• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصطفٰی جاوید

’’بابا بابا ! تِین دِن رہ گئے ہیں قربانی والی عید میں۔ ہمیں بھی گوشت ملے گا ناں؟‘‘، شازیہ نے اپنے بابا سے پوچھا

بابا، ’’ہاں ہاں کیوں نہیں بالکل ملے گا‘‘

’’لیکن بابا پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا، اب تو پورا سال ہو گیا ہے گوشت کی شکل دیکھے ہوئے بھی‘‘۔ شازیہ

’’نہیں شازیہ، اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا، میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں اور ماسٹر جی بھی تو بکرا لے کر آئےہیں، ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے۔ امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں۔ پھر مولوی صاحب جمعہ کو خطبہ میں بتا رہے تھے کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہیے۔ ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔

شازیہ کے بابا نماز عید ادا کر کےگھر آگئے، گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد شازیہ نے کہا، بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا۔

بڑی بہن رافیہ نے کہا، ’’چپ ہو جاؤ شازیہ، بابا کو تنگ نہ کرو‘‘۔

وہ چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا اور نظرانداز کرتا رہا۔ کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں نے کہا، ’’سنیں میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیئے ہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا، کہیں ہماری طرف گوشت بجھوانا بھول تو نہیں گئے، آپ خود جا کر مانگ لائیں۔ شازیہ کی ماں تمہیں تو پتہ ہے، آج تک ہم نےکبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا، اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔ دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے اصرار پر پہلے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے، اُن سے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب، میں آپ کا پڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتا ہے؟‘‘ یہ سننا تھا کہ، ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا، اور حقارت سے بولے، ’’پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے‘‘، یہ کہہ کر تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا۔ توہین کے احساس سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بھوجل قدموں سے آگے بڑھ گئے۔ راستےمیں ماسٹر جی کے گھر کی طرف قدم اٹھے اور وہاں بھی وہی دست سوال۔ ماسٹر جی نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور اندر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر آئے اور ایک شاپر دے کرجلدی سے اندر چلے گئے۔ جیسے اس نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔ گھر پہنچ کر دیکھا تو اُس میں صرف ہڈیاں اور چربی تھی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ 

بیوی اُن کے پیچھے پیچھے آئیں اُنہیں تسلی دیتے ہوئے کہا، کوئی بات نہیں، آپ اُداس نہ ہوں۔ میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔ اُسی لمحے شازیہ کمرے میں آئی اور کہنے لگی، ’’بابا، ہمیں گوشت نہیں کھانا، میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ویسے بھی‘‘، یہ سننا تھا کہ اُس کے بابا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے لیکن رونے والے وہ اکیلے نہیں تھے۔ دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہے تھے۔ اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی۔ جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ’’انور بھائی، دروازہ کھولو‘‘۔ دروازہ کھولا تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر دیا اور کہنے لگا کہ، گاؤں سے چھوٹا بھائی لایا ہے، اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے، تم بھی کھا لینا۔ خوشی اورتشکر کے احساس سے اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اکرم کے لیے دل سے دعا نکلنے لگی۔ گوشت کھا کر ابھی فارغ ہوئے ہی تھے کہ، بارش شروع ہو گئی۔ 

اس کے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔ دوسرے دن بھی بجلی نہیں آئی، پتا کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا ہے۔ تیسرے دن اُس کے بابا شازیہ کو لے کرباہر آئے تو دیکھا، ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب ڈھیروں گوشت باہر پھینک رہے ہیں، جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا اور اس پر کُتے، بلیاں جھپٹ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر شازیہ نے کہا کہ، ’’بابا، اُنہوں نے قربانی کس کے لیے کی تھی‘‘۔ ماسٹر جی اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔

تازہ ترین