• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی دھاندلیاں

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) کمال متین الدین نے اپنی کتاب ’’نسلوں نے سزا پائی‘‘ (اردو ترجمہ) میں ایک جگہ لکھا ہے ’’ایسے ممالک میں جہاں جمہوریت جڑیں پکڑ چکی ہوتی ہے اور جمہوری روایات مستحکم ہو جاتی ہیں، وہاں مخالف امیدواروں کے جنون اور جذبات پر مبنی طوفان، انتخابات کے بعد کم ہو جاتے ہیں، ہر کوئی دوبارہ اپنے معمول کے کاروبار میں لگ جاتا ہے، شکست خوردہ سیاستداں یہ یقین کرنے کے بعد کہ حریف نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، جیتنے والے کو مبارکباد دینے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے زیادہ تر ترقی پذیر ملکوں میں انتخابی نتائج کا اعلان ہو جانے کے بعد بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ نتائج کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ دونوں، جیتنے اور ہارنے والے امیدوار بیانات دیتے ہیں، جس سے تنائو بڑھتا ہے، ہارنے والوں کو طعنہ دینے کے انداز میں فتح منائی جاتی ہے، نومنتخب حزب اختلاف کی طرف سے اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مایوس سیاستداں عوام کی رائے کی نفی کرنے کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ (اس طرح کے) خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ فاتح جماعت، ریاست کے مفاد کے خلاف کام کرے گی۔‘‘

یہ مختصر سا اقتباس ہمارے ملک میں ہونے والے انتخابات کی ایک حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ انتخابات صوبائی سطح کے ہوں یا قومی سطح کے یا پھر مقامی سطح کے، آج تک کسی بھی انتخاب کے نتائج خوش دلی سے تسلیم نہیں کیے گئے۔ شکست خوردہ سیاسی جماعتیں ہوں یا ناکام امیدوار، ہر کوئی یہ شکوہ، شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ دھاندلی کا الزام صرف شکست کی شرمندگی سے بچنے ہی کے لیے لگایا جائے۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات دھاندلی کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ بسا اوقات یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ بھرپور طریقے سے اور کھل کر دھاندلی کروائی جا سکے۔ کسی انتخاب کے بعد دھاندلی کا لفظ استعمال نہ ہو تو یہ انتخاب روکے پھیکے اور بے رونق سے نظر آتے ہیں۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی ابتدا مارچ1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے ہوئی تھی، سیاسی تجزیہ نگار ان کے لیے ’’جھرلو انتخابات‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ’’جھرلو‘‘ دراصل بچوں کا ایک کھیل ہے، پرانے زمانے میں گلی گلی گھوم کر تماشا دکھانے والوں کے پاس رنگین کپڑے سے ڈھکا ہوا پٹاری نما ایک بڑا ڈبا ہوا کرتا تھا، جسے ’’جھرلو‘‘ کہا جاتا ہے۔ تماشا دکھانے والا اس ڈبے پر چھڑی گھما کر اس میں سے مختلف چیزیں نکال کر دکھایا کرتا تھا۔ مثلاً ڈبے میں کبوتر ڈال کر ہاتھ باہر نکالا تو خرگوش نکل آیا یا توتا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھ کی صفائی تھی۔ انتخابات میں یہ اصطلاح استعمال ہونے کا مطلب یہ تھا کہ کسی امیدوار کو پڑنے والے ووٹ کسی دوسرے امیدوار کے ڈبے سے نکل آئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی کتاب ’’مسلم لیگ کا دور حکومت‘‘ میں لکھا ہے ’’اس زمانے میں مسلم لیگ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں اتنی مضبوط اور مقبول جماعت تھی کہ اگر اس کے امیدوار دھاندلی سے کام نہ بھی لیتے اور سرکاری مشینری غیرجانبدار بھی رہتی تو بھی مسلم لیگ کو بھاری کامیابی نصیب ہو جاتی۔‘‘ ڈاکٹر صفدر محمود مزید لکھتے ہیں ’’بہرحال پنجاب میں مسلم لیگ نے شاندار کامیابی حاصل کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی انتخابات کی آزادی اور سرکاری مشینری کی غیرجانبداری کی روایت بھی، جسے ابھی پروان چڑھنا تھا، پامال ہو گئی۔ اس روایت کی پامالی نے نہ صرف پاکستان میں جمہوریت کے فروغ و استحکام پر برا اثر ڈالا بلکہ پنجاب کے بعد بہاولپور، سندھ اور سرحد کے صوبائی انتخابات میں بھی دھاندلیاں اور بدعنوانیاں بڑے وسیع پیمانے پر روا رکھی گئیں۔ بہاولپور میں تو اتنی بڑی تعداد میں مسلم لیگ کے امیدوار بلامقابلہ منتخب کروا دیئے گئے کہ مرکزی حکومت نے (اس زمانے میں خواجہ ناظم الدین وزیراعظم تھے) ساری انتخابی کارروائی کالعدم قرار دے کر ازسرنو انتخابات کا اہتمام کیا۔‘‘

