• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
ادب میں ریٹائرمنٹ . . . ایک سوال

جان کاشمیری

ایک دن ’’سیپ‘‘کے مدیر، نسیم درانی سے کوئی نیا افسانہ سنانے کی درخواست کی توجواب ملا کہ ’’جان بھائی ! میں تو کب کا ریٹائر ہوچکا ہوں۔‘‘ اس فقرے میں پریشانی یاپشیمانی کی بجائے، اطمینان کا پہلو صاف محسوس ہورہا تھا، جیسے کسی نے بھرا ہو امیلہ چھوڑا ہو اور جس کی خوشگوار یادیں زندگی کا سرمایہ ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی، لیکن اپنے پیچھے سوالات کی کہکشاں چھوڑ گئی، جس سے سوچ کے بند دروازوں پر دستک ہونے لگی۔ کئی مبہم اور غیر مبہم اشارے دامن تدبیر پر خراشیں ڈالنے لگے، گویا نسیم درانی کا ننھا اور معصوم سا، مگر مبنی بہ صداقت فقرہ، قیامت برپا کرگیا۔ نتیجتاً ’’ادب میں ریٹائرمنٹ .....ایک سوال‘‘ مسلسل میرا منہ چڑانے لگا۔ چارو نا چار میں نے اس پر غور و فکر شروع کیا۔ دائیں ، بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے یعنی تمام پہلوئوں سے اس عنوان پر ہاتھ ڈالنے کی مقدور بھر کوشش کی، لیکن یہ دریائی مچھلی کی طرح پھسل پھسل جاتا ۔ 

میں نے کئی بار اپنے حواس مجتمع کرکے یہ عمل دہرایا۔ ہر بار نامرادی نے دھول پیڑا مار کر مجھے چاروں شانے چت کردیتی۔ آخر کار میں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑنے کا مصمم ارادہ کرلیا تو ’’ناامیدی گناہ ہے‘‘ کا تصور آنکھوں کے سامنے چمکنے لگا، چنانچہ جب میں اس امیدی اور ناامیدی کے سیماب پادوراہے پر کھڑا نیم سکتے کا شکار ہونے ہی والا تھا کہ اچانک طلسمانی آوازوں کا پراسرار سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلے میں پریشان، پھر حیران ہوا، آخر بمشکل خود کو سنبھالا اور ان پر اسرار مکالماتی آوازوں پر توجہ دی، جو کچھ یوں تھیں۔

پہلی آواز....یہ ایک بیکار سا سوال ہے، اس پر لکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہ کر۔

دوسری آواز....کوئی سوال بیکار نہیں ہوتا۔ ہر عنوان دعوتِ غور و فکر دیتا ہے، سوال تو ایک نعمت ہے۔

تیسری آواز....سوال یہ نہیں کہ عنوان اہم ہے یا غیر اہم ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر عنوان پر لکھنا عین فرض ہے۔

چوتھی آواز....یہ کسی اجنبی زبان میں آرہی ہے، اس میں شور و ہنگامہ زیادہ ہے، کوشش کے باوجود پلّے کچھ نہیں پڑ رہا۔ جوں جوں سماعتی توجہ زیادہ دے رہا ہوں، تو توں شور و ہنگامے کی بے ترتیبی میں لگا تار اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلی تینوں آوازیں بھی اس میں مدغم ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ اب ہر طرف شور ہی شور ہے۔ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے۔ تنگ آکر میںنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔

معاملہ خواہ کچھ بھی ہو۔ اتنی بات مکمل طورپر واضح ہے کہ اس واقعے نے مجھے لکھنے کی تحریک دی۔ تذبذب کی بجائے، یقین سے نوازا۔ یوں اس سیمابی اور سیلانی موضوع پر کچھ لکھنے کے قابل ہوا۔ سو ’’ادب میں ریٹائرمنٹ....ایک سوال‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہوئے پہلی بات یہ کرنی ہے کہ ادب سے منسلک ہونا، سرکاری ملازمت والا معاملہ نہیں کہ مدتِ متعینہ کے بعد ریٹائرمنٹ بہر صورت لازمی ہے یا کسی حادثے کی پاداش میں قبل از مدت متعینہ، کسی لمحے بھی ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں یا دوران ملازمت خصوصی خدمات کے اعتراف میں اعزاز و انعام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ، ملازمت میں توسیع کی خوش خبری بھی مل سکتی ہے، کسی ثانیے میں منفی یا مثبت حالات پیش آسکتے ہیں، مگر اہلِ قلم کے حالات اس کے برعکس ہیں۔

