• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت کی کمزوری تو ثابت ہے کہ اب تک کی تاریخ میں وہ مرد سے ہارتی ہی چلی آ رہی ہے۔ مرد نے اپنے لحاظ سے مردانہ تاریخ لکھ دی اور عورت کچھ نہ کر سکی، مرد نے اسے قابو میں کر لیا اور عورت قابو میں آتی رہی، مرد نے عورت کااستحصال کیااور عورت سہتی رہی،مرد نے عورت کو پیٹا اور عورت پٹتی رہی، پھر مان لینا چاہیے کہ مرد مضبوط اور عورت کمزور ہے،لیکن پھر الٹا ہونا شروع ہو گیا۔ عورت نے مرد کی چال سمجھ لی اور اس سے بغاوت کر دی، لیکن کیا اس بغاوت میں اسے وہ سکون مل رہا ہے جس کے لیے اس نے بغاوت کی تھی؟ بغاوت کرنے کے بعد بھی تو وہ مرد ہی کی محتاج ہے۔ عورت کو مرد کی ضرورت ہےاور مرد کو عورت کی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے ہیں کہ اب مرد کو عورت سے’ معاہدہ‘ کرنا پڑے گا۔ اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ اب عورت عقلمند ہو گئی ہے۔ وہ بے وقوف نہیں رہی کہ پہلے کی طرح گھر میں چکی پیسےگی اور تکیے پر پھول بنائے گی۔ اب عورت کو عقل آ گئی ہے۔ 

اب وہ گھر میں غلامی نہیں کرے گی۔ وہ ملازمت کرےگی ۔اس لیے اب تاریخ کا وہ دورشروع ہوچکا ہے، جس میں عورت، مرد کو تیر کی طرح سیدھا کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے،لیکن پھر بھی نہیں لگتا کہ وہ مرد کو قابو میں کر سکے گی،کیوں کہ مرد سے انتقام کے چکر میں عورت مرد کو سیدھا کرسکے یا نہ کر سکے، خاندانی نظام ضرور تباہ ہو جائے گا۔ اکثر دیکھا گیاہے کہ جب عورت کی ’’عزت نفس‘‘مجروح ہوتی ہے تو وہ مرد سے ہزاروں سالوں کا انتقام لینے کی ٹھان لیتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی گھائل شیرنی کی طرح خاندانی نظام کے ہر اس ستون پر اور ہر اس بنیاد پر ضرب لگاتی ہے، جس سے اس کی ’عزت ِ نفس‘ کو سکون ملتا ہے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خاندانی نظام کے تباہ ہونے سے عزت نفس کیسے واپس ملے گی؟ اس میں اہم کرداربچوں کا ہوتا ہے،وہ اس طرح کہ مرد کو بچے کی ضرورت ہوتی ہے،لیکن عورت اس معاملے میں کتراتی ہے،کیوں کہ وہ بچے کے بعد مجبور ہوجائے گی کہ ایسے مرد کے ساتھ گزارا کرے جو اس کی عزت نفس کچلتا ہواور اگر بغاوت کرے گی توبچے پالنا بھی اس کی ذمے داری ہوجائے گی۔

اس لیے اس کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ وہ بچے کی اپنی خواہش کو فنا کردےاور دنیا کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جائے۔ ہروہ پیشہ اپنائے جو مرد بنتے چلے آئے ہیں ،بس گھریلو نہ بنے۔ آج ایسی عورتیں بہت ہیں جو اس مردانہ نظام کے جبر تلے رہنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ وہ غلامی کی زندگی جینے سے بہتریہ سمجھتی ہیں کہ بغیر شادی کیے ساری زندگی گزار دیں۔ زندگی بھر مار کھا کر رہنے یا مردوں کے زیر دست رہنےسے بہترہے کہ وہ خاندانی نظام میں نہ رہیں۔ عورت ایسا کر سکتی ہے کیونکہ صدیوں سے اس کی عزت نفس کو کچلا جارہا ہے۔

اب وہ اسے واپس لینےکے لیے اپنا سب کچھ داوؤپر لگا سکتی ہے۔ عورت کے انتقام کی اس روش کو دیکھ کر آج کا مردکہنے پہ مجبور ہوجائے گاکہ بس اب بہت ہو چکا۔ گھر واپس آجاؤ۔ اب ہم تمہیں نہیں ماریں گے،اب جو کہوگی کریں گے،جیسے چاہو رہو، آ جاؤ، لیکن اس کی آواز میں اب بھی مردانہ گرج ہے۔ ابھی اس نے سمجھا نہیں ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سےپیدا ہوئی ہے اور اب مرد کی کیسی بھی گرجدار آواز اسے دہلا نہیں سکے گی۔ پہلے وہ بچوں کی خاطر’ کامپرومائز ‘کرتی تھی مگر اب نہیں،لیکن مرد سمجھتا ہے کہ عورت اس کے پھٹکارنے سے گھر واپس چلی آئے گی۔ یہ اس کی بھول ہے۔ عورت اب اس کے قابو سے باہر جا چکی ہے۔ 

اگرمرد کو خاندانی نظام بچانے کی فکر ہے تو ایک وقت وہ آئے گا کہ وہ پیار سے ، تہہ دل سے ، نرم لہجے میں پکارے گا، کہے گا تم میرے دل کی رانی ہو۔ تم میرے گھر کی ملکہ ہو۔ تمہیں تو بڑا اونچا مقام دیا گیا ہے ہمارے مذہب، ہماری تہذیب میں۔ پیاری، تمہیں تو اسلام میں بہت اونچا مقام دیا گیا ہے،لیکن اس اونچائی کا تعین وہ کبھی نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں کھوٹ ہے۔ وہ ایک بار بہلا پھسلا کر عورت کو گھر واپس لائے نہیں کہ پھر سے اس پر اپنی حکمرانی، اور بادشاہت مسلط کر دیتے ہیں۔

آج کے کچھ مرد گرج رہے ہیں اور کچھ گھگھیا رہے ہیں۔ سب کی ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح عورت گھر واپس آ جائے۔ لیکن عورت ہے کہ گھر سے بہت دور مریخ پر جا چکی ہے۔ وہ وہاں اپنا گھر بنائے گی، وہیں مر کھپ جائے گی۔ اسے کیا لینا ہے خاندانی نظام سے۔ یہ صدیوں کا سڑا گلا نظام جائے چولہے بھاڑ میں۔ اب وہ چلی گئی ہے مریخ پر اور اس سے بھی آگے جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ مرد اس کو نہیں روک سکتاہے۔ اب برابری کی جنگ نہیں ہے۔ برابری میں تو برابر برابر ملے گا، زیادہ تھوڑا ہی ملے گا۔ مرد کیا کیا چھوڑنے کو تیار ہے۔ کتنی ایثارو قربانی وہ خاندانی نظام کے لیے کر سکتاہے۔ زندگی پہلے بھی تجارت تھی اور اب بھی تجارت ہے اور مرد اس تجارت میں’ کامپرومائز ‘کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ عورت بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ اس کی اس پوزیشن کو ٹھیک سے سمجھنےکی ضرورت ہے۔

(مضمون نویس نے نام نہیں لکھا،برائے مہربانی،مضمون بھیجتے وقت اپنا نام لکھنا نہ بھولیں)

تازہ ترین