بڑے پیمانے پر دھاندلی کا لفظ دوسری مرتبہ1965ء کے صدارتی انتخاب میں سنا گیا جس میں محترمہ فاطمہ جناح، صدر ایوب کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھیں، یہ متحدہ پاکستان کا پہلا اور آخری صدارتی انتخاب تھا۔ ایوب خان ملک کے صدر تھے، پوری ریاستی مشینری اور وسائل ان کے ہاتھ میں تھے۔ اس لحاظ سے انہیں محترمہ فاطمہ جناح پر مکمل فوقیت حاصل تھی۔ دوسرے یہ انتخاب براہ راست بھی نہیں تھے، ایوب خان کے متعارف کروائے گئے بنیادی جمہوریت کے نظام (بی ڈی سسٹم) کے تحت مشرقی اور مغربی پاکستان سے چالیس، چالیس ہزار بی ڈی کائونسلرز کو صدر کا انتخاب کرنا تھا، چونکہ یہ بی ڈی کائونسلرز ایوب خان کے متعارف کردہ نظام کی بدولت کائونسلر بنے تھے، اس لیے فطری طور پر زیادہ تر کی ہمدردیاں، ایوب خاں کے ساتھ تھیں۔ اوپر سے تحریص و ترغیب کا عنصر بھی موجود تھا۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما رائو عبدالرشید جو اعلیٰ پولیس افسر رہ چکے ہیں، اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں۔ ’’بہاولپور کے مخدوم حسن محمود، مغربی پاکستان میں ایوب خان کی انتخابی مہم کے انچارج تھے، تمام سرکاری افسران ان کے تابع کر دیئے گئے تھے۔ ہر کمشنر کو پیسے دیئے گئے اور انہوں نے ایوب خان کے انتخابی کیمپ قائم کئے، کمشنر نے ڈپٹی کمشنرز کو اور ڈپٹی کمشنرز نے اسسٹنٹ کمشنرز کو رقومات دیں۔ بی ڈی کائونسلرز کے لیے ٹرانسپورٹ اور کھانے کا انتظام کیا،۔ اسسٹنٹ کمشنرز کی ذمہ داری تھی کہ وہ بی ڈی کائونسلرز کو بلا بلا کر ایوب خان کے حق میں ووٹ ڈلوائیں۔ 

الیکشن کے بعد تمام سرکاری افسران بڑے فخر سے اپنی کارکردگی کا موازنہ کر رہے تھے کہ کس نے اپنے اپنے ضلعے سے کتنے فیصد ووٹ ایوب خان کو دلوائے ہیں۔‘‘ نتائج کا اعلان ہوا تو ایوب خان، محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں جیت چکے تھے۔ انہیں49647اور محترمہ فاطمہ جناح کو28343ووٹ پڑے تھے، جن کا تناسب بالترتیب63اور 26فیصد تھا۔ ایوب خان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول اور محترمہ جناح کا نشان لالٹین تھی۔ کراچی اور ڈھاکا میں ایوب خان کو زیادہ ووٹ نہیں ملے، کراچی میں فیڈرل بی ایریا کے پولنگ اسٹیشن سے ایوب خان کو پورے ملک میں سب سے کم یعنی صرف20ووٹ ملے تھے۔ نتائج کا اعلان ہوا تو پورا ملک ہولناک سناٹے کی زد میں آ گیا۔ بابائے قوم کی ہمشیرہ کی شکست پر لوگ گہرے صدمے کے عالم میں تھے۔ کامیابی کے باوجود ایوب خان کی شخصیت کا تاثر عوام کی نظروں میں مجروح ہو چکا تھا۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایوب خان کی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے ہی کی غرض سے ان کے مشیروں، بالخصوص وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے جو سرکاری مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بھی تھے، مجاہدین آزادی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا منصوبہ تیار کیا تھا، جس کے نتیجے میں بھارت ستمبر1965ء میں بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستان پر حملہ آور ہو گیا تھا۔ جنگ بندی اور تاشقند معاہدے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ کے عہدے سے سبکدوش کرنے کی وجہ بھی اسی منصوبے کی ناکامی اور ان کے غلط مشورے تھے، لیکن انہوں نے اپنی برطرفی کے بعد جیتی ہوئی جنگ کو تاشقند مذاکرات میں ہارنے کا الزام عائد کر کے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ شدید ہنگاموں، شورش اور نیم بغاوت جیسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایوب خان نے25مارچ1969ء کو اقتدار اس وقت کے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔

