• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل جو بدلا تو فسانہ بدلا

دل انسانی وجود کا ایسا حصہ مانا جاتا ہے جو جذباتی معاملات کے ساتھ جسمانی افعال میں بھی بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔شاید اسی لیے اردو کے ممتاز اور صاحبِ طرز شاعر ندا فاضلی نے کہا تھا:جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے، دل جو بدلا تو فسانہ بدلا ،رسم دنیا کو نبھانے کے لیے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی ۔

لیکن یہاں تو حقیقت میں دل کی تبدیلی کا معاملہ ہے ۔یہ گزشتہ ماہ کی 9تاریخ کی بات ہے۔اس تاریخ کو پاکستان کی طبّی تاریخ کا ایک بہت اہم باب رقم ہونے جارہا تھا۔مقام تھا،قومی ادارہ برائے امراضِ قلب ۔ وہا ںدل کے امراض کے ماہر طبیب ایک بہت اہم اور پے چیدہ جرّاحی کی تیّاریوں میں مصروف تھے۔مشکل یہ تھی کہ جس مریضہ کا آپریشن ہونا تھااس کی عمر 62برس ہوچکی تھی اور اس کا دل صرف پندرہ فی صد کام کررہا تھا۔اچھے اچھے طبیب اتنی عمر اور ایسی حالت والے مریض کے دل کی جراحی کرتے ہوئے کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔اور جراحی بھی کیسی،مصنوعی دل لگانےکی۔لیکن ملک کےچندبا ہمت اور پراعتماد طبیبوں نے یہ مشکل سفر طے کرنے کا عزم کیا۔پھر ان کا جذبہ اور لگن جیت گئی اور پاکستان میں طب کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوگیا۔

کراچی میں واقع قومی ادارہ برائے امراض قلب میں مصنوعی دل لگانے کا کام یاب تجربہ ،62 سالہ مریضہ نفیسہ میمن پرکیا گیا،جنہیں پانچ گھنٹے طویل آپریشن کے دوران میکانیکی دل یا ایل وی اے ڈ ی (لیفٹ و ینٹر یکیو لر اسسٹ ڈیوائس)لگایا گیا ۔ آپریشن کرنے والی ٹیم میں پاکستانی اور امریکی ڈاکٹرز شامل تھے ۔تاہم ڈاکٹرز کی ٹیم کی سربراہی ہارٹ ٹرانسپلانٹ کےشعبےکے معروف طبیب ڈاکٹر پرویزچوہدری کررہے تھے۔اس جراحی کے بعد قومی ادارہ برائے امراض قلب کے سربراہ، ڈاکٹر ندیم قمرنے ذرایع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ مصنو عی دل لگانے پر 1کروڑ 10 لاکھ روپے کے اخراجات آ تے ہیں۔آپریشن کام یاب رہا ،مریضہ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

لیکن یہ سفر یہیں نہیں رکا بلکہ آگے بڑھتا رہا اور 18 مئی کو اسی ادارے میں تیسرے مریض کومصنوعی دل لگایا گیا۔کراچی کا رہائشی 57 سالہ محمد بنارس جراحی سے چند روز قبل ادارے میں طبی معائنے کے لیے آیا تھا۔ طبی جانچ پڑتال سے پتا چلا کہ اس کا دل ناکارہ ہوچکا ہے،یعنی وہ ہارٹ فیلیور کا مریض ہے۔اس پر اس کے اہل خانہ کو میکانیکی دل لگوانےکا مشورہ دیا گیاجو انہوں نے مان لیا تھا۔اس سے قبل نعیم بخاری نامی مریض کو بھی میکانیکی دل لگایا گیا تھا۔اسلام آباد کے رہائشی 58 سالہ نعیم بخاری کو رات میںدل کا دورہ پڑاتھا۔ مریض کو نجی اسپتال لے جایا گیا جہاں سے ڈاکٹرز کی ہدایت پر مریض کو رات گئے قومی ادارہ امراض قلب لایا گیاتھا۔ ضروری طبی جانچ سے معلوم ہوا تھاکہ مریض پر حملہ قلب کے دوران دل کے پٹھے ناکارہ ہو گئے ہیں جس پر ڈاکٹر پرویزچوہدری نے نعیم بخاری کومکینیکل ہارٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگلی صبح مریض کا پروسیجر شروع کیاگیا،جو انتہائی حساس اور پےچیدہ نوعیت کا تھا ۔تاہم کئی گھنٹوںکی مسلسل کوشش کے نتیجے میں مریض کے دل میںمیکانیکی دل لگا دیا گیا تھا ۔ سرجن ڈاکٹر پرویز چوہدری کے مطابق نعیم بخاری کو ہارٹ اٹیک کے بعد کئی گھنٹوں تک طبی امداد نہ ملنے پر دل کے پٹھے ناکارہ ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دو سر ے مریض تھےجنہیں ہنگامی بنیادوں پرمصنوعی دل لگانے میں کام یابی حاصل کی گئی۔

