• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات 2018ء اور خواتین

شگفتہ بلوچ، ملتان

2018ء کے عام انتخابات میں 171 خواتین نے قومی اسمبلی کی مختلف نشستوں کے لیے الیکشن لڑا، جن میں سے 105 کے پاس پارٹی ٹکٹس تھے، جب کہ66 نے آزاد حیثیت میں حصّہ لیا۔ واضح رہے کہ 2008ء کے انتخابات میں 72 خواتین نے حصّہ لیا تھا، جن میں سے 41 کو مختلف جماعتوں نے نام زَد کیا تھا اور 31 آزاد حیثیت میں میدان میں اُتری تھیں۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں 135 خواتین نے آزاد اور 74 نے پارٹی ٹکٹس پر حصّہ لیا۔گو کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو پابند کیا تھا کہ وہ کُل جاری کردہ ٹکٹس میں سے 5 فی صد ٹکٹس خواتین کو دیں، تاہم بیش تر جماعتوں نے اس حکم پر اُس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق، مُلک بھر سے1691 خواتین امیدوار سامنے آئیں، جن میں سے 436 نے قومی اور1225 نے صوبائی اسمبلیوں کے لیے کاغذاتِ نام زَدگی جمع کروائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سب سے زیادہ 19 خواتین میدان میں تھیں، جن میں سے 11 کا تعلق پنجاب، 5 کا سندھ اور 3 کا خیبر پختون خوا سے تھا، جب کہ ان میں 3 ایم این اے اور2 ایم پی اے منتخب ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر متحدہ مجلسِ عمل رہی، جس نے 14 خواتین کو ٹکٹس دیے۔8 خواتین امیدواروں کا تعلق سندھ اور دیگر کا پنجاب سے تھا، تاہم اُن میں سے کوئی بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر11 خواتین نے الیکشن میں حصّہ لیا، جن میں سے 7 کا پنجاب اور چار کا سندھ سے تعلق تھا۔ ان میں سے 2 ایم این اے اور تین ایم پی اے منتخب ہوئیں۔ نون لیگ نے 11 خواتین کو ٹکٹس دیے، لیکن اُن میں سے صرف ایک ایم این اے اور 2 ایم پی اے منتخب ہوسکیں۔ نیز، تحریک اللہ اکبر اور اے این پی کی تین، تین، جب کہ آل پاکستان مسلم لیگ کی 2 خواتین نے انتخابات میں حصّہ لیا، لیکن کسی کو بھی کام یابی نہیں ملی۔اس بار پنجاب سے44 خواتین امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اُتریں۔ 

واضح رہے کہ سندھ میں پی پی پی کی 5، ایم ایم اے کی 6 ،پی ٹی آئی کی 4 ، پاک سرزمین پارٹی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 3 ، اے این پی کی 2 خواتین نے انتخاب میں حصّہ لیا۔ خیبر پختون خوا میں مجموعی طور پر 15خواتین مقابلے میں شریک تھیں، جن میں سے3 آزاد، نون لیگ کی 2، اے این پی کی 2، پی ٹی آئی گلالئی، ق لیگ، تحریکِ لبیک کی ایک، ایک خاتون نے حصّہ لیا، لیکن خیبر پختون خوا سے کوئی بھی خاتون قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست نہ جیت پائی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے خیبر پختون خوا میں ایک بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔اُدھر دیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والی، حمیدہ شاہ بھی ناکام ہو گئیں۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 7 خواتین امیدوار تھیں، جن میں سے صرف ایک خاتون، زبیدہ جلال ہی این اے 171 کیچ سے 33,456 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کر سکیں۔ انتخابات 2018ء میں مجموعی طور پر 8 خواتین قومی اور 8 ہی صوبائی اسمبلیوں کی رُکن منتخب ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی میں 6 اور سندھ اسمبلی میں 2 خواتین پہنچنے میں کام یاب رہیں۔ یاد رہے کہ 2013ء کے انتخابات میں خواتین ایم این ایز کی تعداد 6 اور ایم پی ایز کی تعداد 13 تھی، جب کہ 2008ء میں مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے زیادہ 15 خواتین ایم این ایز منتخب ہوئیں۔

