• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭ ’’کئی دن سے یہاں بکرے لے کر بیٹھی ہوں ،تاحال ایک بھی فروخت نہیں ہوا۔گاہک کو قیمت پچیس ہزاربتاؤ تو وہ بارہ ہزار میں لینا چاہتا ہے،ہم اپنا گھربار چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہیںکہ دو وقت کی روٹی کے لیے پیسہ کما سکیں،لیکن گاہک چاہتے ہیں کہ بکرا مفت میں لے جائیں‘‘۔ سعیدہ ٭ ’’صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتی ہوں اور ہر سال بقرعید سے پہلے شوہر کے ساتھ بکرے لے کر کراچی آجاتی ہوں،یہاں اچھے دام مل جاتے ہیں۔‘‘شانتی ٭ ’’شہر میں لوگ بہت بھائو تائو کرتے ہیں۔ جانور کی آدھی قیمت لگاکر چلےجاتے ہیں۔ ان کی خوراک کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میرے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ بچوں کا پیٹ بھروں یا بکروں کا؟‘‘ لالی

عیدالاضحی کے موقعے پرقربانی کا فریضہ انجام دینے کے لیے شہر ِکراچی کے مضافات میںعید سے کئی روز قبل ’’مویشی منڈی‘‘ سج جاتی ہے، جہاں ملک بھر سے فروخت کے لیے مویشی لائے جاتے ہیں۔ بقرعید سے تقریباً 15 روز پہلے لگنے والی مویشی منڈی میں لوگوں کی آمدورفت عید کے قریب آتے ہی بڑھ جاتی ہے ،جو نماز عید تک جاری رہتی ہے۔ مویشی منڈی کا دورہ کرنے والوں میں بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں کے ساتھ خواتین خریدار بھی بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ کہیں بھائو تائو کرتے ہوئے خریدار ہوتے ہیں تو کہیں محض تفریح کی غرض سے آئی ہوئی نوجوانوں کی ٹولیاں دکھائی دیتی ہیں۔

اِن دنوں یہ رونقیں محض مویشی منڈی تک ہی نہیں بلکہ شہر بھر میں پھیلی ہیں، شہر کے معروف چوراہوں، فٹ پاتھوں اور چھوٹی مارکیٹوں کے آس پاس بیوپاری اپنے مویشیوں خاص کر چار یا چھ بکروں اور دنبوں کی ٹولیوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے گروپوں میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، چونکہ مویشی منڈی میں اسٹالوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے جانور شہر میں ہی چھوٹی منڈیوں میںفروخت ہوجائیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور خریدار شہر سے دور منڈی تک جانے کی تکلیف سے بچنے کے لیے سڑک کنارے کھڑے ان بیوپاریوں سے بھائو تائو کر کے من پسند جانور لے جاتے ہیں ،اس طرح سوزوکیوں یا ٹرکوں کے بھاری کرایوں سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ گویا ہر شخص اپنی سہولت کے مطابق قربانی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتا ہے،لیکن اپنی استطاعت کے مطابق من پسند جانور ملنابھی گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔جانوروں کے دام کے ساتھ بیوپاریوں کے دماغ بھی آسمان پر ہوتے ہیں،تاہم گاہکوں کے مطابق چھوٹے پیمانے پر جانور فروخت کرنے والی خواتین ،مرد بیوپاریوں کی نسبت زیادہ بہترطریقے سے سودا طے کرلیتی ہیں۔مردوں کے شانہ بشانہ ،سرد و گرم کا مقابلہ کرتی ہوئی خواتین میں کچھ تو جانوروں کو پال پوس کر بازار میں لاتی ہیں اور کچھ ٹھیکے یا ادھارپرجانور لے کر بازار کا رخ کرتی ہیں۔انگنت دکھوں اور مصائب بھری کہانیاں لیے،ان محنت کش خواتین کے گھروں کا دال دلیہ ایسے ہی چھوٹے کاروبار سے چلتا ہے۔