ادارےکے سربراہ پروفیسر ندیم قمر اور ایگزیکٹو ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر حمید اللہ ملک کے مطابق پاکستان میں پہلی مر تبہ بلامعاوضہ یہ سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں پہلی بار ناکارہ دل کو کارآمد بنانے کے لیے دل کے اندر مخصوص ڈیوائس لگایا جا رہاہے۔ بیرو ن ملک مکینیکل ہارٹ ٹرانسپلانٹ پرڈیڑھ کروڑروپے تک اخراجات آتے ہیں،تاہم ادارے میںیہ بلامعاو ضہ کیا گیا ہے۔ان کے مطابق ادارےمیں لگائے جانے والےمیکانیکی دل کے مریضوں کو خصوصی کارڈ جاری کیے جائیںگے تاکہ ایسے مریض بیرون یا اندرون ملک سفر کے دوران اسکینرز سے گزرتے وقت متعلقہ حکام کو کارڈ دکھا سکیں۔اسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر حمید اللہ ملک کے بہ قول بعض مریضوںکو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ایرپورٹ پراسکینرزسے گزرتے وقت الیکٹرانک ڈیوائس پریشانی کا باعث بن سکتاہے۔ان کا کہنا تھاکہ ایساکچھ بھی نہیں ہے ۔میکانیکی دل لگوانے والے مریض کسی بھی اسکینرسے گز ر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ایسے افراد کو خصوصی کارڈ یا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیے جا ئیں گے۔

پیس میکر بھی الیکٹرانک ڈیوائس کی مانند ہوتا ہے۔اسی طرح جن مریضوں کومیکانیکی دل لگائےجار ہے ہیں انہیں دوران سفر کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرناپڑ ے گا۔ادارےکے سربراہ پروفیسر ندیم قمرکے مطابق اب ادارے میں باقاعدگی سے ہارٹ فیلیور پروگرام شرو ع کردیاگیا ہے جوکام یابی سے جاری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میکانیکی دل لگوانے والے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔

نارمل زندگی

ڈاکٹر پرویز چوہدری کے مطابق یہ ڈیوائس لگانے سے مریض نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ د نیا بھر میں اس تیکنیک کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ پاکستان یہ تیکنیک متعارف کرانے سے لوگوں کو علا ج کے لیے بیرن ملک جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔یادرہے کہ ملک میں مصنوعی دل لگانے کا کام باب تجربہ ہو نے سے قبل اس طرح کے آپریشن کےلیے مر یضو ں کو بھار ت جانا پڑتا تھاجس سے پاکستان میں رہنے والے دل کے مریضوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ اخر ا جا ت بہت زیادہ ہونے کے ساتھ انہیںدیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا ہوتاتھا۔ کراچی کے قو می ادارہ برائے امراض قلب میں دل کی پیوندکاری( ہا ر ٹ ٹرا نسپلا نٹ) کا منصوبہ شروع ہونے سے مریضوں کو بہت سہولت ملنے کی امید ہے۔یادرہے کہ اس ادارے میں بغیر سینہ کھو لے بائی پاس آپریشن بھی کیے جارہے ہیں۔

