• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نجیب جمال

امر واقعہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں عالمی سطح پر امن کا مسئلہ، ایک ایسا سوالیہ نشان بن چکا ہے، جس کا حل تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر کے دانش ور، بہت سے مغالطوں میں مبتلا ہیں۔ عصر ِحاضر میں جیسے جیسے انسانی صورتِ حال روز افزوں پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جارہی ہے، ویسے ویسے عالمی امن کا مسئلہ بھی ایک معمے کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ آج دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے اور ماجرا یہ ہے کہ ایک طرف ساری دنیا دہشت گردی کے خلاف متحد ہوچکی ہے، تو دوسری طرف شاید کسی کوپوری طرح علم نہیں ہے کہ موجودہ دہشت گردی کا اصل منبع کہاں ہے؟ سچ اور جھوٹ میں کیا فرق ہے؟ خیر اور شر میں کیسا تفاوت ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ’’خرد کا نام جُنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد‘‘ یا کچھ ایسا لگتا ہے، جیسے جھوٹ نے فہم و فراست اور سچ نے مصلحت و دانش کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ یہ افتراق کم ہونے کی بجائے، بڑھتا ہی جارہا ہے، شاید اسی لیے زندگی کی حقیقت اور معنویت بھی اب فکشن لگنے لگی ہے۔ زندگی آج جن روشوں پر رواں دواں ہے، وہاں خوف، درندگی اور دہشت کا راج ہے، لوگ یقین و گمان کے بیچ معلّق ہیں، ایسے میں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ علم و ادب کی بنیاد پر زندگی کے حقائق کو سمجھا اور سمجھایا جائے۔ تعقل، تفکر اور احساسِ مروت، جو انسان اور انسانیت کے بنیادی حضائص ہیں، کی مدد سے علم اور آگہی کو آگے بڑھایا جائے۔ اسی طرح ادب کو بھی دانش وری کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا، وہ ادب، جوہمیں افیون دے کر سلاتا ہے، اس کی نہ تو کل ضرورت تھی اور نہ آج، بلکہ ضرورت ہے تو ایسے ادب کی، جو ہمیں زندگی کی حقیقی آگہی عطا کرے، ہمارے شعور ِحیات میں اضافہ کرے اور ہمارے مغالطوں، ابہام اور شکوک و شبہات کو رفع کرے۔ خارجی حقائق کو استقرائی نقطہ نظر سے دیکھنے کی سعی کرے تو دوسری طرف وہ سائنسی فکر کا بھی علمبردار ہو۔ اس اعتبار سے آج کے ادیب کو معلم، فلسفی اور سائنس دان کا فریضہ ادا کرنا ہے، اسے انسانیت کے دکھوں اور ناسوروں کا مداوا کرنا ہے اور اپنے قلم کو ایسا نشتر بنانا ہے، جو دل و دماغ میں پڑے ہوئے فاسد مادّے کا اخراج کرسکے۔ آج، جب کہ پھیلی ہوئی دنیا سمٹ چکی ہے، ساری دنیا کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی یہ مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ زندگی کے حقائق کو ممکن حد تک معروضی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ ساری دنیا کے لوگوں پر امن، سکون، رفاقت، دردمندی، دوستی، محبت، تحمل، برداشت، ضبط، قناعت، موانست اور مواخات جیسی اقدار کو اعلیٰ انسانی معیار کے طور پر واضح تر کریں۔ ادب میں اس طرزِ فکر کے ساتھ، ایک خاص نوع کا طرز احساس بھی وابستہ ہوناچاہیے، جس کی وجہ سے ہی ادب میں تاثیر جنم لیتی ہے اور اسی تاثیر کے ذریعے انسان کے محسوسات میں ایک خاص قسم کی گہرائی اور وسعت کا احساس ابھرتا ہے، جواس امر کا ثبوت ہے کہ ادیب، زندگی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بات کرتا ہے، آج کے ادیب کو رائج الوقت تصورات کے مطابق ہی تخلیقی صداقتوں کا اظہار کرنا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں اردو ادب نے ہمیشہ وقت کے نازک لمحوں کا ادراک کیا ہے۔ سرسید، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، حالی، آزاد، عبدالحلیم شرر، ابو الکلام آزاد، حسرت موہانی، سلیمان ندوی اور اقبال، ادب کے بھی نمائندہ ہیں اور دانش کے بھی۔ بیسویں صدی کو عام طور پر بہ یک وقت انسان کی کامرانیوں اور بے رحمیوں کی صدی قرار دیا گیا ہے اور اکیسویںصدی کو بھی اسی کا تسلسل سمجھا جارہا ہے۔ اندیشے، خوف، عدم تحفظ اور آج کی دہشت آمیز فضا میں انسان کے بے وقعت اور ناچیز ہونے کا احساس، وہ بنیادی تجربے ہیں، جو اس عہد کے شعر و ادب میں بھی ظاہر ہوئے ہیں اور تخلیقی فنون میں بھی۔ اطمنان کی بات یہ ہے کہ سائنس کے ساتھ ساتھ، ادب بھی انسانی مستقبل کے بارے میں پُر امید ہے، تاہم ابھی تک یہ سوال باقی ہے کہ آج، جب کہ تیسری دنیا کے ممالک ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں غیر انسانی صورتِ حال کا شکار ہیں، ایسے میں آج کا ادیب کس منظرنامے کو حقیقی انسانی صورتِ حال تصور کرے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آج کا ادیب، اپنی انسانی ذمے داریوں سے آگاہ بھی ہے یا نہیں؟ پتہ نہیں مغرب کو فلسطین، افغانستان، کشمیر اور عربوں کے مسائل کا علم ہے کہ نہیں، یہ میں جانتا ہوں کہ ہمارے ادیبوں اور شاعروں کا ضمیر پوری طرح مُردہ نہیں ہوا ہے۔ ادیب اور شاعر آج بھی انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں، اس لیے اگر آج کا ادیب محبت، مروت اور امن کے لیے جدوجہد کرے تو انسان اور انسانیت کے شاندار مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین