• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہمانانِ گرامی:حورین فاطمہ،ثمرہ، فرزین، ابرار چوہدری

ملبوسات: ڈیزائنر براؤن ڈیویز

آرایش: کیٹ سیگنیچر سیلون

میل گرمنگ: رِشی ہئیر سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک بہت خُوب صُورت مضمون’’ عیدین: مقصد اور پیغام‘‘ پڑھا۔ اُس میں امّتِ مسلمہ کے دونوں تہواروں کی تشریح کچھ اتنے سادہ و عُمدہ انداز سے کی گئی تھی کہ تحریر سیدھی دل میں اُترتی محسوس ہوئی۔’’ رسولِ کریم ﷺ نے مسلمانوں کی خوشی و مسرّت کے دو دن( تہوار) مقرّر اور پسند فرمائے ہیں۔ ایک عیدالفطر، جسے رمضان کے اختتام پر منانے کا اہتمام کیا جاتاہے اور دوسری عیدالاضحٰی، جو حج کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔ دراصل ربّ کریم نے مسلمانوں کی دونوں عیدین کو قرآنِ مجید( کتابِ ہدایت) کے توسّط سےبھی، اُن کے لیے خاص لُطف وکرم، رُشد وہدایت کا ذریعہ بنایا۔ رمضان المبارک نزولِ قرآن کے آغاز کا مہینہ ہے۔ ترجمہ: ’’ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ تو گویا عیدالفطر ماہِ صیام کا انعام تو ہے ہی، لیکن نزولِ قرآن کی خوشی و مسرّت، جشن کا بھی دن ہے۔ اسی طرح عیدالاضحیٰ سے ایک روز قبل(عرفہ کے دن) اللہ ربّ العزّت نے فرمان نازل کیا۔ ترجمہ: ’’ آج کے دن میں نے تمھارے لیے، تمھارے دین کو مکمل کردیا‘‘ یعنی عیدالاضحیٰ، سنّتِ ابراہیمیؑ کی یادگار کے ساتھ ساتھ تکمیلِ قرآن کے شُکرانے کا بھی دن، تہوار ہے۔ 

ہماری دونوں عیدوں کا ایک خاص مقصد و پیغام ہے۔ رمضان سے صبر و تقویٰ، رحم دلی و ہم دَردی، نظم وضبط اور نفس پر قابو پانے کا درس ملتا ہے، تو عیدِ قرباں کے ذریعے اپنے رب پر کامل یقین، بھروسے اور دین پر مکمل اعتقاد کی تربیت کے ساتھ ایثار و قربانی اور سرفروشی و جاں نثاری جیسے الوہی احساسات و جذبات کی تعلیم دینا بھی مقصود ہے۔‘‘ مگر… بات تو تب بنتی، جب امّتِ مسلمہ اپنے اِن دونوں تہوراروں کے اصل مقصد و مفہوم، حقیقی روح، پوشیدہ پیغام کو سمجھتی، اُسی طور اپناتی، عمل پیرا ہوتی، جیسا کہ حق ہے۔ رمضان المبارک کے آغاز ہی سے عمومی ماحول تبدیل ہونے لگتا ہے اور بہ قول مولانا مودودی ؒ ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح ہوتا ہے کہ اُس کی ناک کے پاس آئینہ رکھ دیا جاتا ہے۔ اگر آئینے میں کچھ دھندلاہٹ ہوتو سمجھا جاتا ہے کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ زندگی کی آخری اُمید بھی ختم۔ 

اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا امتحان لینا مقصود ہو تو اُسے رمضان میں دیکھنا چاہیے۔ اگرخوفِ خدا، نیکی اور تقویٰ کے کچھ جذبات نظر آئیں، تو سمجھیں ابھی زندہ ہے اور اگر اس ماہ بھی نیکی کا بازار سرد، فسق وفجور کے آثار نمایاں رہیں، تو پھر’’انا للہ واِنا اِلیہ رَاجعُون‘‘ پڑھ لیں۔‘‘ تو رمضان میں تبدیلیٔ ماحول یقیناً زندگی کی علامت، ایک خوش آیند امر ہے۔ اسی طرح عید الاضحیٰ پر جانوروں کی خریداری سے لے کر اُن کی دیکھ بھال، قربانی اور گوشت کی تقسیم تک عموماً جو ذوق و شوق، جوش و جذبہ نظر آتا ہے، بلاشبہ وہ بھی قابلِ تحسین ہے، مگر اِن احساسات و جذبات کی عُمر، عرصہ کتنا رہتا ہے۔ نیز، اُن کے ذریعے جو سبق، درس دینا مقصود تھا، وہ ہم نے کتنا اور کہاں تک حاصل کیا۔ بہ قول اقبال ؎ یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہوتی…حرم کے درد کا دَرماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں… یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور…تیری خودی کے نگہباں نہیں، تو کچھ بھی نہیں…خِرد نے کہہ بھی دیا لاالہٰ تو کیا حاصل…دل و نگاہ مسلماں نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔

تو اس عیدالاضحیٰ ، اگر دل ونگاہ کو مسلماں کرنے کی بھی کوئی صُورت بنے۔ کوئی ایک عمل، طور طریقہ، چلن خالصتاً خوفِ خدا، خلوصِ دل، نیک نیّتی کے سبب ہو، تو یقین کریں، آپ کے اس ایک سُچّے موتی جیسے انفرادی عمل سے دیکھتے ہی دیکھتے پوری لَڑی( موتی مالا) نہ پروئی گئی، تو کہیے گا۔ عطاء اللہ عیٰسی خیلوی اپنی پُر سوز آواز میں کتنے برسوں سے چِلّا رہے ہیں’’جب آئے گا عمران،سب کی جان…بڑھے گی اس قوم کی شان… بنے گا نیا پاکستان‘‘لیکن ایمان داری سے کہیے، کتنے لوگوں کو یقین تھاکہ’’روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئی رے‘‘ بالآخر آکے رہے گی۔ بے شمار لوگ تو(ہم سمیت)ابھی تک سکتے کی سی کیفیت میں ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ جو بھٹّو صاحب کہتے تھے ’’عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ تو عوامی طاقت، بہر کیف بہت وزن رکھتی ہے۔ تو ہم نے پُٹھے کاموں، دو نمبریوں ہی پر اپنی ساری طاقت، توانائی ضرور صَرف کرنی ہے۔ کسی ایک اچھے عمل کی پہلی اینٹ، بنیاد رکھ کر اس پہ دیوار کھڑی، عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی۔14 اگست کو ہر ایک کے نام سے اگر ایک ،ایک پودا لگ جاتا یا بیج ہی بو دیا جاتا، تو آج20کروڑ ننّھی کونپلوں نے تو سَر اُٹھا ہی لیاہوتا۔ اور پھر اگلے یومِ آزادی تک پورا مُلک’’ہم پہ یہ کس نے ہرا رنگ ڈالا‘‘ کے مصداق کیسا ہَرا بھرا، سرسبز و شاداب نظر آتا۔

اِسی طرح اگر اِس عیدالاضحی کے موقعے پر ہر ایک، خود سے صرف ایک وعدہ کر لے، عہد باندھ لے، مثلاً: عید کا مطلب ہی’’خوشی و مسّرت، شادمانی و راحت‘‘ ہے، تو ہمیں صرف خوشی حاصل نہیں کرنی، اُسے پھیلانا، بانٹنا بھی ہے، خواہ وہ کسی ایک چہرے پہ بکھری اُجلی مسکان کی صُورت ہی کیوں نہ ہو۔ بڑی عید صرف نام کی بڑی نہ ہو، اعلیٰ ظرفی، بڑے پَن، بڑے دِل کے مظاہر بھی نظر آئیں۔ چاہے وہ کسی غریب نادار کو، چھیچھڑے یا چربی زدہ گوشت کے بجائے صاف ستھری چند بوٹیاں دینے ہی کی حد تک کیوں نہ ہو۔ عیدِ قرباں پر قربانی، صرف جانور ہی کی نہ ہو، اپنے نفس، اَنا،’’مَیں‘‘ پر بھی کم دھار ہی کی سہی، چُھری پھیرنے کی سعی ضرور ہو، اور بے شک یہ قربانی، کسی روٹھے کو منانے، ناراض کو راضی کرلینے، بات چیت میں پہل تک ہی کیوں نہ ہو۔ اور… صبر وتحمّل، نظم و ضبط، ایثار وقربانی، محض بقر عید سے مشروط چند الفاظ ہی نہ ٹھہریں، قول و فعل میں کہیں نہ کہیں اِن کا اثر و تاثیر بھی ضرور محسوس ہو، خواہ وہ کوئی خلافِ مزاج بات برداشت کرنے کی صُورت ہو یا قربانی کے عمل میں نظم وضبط برقرار رکھنے کی حد تک۔ بہر کیف، اس عیدالاضحیٰ پر اپنے دل کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر، دماغ سے کوئی ایک ایسی اچھی قرارداد ( خواہ وہ یک نکاتی ہو یا چند نکاتی) تو ضرور ہی منظور کروائیں اور پھر اگلا پورا برس اُس پر عمل درآمد کی کوشش بھی کریں کہ نفس کی قربانی دینے ہی سے جانور کی بھی قربانی قبول ہوتی ہے۔ اور اس ضمن میں سورۃ الحج کی اس آیت کے بعد کہ’’ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اُسے تو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ بھلا کوئی بھی اور بات کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔

عیدالاضحیٰ کے اِس خُوب صُورت پیغام کے ساتھ کہ ؎ ہزار جشنِ مسرت تِرے گلستاں میں… ہزار رنگِ طرب، تیرے رُوئے خنداں پر… جُھکی ہے شوکتِ کونین تیرے قدموں میں…پڑا ہے سایہ تِرا اوجِ سربُلنداں پر… تجھے عزیز تو ہے سنّتِ براہیمیؑ… تِری چُھری تو ہے حلقومِ گوسفنداں پر… مگر تجھے اس بات کا خیال آیا…؟تِری نگاہ نہیں، دردِ دردمنداں پر۔ ہماری جانب سے اس’’ اسپیشل بزم‘‘ کی صُورت یہ چھوٹا سا ’’ہدیۂ تہینیت‘‘ بڑی عید کی بڑی بڑی مبارک باد کے ساتھ قبول کیجیے۔ اللہ کرے یہ عید سب کو راس آئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین