• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسلام

عید الاضحی جسے بعض لوگ ’’بکرا عید ‘‘بھی کہتے ہیں۔اسی نشبت سے شہری میں’’جانوروں‘‘کی آمد بڑھ گئی ہے۔چونکہ مقامی جانوروں سے ہماری ضرورت پوری نہیں ہوتی اسی لئے اندرون سندھ اور پنجاب سے بڑے پیمانے پر جانور منگوانے پڑتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود فرزندان توحید اپنی خوہش کے مطابق کم قیمت پر جانور خرید نہیں پاتے ۔

ہر سال عید آتی ہے ہر سال گائیں اور بکرے فروخت ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہر سال مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔اس سال بھی جانوروںکی قیمتیں (زمیں سے باتیں کرنے کے بعد )آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور جب قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی تو ان کی گفتگوسن کر لوگوںکے ہوش اڑجائیں گے ممکن ہے بعض لوگوں کو دیواروںسے باتیں کرنا اچھا لگنے لگے ۔قربانی کے جانور خواہ کتنے ہی مہنگے کیوں نہ ہو لیکن ان جانوروںکی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ کراچی جیسے بے رحم شہر میں ’’بے موت‘‘ نہیں مارے جاتے بلکہ ایک اعلیٰ مقصد کیلئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرتے ہیں۔گائیںاور بکرے جوں جوں مہنگے ہوتے جارہے ہیں، قربانی کرنے کے خواہش مند حضرات خاصے پریشان ہیں،کچھ لاغراور مریل بکروںسے ہی کام چلالیتے ہیں،کچھ لوگ ایسے جنگلی بکرے تلاش کرتے ہیں جن کے بال اس طرز کے ہوتے ہیں جیسے کچھ مخصوص نوجوانوں نے آج کل رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے ایک دوست کا لہنا ہے کہ’’گائےاور بکروں کی قیمتوںمیں مسلسل اضافے کے باعث لوگوں میں ’’مرغے ‘‘کی قربانی کا رجحان جنم لے سکتاہے‘‘اگر یہ مفروضہ تسلیم کرلیں تو گائیں اور بکروں کی قربانی محدود ہوجائے گی اور لوگ ’’مرغے‘‘قربان کرنے میں ذوق و شوق کا مظاہرہ کریں گے ۔اگر مہنگائی بڑھنے کی رفتاریہی رہی تو بہت ممکن ہے، 21 ویں صدی میں لوگ مرغ کی قربانی میں سات حصے کریں، اس طرح اپنا حصہ گھر تک لے جانے میں آسانی پیدا ہوجائے گی ۔

جب ایسا ہوگا تو بکروں کی پیڑیوں کی طرح مرغوں کی پیڑیاں بھی لگا کریں گی، جس میں طرح طرح کے رنگ برنگے ،اونچے نیچے ،موٹے اور دبلے مرغے قربانی کےلئے گھر لائیںگے ۔دوردور سے بچے مرغے کو دیکھنے آئیں گے ۔آپ انہیں عام مرغا تصور نہ کریں، بلکہ جناب بات یہ ہے کہ اگر ’مرغا پیڑی ‘‘میں ان مرغوں کے پروںپر مہندی لگی ہوگی ،ان کے جسم پر رنگ برنگی پنیاں جھلملارہی ہوں گی اور قیمتی بکروں کی طرح کچھ خصوصی مرغوں کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوگی ۔گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان سجے سجائے مرغوں کی قیمت ایک لاکھ تا دس لاکھ طلب کی جائے گی،اگر ایسا ہوا تو بکروں کی مارکیٹ و یلیوکم ہوجائے گی اور مرغے ،بکروں کی پرانی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے فروخت ہوں گے لیکن صاحب مرغے کی قیمت پر مت جائیے ۔یہ دیکھئے کہ اگر مرغے کی قربانی دی گئی تو اس کے کس قدر فوائد ہوںگے ،مثلاََ آج کل بکرے کو ذبح کرنے کا معاوضہ 500 روپے اور گائے 1000 ،2000 تک وصول کیا جاتا ہے لیکن مرغے کی قربانی میں قصاب کے پیسے بچائے جاسکتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ ہر بقر عید پر قصابوں کی علیحدہ سے عید ہوتی ہے۔ادھر چھری پھیری اادھر کھال کھینچی ،جانور کی بوٹیاں اور اپنی دیہاڑی بنائی ،یہ جاوہ جا ۔قصاب کی مصروفیات کے باعث’’دونمبر قصاب ‘‘بھی بقر عید پر اپنے جوہر دکھاتے ہیں ۔چاپڑ بکرے کی ران پر مارتے ہیں اور نشانہ ٹخنے پر لگتا ہے، اس طرح بوٹیوں کی قیمہ اور ہڈیوںکا چورا کر کے اجرت وصال کرلیتے ہیں لیکن جناب ؟ مرغے کی قربانی سے اس زحمت سے نجات مل جائےگی، کیونکہ مرغا ہر کوئی ذبح کرسکتا ہے،اس طرح قصائیوں کے ’’نخرے شخرے‘‘بھی ختم ہونے کا امکان پایا جاتا ہے

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب گائیں اور بکرے ذبح کئے جاتے ہیں تو ان کی اوجھڑیاں نکال کر گلیوں ، بازاروں اور کچرا کنڈیوں کے اطراف میں پھینک دی جاتی ہیں، جس سے تعفن میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سی اوجھڑیاں دیکھ کر بعض لوگوں کو’’اوجھڑی کیمپ ‘‘کی یاد آنے لگتی ہے۔اس کے برعکس مرغے کی اوجھڑی ہوتی ہی کتنی ہے اگر انہیں گائیں اور بکرے کی اوجھڑیوں کی طرح لاپروائی سے پھینکا بھی گیا تو وہ اس قدر تعفن کا سبب نہیں بنیں گی جتنی گائیں اور بکروں کی اوجھڑیاں بنتی ہیں اس کے سا تھ ساتھ بلدیہ کے عملے کو بھی صفائی کرنے میں آسانی ہوگی۔بلدیہ کاٹرک ایک ہی پھیرے میں صفائی مکمل کرلے گا اور اگر اس کے باوجود بلدیہ کا عملہ صفائی نہ کرسکے تو سمجھ لیجیئے کہ بلدیہ کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے ۔ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جانور کی قیمتیں اس قدر کم کردے کہ ہر مسلمان بقر عید پر بکرے ذبح کرسکے اور اسے مرغے کی قربانی کا خیا ل تک نہ آئے ( آمین)

تازہ ترین