یہ ادب کی محسوساتی دنیا ہے۔ یہ خود احتسابی کا خود رد عمل ہے۔ یہاں کسی کا حکم اس لیے نہیں چلتا کہ ادب کی بارگاہ میں داخل ہوتے وقت ملازمت کی طرز پر کسی عہد نامے پر دستخط نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی کی ادبی حکمرانی کو بہ صمیمِ قلب، تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ادب میں ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔ اس کے عبرت ناک آثار نظر آتے رہتے ہیں، مگر یہ آثار، جس لکھاری کے تناظر میں دکھائی دیتے ہیں، وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً جب کوئی قلم کار، کسی کے خیالات کی جگالی شروع کردیتا ہے تو اس میں منصبِ قلم کاری سے سبکدوشی کی لہر موجود ہوتی ہے۔ اس طرح جب کسی لکھاری کی تحریروں سے تخلیقی سرگرمی غائب ہوجاتی ہے تو یہ عمل ریٹائرمنٹ کی طرف پیش قدمی کے مساوی ہوتا ہے۔ جب کوئی قلم کار عہدِ ضعیفی میں پہنچ کر ایک صنف ادب کو کلی یا جزوی طورپر الوداع کہہ دیتا ہے تو یہ بھی دفتر ادب سے باالاقساط رخصتی کا بھرپور اعلان ہوتا ہے۔ 

جب کوئی تخلیق کار مزید مطالعے اور مشاہدے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو یہ بھی ادب میں ریٹائرمنٹ کے داغِ بیل کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کوئی لکھاری ’’ہم چہ مادیگرے نیست‘‘ کی تصویر بن جاتا ہے تو حرفِ بغاوت پر اتر آتا ہے، جو ریٹائرمنٹ کا غیر مکتوبی اشارہ ہوتا ہے۔ جب کوئی فن کار عصری علوم سے نظریں چراتا ہے تو کار گاہ ادب سے ’’بوری بسترا‘‘ سمیٹنے کی ابتدا کرتا ہے، جو ریٹائرمنٹ ہی کی ایک صورت ہے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سے گوشوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو ریٹائرمنٹ کا اشاریہ مرتب کرنے کے قریب قریب لگتے ہیں، لیکن کوئی قلم کار بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوا، بلکہ دیگر وجوہات کی اوٹ میں بیٹھ کر خود کو طفل تسلیاں دیتا رہتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فکری کساد بازاری کے دوران بھی بعض مرتبہ کوئی کام کی نگارش سامنے آجاتی ہے، جس سے نگارش نگار کی شہرت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، جو دریافت نو کا حیرت انگیز رویہ ہے، لیکن ایسا بہت کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، پھر بھی اس رویے کو مجموعی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کو فارمولا بھی نہیں بنایا جاسکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طورپر واضح تغیر و تبدل دکھائی نہیں دیتا۔

اب لمحۂ فکریہ یہ بھی ہےکہ محولا بالا قسم کے لکھاری یا لکھاریوں کو کیسے باور کرایا جائے کہ کون سا فارمولا برتا جائے کہ ادبی فضا کو زہریلا کیے بغیر ادبیات کی بے چین روح کو آسودئہ ارتقا کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں ہر لکھنے والے کو اپنے بارے میں خود سوچنا چاہیے کہ وہ اس کا تخلیق کردہ ادب کی مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ٹھہرائو کا شکار ہے، آمادئہ تنزل ہے یا روبہ کمال ۔ 

ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں، بشرطیکہ ہم اپنی اپنی انائوں کے بت پاش پاش کردیں۔ سچی باتوں کو خلوص دل سے قبول کرنے کی خوڈالیں، باہمی ربط کو ضبط کی کیاری میں پروان چڑھائیں، تاکہ خبط کے طوفانِ بدتمیزی سے ادب کے چہرے پر کالک ملنے بیٹھ جائیں۔ عمل اور رد عمل دونوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم جانتے ہوئے، تحمل کو بابرکات شجر کو ثمر بار کریں۔ دوسری بات یہ ہے ہر کونے سے کمزور نگارشات کی اعلانیہ اور خفیہ انداز میں بار بار نشان دہی کی جائے اور اس عمل کو اس قدر تسلسل کے ساتھ دہرایا جائے کہ صاحبان نگارشات کے پہلو بہ پہلو دوسرے قلم کار بھی احساس ذمے داری کی دولت سے مالا مال ہو سکیں۔ اس طرح ادب میں ریٹائرمنٹ کا سوال دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔

تازہ ترین