اور پھر7دسمبر1970ء کو یحییٰ خان نے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے، جو ملک کی تاریخ کے واحد شفاف اور آزادانہ انتخابات کہے جاتے ہیں، ان میں حصہ لینے والی چوبیس سیاسی جماعتوں نے تقریباً پورے ایک سال تک انتخابی مہم چلائی، لیکن کسی جانب سے ریاستی مشینری کے استعمال یا مداخلت کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ پولنگ سے پہلے اور بعد میں فوج نے اپنا غیرجانبدارانہ کردار برقرار رکھا۔ فوجی دستوں نے انتخابی مہم میں کوئی مداخلت نہیں کی، نہ ہی پولنگ بوتھ کے قریب گئے۔ اس لحاظ سے یہ انتخابات شفاف تو تھے لیکن آزادانہ ہرگز نہیں تھے۔ بالخصوص مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ، جس نے لیفیٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) کمال متین الدین کے بہ قول ’’انتخابی مہم سے پہلے ہی اپنی قوت کا مظاہرہ شروع کر دیا تھا، اب ایک ایسی فسطائی اور جنگجو تنظیم بن گئی، جو کسی حریف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ یہ مکمل علاقائی خودمختاری کے ساتھ اپنے قاعدے کے خلاف، کسی بھی مخالفت کو طاقت کے ذریعے کچل دینے کے لیے پرعزم تھی نتیجتاً کسی دوسری سیاسی جماعت کو عوامی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ 18جنوری1970ء کو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں جاری جماعت اسلامی کے جلسے میں خلل ڈالا گیا اور جلسہ درہم برہم کر دیا، چار دن بعد اس کے دفاتر پر حملہ کیا گیا۔ اسی طرح یکم فروری1970ء کو پاکستان جمہوری پارٹی کے جلسے منشتر کیے گئے۔ عوامی لیگ کے مخالف سیاستدانوں کی جانب سے عوامی لیگ پر تشدد اور انتخابی بلوئوں کے الزامات کے باوجود یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا۔ مغربی پاکستان میں جہاں پیپلزپارٹی نے خواتین کی چھے مخصوص نشستوں کے علاوہ قومی اسمبلی کی81نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، انتخابی دھاندلیوں کی کوئی گونج سنائی نہیں دی۔

انتخابی نتائج کے لحاظ سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے75فیصد ووٹ حاصل کر کے162میں سے160عام نشستیں جیتی تھیں اور خواتین کی سات مخصوص نشستیں بھی بلامقابلہ ملی تھیں، اس لحاظ سے وہ تین سو(300) نشستوں والے ایک ایوانی مقننہ کی اکثریتی جماعت تھی، مگر اس وقت کی فوجی قیادت شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار سونپنے پر آمادہ نہ تھی۔ فوج کو خدشہ تھا کہ عوامی لیگ بھارت کے ساتھ مفاہمانہ رویہ اختیار کرے گی۔ نیز، سینئر فوجی حکام کی جانب سے بھی جنرل یحییٰ خان پر شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل نہ کرنے کا دبائو تھا، ایسے میں پیپلزپارٹی ان کی مدد کو آئی، جس کے سربراہ نے ڈھاکا میں ہونے والے نومنتخب قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا اور شرکت کرنے والے اراکین کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی۔ مشرقی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان اور گورنر ایڈمرل احسن کے مشوروں کے برخلاف جنرل یحییٰ خان نے نئی تاریخ کا اعلان کیے بغیر قومی اسمبلی کا مجوزہ اجلاس ملتوی کر دیا، جس کے بعد مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہو گئے۔ 

