• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام پُرامن ہونے کو ہے؟

شام میں جاری خانہ جنگی(جس نے ہزاروں المیہ داستانیں جنم دی ں اورجو تاریخ میں لہو لہو واقعات کے طور پر زندہ رہےگی)کا سات سال بعد اختتام قریب تر نظر آرہاہے۔اگرچہ بشار الاسد کی حکومت تا حال ملک کے تمام علاقوں پر اپنی عمل داری قائم کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکی ہے، لیکن داعش کی شکست اورباغیوں کی جا نب سے ہتھیار پھینکے جانے کے بعدیہ امیدبہت قوی ہو گئی ہے کہ وہاں بشار الاسدکا اقتدار بحال ہو جائے گا۔ لیکن اس کے آگے ابھی سوالیہ نشان ہے کہ کیا باغیوں سے زمین کا قبضہ حاصل کر لینے سے سیاسی اقتدار اور امن بھی مکمل طور پر قائم ہو جائےگا؟

بشارالاسد کی حکومت کی کام یابیاں داعش کی بے د خلی سے شروع ہوئیںاور اس کے بعد بڑے پیمانے پر جنوب مغربی شام میں باغیوں نے سرکاری فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے۔ہتھیار ڈالنے والوں میںجہاں مذہب کی بنیادپرمسلح جدوجہدکرنےوالے عنا صر شامل ہیں وہیں سیکولر عناصر نے بھی یقینی شکست دیکھتے ہوئےیہی راہ اختیار کی ہے۔ تاہم صوبہ ادلیب اب تک سرکاری فوج کے کنٹرول میں نہیں آیاہے اور بشار الاسد کےلیےیہ لازمی ہو گا کہ اب وہ اس صوبےکو اپنےزیر نگیں لانے کے لیےفوجی کارروائی کا آغاز کریں۔ اس صوبے کی اہم بات یہ ہے کہ سات سال قبل جب یہاں حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو ملک کے سب سے زیا دہ باشندوںنےپناہ اسی صوبے میں حاصل کی۔ اس وقت وہاں پناہ لینےوالوں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔دوسری جانب حکومت کے مخالفین(جوخواہ مذہبی رجحا ن رکھنے والے ہوں یا سیکولر)نے بھی واپسی پر اپنی پناہ گاہیں اور بیس کیمپ اب تک یہیں قائم کر رکھے ہیں۔ اگرانہوں نے مقابلے کی ٹھانی توایسی صورت میںبہت ز یادہ خون بہنے کا امکان ہے، مگریوں لگتا ہے کہ ان عناصر کو کام یابی ملنے کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔

دمشق کےلیےاب تک دو معاملات ایسے ہیںجو ہنو ز حل طلب ہیں۔ ان میں سے پہلا معاملہ تو کُرد علاقوں میں مسلح افراد کی بغاوت کچلنےکے نام پر ترکی کی شامی علا قو ں میں فوجی مداخلت ہے۔ ترکی نے اب تک ارفین اور حلب کے پاس اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ شامی حکومت چاہتی ہے کہ ترکی اب جلد از جلد اس مقام سے شامی حکومت کے حق میں واپسی کا راستہ اختیارکر لے ۔دوسرا معاملہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کاہنوز شام کے ا یک چوتھائی حصے پر قبضہ برقراررکھنے کا ہے۔اس نےاپنا ایک بازو سیرین ڈیموکریٹک کونسل کے نام سے تخلیق کر رکھا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کو امریکاکی مکمل حمایت حاصل ہے اور داعش سےمقابلہ کرنےکےلیےیہاںا مریکا کے 2000 فوجی اور فضائی قوت بھی موجود ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ امریکی وہاں صرف داعش سے لڑنے کےلیے موجود نہیں ہیں،بلکہ امریکاکے خطے کے حوالے سے’’بڑے مقاصد‘‘کو مد نظر رکھ کر انہیںوہاں تعینات کیا گیاہے۔