مشکلات اور بھاری اخراجات سے نجات

ادارے کے ترجمان کے مطابق این آئی سی وی ڈی میں دل کی پیوند کاری کی سہولت کے آغاز کے بعد کسی بھی پاکستانی کو بیرونِ ملک جانے کی تکلیف اور بھاری اخرا جات بر د ا شت کرنے کی ضروت نہیں رہی۔ این آئی سی و ی ڈی عالمی معیار کو اپناتے ہوئے مریضوں کو جدید اور معیاری خدمات فراہم کرنے کے لیے دن رات کوشش کر رہا ہے۔ان سہولتوں سے نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرونِ ملک کے مریض بھی مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ این آئی سی وی ڈی کے بہت سے منصوبے پا ئپ لائن میں ہیں جن کی تکمیل کے بعد مریضوں کو علاج کے ضمن میں مزید آسانیاں میسر ہوجائیں گی۔ترجمان کے مطابق ادارے میں سالانہ 3 بائی پاس آپریشنز کیے جاتے ہیں، 5 ہزار انجیوپلاسٹی کی جاتی ہیں اور ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاتاہے۔

اس سے قبل مئی کے مہینے میں ادارے کے ایگزیگٹیو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے اعلان کیا تھا کہ کم زوردل والے مریضوں کو جان بچانے والا منہگاآلہ مفت میں لگایا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس ڈیوائس کے نتیجے میں کم زور دل کے حامل افراد کی دل کی دھڑکنیں متوازن ہوجائیں گی اوران کی زندگیاں بچانےمیں معاون ثابت ہوں گی ۔بازارمیں آئی سی ڈی نامی ڈیوائس کی قیمت 7 سے 17 لاکھ روپے تک ہے۔ ماضی میں ایسے مریضوں کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے اس ڈیوائس اورعلاج کی پیش کش نہیں کی جاتی تھی۔ تاہم اب ہر سال کم زوردل والے پانچ سو مریضوں کو یہ ڈیوائس مفت میں لگایا جائے گا۔

اوپن ہارٹ سرجری کے بغیردل کے والوو کی تبدیلی

کراچی میں ہونے والی پیش رفت سے قبل ملک کی طبی تاریخ کا ایک اور سنگ میل عبورکیا گیاتھا۔وہ ملک میں پہلی بار اوپن ہارٹ سر جر ی کے بغیر دل کے والوو کی تبد یلی کا کام یاب آپریشن تھا۔یہ سنگ میل اسی برس 26 فروری کو عبور کیا گیا تھا ۔ مقام تھاصوبہ پنجاب کا شہر، ملتا ن ۔پنجاب کے مطالعاتی دورے پر آئی ہوئی امریکی سرجنز کی تین رکنی ٹیم نے ملک میں بغیراوپن ہارٹ سرجری کیے دل کے اہم والوو کی تبد یلی کا کام یاب آ پر یشن کیاتھا۔ آپریشن کے مرحلے سے گزرنے والے تینوں مریض رو بہ صحت تھے۔اس روزچوہدری پرویز الہی انسٹی ٹیو ٹ آ ف کارڈیا لو جی ، ملتان، میں ڈاکٹر بروس جونز، ڈاکٹر اسکاٹ فریزیئر اور ڈاکٹر یاسر اختر پر مشتمل تین رکنی امر یکی ٹیم نے پاکستانی مریضوں میں شہ رگ کے ذریعے ا ے اورٹک والوو کی تبدیلی کا کام یاب آپریشن کیا تھا ۔ واضح رہے کہ اس قسم کے آپریشن میں ناکارہ والوو کو نکا لے بغیر ہی دوسرا والوو نصب کردیا جاتا ہے جس کے لیے جسم کے بیرونی حصے پر کسی قسم کی چیر پھاڑ نہیں کرنا پڑ تی ۔