فوجی کارروائی اور خونریز واقعات کے بعد اکثریتی حصہ مغربی پاکستان سے ناتا توڑ کر آزاد و خودمختار بنگلہ دیش بن گیا۔ اپنے منصوبے اور خواہش کے مطابق باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔ 1977ء میں اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے اس گمان کے زیراثر کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں منتشر ہیں، قبل از وقت عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا، مگر غیرمتوقع طور پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں اور نو جماعتی پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) وجود میں آ گیا۔

1977ء کے عام انتخابات، ملک کے متنازع ترین انتخابات کہے جاتے ہیں۔ حکمراں جماعت کو جتوانے کے لیے اس دور کے سیاستدانوں اور نوکر شاہی نے بڑے ہی غلط حربے استعمال کیے مثلاً لاڑکانہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے مدمقال جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر، خالد احمد کھرل نے اغوا کروا لیا اور انہیں اس وقت چھوڑا گیا، جب کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت گزر گیا۔ جب وزیراعظم بلامقابلہ منتخب ہو گیا، تو وزرائے اعلیٰ کیوں پیچھے رہتے چنانچہ چاروں وزرائے اعلیٰ بھی بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ سیاسی لحاظ سے پیپلزپارٹی کی حیثیت بڑی مستحکم تھی اور وہ با آسانی انتخابات جیت سکتی تھی، لیکن پیپلزپارٹی میں شامل بعض وزراء اپنی کامیابی کے بارے میں شکوک کا شکار تھے۔ رائو عبدالرشید نے لکھا ہے ’’بھٹو صاحب کے خلاف پی این اے کا احتجاج شہروں میں اور ان کے وزیروں کے خلاف ابھرا، جن کا کردار پانچ چھے سال میں لوگوں کی توقع کے خلاف تھا، یہی منسٹر کسی بھی قیمت پر الیکشن ہارنے کے لیے تیار نہ تھے۔ 

بھٹو صاحب نے اپنے وزیروں اور بعض کارکنوں کی دھاندلیوں کو سختی سے نہیں روکا۔‘‘ رائو رشید کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب الیکشن کے نتائج آنا شروع ہوئے تو خود بھٹو صاحب بھی حیران ہوئے کہ اتنی زیادہ سیٹیں کیسے مل گئیں، رات چار بجے وہ فون کر کے بار بار پوچھتے رہے کہ یہ کیسے ہوا، کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی؟ کوئی دھاندلی تو نہیں ہوئی؟ وجہ یہ تھی کہ یہ نتائج ان تجزیوں کے بالکل ہی برخلاف تھے، جو پی پی کے الیکشن سیل نے عام انتخابات سے قبل مرتب کیے تھے۔ پھر دوسری اہم بات یہ تھی کہ انتخابی دھاندلیوں کا مرکز صرف صوبہ پنجاب تھا، جہاں کے وزیراعلیٰ صادق قریشی نے سرکاری افسروں کو من پسند نتائج حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ان سرکاری افسروں کی رپورٹ یہ تھی کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ ستر یا پچھتر نشستیں مل سکتی ہیں، مگر یہ تعداد ایک سو دس یا پندرہ سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔

انتخابی دھاندلیاں
قومی اتحاد کے رہنما اور ذوالفقار علی بھٹو ،مذاکرات کے دوران

قومی اتحاد نے انتخابی نتائج مسترد کر کے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا، پہلے مرحلے میں صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ اور قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ ابتدا میں احتجاج کی رفتار مدھم تھی، لیکن پھر اس میں شدت پیدا ہو گئی۔ شہروں بالخصوص لاہور اور کراچی میں احتجاج کا بڑا زور تھا۔ قومی اتحاد نے بعدازاں اپنی احتجاجی تحریک میں ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کے قیام کا وعدہ بھی شامل کر لیا، لیکن اسی کے ساتھ غیرملکی عناصر بھی سرگرم ہو گئے۔ قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک رفتہ رفتہ پرتشدد ہوتی چلی گئی۔ لاہور اور کراچی میں جزوی مارشل لاء نافذ کرنے کے باوجود شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قومی اتحاد کے قائدین کی گرفتاری کے بعد پیر صاحب پگارا قومی اتحاد کے قائم مقام صدر بنے۔ انہوں نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ جون کے وسط میں حکومت قومی اتحاد سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہو گئی۔ قومی اتحاد ازسرنو انتخابات کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا اور طے پایا جن نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہے، صرف ان ہی پر انتخابات ہوں گے جو زیادہ سے زیادہ چالیس تھیں۔ 

جس رات قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا اسی رات اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور وزیراعظم بھٹو اور قومی اتحاد کے قائدین ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیے گئے۔ یوں دھاندلی کو جواز بنا کر وجود میں آنے والی تحریک کے نتیجے میں ملک آئندہ دس برس تک آمریت کے چنگل میں پھنسا رہا۔ 1988ء میں ضیاء الحق کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں انتخابات ہوئے۔ قومی اتحاد کی طرز پر اسلامی جمہوری اتحاد پیپلز پارٹی کے مقابلے پر تھا، جسے آئی ایس آئی کی تخلیق سمجھا جاتا ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف جنرل حمید گل اس کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔

ملک میں اس کے بعد1990ء ، 1993ء اور 1997ء میں بھی انتخابات ہوئے۔ حسب سابق یہ انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے، لیکن اس وقت یہ کہا گیا کہ یہ انتخابات ’’انجینئرڈ‘‘ تھے اور بیشتر نشستوں کے نتائج طے شدہ تھے تاہم ان نتائج کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک نہ چلائی گئی اور معاملہ محض انتخابی عذرداریوں تک ہی محدود رہا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا، پھر ماضی کے فوجی حکمرانوں کی طرح اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے پہلے تو ریفرنڈم کرایا پھر10اکتوبر2002ء کو عام انتخابات کروائے۔ مسلم لیگ (ق)، متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین قومی اسمبلی میں تین بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے آئیں۔ مسلم لیگ (ق) کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی، لہٰذا اقتدار اس ہی کے حصے میں آیا، صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ ان انتخابات میں بھی ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ بیشتر حلقوں میں بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ بھگتائے گئے اور خفیہ ایجنسیوں نے بھی اپنی کارگزاری دکھائی۔ وزیراعظم کا انتخاب بھی دبائو سے پاک نہ تھا۔ ایک راوی کا کہنا ہے کہ ایک اعلیٰ ترین عہدیدار، اسمبلی کے ارکان کو اس ضمن میں ہدایات دے رہا تھا اور ان ہی ہدایات کی روشنی میں میر ظفراللہ جمالی کو ووٹ دیئے جا رہے تھے۔

انٹر انٹیلی جنس سروسز (آئی ایس آئی) کے ایک سابق ڈپٹی چیف اور پولیٹیکل ونگ کے سربراہ، میجر جنرل (ریٹائرڈ) احتشام ضمیر نے ایک موقع پر اعتراف کیا تھا کہ وہ2002ء میں فوجی حکمراں، پرویز مشرف کے حکم پر بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں میں ملوث ہوئے تاکہ مسلم لیگ (ق) کے امیدواروں کو کامیاب کروایا جا سکے۔ احتشام ضمیر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر اپنی یادداشتیں بھی قلم بند کر رہے تھے۔ کتاب قریب قریب تیار تھی اور نظرثانی کے مرحلے سے گزر رہی تھی اور اس کا نام ’’Working with Army‘‘ رکھا گیا تھا کہ اچانک27اپریل2015ء کو ان کے مطالعے کے کمرے میں پراسرار دھماکے کے ساتھ آگ بھڑک اٹھی۔ سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ لیکیج کی وجہ سے کمرے میں گیس بھر گئی تھی۔ آگ لگنے سے کمرے کا سارا سامان جل کر راکھ ہو گیا، جس میں کتاب کا مسودہ بھی شامل تھا۔ خود جنرل احتشام بھی جھلس گئے اور پھر4مئی2015ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح2002ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کا ایک اہم گواہ دنیا میں نہ رہا۔

