• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ

امین اللہ فطرت، کوئٹہ

1972ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا اور ایک صدارتی حکم کے تحت، بلوچستان اسمبلی معرضِ وجود میں آئی۔ سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے پہلے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اُس وقت اسمبلی کی اپنی عمارت نہیں تھی، جس کی وجہ سے پہلی نو منتخب اسمبلی کا پہلا اجلاس، 26 اپریل 1972ء کو سابق شاہی جرگہ ہال میں منعقد ہوا، جو اب’’ سٹی ڈسٹرکٹ کاؤنسل ہال‘‘ کہلاتا ہے۔ گو کہ 1973ء میں اُس وقت کے گورنر، نواب محمّد اکبر بگٹی نے بلوچستان اسمبلی کے لیے عمارت تعمیر کرنے کی منظوری دی، تاہم اس کی تعمیر میں کئی برس لگ گئے اور یوں صوبائی اسمبلی 1987ء تک پُرانی عمارت ہی میں کام کرتی رہی۔

بلوچستان اسمبلی، جہاں اپنی پارلیمانی تاریخ کی بہ دولت اہمیت کی حامل ہے، وہیں اس کی عمارت بھی عام لوگوں کے لیے دِل چسپی کا باعث ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسمبلی کی عمارت کا نقشہ نواب بگٹی نے خود ڈیزائن کیا تھا۔ یہ عمارت کسی گدان (خیمہ) کی طرح بنی ہوئی ہے۔ دراصل، خیمہ پشتون اور بلوچ ثقافت کا ایک اہم جز ہے۔ اگرچہ آج کل اس کا رواج کم ہوگیا ہے، تاہم خانہ بدوش( پاوندے) آج بھی خیموں کا استعمال کرتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی گدان (خیمے) کی تاریخی اہمیت سے بہ خُوبی آگاہ تھے اور شاید اسمبلی کی خیمہ نُما عمارت بنا کر وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ صوبے کے لوگ پارلیمان کے ساتھ، اسے اپنا ثقافتی اور تاریخی وَرثہ بھی سمجھیں۔ کینٹ کے علاقے میں زرغون روڈ پر واقع، اسمبلی کی عمارت کا سنگِ بنیاد سابق صدر، ضیاء الحق نے رکھا، جب کہ اس کا افتتاح، 28 اپریل 1987ء کو سابق وزیرِ اعظم، محمّد خان جونیجو نے کیا۔ یہ عمارت دس ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی تعمیر پر 5 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ 

عمارت کا کَورڈ ایریا، 65400 مربع فِٹ ہے۔ شاہی جرگہ ہال میں 21 ارکان کے لیے نشستیں تھیں، جب کہ نئی عمارت میں 72 ارکان کے لیے نشستیں رکھی گئیں۔ واضح رہے کہ اس وقت بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد65 ہے۔ عمارت میں گورنر اور اسپیکر کی جوائنٹ گیلری میں25 مہمانوں اور صوبائی حکومت کے25 اعلیٰ افسران کے لیے بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ وزیٹرز گیلری میں 168 عام مہمانوں کے علاوہ، 55 صحافیوں کے بھی بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔ اسمبلی کی عمارت ہی میں وزراء کے لیے دفاتر مختص کیے گئے ہیں، جب کہ وزیر اعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور اپوزیشن لیڈر کے چیمبر بھی عمارت ہی کے اندر ہیں۔ اپوزیشن چیمبر پہلے ایک چھوٹے سے کمرے میں تھا، اب اُسے ایک کشادہ جگہ پر منتقل کردیا گیا ہے۔ صحافیوں کے لیے پریس روم کے علاوہ ایک کینٹین بھی ہے۔ علاوہ ازیں، ایک بینک کی برانچ بھی عمارت کے احاطے میں کھولی گئی ہے۔ اسٹاف کے دفاتر پہلے خیمہ نُما اسمبلی کے احاطے میں قائم تھے، مگر اب اُنھیں نَو تعمیر شدہ سیکرٹریٹ میں منتقل کردیا گیا ، جسے ایڈمنسٹریشن بلاک کا نام دیا گیا ہے۔ اس بلاک کا اکتوبر 2002ء میں سابق گورنر بلوچستان، امیر الملک نے افتتاح کیا تھا۔ عمارت کے احاطے میں تین لانز ہیں، جن کے اردگرد اور دوسرے حصّوں میں لگائے گئے پودے اور درخت، عمارت کی خُوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ 

