• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُردو اور ہندی کے باکمال شاعر ’’گوپال داس نیرج‘‘

اُردو اور ہندی کے باکمال شاعر ’’گوپال داس نیرج‘‘

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلایا جائے

جس میں انسان کو انسان بنایا جائے

صرف یہ ایک شعر ہی اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ گوپال داس نیرج ایک انسان دوست شاعر تھے اور ہر قسم کی فرقہ واریت منافرت سے بالاتر تھے۔ افسوس کہ اردو اور ہندی کے یہ باکمال شاعر انیس جولائی کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ گو کہ ان کی عمر ترانوے سال تھی وہ نوے سال کی عمر تک نہ صرف شعر کہتے رہے بلکہ اپنے حافظے کے بل پر پچاس ساٹھ سال قبل لکھے ہوئے اشعار اور غزلیں لہک کر سناتے رہے۔ اپنے آخری مرحلے میں ان کا رجحان دوہوں کی طرف ہو گیا تھا۔

گوپال داس سکسینہ 1925میں اتر پردیش میں ایٹاواہ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنا قلمی ،نام اور تخلص’’نیرج‘‘ رکھا ۔ اُن کے ادبی قدو قامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1991میں پدم شری اور 2007میں پدم بھوشن کےاعزاز سے نوازے گئے، جو بھارتی حکومت کی طرف سے دیئے جانے والے اعلیٰ اعزاز ہیں۔نیرج نے بڑا عرصہ علی گڑھ کے دھرم سماج کالج میں ہندی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے گزارا۔کہا جاتا ہے کہ اگر آپ چالیس سال کی عمر تک، شاعر نہ بن سکے تو پھر کبھی شاعر نہ بن سکیں گے، لیکن شاید یہ بات فلمی شاعری پر لاگو نہیں ہوتی کیوں کہ نیرج نے فلمی شاعری ٹھیک چالیس برس کی عمر میں شروع کی اور کامیاب رہے۔

نیرج ان شعرا میں سے تھے، جو اُردو اور ہندی دونوں میں اعلیٰ شاعری بڑی آسانی سے کر سکتے تھے۔ مثلاً یہ غزل دیکھئے۔

اب تو مذہب کوئی ایسا بھی چلا جائے

جس میں انسان کو، انسان بنایا جائے

جس کی خوشبو سے مہک جائے پڑوسی کا بھی گھر

پھول اس قسم کا ہر سمت کھلایا جائے

آگ بہتی ہے یہاں گنگا میں، جہلم میں بھی

کوئی بتلائے کہاں جا کے نہایا جائے

پیار کا خون ہوا کیوں، یہ سمجھنے کےلیے

ہر اندھیرے کو اجالے میں بلایا جائے

میرے دکھ درد کا تجھ پر ہو، اثر کچھ ایسا

میں رہوں بھوکا تو تجھ سے بھی نہ کھایا جائے

جسم دو ہو کے بھی، دل ایک ہوں اپنے ایسے

میرا آنسو تری پلکوں سے اٹھایا جائے

1960کے عشرےمیں فلمی شاعری کی طرف آنے سے پہلے نیرج اردو اور ہندی شاعری میں اعلیٰ مقام حاصل کر چکے تھے۔ اُن کے فلمی شاعری کی طرف آنے کا قصہ بھی اس قصے سے ملتا جلتا ہے، جو ایک اور مشہور فلمی شاعر شیلندر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ،نیرج سے پہلے شیلندر کا قصہ سن لیجئے۔

اُردو اور ہندی کے باکمال شاعر ’’گوپال داس نیرج‘‘

کسی مشاعرے میں شیلندر نے اپنی مشہور نظم ’’ جلتا ہے پنجاب‘‘ سنائی تو راج کپور کوخبر ہوئی اور انہوں نے شیلندر سے اس نظم کو خرید کر اپنی فلم آگ میں استعمال کرنا چاہا، مگر شیلندر نے اس وقت انکار کر دیا ہے، مگر بعد میں مالی حالات سےمجبور ہو کر خود راج کپور کے پاس گئے، جو اُس وقت فلم برسات بنا رہے تھے ،شیلندر نے صرف پانچ سو روپے کے عوض، ’’پتلی کمر ہے، ترچھی نظر ہے ‘‘ اور ’’برسات میں ہم سے ملے تم‘‘ جیسے گانے لکھ دیئے، جو نہ صرف بڑ ے مشہور ہوئے، بلکہ شیلندر کے لئے فلمی شاعری کے راستے کھول گئے۔نیرج اور شیلندر کا تعلق اس طرح بنتا ہے کہ جب 1966میں شیلندر کا صرف تینتالیس سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تو فلمی شاعری میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا، جس کو نیرج نے اس طرح پورا کیا کہ 1970کے عشرے میں انہیں مسلسل تین بار فلم فیئر ایوارڈ ملا ۔نیرج کی فلمی شاعری کی طرف آمد کا قصہ یہ ہے کہ 1966میں مشہور اداکار دیو ا نند اپنی فلم ’’ پریم پچاری ‘‘ کے لئے کسی اچھے شاعر کی تلاش میں تھے۔ 