2008ء کے عام انتخابات کے موقع پر ملک کے سیاسی حالات مکمل طور پر بدل چکے تھے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت ایک المناک سانحہ تھی، جس کے باعث انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانا پڑی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسمبلیوں کی آئینی میعاد مکمل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس مدت کے دوران تین وزرائے اعظم تبدیل ہوئے تھے۔ سوگ کی فضا میں منعقد ہونے والے ان انتخابات میں پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی، مجموعی طور پر انتخابی نتائج تسلیم کر لیے گئے۔ ماضی کے برعکس دھاندلیوں کا زیادہ واویلا سننے میں نہیں آیا۔ سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں مسلم لیگ (نون) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت سازی میں اشتراک کر لیا اور اس کے کچھ وزراء وفاقی کابینہ میں شامل ہو گئے تاہم یہ فضا زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی لیکن تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود جمہوری سفر جاری رہا، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی۔ آزاد جمہوری نظام کے تحت میعاد مکمل کرنے والی یہ پہلی سیاسی حکومت کہی جاتی ہے۔

11مئی2013ء کو ایک بار پھر ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ 1977ء کے عام انتخابات کی طرح2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے الزامات نے آئندہ برسوں میں ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان انتخابات کو ریٹرننگ آفیسرز کے انتخابات قرار دیا۔ عمران خان نے2013ء کے انتخابی نتائج کو نہ صرف تسلیم کرلیا تھا اور ان ہی نتائج کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی بھی کر لی تھی، مگر تقریباً ایک سال بعد انہوں نے انتخابی دھاندلیوں کا شوشا چھوڑ دیا۔ وہ حکومت، عدلیہ اور الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے تھے، ابتدا میں وہ چار حلقوں میں دھاندلی کی بات کرتے رہے، پھر بات35پنکچروں تک جا پہنچی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف دونوں ہی مستعفی ہوں، ان کا نشانہ سپریم کورٹ کے جسٹس افتخارمحمد چوہدری بھی تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے طاہرالقادری بھی عمران خان کے ہم نوا تھے۔ دونوں جماعتوں نے14اگست2014ء کو لاہور سے اسلام آباد تک علیحدہ علیحدہ لانگ مارچ شروع کیا۔ 

حکومت کی جانب سے لانگ مارچ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور شرکاء اسلام آباد پہنچ گئے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کے ساتھ ایک رسمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شرکاء اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ دس لاکھ کا مجمع اکھٹا کر کے حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیں گے، مگر غیرجانبدارانہ تجزیوں کے مطابق شرکاء کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے اندر اندر تھی۔ عمران خان اپنے خصوصی کنٹینر میں فروکش ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے منتظر تھے، جو نہ جانے کون تھا اور کیا چاہتا تھا۔ عمران خان دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اس وقت تک یہ کنٹینر نہیں چھوڑیں گے جب تک دھاندلی سے وجود میں آنے والی اسمبلی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ان کی تقریروں میں شائستگی اور متانت کا فقدان تھا۔ علامہ طاہرالقادری کی تقریریں بھی جذبات سے لبریز تھیں۔ وہ اپنی مبینہ شہادت کے حوالے سے پارلیمنٹ ہائوس کو شہداء کا قبرستان بنانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ یہ بڑے پرآشوب دن تھے۔ اسلام آباد مکمل طور پر محصور تھا۔ اہم سرکاری دفاتر بند تھے، سپریم کورٹ کی عمارت کا احاطہ ’’دھوبی گھاٹ‘‘ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ لوگ آزادی کے ساتھ کپڑے دھو رہے تھے۔ مظاہرین ایک دن پی ٹی وی کی عمارت میں جا گھسے اور توڑ پھوڑ مچا کر قیمتی سازوسامان و آلات برباد کر دیئے، یہاں تک کہ نشریات معطل کروا دیں۔

