• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ٭ازدحام یا اژدہام؟

اردو میںعربی لفظ ’’اِزدحام‘‘ (الف مکسور) کے مختلف املا ملتے ہیں، مثلاً اژدحام، ازدہام یا اژدہام ۔ اس کے املا میں ’’ژ‘‘ لکھنے کی تو کوئی تُک ہی نہیں بنتی کیونکہ ’’ژ‘‘ فارسی کا حرفِ تہجی ہے اور یہ حرف عربی میں وجود نہیں رکھتالہٰذا کسی عربی لفظ میں’’ژ‘‘ نہیں آسکتی۔ ’’ازدحام ‘‘ عربی مادے

’’ز ح م ‘‘ سے بنا ہے۔ عربی میں زحمہ ،زحما، زحاما،زاحمہ، تزاحم اور ازدحم دراصل ’’بھیڑ کرنا‘‘،’’ ایک دوسرے کو دھکیلنا ‘‘، ’’تنگی کرنا ‘‘ اور ’’تنگ جگہ میں دبانا‘‘ کے معنی میں آتے ہیں۔ اسی سے ازدحام ہے، غالباً اس لیے کہ بھیڑ بھاڑ اور ہجوم میں دبانے اور دھکم پیل کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ اردو میں ’’ازدحام‘‘ کا لفظ بھیڑ بھاڑ، ہجوم اور دھکم پیل کے معنی ہی میں مستعمل ہے ۔ عربی لغت ’’المنجد ‘‘،اردو بورڈ کی لغت ’’ اردو لغت(تاریخی اصول پر )‘‘اور رشید حسن خان نے بھی اپنی کتاب ’’اردواملا ‘‘ میں ازدحام ہی کو درست بتایا ہے۔ گویا اژدہام یا ازدہام وغیرہ غلط ہیں اور صحیح املا ’’ازدحام ‘‘ ہے۔

٭اہالیان یا اہلیان؟ معروف مزاحیہ شاعر دلاور فگار(مرحوم) نے ایک تقریب میںمنتظمین کی جانب سے ’’اہلیانِ کراچی‘‘ کی ترکیب استعمال کرنے پر مزاحاًکہا کہ ’’اہلیان اہلیہ کی جمع ہوسکتی ہے، اسی لیے جب کوئی کہتا ہے کہ اہلیانِ کراچی تو ہم سمجھتے ہیں کراچی کی بیویاں‘‘۔ ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ صحیح لفظ اہلیان نہیں بلکہ اہالیان ہے( اب ایسے شاعر بھی چند ہی رہ گئے ہیں جو زبان کی ایسی باریکیوں کا خیال کریں)۔عربی لفظ ہے ’’اہل‘‘۔ اس کی جمع ’’اہالی‘‘ ہے ۔ اس کی جمع الجمع ’’اہالیان ‘‘ہے۔ اردو لغت بورڈ کی ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘‘ کے مطابق ’’اہل ‘‘کے معنی ہیں : صاحب ، رکھنے والایا والے نیز لوگ، باشندے۔

اول تو لفظ ’’اہل ‘‘میں جمع کامفہوم موجود ہے۔اس لیے اہل ِ کراچی کافی ہے ۔یاجمع کا صیغہ لانا ہے تو اہالیانِ کراچی کہنا اور لکھنا چاہیے۔ اسی طرح اہل محلہ یا اہالیانِ محلہ درست ہے۔ اس قیاس پر اہل وطن ، اہل زباں ، اہل علم،اہل خانہ ، اہل کتاب وغیرہ کی تراکیب اردو میں رائج ہیں۔اسی طرح اہل صفا یعنی نیک لوگ، صاف دل لوگ جو کسی سے کینہ نہ رکھتے ہوں ،پاک باطن لوگ۔ البتہ اردو لغت بورڈ کی بائیس جِلدی لغت میں ’’اہل صفا‘‘ کی ترکیب کا اندراج نہیں ہے۔ اندراج تو خیر اس لغت میں لفظ ’’بے وقوف ‘‘ کا بھی نہیں ہے۔

٭اہالی موالی یعنی چہ؟ اردو میں رائج ترکیب ’’اہالی موالی‘‘ میں یہی اہالی ہے جو اہل کی جمع ہے۔ یہ دونوں الفاظ یعنی اہالی اور موالی نیز یہ ترکیب اردو میںاب برے معنوں میں آگئی ہے لیکن عربی میں نہ اہالی برا ہے اورنہ موالی۔اہالی کے ایک معنی تو آقا، مالک،امیر لوگ یا اصحاب ِ ممتاز بھی ہیں ، اور موالی تو مولیٰ یا مولا کی جمع ہے جس کے معنی ہیں مالک ، آقا ، سردار وغیرہ۔ البتہ مولا یا مولیٰ کے معنی بندہ، غلام یا آزاد کردہ نیز مددگار یا معاون بھی ہیں ۔بظاہر عجیب لگتا ہے کہ ایک ہی لفظ کے معنی آقا بھی اور غلام بھی؟ دراصل مولیٰ کا لفظ ان الفاظ میں شامل ہے جنھیں لغتِ اضداد کہتے ہیں ۔ ایسے الفاظ کے بیک وقت متضاد معنی ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’وضیع ‘‘ہے ۔ اس کے معنی شریف اور وضع دار بھی ہیں اور نیچ، بے حیثیت، کم تر بھی۔ خیر ،بات اہالی موالی کی ہورہی تھی۔ اردو میں اہالی موالی کی ترکیب ادنیٰ و اعلیٰ اور امیر غریب کے معنوں میں رائج ہوگئی ہے۔ 

تازہ ترین