• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹیکنالوجی کی حیران کن ایجادات

ہم پوسٹ انڈسٹریل دور سے گزر رہے ہیں، جہاں انفارمیشن کے انقلاب نے دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والوں کو قریب تر کر دیا ہے۔کمپیوٹر، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور سروس اکانومی ہمارے دور کی اہم ایجادات ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں جس تیزی سے ترقی ہورہی ہے، وہ آپ کے خیال سے بھی زیادہ تیز ہے، مستقبل کا جو نقشہ یا جھلکیاں سامنے آرہی ہیں، وہ کسی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔ مستقبل کی ایسی ہی چند ٹیکنالوجیز کے بارے میں جانتے ہیں، جو ہوسکتا ہے کہ دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیں۔

عمر کو واپس پلٹنا

Age Reversal

ممکنہ طور پر 2025ء میں ہم حقیقی معنوں میں حیاتیاتی طور پر عمر کو ریورس یا ایج ریورسل ہوتے دیکھ سکیں گے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ بہت زیادہ مہنگا، پیچیدہ اور خطرناک عمل ہو مگر جو لوگ گھڑی کی سوئیوں کو پلٹ دینا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ بہت اہمیت رکھتا ہے، سننے میں چاہے سائنس فکشن فلم کا حصہ لگتا ہو مگر سائنسی دنیا میں اس پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں ایک جریدے نیچر سائنٹیفک رپورٹ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق انسانی خلیات کی عمر کو واپس پلٹنے پر کام جاری ہے۔ 

آسٹریلوی اور امریکی محققین کی ایک اور تحقیق میں توانھوں نے چوہے کے مسلز میں عمر کے اضافے کے اثرات کو کامیابی سے ریورس کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے اور بقول ان کےبوڑھے چوہے میں نیوکلیئر نیڈپلس کو بڑھانے سے عمر بڑھنے سے مرتب ہونے والے اثرات کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس تجربے کے بعد معلوم ہوا کہ دو سال کی عمر کا چوہا چھ ماہ کی عمر میں پہنچ گیا یا یوں سمجھ لیں کہ ایک ساٹھ سالہ شخص اچانک بیس سال کا ہوجائے۔

عمودی گلابی فارم

Vertical Pink Farms

اقوام متحدہ نے پیشگوئی کی ہے کہ 2050ء تک دنیا کی اسی فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہوگی جبکہ موسمیاتی تبدیلیاں خوراک کی روایتی پیداوار کو مستقبل قریب میں مشکل تر بنا دیں گی۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے ٹیکنالوجی پر مبنی زرعی دور، جس کی ایک مثال عمودی گلابی فارمز ہیں جو اس شعبے کو بدل کر رکھ دیں گے۔ دنیا بھر میں متعدد کمپنیاں اس طرح کے عمودی فارمز میں خوراک کاشت کررہی ہیں اور اس کے نتائج زبردست ہیں، ان فارمز میں نیلی اور سرخ ایل ای ڈی روشنیوں کو کیڑے مار ادویات سے پاک نامیاتی خوراک کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

چار دیواری کے اندر کام کرنے والے ان فارمز میں فصلوں کے لیے پانی اور توانائی کی ضرورت کم ہوتی ہے اور لوگ کسی بھی موسم میں کوئی بھی فصل اُگا سکتے ہیں۔ ایل ای ڈی لائٹس دن بدن سستی ہورہی ہیں اور توقع ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں بلند و بالا ورٹیکل پِنک فارمز قائم ہوں گے جبکہ ہمارے گھروں میں بھی اس طرح کے چھوٹے چھوٹے فارمز بنائے جانے کا امکان ہے۔

فوق انسانی

Transhumanism

2035ء تک اگر انسانوں کی اکثریت کی شناخت ٹرانس ہیومین کی حیثیت سے نہ بھی ہوئی تو بھی تکنیکی طور پر وہ فوق البشر ہوں گے۔ اگر ہم حیاتیاتی اپ گریڈ یا انسانی اضافے کو ٹرانس ہیومین ازم قرار دیں تو اس حوالے سے پہلے ہی بہت کچھ ہوچکا ہے اور ایسا بہت تیزی سے ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیلی کام ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق، چھ ارب افراد موبائل فون استعمال کرتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی ہمارے جسم کے آس پاس کس طرح رہتی ہے۔ انسانی حیاتیاتی اضافہ (bio-enhancement) مزید سستا ہونے سے اربوں افراد ٹرانس ہیومین میں بدل جائیں گے۔ ڈیجیٹل امپلانٹس، مائنڈ کنٹرول اپ گریڈ، ایج ریورسل ادویات، ہائپر انٹیلی جنس دماغ اور بایونک مسلز وغیرہ یہ وہ چند ٹیکنالوجیز ہیں جو ارتقاءپا رہی ہیں۔

ویئر ایبل اور امپلانٹ ایبل

لگتا ہے اسمارٹ فون جلد ڈیجیٹل تاریخ کا حصہ بن جائیں گےکیونکہ ہائی ریزولوشن کانٹیکٹ لینس اور پہننے کے قابل کمپیوٹرز یا اسمارٹ ملبوسات وغیرہ ان کی جگہ لے لیں گے۔ ڈیجیٹل دنیا کا مشاہدہ ہم براہ راست اپنی آنکھ سے کرسکیں گے۔ بیلجیئم کی ایک یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک کروی شکل کی ایل سی ڈی تیار کی ہے جس میں کانٹیکٹ لینسز میں نظر آنے والے مناظر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ 

اسمارٹ لینس، اسمارٹ گلاسز، ورچوئل ریالٹی، ہیڈ سیٹس اور اسمارٹ واچ جیسے ایپل واچ وغیرہ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ویئر ایبل ٹیکنالوجیز بہت تیزی سے وسعت پارہی ہیں۔ گوگل گلاس یا دیگر اسمارٹ گلاسز تو بس آغاز ہیں، درحقیقت اس وقت مارکیٹ میں اسمارٹ ویژن یا بنیائی کی مانگ ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اگر میدان میں رہنا ہے تو انہیں ہاتھوں میں پکڑے جانے والی ڈیوائسز سے جان چھڑانا ہوگی۔

فضاسے پانی کاحصول

ایک ایسی ٹیکنالوجی ابھر رہی ہے جسے Atmospheric Water Harvesting کا نام دیا گیا ہے، جو کیلیفورنیا اور دنیا کے دیگر قحط سالی سے متاثر خطوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر مبنی زراعت کے منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مختلف کمپنیاں زرعی پیداوار میں کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کررہی ہیں اور ہر ایک کا طریقۂ کار مختلف ہے مگر یہ خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو پانی کی قلت سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہونے والی ٹیکنالوجی ہے۔ 

Atmospheric Water Harvesting کی سب سے عام اور قابل رسائی قسم وہ ہے جس میں پانی اور نمی کو فضاسے مائیکرو نیٹنگ استعمال کرتے ہوئے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ مائیکرو نیٹس یا جال جو پانی جمع کرتے ہیں، وہ ایک چیمبر میں جمع ہوجاتا ہے۔ اس تازہ پانی کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے یا گھروں اور فارمز وغیرہ کو ضرورت کے مطابق سپلائی کیا جاسکتا ہے۔ ایک کمپنی فوگ کوئیسٹ ان مائیکرو نیٹس کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے ایتھوپیا، گوئٹے مالا، نیپال، چلی اور مراکش وغیرہ میں فضاءسے پانی جمع کررہی ہے۔

تازہ ترین