اسپتال کے ایم ایس، ڈاکٹر رانا الطاف کا کہنا تھا کہ اے اورٹک والوو کی تبدیلی کے آپریشن میں تین امریکی ڈاکٹرزپرمشتمل ٹیم کے علاوہ پاکستانی ڈاکٹرزاورپیرا میڈ یکل ا سٹا ف نے بھی حصہ لیا۔ آپریشن کے لیے جسم کو خون مہیا کر نے والی بنیادی اور مرکزی رگ ،اے اورٹا (Aorta) کو استعمال کیا گیا۔ اس طرح کے آپریشن میں اوپن ہارٹ سرجری کی ضرو ر ت نہیں رہتی،چناں چہ ناکارہ والوونکا لے بغیر ہی نیا والو کام یابی کے ساتھ لگا دیا گیا ۔ بعدمیںامریکی ٹیم کے سر بر اہ بروس جونز نےروٹری کلب ،ملتان میں عشائیےسے خطاب کے دوران بتایاتھاکہ وا لو وکی تبدیلی کے لیے جد ید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اس آپریشن پر 32 ہزار 5 سو ڈالرزکے اخر ا جا ت آتے ہیں جس میں والوو کی فراہمی پر خرچ ہونے والی رقم بھی شامل ہے۔یہ طریقہ جہاں محفوظ ہے وہیں ارزاں بھی ہے اور اس طرح کے آپریشن کی خاص بات اس میں استعمال ہونے والے قدرتی انسانی والووزہیں جو انتقال کرجانے والے افرادکی وصیت پر ان کے اجسام سے حاصل کیے جا تےہیں۔

اعضاء کی پیوند کاری

اعضاء کی پیوند کاری کا پہلا آپریشن ڈاکٹر جوزف مرے اور ڈاکٹر ڈیوڈ ہیوم نے 1954ء میں بوسٹن کے بریگھم اسپتال میں کیا تھا۔ اس وقت ڈاکٹرز کا ایک ہی مقصد تھا کہ ان کے مریض کی جان بچ جائے۔ لیکن، آج تقریباً چونسٹھ برس بعد ڈاکٹر یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ پیوند کاری کے ذریعے نہ صرف مریضوں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں بلکہ جسم کے دیگر اہم اعضاء کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔

طبی سائنس میں ڈاکٹر کرسچن برنارڈ کا نام کسی تعا ر ف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے تین دسمبر1967کو جنوبی افریقامیں انسانی دل کی تبدیلی کا پہلا کام یاب آپر یشن کیاتھا۔یہ طب کے شعبے میں بہت حیرت انگیز پیش رفت تھی۔دنیا میں دل کی پیوندکاری کا یہ پہلاکام یاب آپریشن تھا۔تاہم آپریشن کے بعد لوئس نامی شخص صرف اٹھارہ دن زندہ رہ سکا تھا۔جنوری 1968میں ڈاکٹر برنارڈ نے دوسرا آپریشن فیلیپ بلیبرگ نامی شخص کا کیا جو آپریشن کے بعد ڈیڑھ سال تک زندہ رہاتھا۔

طبی سائنس میں ہونے والی تمام تر پیش رفت کے باوجود آج بھی دل کی پیوندکاری کا مرحلہ آسان اور سستا نہیںہے۔ آج بھی دل کی تبدیلی کے طریقے اور تحقیق کے لیے امریکا اور یورپ کے اسپتالوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ان دنوں امریکامیں ایک سال میں تبدیلی قلب کے تین ہزار آپریشن کیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصے میں ایسے مشینی پمپ ایجاد کیے گئےجو ناکارہ دل کے ساتھ لگا ئے جاتے، مگر یہ مشینی طریقہ علاج نہ صرف منہگا تھا بلکہ مریضوں کی مشکلات میں اضافہ بھی کررہا تھا جس میں خون کا بہہ جانا، فالج اور انفیکشن شامل ہے۔ اس لیے ڈا کٹر زدل کی پیوندکاری کو ہی ترجیح دیتے۔ امریکا اور یورپ میں اگر کسی مریض کادل کارکردگی کے لحاظ سے آخری سطح پر ہو تو اس کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش ہوتی ہے جس کی دماغی موت واقع ہو چکی ہو اور اس نے اپنا دل عطیہ کرنے کا عندیہ دیا ہو۔