ایڈمنسٹریشن بلاک میں 76 کمروں کے علاوہ ایک کانفرنس ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے، جس میں 60 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اسی طرح ایک بڑا کمیٹی روم بھی ہے۔ اس بلاک میں رپورٹنگ‘ ریسرچ سینٹرز‘ پرنٹنگ‘ ایڈیٹنگ اور اکاؤنٹس برانچ کے علاوہ، ایک لائبریری بھی ہے، جس میں مختلف موضوعات پر دس ہزار کے قریب کُتب موجود ہیں۔ یہاں ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے، جس کا افتتاح 28 جون 1987ء کو صدر، ضیاء الحق نے کیا تھا۔ عمارت کی چھت مختلف بلاکس سے مزیّن ہے اور چھت کے بالائی حصّے کو بھی خیمے سے مشابہ مخصوص رنگ دیا گیا ہے۔ اگر اسمبلی کی عمارت کا کسی اونچے مقام سے نظارہ کیا جائے، تو یہ بہت خُوب صورت اور بڑے خیمے کی طرح نظر آتی ہے اور یہی خُوب صورتی اور منفرد ڈیزائن اس عمارت کی پہچان ہے۔

بلوچستان کی دوسری منتخب اسمبلی کا اجلاس، 31مارچ 1977 ء کو منعقد ہوا اور نواب محمّد خان باروزئی وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی کی مدّت بہت کم، یعنی صرف تین ماہ رہی اور 5جولائی 1977 ء کو اُس وقت کے فوجی سربراہ، جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاء لگادیا، جس کے نتیجے میں اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں۔ تیسری اسمبلی کا اجلاس، 23مارچ 1985ء کو منعقد ہوا اور جام میر غلام قادر وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ چوتھی اسمبلی کا اجلاس، 3 نومبر 1988ء کو منعقد ہوا اور میر ظفراللہ جمالی قائدِ ایوان منتخب ہوئے، تاہم ایک ماہ بعد ہی 16 دسمبر کو گورنر، موسیٰ خان نے اس اسمبلی کو تحلیل کردیا، جس پر نواب اکبر خان بگٹی اور سینیٹر انور خان درّانی نے اس اقدام کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالتِ عالیہ کے فُل کورٹ نے 18جنوری 1989ء کو گورنر کا حکم معطّل کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی بحال کردی، جس کے بعد، نواب اکبر خان بگٹی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ 

بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ

بعدازاں،8 اگست 1990ء کو اسمبلی توڑ دی گئی۔ بلوچستان کی پانچویں اسمبلی کا اجلاس،17 نومبر 1991ء کو منعقد ہوا اور میر تاج محمّد خان جمالی وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے۔ تاہم 1992ء میں اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور نواب ذوالفقار مگسی نئے قائدِ ایوان منتخب ہوگئے۔ 11جولائی 1993 ء کو وہ اسمبلی بھی قبل از وقت توڑ دی گئی۔ چَھٹی اسمبلی کا اجلاس، 18اکتوبر 1993ء کو منعقد ہوا، جس میں نواب ذوالفقار مگسی وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے، لیکن یہ اسمبلی بھی نومبر1996ء میں تحلیل ہو گئی۔ اسی طرح ساتویں اسمبلی کا افتتاحی اجلاس، 21فروری 1997ء کو منعقد ہوا، جس میں سردار اختر جان مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، مگر چند ماہ بعد ہی کام یاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اُنھیں اقتدار سے الگ ہونا پڑا، جس کے بعد میر جان محمّد جمالی قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔ 12اکتوبر 1999 ء کو فوجی سربراہ، جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا، تو باقی صوبوں کی طرح بلوچستان اسمبلی بھی تحلیل کردی گئی۔ بعدازاں، ایک طویل انتظار کے بعد 28 نومبر 2002 ء کو بلوچستان کی آٹھویں اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں جام میر محمّد یوسف وزیرِ اعلیٰ منتخب ہوئے اور یہ پہلی اسمبلی تھی، جس نے اپنی آئینی مدّت پوری کی۔ نویں اسمبلی کا افتتاحی اجلاس، 7 اپریل 2008ء کو منعقد ہوا، جس میں نواب محمّد اسلم رئیسانی کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ یہ اس اعتبار سے ایک منفرد اسمبلی تھی کہ اس کے تقریباً تمام ارکان وزیر یا مشیر بنائے گئے۔ اس اسمبلی کو بھی اپنی آئینی مدّت پوری کرنے کا موقع ملا، تاہم نواب اسلم رئیسانی کے دورِ حکومت میں ایک خون ریز واقعے کے بعد ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں صوبے میں دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ ہوا۔