دیوا ٓنند نے نیرج کا کلام ’’ کارواں گزر گیا، غبار دیکھتے رہے ‘‘ سن رکھا تھا۔ اُنہوں نے نیرج کو ممبئی بلا کر مشہور موسیقار ایس ڈی برمن سے ملوایا۔ اُس دور میں فلمی گیتوں کی پہلے موسیقی ترتیب دی جاتی تھی اور پھر اس پر مصرعے لگائے جاتے تھے ،کہا جاتا ہے کہ برمن نے نیرج کو آزمانےکےلیے کہا کہ ایسا گیت لکھو، جس کا آغاز ’’رنگیلا رے ‘‘ کے الفاظ سے ہو اور انہیں فلم میں گانے کا موقع محل سمجھا دیا ،اگلے ہی روز نیرج نے وہ گیت لکھ دیا، جو وحیدہ رحمان پر فلمایا گیا ’’رنگیلا رے، تیرے رنگ میں یوں رنگا ہے،میرا من‘‘‘

پھر راج کپور بھی، جو اب تک شیلندر کے گیتوں کو استعمال کرتےتھے، نیرج کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اپنی فلم ’’ میرا نام جوکر‘‘ کے گیت لکھنے کاکہا، جس پر سرکس میں فلمایاگیا گانا ’’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو ‘‘

آگے ہی نہیں پیچھے بھی ‘‘ وجود میں آیا جس نے ایک طرح سے زندگی کا پورا فلسفہ بیان کر دیا کہ زندگی میں کس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

’’میرا نام جوکر‘‘ کی موسیقی شنکر جے کشن نے ترتیب دی تھی اور اس طرح نیرج کو ایس ڈی برمن کے ساتھ شنکر اور جے کشن کا بھی سہارا مل گیا جو دو الگ افراد تھے، مگر جوڑی کی شکل میں موسیقی،ترتیب دیا کرتے تھے۔

جے کشن کے انتقال کے بعد شنکر اکیلے موسیقی ترتیب دیتے رہے، مگر اُنہوں نے شنکر جے کشن کا نام ہی استعمال کیا۔

’’پریم پجاری ‘‘ اور ’’میرا نام جوکر‘‘ دونوں 1970 میں منظر عام پر آئیں، پھر نیرج نے دیو آنند کی ہی ایک اور فلم ’’ گیمبلز ‘ کے لئے گیت لکھے، جن میں ’’میرا من تیرا پیاسا، پوری کب ہو گی آشا‘‘ بہت مقبول ہوا،اس گیت کو محمد رفیع کی آواز نے چار چاند لگا دیئے تھے اور اب بھی اس گانے کو سن کر لوگ جھومتے ہیں۔ ’’گیمبلر 1976میں نمائش کے لئے پیش کی گئی۔

دل کی قلم سے ’’ جسے کشور کمار نے گایا۔ اس طرح گیمبلر کا ایک اور گانا‘‘ دل آج شاعر ہے، غم آج نغمہ ہے۔ بھی کشور کمار نے خوب گایا ،اسی طرح ’’پریم پجاری ‘‘ کا ایک اور گیت ’’شوخیوں میں گھولا جائے،پھولوں کا شباب ،اس میں پھر ملائی جائے،تھوڑی سی شراب‘‘ بھی خاصا مقبول ہوا ،جو کشور کمار نے ہی گایا تھا۔اسی طرح 1971کی ایک فلم شرمیلی کا گیت ’’کھلتے ہیں گُل یہاں کِھل کے بکھرنے کو ،ملتے ہیں دل یہاں مل کے بچھرنے کو ‘‘ یاد نہیں،ششی کپور اور راکھی پر فلمایا یہ گیت آج تک کانوں میں رس گھولتا ہے،جس وقت فلمی شاعری پر مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، اور ساحر لدھیانوی جیسے بڑے نام چھائے ہوئے تھے ،ایسے میں نیرج نے بڑی جلدی اپنا مقام بنایا ۔

اتنی جلدی کامیابی حاصل کرنے کے بعد فلم انڈسٹری چھوڑنے کی بڑی وجہ خود نیرج یہ بتاتے تھے کہ ان کے دو موسیقار، جن کے ساتھ انہیں کام کرنے میں مزا آتا تھا ،یعنی جے کشن اور ایس ڈی برمن بالترتیب 1971اور 1975میں فوت ہو گئے ہیں جس کے بعد نئے موسیقاروں سے ان کی نہ بن سکی اور وہ پھر کل وقتی تدریس اور غیر فلمی شاعری میں مشغول ہو گئے۔ تدریس میں وہ علی گڑھ کی منگلا باتن یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے تک پہنچے اور آخر یہ کہتے ہوئے گزر گئے۔ہم تو مست فقیر ہمارا کوئی نہیں ٹھکانا رے

جیسا اپنا آنا ویسا اپنا جانا رے

تازہ ترین