چھوٹے مصنوعی دل کی پیوند کاری

مارچ 2015ء میں 44 سالہ خاتون نیماح کاہالا کو چھوٹا مصنوعی دل لگا یا گیاتھا۔ اگرچہ، دنیا میں 2015 تک سنک کارڈیا مکمل مصنوعی دل کے ساتھ پیوند کاری کے آٹھ آپریشن کیےجا چکے تھے،لیکن نیماح کاہالا چھو ٹے سائز کا مصنوعی دل وصول کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون تھیں۔وہ دل کے پٹھوں کی بیماری میں مبتلا تھیں اور انہیں مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا۔ انہیں فوری طور پردل کے عطیے کی ضرورت تھی۔طبیبوں نے خاتون کی جان بچا نے کے لیے انہیں عارضی طور پر 50 سی سی کاچھوٹا مصنوعی دل لگادیاتھاجس سے فوری طور پر خون کے بہاؤ میں مدد ملی اور دل کو واپس بحال اور مستحکم کیا گیاتھاتاکہ انہیں عطیہ وصول کرنے والوں کی انتظار کی فہرست میں رکھا جا سکے ۔ایک ہفتے بعد ڈاکٹرزکو خاتون کے لیے ایک مناسب ڈونر مل گیا جس کے بعد مصنوعی دل ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن اس مصنوعی دل نے خاتون کو زندہ رکھنے میں کافی مدد فراہم کی تھی۔

پہلی بار کھوپڑی کی کام یاب پیوند کاری

دل تو دل اب تو طبی سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے کہ وہ پوری کھوپڑی بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ٹیکساس کے پچپن سالہ رہائشی جیمز بوئسن نےجون 2015 میں جب ہیوسٹن میتھو ڈسٹ اسپتال چھوڑا تو وہ صحیح معنوں میں ایک نئے شخص تھے۔مئی 2015ء میں طب کی تاریخ میں پہلی بار جیمز بوئسن کو ا نسا نی کھوپڑی لگائی گئی تھی۔پندرہ گھنٹے طویل اس آپریشن میں درجنوں ڈاکٹرز اور چالیس میڈیکل پروفیشنلز کی مدد سے سب سے پہلے کھوپڑی کی پیوند کاری کی گئی جس کے بعد ان کے جسم میں نیا لبلبہ اور گردہ بھی لگایا گیا۔

سافٹ وئیر ڈیولپر جیمز بوئسن خطرناک قسم کے سر طا ن سے بر سر پیکا ر ہونےکےبعدکینسرکےعلاج، کیمو تھر ا پی اور ریڈیو تھراپی کے باعث سر کی جلد سے محروم ہو گئے تھے اور ان کے سرپر دس انچ کا سوراخ ہو گیا تھا۔ وہ سر کے اتنے بڑے زخم کے ساتھ لبلے اور گردے کی پیوند کاری کرانے کے قابل نہیں تھے۔ لہذا ایم ڈی اینڈرسن سینٹر کےپلاسٹک سرجن ڈاکٹر جیسی سیلبر نے انہیں جزوی نئی کھوپڑی دینے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ اس سے ایک برس قبل نیدرلینڈ میں تھری ڈی پرنٹڈ پلاسٹک کی کھوپڑی ٹران سپلا نٹ کی جاچکی تھی،لیکن بوئسن دنیاکےپہلےشخص تھے جنہیں انسانی کھوپڑی لگائی گئی۔

کیا اسباب پر بھی ہماری نظر ہے؟

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امراض قلب کے مریضوں میں تین برس میںسو فی صد اضافہ ہوا ہے اور امراض قلب ہول ناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔تین برسوں میں اس کے مریضوں میں سو فی صد اضا فہ ہونا غیر معمولی بات ہے۔طبی ماہرین کے مطابق پر تعیش طرز زندگی اور نوجوانوں اوربچوں میں سوشل میڈیاکے بے دریغ استعمال سے بھی یہ مرض جنم لے رہا ہے۔ دل کے مرض میں اضافے کے سبب قومی ادارہ برائے امراض قلب،کراچی کی جانب سے شہر کی مختلف آبا د یوں کے اطراف میں 20 چیسٹ پین کلینکس قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے 6 مراکز فعال کر دیے گئے،جہاں دل کے 42 ہزار سے زیادہ مریضوں کاعلاج کیا جاچکا ہے اور ان میں سے2ہزار مریضوں میں ہارٹ اٹیک کی تشخیص کی جا چکی ہےجنہیں اسپتال میں علاج کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