سیرین ڈیموکریٹک کونسل نے گزشتہ ہفتے دمشق میں بشار الاسدکی حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کیے ۔ اس سے قبل وہ تبقہ اور دریائے فرات کے کنارے بھی مذاکرات کے ادوار کر چکے ہیں۔ سردست فریقین اس بات پر گفتگو کر رہے ہیں کہ مقامی لوگوں کوکس طرح ضر و ر ی سہو لتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ کیوں کہ ملکی مسائل پر دو نوں کے نکتہ نظرمیں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ بشار الاسد کی حکومت کا مطالبہ ہے کہ خانہ جنگی سے قبل ملک پردمشق کا جس طرح مکمل اقتدار تھااسے اسی طرح بحال ہوناچاہیے۔کُردوںکی نمائندہ جماعت سیرین ڈیموکر یٹک کونسل کا مطالبہ ہے کہ شام کی حکومت میں عدم مر کز یت لائی جائے اورکُرد علاقوں کو مکمل داخلی خود مختاری دی جائے۔اس معاملے پر تاحال دونوں فریق آگے نہیں بڑ ھ سکے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب دونوں مزید کسی خون خرابے سےبچناچاہتے ہیں۔

شام کے حوالے سے دو اہم کھلاڑی،امریکا اور روس کے صدور کی ملاقات گزشتہ دنوں ہی لسنکی میں ہوئی۔ اس ملا قات کی کوئی خاطر خواہ تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں، سو ائے امریکی فوجی کمانڈر کے اس بیان کے کہ ہمیں اب تک کوئی تازہ ہدایات نہیں دی گئی ہیں۔ لیکن دونوں صدو ر اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ شامی حکومت کی کا م یابی کی متوقع صورت میں بھی اسرائیل کی سرحدپر شا م یا ا یر ا ن کسی قسم کی کارروائی سے دور رہیںگے۔اس حوالے سے روس کے صدر ایرانی فورسز کو اسرائیل کی سرحد سے دور رکھیں گے تا کہ دونوں میںبہ راہ راست مڈ بھیڑ کا امکان کم سے کم رہے۔ صدر ٹرمپ بھی اس پر تقریباً را ضی بتائےجاتےہیںکہ وہ دمشق کے تخت پر بشارالاسدکو بر د ا شت کرتے رہیںگے۔

خانہ جنگی کے خاتمے کے قریب ہونے کے امکان کی وجہ سے شامی مہاجرین،جو شام کو ترک کر کے دیگر ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے،انہوں نے وطن واپس آنا شروع کر دیاہے۔ لبنا ن میں 10 لاکھ شامی باشندے مقیم ہیںجنہوں نے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اس واپسی کے لیے ضروری ہے کہ تباہی کے بعدشام کی بحالی کا عمل شروع کیا جائے۔شام کی حکومت نےاندازہ لگایا ہے کہ اس کام کے لیے 200 ارب ڈالرز اور پندرہ برسوں کا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن یورپی طاقتیں اب بھی ان حالات کو بشار الاسد کے خلاف استعمال کرنے کی غرض سے ایک چونّی بھی د ینے کو تیار نہیں ہیں۔انہوں نے اپنےاس موقف کا اظہار اقوام متحدہ میں متعین فرانس کے سفیر کے اس بیان کے ذریعے کیا ہے کہ جب تک شام میں آئینی اور قابلِ قبول انتخابی عمل نہیں ہو جاتاہم بحالی کے عمل میںشامل نہیں ہو ں گے۔ تاہم روس کا موقف ہے کہ بحالی کے کام کوسیاسی عمل سے نہ جوڑا جائے۔اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شام اگر اسی طرح تباہ حال رہا تو وہاں حکومت کے زمینی اقتدار کے باوجود امن کاقیام خواب ہی رہے گا ۔

تازہ ترین