انتخابات 2018ء اور خواتین
زرتاج گل

2018ء کے انتخابات میں خواتین نے بھی مَردوں کے شانہ بہ شانہ حصّہ لیا۔ مُلکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 171 خواتین نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑا۔نیز، کئی قبائلی علاقوں میں، جہاں خواتین کا ووٹ ڈالنا ممنوع تھا، نہ صرف خواتین نے ووٹ کاسٹ کیے، بلکہ براہِ راست انتخابات میں حصّہ لے کر صدیوں سے چھائی خوف کی فضا کو بھی ختم کر ڈالا۔ دیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون، حمیدہ شاہ نے انتخابات میں حصّہ لیا۔ کوہستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بھی خواتین نے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔جہاں تک انتخابات 2018ء میں خواتین کے جیتنے کا تناسب ہے، تو 2013ء کے مقابلے میں تو یہ تعداد حوصلہ افزا ہے، لیکن 2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ خوش کُن نہیں۔ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی شرط پر پوری طرح عمل درآمد نہ کیا۔ پھر تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے جن خواتین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے میدان میں اُتارا، اُن میں سے بیش تر مضبوط سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں یا پھر خواتین کو صرف اُن ہی حلقوں سے ٹکٹس جاری کیے گئے، جہاں اُن کے جیتنے کے مواقع انتہائی محدود تھے۔ اسی لیے عام انتخابات میں جن خواتین امیدواروں نے کام یابی حاصل کی، ان میں سے 90 فی صد کا تعلق روایتی سیاسی خاندانوں ہی سے ہے۔این اے 77 نارووال I سے نون لیگ کے ٹکٹ پر کام یابی حاصل کرنے والی، مہناز عزیز، سابق وزیر دانیال عزیز کی اہلیہ ہیں۔ 

سپریم کورٹ کی جانب سے دانیال عزیز کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُنہوں نے اپنے حلقے سے اہلیہ کو انتخاب لڑوایا اور کام یابی حاصل کی۔ مہناز عزیز نے این اے 77 نارووال I سے 216‘ 111 ووٹ حاصل کرکے کام یابی حاصل کی، جب کہ اُن کے مدّمقابل آزاد امیدار، میاں طارق انیس اُن سے کئی ہزار کم ووٹ لے پائے۔ این اے 115،جھنگ 2 سے سابق ایم این اے، غلام بی بی بھروانہ نے91,434 ووٹ حاصل کرکے اپنے مدّمقابل آزاد امیدوار، مولانا احمد لدھیانوی کو 22,818 ووٹس سے شکست دی۔ احمد لدھیانوی نے 68,616 ووٹ حاصل کیے۔ چار مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیتنے والی، غلام بی بی بھروانہ، سابق ایم این اے، غلام حیدر بھروانہ کی پوتی ہیں۔ غلام بی بی بھروانہ نے 2002ء اور 2008ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر جیتا، جب کہ 2013ء میں نون لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اُتریں اور کام یابی سمیٹی۔ اس بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں۔ غلام بی بی بھروانہ تعلیم کی وفاتی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ حلقہ این اے 191 ،ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصّہ لیا اور 79,817 ووٹ حاصل کرکے اپنے حریف، نون لیگ کے سردار اویس خان لغاری کو واضح فرق سے شکست سے دوچار کیا۔ اویس خان لغاری 54548ووٹس حاصل کر سکے۔ زرتاج گل کا تعلق بنّوں کے روایتی پشتون خاندان سے ہے۔ اُن کے آبائو اجداد انگریز استعمار کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ نیز، اُن کے شوہر، اخوند ہمایوں بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔ الیکشن 2013ء میں بھی زرتاج گل حلقہ این اے171 سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امیدوار تھیں، مگر نون لیگ کے عبدالکریم سے شکست کھا گئیں، جب کہ اُن کے شوہر بھی پی پی244 سے ہار گئے تھے۔این اے 208 ، خیرپور I سے کام یابی حاصل کرنے والی نفیسہ شاہ، سابق وزیراعلیٰ سندھ، سیّد قائم علی شاہ کی صاحب زادی ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے ٹکٹ پر107,647 ووٹ حاصل کرکے کام یابی حاصل کی، جب کہ اُن کے مدّمقابل، سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ، غوث علی شاہ محض 57,477 ووٹس حاصل کرسکے۔ نفیسہ شاہ نے 2001ء سے 2007ء تک ضلع خیرپور کی ناظم کے طور پر خدمات انجام دیں اور 2008ء تا 2013ء مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رُکن رہیں۔ اس بار براہِ راست الیکشن جیت کر قومی اسمبلی پہنچی ہیں۔ نفیسہ شاہ قومی کمیشن برائے انسانی بہبود کی چیئرپرسن اور خواتین پارلیمانی اسمبلی کی جنرل سیکرٹری رہ چکی ہیں۔ 

