• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


دنیا کےبہت سے ممالک نے تخلیقی عناصر کو اپنے اپنے پرچموں میں شامل کیا ہے، چاہے وہ چاند ستارہ ہو یا کسی چرند پرند کی تصویر۔ مگر دنیا کےدو سو ممالک کے جھنڈے اکٹھے کریں اور بغور دیکھیں تو ایک رنگ کی کمی نظر آئے گی اور وہ ہے جامنی۔

اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ماضی میں جامنی رنگ کا حصول آسان نہ تھا۔جامنی رنگ کو دنیا کے رنگوں کا اہم ترین رنگ مانا جاتا تھا کیونکہ اسے سمندر کی سیپیوں سے کھرچ کھرچ کر حاصل کیا جاتا تھا۔

یہ رنگ صرف انتہائی امیر لوگ خرید سکتے تھے اور تیسری صدی میں روم کے بادشاہ آریلین نے ملکہ کو جامنی رنگ کی شال بنوانے کی فرمائش اس لئے منع کر دیا تھا کہ وہ اسے خریدنے کے مالی ذرائع نہیں رکھتا۔

جامنی رنگ سونے کے مقابلے میں تین گنا مہنگا تھا۔ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے جامنی رنگ کو شاہی خاندان کے علاوہ کسی کے لئے بھی ممنوع قرار دے دیا تھا کیونکہ یہ رنگ تمول اور بادشاہت کی نشانی تھا۔

آج سے ڈیڑھ سو برس قبل انگریز کیمسٹ ولیم ہنری پرکن ملیریا کے خلاف دوا بنانے کا تجربہ کر رہے تھے۔ اس دوران وہ دوا تو نہیں بنا سکے لیکن جامنی رنگ کی ڈائی ڈھونڈ لی۔

عوامی سطح پر یہ رنگ 1856 میں ہی دستیاب ہونا شروع ہوا۔ برطانوی کیمیا دان ولیم ہنری پرکن نے اس رنگ کا فارمولا دریافت کیا تھا اور اب فیشن کی دنیا ان کی شکر گزار ہے۔

سائنسدان پرکن نے تو اس دریافت سے بہت زیادہ پیسہ کمایا مگر پھر آہستہ آہستہ عام ہونے سے یہ رنگ بیسویں صدی کے آغاز تک اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔

دنیا میں دو پرچم ایسے ہیں جن میں تھوڑا ہی سہی مگر جامنی رنگ موجود ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم ملک ایسے ہیں جن کے یہ نشان بیسویں صدی کے بعد کے ہیں۔ اس لئے یہ رنگ صرف ڈومینیکا اور نکاراگوا کے جھنڈوں کے علاوہ کسی اور ملک کے جھنڈے میں نہیں۔

تازہ ترین