امراض قلب کے قومی ادارے میں یومیہ 3 ہزار دل کے مریض طبی پے چیدگیوں کی وجہ سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ماہرین کے بہ قول دل کا مرض لاپروائی،مرغن غذا ؤں، جسمانی ورزش نہ کرنے، سہل طلب زندگی گزارنے سے بھی جنم لیتا ہے۔ قومی ادارہ امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر،پروفیسر ندیم قمر کے مطابق کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ میںپانچ برسوںمیں عوام کی اکثریت نے طرز زندگی تبدیل کر لیا ہے اورپرتعیش زندگی گزارنے کو ترجیح دے رکھی ہے۔نوجوان نسل اور کم سن سوشل میڈیا سے حد سے زیادہ منسلک ہو چکے ہیں۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے کے دوران انہیں اپنی غذا اورصحت کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ کھانا کھانےکے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے کرنے کے لیے مسلسل الیکٹرانک آلات کا استعمال انہیں ذہنی دباؤ کا شکار کر رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق نوجوان اور بچے سوشل میڈیا استعمال کرنے کے لیے رات گئے تک جاگتے رہتے ہیں ۔ چناں چہ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ذہنی دباؤ اورتناؤ کا سامنا ہوتاہے جس کی وجہ سے انہیں بلند فشارخون کی شکایت بھی ہونے لگتی ہے۔پروفیسر ندیم قمر کے بہ قول اس صورت حال میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کو مریضوںکے غیر معمولی دباؤ کاسامناکرناپڑرہا ہے۔ اسپتال میں یومیہ 3 ہزار دل کے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں جو بہت خطرناک صورت حال ہے۔اس صور ت حال کو دیکھتے ہوئے اسپتال کی انتظامیہ نے حکومت سندھ کی ہدایت پر کراچی کی مختلف آبادیوں کے اطراف میں 20 چیسٹ پین کلینکس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ ان میں سے 6 چیسٹ کلینکس قائم کر دیے گئے ہیں۔ کراچی سمیت سندھ میں 7 سیٹلائٹ کارڈیک یونٹ بھی قائم کردیےگئےہیںجو لاڑکانہ، سکھر، مٹھی،حیدرآباد، سیہون، نواب شاہ میںہیں۔ پروفیسر ندیم قمر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی باراسٹیٹ آف دا آرٹ بچوں کے دل کی سرجری اور دل کی دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے سات منزلہ پیڈیاٹرکس کارڈیک اسپتال قائم کیا جا رہا ہےجہاں 250 بستر ہوں گے۔یہ منصوبہ حکومت سندھ کے اشتراک سے شروع کیا گیا۔ 

اس منصوبے پر مجموعی طورپر ایک ارب 80 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ جب یہ ادارہ وفاقی حکومت کے ماتحت تھاتو اس کی گرانٹ 400 ملین روپےتھی۔ تاہم جب سے یہ حکومت سندھ کے ماتحت کیا گیا حکومت سندھ نے اس کی گرانٹ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا اور اب صوبائی حکومت اسپتال کو سالانہ 4.35 بلین روپے فراہم کر رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب اسپتال میں انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی، دل کی سرجری سمیت دل کی تما م بیماریوں کا علاج مفت کیا جا رہا ہے۔پروفیسر ندیم قمرکا کہنا ہے کہ بچوں کوامراض قلب سے محفوظ رکھنے کے لیے سوشل میڈیا سے بچائیں، کیوں کہ رات کو دیر تک اس کے استعمال سے بچے ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں اور بچوں کا بلڈ پریشر بھی بڑھ رہا ہےجو بہت خطرناک بات ہے۔

تازہ ترین