انتخابات 2018ء اور خواتین

آکسفورڈ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی حامل ہیں۔ اُنہیں’’ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔ این اے216 ، سانگھڑ2 سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کی امیدوار، شازیہ جنّت مَری نے 80,752 ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی کی نشست جیتی، جب کہ اُن کے حریف، کِشن چند پروانی نے 70,436 ووٹ حاصل کیے۔ شازیہ مَری 2002ء کے عام انتخابات میں مخصوص نشست پر سندھ اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں اور اُنھیں وزارتِ اطلاعات کا قلم دان سونپا گیا۔ جولائی 2012ء میں اُنہوں نے صوبائی نشست سے استعفا دے دیا اور مخصوص نشست پر قومی اسمبلی پہنچ گئیں۔ اگرچہ شازیہ مَری 2013ء کے عام انتخابات میں سانگھڑسے قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئیں، لیکن قومی اسمبلی میں مخصوص نشست کے ذریعے پہنچنے میں کام یاب رہیں۔ جولائی 2013ء میں اُنہوں نے این اے 235 ،سانگھڑ II سے ضمنی الیکشن میں حصّہ لیا اور مسلم لیگ فنکشنل کے انتہائی مضبوط تصوّر کیے جانے والے امیدوار، خدا بخش راجڑ کو اَپ سیٹ شکست دی۔ حلقہ این اے 230 ، بدین 2 سے جی ڈی اے کی امیدوار، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے96,875 ووٹس حاصل کرکے پاکستان پیپلزپارٹی کے رسول بخش چانڈیو کو محض860 ووٹس کے فرق سے شکست دی۔ رسول بخش چانڈیو نے 96,015 ووٹ حاصل کیے۔ فہمیدہ مرزا پہلی خاتون ہیں، جنھوں نے مسلسل پانچویں بار ایک ہی حلقے سے انتخابات میں کام یابی حاصل کی۔ اس سے قبل اُنہیں پاکستان کی پہلی خاتون اسپیکر قومی اسمبلی بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوا تھا۔ فہمیدہ مرزا، سندھ کے بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کے والد، قاضی عبدالمجید عابد ممتاز سیاست دان اور صحافی تھے۔ وہ وفاقی وزیر اطلاعات‘ وفاقی وزیر تعلیم‘ وفاقی وزیر خوراک و زراعت اور وفاقی وزیر پانی و بجلی بھی رہے۔ نیز، اُنہوں نے سندھ سے ایک اخبار بھی جاری کیا، جو آج بھی اُن کے بیٹے کی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ فہمیدہ مرزا نے چار بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کام یابی حاصل کی، تاہم اس بار اُنھوں نے پی پی پی امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا اور کام یاب ٹھہریں۔ قومی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے باوجود وہ بدین کی صوبائی نشست پر پیپلزپارٹی کے امیدوار سے شکست کھا گئیں، جب کہ اسی ضلعے سے اُن کا ایک بیٹا، حسنین مرزا بھی سندھ اسمبلی کا رُکن منتخب ہوا ہے، لیکن شوہر، ذوالفقار مزرا اور دوسرا بیٹا، ہشام مرزا کام یاب نہ ہوسکے۔ حلقہ این اے232 ، ٹھٹھہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کی شمس النساء نے 152,691 ووٹ حاصل کرکے پی ٹی آئی کے ارسلان بخش بروہی کو شکست دی، جنہوں نے صرف 18,900 ووٹ حاصل کیے۔ 

