• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام کا صوبہ ادلب بڑی تباہی کا شکار

شام کا صوبہ ادلب بارہ اگست کو ایک اور بڑی تباہی کا شکار ہوا جس میں ایک عمارت کے انہدام کے نتیجے میں سڑسٹھ سے زیادہ افراد ہلاک اورتینتیس زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بارہ بچے بھی شامل تھے۔ آیئے، دیکھتے ہیں کہ ادلب شام میں کہاں واقع ہے اور وہاں کیا ہورہاہے۔

یہ صوبہ شام کے شمال مغرب میں واقع ہے جو شام کے ایک اور اہم شہر حلب سے صرف پچاس، ساٹھ کلومیٹرزکی دوری پر ہے۔ اتنا قریب ہونے کے باعث ادلب کے حالات پر حلب میں  ہونے والے واقعات کا خاصا اثر پڑتا رہا ہے۔ادلب شہر،ادلب صوبے میں واقع ہے۔اس صو بے کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں اور یہاں کی آبادی تقریباً پندرہ لاکھ ہے۔ ادلب شہر کی آبادی تقریباً دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ادلب میں زیادہ تر سُنّی مسلمان بستے ہیں ۔ تا ہم یہاں کچھ مسیحی آبادی بھی رہی ہے۔ ادلب کے اضلاع میںسےضلع اشرافیہ کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔دیگر اضلاع میںحِطّین، حجاز، حریت اور القصور شامل ہیں۔

شام میں 2011 میںبغاوت شروع ہوئی توادلب احتجاج کا مرکز بن گیا تھا اور خانہ جنگی کے ابتدائی مرحلے میں خاصا متاثر رہا تھا۔ اس دوران شہر پر باغیوں نے قبضہ بھی کرلیا تھاجس کے بعد شام کی حکومت نے جوابی کارروائی کرکے تقریبا ایک ماہ کی لڑائی کے بعد اس شہر پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا۔ مگر تین سال بعد، 2015 میں باغی گروہ، جن میں النصرہ فرنٹ اور احرار الشام ،شامل تھے،ادلب کی دوسری لڑائی میں اس شہر پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگئے تھے اور ساتھ ہی شیعہ اکثریتی قصبوں کا بھی گھیرائو کرلیاگیا تھا۔اس طرح 2015 میں ادلب شامی حزب مخالف کی تشکیل کردہ عبوری حکومت کا مرکز بھی بن گیاتھا۔ پھر گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں النصرہ فرنٹ کی جانشین تنظیم، تحریر الشام نے ادلب سے احرار الشام کو نکال باہر کیا اور پورے ادلب پر قبضہ کرلیا تھا۔

اب ہم ایک نظر حلب پر ڈالتے ہیں جو حلب صوبے کا مرکز ہے اور پچاس لاکھ کی آبادی کے ساتھ شام کاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔خانہ جنگی سے قبل حلب شام کا سب سے بڑا شہر تھا، مگر اب غالباً دمشق کے بعد دوسری بڑی آبادی کا حامل ہے۔ دمشق کی طرح حلب کو بھی دنیا کی تاریخ کے قدیم ترین آباد شہر کا درجہ حاصل ہے۔

خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد حلب بھی بڑی تباہی کا شکار بنا،جہاں بعض اندازوں کے مطابق پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ترکی سے قریب ہونے کے باعث اس حصے میں ترکی کا اثر و نفوذ بھی نمایاں ہے جس نے شام کی خانہ جنگی میں باغیوں کی مدد کی ہے۔پھر جب روس کی حکومت نے شام کی کھل کر حمایت و امداد شروع کی تو حلب سے ترکی کو ملانے والی شاہ راہ پر سرکاری افواج قابض ہوگئیں جہاں سے شامی باغیوں کو اسلحہ و گولہ بارود مل رہا تھا۔ اس دوران ترکی اور امریکا کے تعلقات بہترتھے اور امریکاشامی حکومت کے خلاف ترکی کو استعمال کرکے باغیو ں کو کمک پہنچارہا تھا۔ جس طرح 1980 کے عشرے میں افغانستان کی خانہ جنگی میں امریکا نے پاکستان کےفوجی آمر، جنرل ضیاء الحق کو استعمال کرکے افغان باغیوں کو، جنہیں مجاہدین کہا جاتا تھا، بھرپور طریقے سے اسلحہ فراہم کیا اور پاکستان کو ایک راستے کے طور پر استعمال کیا تھا۔بالکل اسی طرح ترکی بھی امریکا کی ایما پر شام میں باغیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔روس کی مددسے شامی افواج نے2016 کے اواخر تک حلب کو تقریباً تمام باغیوں سےخالی کرالیا تھا جس کے بعد 2017 میں تقریباً پانچ لاکھ مہاجرین،جو حلب چھوڑنے پر مجبور ہوگئےتھے، اپنے گھروں کو واپس آنے میں کام یاب ہوئے تھے۔

