• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں تھری ڈی اور مصنوعی ذہانت اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں۔ اس وقت تقریباً ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانے کے لئے کام جاری ہے اور اب تحقیق کاروں نے تھری ڈی کے شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت سے استفادہ حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کام کرنے والے تحقیق کار، دو جہتی میدان کی جگہ تھری ڈی میں مصنوعی ذہانت کی مدد لیں گے۔ تحقیق کاروں نے فیصلہ کیا ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ایسا نظام وضع کریں جو تھری ڈی کی بنیادی منظر کشی کرے کیوں نہ وہ مصنوعی ذہانت کو اس شعبے میں براہ راست متعارف کروا دیں۔

اس طریقۂ کار کو اپنانے سے روبوٹکس اور بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیوں کے شعبے میں نمایاں بریک تھرو حاصل ہو گا اور اس طرح مشینوں کو زیادہ مؤثر انداز میں کام کرنے کی صلاحیت حاصل ہو گی۔ ایم آئی ٹی کے شعبےبرین اینڈکاگنیٹیوسائنسز کے پروفیسر جوش ٹینن بام جو اس نظریے کے خالق بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ لرننگ بیسڈ ویژن سسٹم کے لئے ایک بہترین اور پرجوش ٹرینڈ ہے اور اس کی مدد سے اشیا کو صرف تھری ڈی کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ ان ٹھوس اجسام کا گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے اس کے پیٹرن کے بارے میں تمام تر جزئیات حاصل کی جائیں گی چاہے وہ کوئی جانور ہو، میز ہو یا پھر کرسی۔ پروفیسر جوش نے اس مقصد کے لئے مشین لرننگ کی تکنیک کو استعمال کیا جس کے ذریعے معاندانہ ماڈلنگ کو تخلیق کیا جاتا ہے۔ 

اس کمپیوٹر کو تھری ڈی کی خصوصیات کو جاننے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طریقۂ کار کے تحت نئے آبجیکٹس تخلیق کئے جا سکتے ہیں جو تکنیکی اور فزیکلی بالکل درست ہوں۔ تحقیق کاروں کی ٹیم نے اپنی اس کاوش کے نتائج چند روز قبل بارسلونا (اسپین) میں ہونے والی کانفرنس میں پیش کئے ہیں۔ اس حوالے سے پروفیسر جوش کا مزید کہنا ہے کہ یہ وہ واحد تکنیک ہے جس کی مدد سے مادی دنیا کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ کاگنیٹیو سائنسز میں ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسان سہ جہتی اجسام کو خاص تناظر میں دیکھنے کے بعداسے کارروائی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ فطری طور پر یہ تاثر ہے کہ میز کرسی سے زیادہ بھاری ہوتی ہے، اس کے علاوہ کرسی پر بیٹھے ہوئے پیچھے کی جانب زیادہ جھکنے سے گر سکتے ہیں، یہ وہ ادراک ہے جس کی بنا پر انسان معاملات کو خاص تناظر میں دیکھتا ہے اور پھر کوئی قدم اٹھاتاہے۔ 

جوش کے علاوہ بھی کئی تحقیق کار سہ جہتی شعبے کو مزید آسان بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں، جس کے تحت سادہ اور آسان خیالات کو اس طرح ڈویلپ اور ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے جس کی مدد سے اسے حقیقی دنیا میں درست انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مائیکرو سافٹ میں ایک گروپ نےایک ایسا مشین لرننگ سسٹم پیش کیاہے، جو کمپیوٹر گیم مائن کرافٹ کے تجرباتی ورژن کے اندر تیار کیا گیا ہے۔ پروفیسر جوش کا ماننا ہے کہ حقیقی دنیا میں پیش آنے والے عوامل ہی مصنوعی ذہانت کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

توقع ہے کہ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے محققین کے لیے مستقبل میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کی نئی جہتیں متعارف کرائی جائیں گی۔

ایک اور پروجیکٹ میں پہلے ہی روبوٹس پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلی کی ایک ٹیم نے پروفیسر سرگی لیوائن کی سربراہی میں ایک ایسا سسٹم تیار کیا ہے ، جو ویڈیو اِمیجری اور تجربات کے اشتراک سے حقیقی دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پروفیسر سرگی لیوائن اور ان کی ٹیم اس پروجیکٹ کے ذریعے فزکس کو عام فہم بنانے کی کوشش کررہی ہے، جہاں ایک روبوٹ کسی چیز کو زور سے مُکا مارتا ہے اور پھر اس کے اثرات کو تصوراتی دنیا میں جانچا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح سے اس روبوٹ میں نئے نئے کام انجام دینے کی صلاحیت پیدا کی جاسکے گی۔

پروفیسر جوش ٹینن بام واحد محقق نہیں، جو اس خیال کے حامی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ایکشن (عمل) کو حقیقی دنیا میں سمجھا جائے۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر نینڈو ڈی فریٹاس بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ، حقیقی دنیا کو سمجھے بغیر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی کمی رہ ہی جائے گی۔پروفیسر نینڈو ڈی فریٹاس نے یونیورسٹی میں ایب بار تقریر کے دوران کہا تھا،’ ’فزکس کو سمجھنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ حقیقی دنیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ’انٹرایکشن‘ رکھا جائے۔پکسلز کے ذریعے سیکھنا کافی نہیں ہے‘‘۔

تازہ ترین