یوں شمس النساء نے تقریباً 133,791 ووٹوں کی برتری حاصل کرکے پہلی خاتون سیاست دان کا اعزاز حاصل کیا ہے، جنہوں نے 2018ء کے الیکشن میں نہ صرف تمام خواتین سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، بلکہ اپنے حریف کو بھی سب سے زیادہ فرق سے شکست دی۔ یاد رہے کہ شمس النساء نے 2013ء کے ضمنی الیکشن میں این اے 237 ، ٹھٹھہ سے 84,819 ووٹ لے کر نون لیگ کے ریاض حسین شاہ شیرازی کو شکست دی تھی۔ یہ نشست اُن کے چھوٹے صاحب زادے، صدیق علی میمن کو دُہری شہریت کی بنا پر نااہل قراردیے جانے کے باعث خالی ہوئی تھی۔ آپا شمس النساء پاکستان پیپلزپارٹی کی دیرینہ کارکن ہیں۔ اُن کے شوہر، عبدالحمید میمن بھی پارلیمنٹرین تھے، جب کہ سسر، صدیق میمن کا پیپلزپارٹی کے بانی اراکین میں شمار ہوتا تھا۔ حلقہ این اے 271 ، کیچ سے زبیدہ جلال، بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر کام یاب ہوئی ہیں۔ اُنھوں نے 33, 456 ووٹ حاصل کیے، جب کہ اُن کے مدّمقابل، سیّد احسان شاہ نے20,617 ووٹس لیے۔ یوں دونوں امیدواروں کے درمیان ووٹوں کا فرق 12,840 رہا۔ زبیدہ جلال 2002ء سے 2007ء تک تعلیم کی وفاقی وزیر رہیں۔ اُنھوں نے بلوچستان کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے پرائمری اسکول سے حاصل کی، جہاں اُن کے والد بھی ملازم تھے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ( ق ) کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا اور وزیرِ اعظم، شوکت عزیز کی کابینہ میں وفاقی وزیر کے طور پر شامل ہوئیں۔ اُنھوں نے 2008ء کے عام انتخابات میں ق لیگ کے ٹکٹ پر حصّہ لیا، مگر کام یاب نہ ہو سکیں۔ پانچ سال کے وقفے کے بعد دوبارہ سیاست میں آئیں، تو نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں حصّہ لینے کی بجائے اپنی رشتے دار، کرن حیدر کے حق میں دست بردار ہو گئیں۔ زبیدہ جلال کو اُن کی تعلیمی خدمات پر صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

انتخابات 2018ء اور خواتین

پنجاب سے6 خواتین ایم پی ایز منتخب ہوئی ہیں، جن میں نون لیگ کی 2 ‘ پی ٹی آئی کی 3 اور ایک آزاد خاتون امیدوار شامل ہیں۔ پی پی65 ، منڈی بہاؤ الدّین 1 سے حمیدہ میاں نے نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصّہ لیا اور72,374 ووٹس حاصل کرکے پی ٹی آئی کے ارشد محمود کو 26,102 ووٹس کے فرق سے شکست دی۔ ارشد محمود 46,272 ووٹس حاصل کر پائے۔ حمیدہ میاں، اوساکا میں پیدا ہوئیں۔ جاپان سے ابتدائی تعلیم کے بعد خواتین کالج، لاہور سے بی اے کیا۔ 2002ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر پی پی116 ، منڈی بہاؤ الدّین I سے پنجاب اسمبلی کی نشست پر کام یابی حاصل کی، لیکن 2008ء کے انتخابات میں اس نشست پر ہار گئیں۔ 2013ء کا الیکشن نون لیگ کے ٹکٹ پر لڑا اور کام یاب رہیں۔ بعدازاں، شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہوئیں اور وزیر برائے ترقّیٔ نسواں مقرّر ہوئیں۔ حلقہ پی پی96 ، چنیوٹ سے پی ٹی آئی کی سلیم بی بی 29,668 ووٹ حاصل کرکے کا م یاب ٹھہریں۔ اُنہوں نے نون لیگ کے ثقلین انور کو ہرایا، جنہوں نے 26,406 ووٹس حاصل کیے۔ پی پی 122 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آشفہ ریاض فتیانہ نے نون لیگ کی نازیہ راحیل کو شکست سے دوچار کیا۔ آشفہ ریاض فتیانہ نے 62,939 اور نازیہ راحیل نے 44,452 ووٹس حاصل کیے۔ نازیہ راحیل 2008ء سے 2013ء تک صوبائی وزیر رہ چکی ہیں اور اُنھوں نے 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں آشفہ ریاض فتیانہ کو شکست دی تھی، لیکن اس بار آشفہ فتیانہ سے شکست کھا گئیں۔ آشفہ فتیانہ پنجاب کے تین بار وزیر رہنے والے، ریاض فتیانہ کی اہلیہ ہیں۔ 