شام کا صوبہ ادلب بڑی تباہی کا شکار

اب صورت حال یہ ہے کہ شام کا نصف مغربی حصہ مکمل طو رپر شام کی سرکاری افواج کے قبضے میں ہے۔شمال مغرب کے کچھ حصے پر حزب مخالف کا قبضہ ہے۔ شمال مشرقی حصے پرجمہوری وفاقی شمالی شام کے نام سے ایک گروہ قابض ہے جسے روجاوا بھی کہتے ہیں۔ شمال مشرقی شام کا یہ حصہ بڑی حد تک خودمختار ہے جس میں تین خطے شامل ہیں، یعنی عفرین، جزیرہ اور فرات۔یہ حصہ 2012 سے اب تک خودمختار چلا آرہا ہے کیوں کہ یہاں کردوں کی اکثریت ہے جنہوں نے2016 میںاس حصے کو جمہوری وفاقی شمالی شام کا نام دے دیاتھا۔ ترکی کی طرح شامی حکومت نے بھی کردو ں کو مساوی حقوق نہیں دیے جس کے نتیجے میں اس حصے میں مرکزی شامی حکومت کے خلاف نفرت بڑھتی رہی ہے۔

اب ادلب میں ہونے والے دھماکے میں جو عمارت تباہ ہوئی ہے اس کے بارےمیں کہا جارہا ہے کہ وہاں اسلحے کے اسمگلرز نے کافی گولہ بارود جمع کررکھا تھا۔ گو کہ ادلب کے کچھ حصے پر اب بھی باغیوں کا قبضہ ہے اس لیے سرکاری فوج روس اور ایران کے ساتھ مل کر اس شہر سے باغیوں کا مکمل طورپرصفایا کرنا چاہتی ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق مذکورہ عمارت میں باغیوں کے خاندان بھی پناہ گزین تھے۔ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے جو اب ملبے میں دفن ہوچکے ہیں۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ اسے سرکاری فوج نے تباہ کیا ہو۔یاد رہے کہ شام کی خانہ جنگی میں اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہافراد ہلاک اور کئی شہر اور قصبے تباہ ہوچکے ہیں۔

شام کے موجودہ صدر بشار الاسد سے قبل ان کے والد حافظ الاسد تیس سال تک برسراقتدار رہنے کے بعد 2000 میں فوت ہوگئے تھے جس کے بعد اٹھارہ سال سے ان کے صاحب زادے اقتدار پر قابض ہیں۔ اس طرح تقریبا نصف صدی سے اقتدار ان ہی باپ بیٹوں کے ہاتھ میں رہا ہے۔حالاں کہ شام سےزیادہ تبدیلیاں تو سعودی عرب میں آچکی ہیں جہاں پچاس برسوں میں شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد، شاہ عبداللہ کے بعد اب شاہ سلمان برسراقتدار ہیں۔ اس طرح سعودی عرب میں ایک حکم راںکا اوسط دور اقتدار صرف دس سال رہا ہے،لیکن شام میں اس مدت میں صرف دو افراد نے حکومت کی ہے۔

شام کی خانہ جنگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ سُنّی اکثریت صدر اسد کی علوی شیعہ اقلیت سے خوش نہیں رہی اور دوسری طرف دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی انتہا پسند سُنّی تنظیمیں وجود میں آگئیںجنہوں نے شامی حکومت سے جنگ شروع کر د ی ۔ اس پر شیعہ اقلیتی حکومت کی ایران بھی مدد کرنے لگا اور پھر روس بھی کود پڑا۔ دوسری طرف ترکی اور امریکابھی شامل ہو گئے اور بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب بھی شام کی مخالفت میں دولت اسلامیہ اور القاعدہ کی مدد کرنے لگا۔ اس طرح کئی باغی گروہ وجود میں لائے گئے جنہوںنے مل کرشام کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقتی طور پر شام میں بشارالاسد کی حکومت دوبارہ اپنا اقتدار مستحکم کرنے میں کام یاب ہورہی ہے اور ادلب کے جو بچے کچھے علاقے باغیوں کے قبضے میں ہیں انہیں بھی جلد آزاد کرالیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ حالیہ دھماکا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

شام کی خانہ جنگی کا پانسہ پلٹنے میںباغیوںپرروس کے فضائی حملے خاصے مددگار ثابت ہورہے ہیں۔روس کا کہنا ہے کہ وہ صرف دہشت گردوں کو نشانہ بناتا ہے۔تاہم امریکا کا الزام ہے کہ وہ عام شہریوں کو بھی ہلاک کررہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران پر بھی الزام ہے کہ اس کے ہزا رو ں فوجی شام میں باغیوں کے خلاف لڑرہے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو باغی امریکی اور سعودی مدد سےبہت پہلے بشار الاسد کو اقتدار سے محروم کرچکے ہوتے۔ایران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شام کی سرکاری افواج کے شانہ بہ بشانہ لڑرہی ہے۔

دوسری طرف امریکا، فرانس، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک بھی باغیوں کی مدد کرتے رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب ایران کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ مبینہ طورپر اسرائیل سے بھی تعاون کرنے پرراضی ہے۔ اب امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب، ایران کے خلاف کارروائی کرنے کا سوچ رہے ہیں جس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں سعودی عرب نے یمن کے خلاف بھی فضائی حملے تیز کردیے ہیں جس میں سیکڑوں عورتیں اور بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ حالات اس خطے کے لیے کسی بھی طورپر اچھے نہیں ہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،چاہے وہ ترکی ہو یا شام، ایران ہو یا سعودی عرب، پاکستان ہو یا افغانستان۔ اس خطے میں امن اسی وقت ممکن ہے جب حکم راں یہ بات تسلیم کرلیںکہ جنگ یا خانہ جنگی کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مزید تباہی کا باعث بنتی ہے۔

تازہ ترین