں سے کچھ معیار پر پورا اترتی ہیں تو کچھ سے صارفین نالاں نظر آتے ہیں۔ ای کامرس میں کپڑے ، جوتے، لیدر کی مصنوعات، کھانے پینے کی اشیا، گھریلوسامان، فرنیچر وغیرہ سب فروخت ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر ای کامرس میں لاکھوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے اور اس میں ادائیگی کریڈٹ کارڈ اور کیش کے ذریعے کی جاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ای کامرس نے لوگوں کااندازِ خریداری بدل دیا ہےا ور گھر بیٹھے ایک ہی چیز کے درجنوں آپشنز بھی فراہم کردیے ہیں ، لیکن ساتھ ہی اس کے ساتھ جڑے ابہام میں بھی اضافہ ہواہے۔ گذشتہ برس عالمی سطح پر 2.29 ٹریلین ڈالر کی آن لائن فروخت ہوئیںمگر ان میں سے 70فیصد صارفین کے ذہن میں یہی پریشانی تھی کہ ان کی ڈیجیٹل ادائیگیاں غیر محفوظ ہیں۔ یاد رہے کہ ابھی دنیا کی نصف آبادی آن لائن شاپنگ یا ای کامرس سے نابلد ہے۔

اس سال صارفین کے عالمی حقوق کے دن کے موقع پر ہر ایک کے لیے صاف و شفاف اور محفوظ انٹرنیٹ رسائی، دھوکہ دہی اور جعلسازی کے خلاف کارروائی اور صارف کے لیے بہتر آن لائن تحفظ کے لیے عالمی سطح پرکنزیومر انٹرنیشنل ’’ #BetterDigitalWorld ‘‘ کے پلیٹ فارم سے عالمی سطح پر مہم چلارہی ہے،جس میں اس سال90ممالک سے135ارکان جمع ہوئے اور ورلڈکنزیو مرڈے منایا گیا۔ آئندہ سال اور اس کے بعد بھی یہ ادارہ پروجیکٹس کی نئی رینج پر کام کررہا ہوگا اور ایسی ڈیجیٹل دنیا کی تخلیق میں مدد کررہا ہوگا جہاں دنیا بھر کے صارفین آن لائن شاپنگ پر اعتماد کرسکیں۔

صارفین کے حقوق کا عالمی دن پہلی بار15مارچ1983ءکو منایا گیا تھا۔ ابتداء میں عوام کو چار بنیادی حقوق دیئے گئے تھے جن میں اضافہ کر کے انہیں آٹھ کر دیا گیا۔ یہ اضافہ صارفین کے حقوق کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم کنزیومرز انٹرنیشنل کی تجویزپر کیا گیا تھا۔صارف کے حقوق آٹھ چیزوں کا مجموعہ ہیں جس میں اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول اور شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق شامل ہے۔ دنیا بھر میں صارفین کے حقوق کی آگاہی مہم چلائی جاتی ہے، اس دوران لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دی جاتی ہے، جس کے لیے سیمینارز اور واک کا اہتمام بھی کیاجاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ان معاملات کی دیکھ بھال کے لیے صارف عدالتیں یا کنزیومر کورٹس بھی قائم ہیں۔

پاکستان میں صارفین کے حقوق کے لیے قانون پہلی بار1995ءمیں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت بیوروکریسی نے یہ اعتراض کیا تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔جب آپ اپنے ملک میں موجود ہونے کے باوجود اپنے ساتھ کیے گئے آن لائن فراڈپر آواز بلند نہ کرسکیں تو پھر عالمی سطح پر کیے گئے فراڈ کی رپورٹ کہاں درج کروائیں گے۔ اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اقدامات کیے جانے لازمی ہیںکیونکہ پاکستان میں صارف اپنے حقوق سے عمومی طور پر ناآشنا ہیں۔ بازاروں کا رُخ کرنے والے کروڑوں صارفین کا روزانہ استحصال ہوتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے وہ خاموش رہتے ہیں۔

نوجوان کالم نگار علی معین نوازش نے بھی اس بارے میں لکھا تھا کہ دوسرے ملکوں میںکوئی چیز پسند نہ آنے یا ناقص نکلنے پر سات روز کے اندر اسے واپس کیا جا سکتا ہے، جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ امریکا میں آپ کوئی بھی چیز30روز کے اندر اندرواپس کر سکتے ہیں، اس کے لیے کسی واضح نقص کا ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’میں اس سے مطمئن نہیں ہوں‘۔ حتیٰ کہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ’ اب میرا اس سلسلے میں ذہن بدل گیا ہے‘۔ بڑے کارپوریٹ اسٹورز کی خریداری رسید کی پشت پر سامان کی واپسی کی مکمل پالیسی اور ہدایات چھپی ہوتی ہیں۔ صارفین کے حقوق کے اندر رہتے ہوئے ان ا سٹورز کو اپنی پالیسی وضع کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کچھ اشیاءایسی ہیں مثلاً تازہ سبزی پھل وغیرہ جن کی واپسی مشکل ہوتی ہےکیونکہ یہ چیزیں جلد خراب ہونے والی ہوتی ہیں۔ اس لیے اگر کچھ ا سٹورز ایسی چیزیں واپس بھی لیتے ہیں تو اس کے لیے بہت مختصر وقت دیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس کے لیے یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ آپ کی رقم واپس نہیں ہوگی اور آپ متبادل کے طور پر اپنی پسند کی کوئی دوسری چیز خرید سکتے ہیں۔

تازہ ترین