اُن کے والد، میاں افضل وٹو بھی 1972ء سے 1977ء تک صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ آشفہ فتیانہ 2002ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئی تھیں۔ پی پی123 ، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پی ٹی آئی کی سونیا مخدوم، 53,145 ووٹ لے کر کام یاب قرار پائیں۔ اُنہوں نے نون لیگ کے قطب علی شاہ کو شکست سے دوچار کیا، جنہوں نے53,105 ووٹس حاصل کیے۔ یوں سونیا مخدوم محض 40 ووٹوں کی برتری سے کام یاب قرار پائیں۔ سونیا مخدوم، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ممتاز زمین دار، مرحوم رضا کی صاحب زادی ہیں۔ اُنھوں نے نون لیگ سے ٹکٹ نہ ملنے پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ حلقہ پی پی 184 ، اوکاڑہ 2 سے آزاد امیدوار، سیّدہ میمنت محسن، المعروف جگنو محسن نے 62,506 ووٹ حاصل کرکے آزاد امیدوار سیّد رضا علی گیلانی کو شکست دی۔ رضا علی گیلانی نے 41,068 ووٹ حاصل کیے۔ جگنو محسن، ایک ترقّی پسند خاتون صحافی اور فرائیڈے ٹائمز کی ایڈیٹر ہیں۔ اُن کے شوہر، نجم سیٹھی بھی معروف صحافی، فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر انچیف اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ حلقہ پی پی 223 ، ملتان 13 سے نغمہ مشتاق لانگ نے نون لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصّہ لیا اور46,149 ووٹس لے کر پی ٹی آئی کے ملک اکرم کنہوں کو 1,744 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ اکرم کنہوں نے 44,405 ووٹ حاصل کیے۔ نغمہ مشتاق لانگ ممتاز سیاست دان، ملک مشتاق احمد لانگ مرحوم کی بیوہ ہیں۔ 2008ء سے 2010ء اور 2013ء سے 2018ء تک صوبائی وزیر رہ چکی ہیں۔

انتخابات 2018ء اور خواتین

سندھ سے صرف2 خواتین صوبائی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئی ہیں۔ ان دونوں کا تعلق، پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے اور وہ دونوں سابق صدر، آصف علی زرداری کی ہم شیرہ ہیں۔ پی ایس10 لاڑکانہ1 سے پاکستان پیپلزپارٹی کی فریال تالپور نے 53,627 ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے امیر بخش بھٹّو کو ہرایا، جنہوں نے 37,665 ووٹس لیے۔ فریال تالپور اس سے قبل بھی قومی اسمبلی کی رُکن رہی ہیں۔ اُنھوں نے 1997ء کے عام انتخابات میں بھی حصّہ لیا تھا، تاہم نون لیگ کے امیدوار سے شکست کھا گئی تھیں، تاہم اس کے چار برس بعد ہی نواب شاہ کی ضلع ناظم منتخب ہو گئیں، اُس کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی اُن کی یہ پوزیشن برقرا رہی۔ 2008ء کے ضمنی انتخاب میں این اے 207، لاڑکانہ سے انتخاب میں حصّہ لیا اور پہلی بار قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی وہ اس حلقے سے دوبارہ ایم این اے بنیں۔ حلقہ پی ایس 37 ، شہید بے نظیر آباد I سے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کی عذرا فضل پیچوہو نے55,524 ووٹس حاصل کرکے اپنے حریف، سیّد باغ علی کو شکست دی، جو24,637 ووٹس حاصل کر سکے۔ عذرا پیچوہو پہلی بار 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے میدان میں اُتریں اور کام یاب رہیں۔ پھر 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی این اے213 نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں، تاہم اس بار اُنہوں نے قومی کی بجائے صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور کام یابی حاصل کی۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے کوئی بھی خاتون صوبائی اسمبلی کی رُکن منتخب نہیں ہو پائی۔