11مئی2013ء کو مُلک کے دیگر حصّوں کی طرح بلوچستان میں بھی عام انتخابات منعقد ہوئے اور اس کے نتیجے میں دسویں اسمبلی وجود میں آئی۔ اس اسمبلی میں قائدِ ایوان، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ منتخب ہوئے، جب کہ اپوزیشن لیڈر کا عُہدہ، مولانا عبدالواسع کے حصّے میں آیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں قائم حکومت دراصل اُس وقت کی حکم ران اتحادی جماعتوں کے مابین ایک معاہدے کے نتیجے میں بنی تھی، جس کے تحت ابتدائی ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور باقی مدّت میں مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر، نواب ثناء اللہ زہری قائدِ ایوان منتخب ہوئے، تاہم ابھی نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کو دو سال ہی پورے ہوئے تھے کہ خود اُن کی اپنی جماعت میں اُن کے خلاف صف بندی ہونے لگی۔ اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی، جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا، تاہم اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے نواب ثناء اللہ زہری نے استعفا دے دیا۔ بعدازاں ایوان نے میر عبدالقدوس بزنجو کو صوبے کا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرلیا، جن کی قیادت میں اسمبلی نے اپنی بقیہ آئینی مدّت پوری کی۔

25جولائی 2018 ء کو بلوچستان اسمبلی کی51 میں سے 50جنرل نشستوں پر انتخابی عمل مکمل کیا گیا۔ اب اسمبلی کی پُرشکوہ عمارت نئے منتخب ارکان کی راہ تَک رہی ہے۔ اس بار سابقہ اسمبلیوں کے مقابلے میں زیادہ تر نئے چہرے منتخب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے پارلیمانی مبصّرین میں یہ بات شدّومد سے زیرِ بحث ہے کہ صوبے کے اگلے قائدِ ایوان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کون ہوں گے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان عوامی پارٹی صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، جس کے سربراہ، جام کمال کو وزارتِ اعلیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔ نیز، سابق وزیراعلیٰ، سردار اختر جان مینگل کا نام بھی اس حوالے لیا جارہا ہے، تاہم ان سطور کی اشاعت تک صُورتِ حال واضح ہوچکی ہوگی۔

نومنتخب اسمبلی…دیرینہ مسائل اور توقّعات

اگرچہ بلوچستان کی نومنتخب اسمبلی نے باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا، تاہم یہ بات طے ہے کہ نئی حکومت کو بہت سے مسائل وَرثے میں مل رہے ہیں، جن میں بدامنی سے لے کر عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی تک کے چیلنجز شامل ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے 2013ء میں بلوچستان کے مسائل کو دو حصّوں میں تقسیم کیا تھا۔ اُن کے بہ قول، بلوچستان کے کچھ مسائل سیاسی اور کچھ معاشی ہیں۔ اگرچہ، سابق وزیراعلیٰ نے دونوں طرح کے مسائل کے حل کے لیے وفاق کے بنیادی کردار کا ذکر کیا تھا، تاہم مسائل سیاسی ہوں یا معاشی، اُن کے حل کے لیے عوام آج بھی صوبائی اسمبلی کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ 

اس بار کئی نئے چہرے پہلی بار منتخب ہو کر ایوان میں پہنچے ہیں، تاہم سینئر ارکان کی بھی کوئی کمی نہیں، جنہیں اب اسمبلی کے فلور سے صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے اپنا فعال اور متحرّک کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلوچستان ماضی قریب تک مُلک کا پُرامن صوبہ رہا ہے، تاہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دَوران یہاں تشدّد کی ایک ایسی لہر اُبھری، جس نے ہر مکتبۂ فکر کو بُری طرح متاثر کیا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نومنتخب حکومت صوبے میں قیامِ امن کو یقینی بنانے، ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت، اُنہیں قومی دھارے میں لانے اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔ نیز، یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بلوچستان وہ پہلا صوبہ تھا، جس نے 2013ء میں عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے۔ بلدیاتی اداروں کی آئینی مدّت اگلے چند مہینوں میں پوری ہو رہی ہے، تو اب دیکھنا ہوگا کہ صوبائی اسمبلی بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لیے کیا لائحۂ عمل اختیار کرتی ہے۔

بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ


تازہ ترین