عمران خان نے حکومت گرانے کے لیے اے پلان کا اعلان کیا، پھر بی، سی اور ڈی پلان کی بات ہوئی، مگر عملاً کوئی پلان کامیاب نہ ہوا، البتہ اسلام آباد کی سڑکوں پر گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگ گئے۔ سیاسی سطح پر حکومت اور دھرنے کے قائدین کے درمیان مصالحت کروانے کی کوششیں بھی جاری تھیں۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے، مگر کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا، عمران خان اور طاہرالقادری کی اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کروائی گئی، مگر بات نہ بن سکی۔ عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سوا دیگر صوبائی اور قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلوا دیئے، جو منظور نہیں کیے گئے۔ دھرنے کی وجہ سے عوامی جمہوریہ چین اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے ملتوی ہو گئے۔ یہ دھرنا126دن تک جاری رہا۔ پورے ملک میں حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ حالات کی غیریقینی اور سنگینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ 16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ عمران خان کی سابق اہلیہ ریہام خان کا کہنا ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد عمران خان کو دھرنا ختم کرنے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس دھرنے کی وجہ سے نواز شریف کی مضبوط سیاسی حکومت ڈیڑھ سال کی تکمیل مدت میں فیصلہ سازی اور قومی پالیسیوں کی تشکیل کے بھرپور اختیار سے محروم ہو گئی اور ان نادیدہ قوتوں نے، جنہیں بعد میں خلائی مخلوق کہا گیا، اصل اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ میں ایسی رپورٹیں شائع ہوئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنا اختیار اندرونی معاملات تک محدود رکھیں۔ خارجہ، دفاع اور قومی سلامتی کے معاملات سے لاتعلق رہیں۔ اس دھرنے کی وجہ سے پارلیمنٹ مقتدر نہ رہی۔ اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین غیرجمہوری اقدامات کے خلاف متحد تھے مگر پارلیمنٹ کی بالادستی باقی نہ رہی۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہونے لگے۔

انتخابی دھاندلیاں

حکمراں جماعت مسلم لیگ (نون) اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے بعد2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے ہوا۔ صدر مملکت کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس کے تحت اپریل2015ء میں موجودہ نگراں وزیراعظم جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں، جو اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان تھے، تین رکنی عدالتی کمیشن قائم ہوا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل اس کے رکن تھے۔ کمیشن کی کارروائی86دن تک جاری رہی۔ کل59اجلاس ہوئے جن میں تین اجلاس بند کمرے میں ہوئے۔69افراد کے بیانات قلم بند کیے گئے، جن میں پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی، سابق چیف سیکرٹری پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے صوبائی الیکشن کمشنرز وغیرہ شامل تھے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں سے بھی شواہد، ثبوت اور تجاویز طلب کی گئیں۔ 

21سیاسی جماعتوں اور47افراد نے اپنی تجاویز کمیشن کے روبرو پیش کیں۔ کمیشن نے تین ماہ کے اندر اندر اپنی رپورٹ، حکومت کو پیش کر دی، جو237صفحات پر مشتمل تھی۔ رپورٹ کے مطابق2013ء کے انتخابات دیانتدارانہ، صاف اور شفاف انداز میں قانون کے مطابق کروائے گئے اور ان میں منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ البتہ کمیشن نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی چند انتظامی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مستقبل میں انہیں دور کرنے پر زور دیا تھا۔ رپورٹ کے اجراء کے دوسرے دن اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ بہتان تراشی اور الزامات کا باب، اب بند ہو جانا چاہئے۔ عمران خان نے بعض تحفظات کے ساتھ عدالتی کمیشن کا فیصلہ تسلیم کر لیا۔ تحریک انصاف کے ارکان ان ہی ایوانوں میں واپس آ گئے، جنہیں دھاندلی کی پیداوار کہا گیا تھا۔ اسی دوران عمران خان کی استدعا پر اگست2015ء میں الیکشن ٹریبونل نے حلقہ این اے122سے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا، جو تحریک انصاف کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ اکتوبر میں اس نشست پر دوبارہ انتخاب ہوا، جس میں ایاز صادق دوبارہ منتخب ہو گئے۔ ان کے مدمقابل علیم خان تھے، جو تقریباً چار ہزار ووٹ کے مارجن سے ہار گئے۔ نومبر میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے لیے ایاز صادق کی دوبارہ نامزدگی ہوئی۔ وہ268ووٹ لے کر دوبارہ قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہو گئے، ان کے مقابلے پر تحریک انصاف کے شفقت محمود کو صرف اکتیس ووٹ ملے۔ 

یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ایک ہی اسمبلی نے دو مرتبہ اسپیکر کا انتخاب کیا اور ایک ہی شخص نے دوسری مرتبہ اسپیکر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ایاز صادق ہی کی طرح الیکشن ٹریبونل نے مئی2015ء میں مسلم لیگی خواجہ سعد رفیق کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ این اے125لاہور میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا، خواجہ سعد رفیق نے اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ نے جولائی2018ء کے عام انتخابات کے انعقاد سے کچھ روز پہلے خواجہ سعد رفیق کی اپیل منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اس حلقے میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ خواجہ سعد رفیق نے اس حلقے میں تحریک انصاف کے حامد خان کو شکست دی تھی۔ واضح رہے مذکورہ بالا دونوں حلقے ان چار حلقوں میں شامل تھے، جن کو تحریک انصاف کھولنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔

25جولائی2018ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، لیکن ہر طرف سے دھاندلیوں کے الزامات کا طوفان بھی امڈ رہا ہے۔ اب تحریک انصاف خود اس مقام پر آ گئی ہے جہاں2013ء میں مسلم لیگ (نون) کھڑی تھی۔ بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت تنہا تحریک انصاف دھاندلی کا شور مچا رہی تھی اور اب تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو دھاندلی نظر آ رہی ہےاور انتخابی نتائج مسترد کیے جارہے ہیں۔ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک1977ء کے دور میں واپس آ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، مسلم لیگ (نون) کے کچھ رہنما اور دیگر سیاسی جماعتیں نہ صرف انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی بات کر رہی ہیں، بلکہ اسمبلیوں میں نہ جانے اور حلف نہ اٹھانے کے آپشن پر بھی غور کیا گیا تھا جو بعدازاں ترک کر دیا گیا۔ لیکن اس وقت جس ادارے کو سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔ کچرے کے ڈھیر سے جلے ہوئے بیلٹ پیپرز کیوں مل رہے ہیں۔ پولنگ ایجنٹس کو فارم45کیوں نہیں دیئے گئے۔ متعدد حلقوں کے نتائج تاخیر سے کیوں آئے۔ پیشگی اطلاع کے بغیر پولنگ اسٹیشنز کیوں تبدیل کیے گئے۔ 

انتخابی دھاندلیاں

انتخابی عملے، خصوصاً خواتین کو رات گئے تک کیوں روکا گیا؟ ان سارے سوالات کا جواب سامنے آنا چاہئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں 266 انتخابی حلقوں سے15لاکھ سے زائد ووٹ مسترد کیے گئے تھے، اس بار صرف 30حلقوں سے 16لاکھ ووٹ مسترد کیے گئے ہیں۔کچھ حلقوں میں تو ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں کے ووٹوں کے فرق کے مقابلے امیں مسترد شدہ ووٹ زیادہ ہیں مثلاً حلقہ این اے239کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے سہیل منصور366سے ہارے مگر یہاں مسترد ووٹوں کی تعداد3281رہی۔ حلقہ این اے237کراچی میں تحریک انصاف کے کامیاب اور پیپلزپارٹی کے شکست خوردہ امیدوار کے درمیان1382ووٹ کا فرق ہے مگر یہاں مسترد شدہ ووٹ کی تعداد2181ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد جان بوجھ کر بیلٹ پیپرز پر دوسرے امیدوارں کے آگے مہر لگا دی گئی ہو تاکہ ووٹ مسترد ہو جائے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لیے جلد از جلد اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر ہر بار انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات اٹھتے رہے تو جمہوری عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا اور عام انتخابات اپنی وقعت کھو بیٹھیں گے۔ ہمیں خامیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کرنے اور ان کا سدباب کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایک بین الاقوامی ادارے ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشنل (ڈی آئی آر) نے2013ء کے عام انتخابات کا جائزہ لینے کے بعد جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ انتخابی نظام میں متعدد ایسی خامیاں ہیں، جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ خامیاں دور نہ کی گئیں تو آئندہ انتخابات زیادہ مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ان کے مجموعی نتائج کو قبول کر لیا جائے۔ اس رپورٹ کا ایک جملہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ’’جمہوریت پر دھوکے باز قابض ہو جائیں گے یا یہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جائے گی‘‘ افسوس! ہم نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

تازہ ترین