شکست کھانے والی خواتین سیاست دان

انتخابات 2018ء میں جہاں مَرد سیاست دانوں میں یوسف رضا گیلانی، اسفند یار ولی، شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمٰن، غلام احمد بلور، محمود خان اچکزئی اور سراج الحق جیسے کئی بڑے نام شکست سے دوچار ہوئے، وہیں خواتین سیاست دانوں میں بھی بڑے اَپ سیٹ دیکھنے کو ملے۔ حلقہ این اے 72 ، سیال کوٹ I سے پی ٹی آئی کی فردوس عاشق اعوان نون لیگ کے چوہدری ارمغان سبحانی سے37,649 ووٹوں کے فرق سے شکست کھا گئیں۔ فردوس عاشق اعوان نے91,392 اور چوہدری ارمغان سبحانی نے 129,041 ووٹ حاصل کیے۔ این اے87 ، حافظ آباد سے نون لیگ کی سابق وفاقی وزیر، سائرہ افضل تارڑ پی ٹی آئی کے شوکت علی بھٹّی سے8165 ووٹس کے فرق سے ہار گئیں۔ سائرہ افضل تارڑ نے157,453 ووٹ حاصل کیے۔این اے 93 ، خوشاب I سے نون لیگ کی سمیرا ملک پی ٹی آئی کے عُمر اسلم خان سے شکست کھا گئیں۔ سمیرا ملک نے62,831 اور پی ٹی آئی کے عُمر اسلم خان نے 100,448 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 164 ، وہاڑی3 سے نون لیگ کی تہمینہ دولتانہ کو پی ٹی آئی کے طاہر اقبال نے شکست دی۔ طاہر اقبال نے82,084 اور تہمینہ دولتانہ نے 68,198 ووٹ حاصل کیے۔ این اے 243 ، کراچی ایسٹ 2 سے سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی، شہلا رضا محض 10,631 ووٹ حاصل کرکے عمران خان نیازی سے بُری طرح ہار گئیں۔ عمران خان نے اس حلقے سے 91,358 جب کہ دوسرے نمبر پر آنے والے متحدہ کے سیّد علی رضا عابدی نے24,082 ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 73، بدین سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو پاکستان پیپلزپارٹی کے تاج محّمد نے شکست سے دوچار کردیا، تاہم وہ قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کام یاب رہیں۔ پی ایس 11 لاڑکانہ سے نثار کھوڑو کی صاحب زادی، نادیہ کھوڑو کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے معظّم علی خان نے شکست دی۔ نادیہ کھوڑو نے21,811 اور معظّم علی خان نے 32,178 ووٹ حاصل کیے۔ نثار کھوڑو نے اس حلقے سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اپنی صاحب زادی کو الیکشن لڑوایا تھا۔ پی ٹی آئی گلالئی کی سربراہ، عائشہ گلالئی قومی اسمبلی کے چار حلقوں سے امیدوار تھیں اور چاروں ہی میں شکست سے دوچار ہوئیں۔

جنوبی پنجاب سے صرف ایک خاتون ایم این اے اور ایم پی اے

انتخابات2018 ء میں جنوبی پنجاب سے صرف ایک خاتون قومی اور ایک خاتون صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کام یاب رہیں۔ این اے 191 ، ڈیرہ غازی خان سے پاکستان تحریکِ انصاف کی زرتاج گل نے79,817 ووٹ لے کر نون لیگ کے سردار اویس خان لغاری کو شکست دی، جنہوں نے54,548 ووٹ حاصل کیے۔ زرتاج گل 2013ء کے الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی تھیں، مگر اس مرتبہ کام یابی مقدر ٹھہری۔ پی پی223 ، ملتان13 سے نون لیگ کی نغمہ مشتاق لانگ46,149 ووٹ لے کر کام یابی سے ہم کنار ہوئیں۔ اُنہوں نے پی ٹی آئی کے ملک محمّد اکرم کنہوں کو ہرایا، جو 44,405 ووٹ حاصل کرسکے۔ جنوبی پنجاب کی خواتین میں جھنگ کی غلام بی بی بھروانہ کو شامل نہیں کیا گیا، جو این اے115 جھنگ II سے کام یاب ہوئیں ۔

تازہ ترین