ناگن چورنگی پر سڑک کنارے جھگیوں کی ایک بستی سے ملحق بکروں کے چھوٹے ریوڑ سنبھالتی اور گاہکوں سے بھائو تائو میں مصروف خواتین سے جب ہم نے بات کرنا چاہی تو،پانچ بکروں کو ہانکتے ہوئے، حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی خاتون ’’لالی‘‘ نے بتایا کہ ’’آج یہاں پہلا دن ہے اور ایک بکرا فروخت کرچکی ہوں، لیکن ان پر صرف ایک ہزار روپیہ کمایا۔ ہمیں نقصان ہوگیا۔ شہر میں لوگ بہت بھائو تائو کرتے ہیں۔ جانور کی آدھی قیمت لگاکر چلےجاتے ہیں۔ ہماری تو روزی روٹی یہی ہے اگر ہمیں اس میں نقصان ہوجائے تو سارا سال پریشانی میں گزارناپڑتاہے‘‘۔ ہمارے سوال کے جواب میں کہ سال بھر کیا کام کرتی ہیں؟ لالی نے کہا کہ ’’حیدرآباد سے آگے ایک چھوٹے گائوں میں رہتی ہوں۔ سارا سال وہاں آلو اور پیاز کا ٹھیلہ لگاتی ہوں۔ میرا شوہر بھی ٹھیلہ لگاتا ہے بڑی مشکل سے گزر بسر ہورہی ہے۔ میرے سات بچے ہیں‘‘۔ بقرعید کے لیے جانور خریدتی ہو یا پالتی ہو؟ اس سوال کے جواب میں لالی کا کہنا تھا کہ ’’بکراجب بچہ ہوتا ہے تو میں خرید لیتی ہوں، پھر اسے پالتی ہوں اس طرح چار یا پانچ بکرے بقرعید تک تیار ہوجاتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والے جانوروں کے پیسے سے گائوں واپس جاکر کچھ پیسہ گھر کے اخراجات کی نذر ہوجاتا ہے اور باقی سے جانور خرید لیتی ہوں تاکہ اگلے برس کچھ پیسہ ہاتھ آجائے۔‘‘ کتنا فائدہ ہوجاتا ہے؟ لالی نے بتایا کہ’’کبھی فائدہ ہوتا ہے اورکبھی نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ ان کی خوراک کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میرے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ بچوں کا پیٹ بھروں یا بکروں کا؟ ابھی بھی سب سے چھوٹی بیٹی کو ساتھ لائی ہوں اور باقی بچوں کو ساس کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں اور ساتھ ہی ساس کو بچوں کے کھانے پینے کے لیے پیسے بھی دے کر آئی ہوں۔ یہاں بکروں کی خوراک کا بھی انتظام کرنا ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ خود کچھ کھائیں یا ان جانوروں کو کھلائیں، لیکن ظاہر ہے یہ ہمارا رزق ہے ،ہمیں اس کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ دینا ہوتی ہے۔ بیمار پڑ جائیں تو انہیں جانوروں کے ڈاکٹر کو بھی دکھانا پڑتا ہے۔‘‘ جب آپ کو زیادہ منافع بھی نہیں ہوتا تو کوئی دوسرا کاروبار کیوں نہیں کرلیتیں؟ لالی نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ہمارے بچوں کے ساتھ جانور بھی پل جاتے ہیں کوئی دوسرا کام کیاکریں گے۔ نہ میرا شوہر تعلیم یافتہ ہے اور نہ میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اگر تعلیم یافتہ ہوتی تو یقیناً کوئی اچھا کام کرتی، یوں دھکے کھانے کو نہیں ملتے۔‘‘ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہی ہیں آپ؟ لالی نے کہا ’’ہمارے گائوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت بہت خراب ہے۔ نہ وہاں بیٹھنے کو کرسی ہے اور نہ ہی استانیاں آتی ہیں۔ 

دو پرائیویٹ اسکول بھی ہیں میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے پرائیویٹ اسکول میں پڑھیں، لیکن حالات اجازت نہیں دیتے۔ سب سے بڑا بیٹا گائوں کے سرکاری اسکول جاتا ہے، لیکن وہاں پڑھائی نہیں ہوتی۔ اسی لیے میں نے دوسرے بچوں کو اسکول نہیں بھیجا۔ میری خواہش ہے کہ بچوں کو تعلیم دلوائوں لیکن پیسے نہیں ہیں جو کچھ بھی میں اور میرا میاں کماتے ہیں وہ کھانے پینے اور جانور پالنے میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اب تو بچوں کو بھی بکروں کی دیکھ بھال پر لگا دیا ہے۔ جب یہ چاروں بکرے فروخت ہوجائیں گے تو گائوں جاکر دوبارہ آلو پیاز فروخت کروں گی۔‘‘ کتنے عرصے سے جانور فروخت کررہی ہیں؟ ’’سات سال سے یہ کام کررہی ہوں۔ پہلے میرا شوہر شہر آکر بکرے فروخت کرتا تھا اور میں گائوں میں سبزی بیچتی تھی۔ پھر ہم نے مل کر جانور فروخت کرنا شروع کیے۔ ان چار بکروں میں دو بکرے میں فروخت کروں گی، دو میرا شوہر،اتنے بڑے شہر میں جانور بیچنا آسان نہیں ہے۔ بہت مشکل سے بات بنتی ہے۔ عید سے قبل دس دن تیزی سے گزر جاتے ہیں اور کبھی کبھی خود ہم صرف ایک بکرا لے کر سڑکوں پر گھومتے ہیں کہ شاید کوئی خریدار مل جائے اور اگر وہ فروخت نہیں ہوتا تواسے لے کر عید کی رات گاڑی پکڑ کر گائوں چلے جاتے ہیں۔ عید کے بعد بھی لوگ شادی بیاہ یا عقیقے کی تقریب کے لیے جانور خریدتے ہیں تو اگر قسمت اچھی ہوتی ہے تو ہمارا آخری جانور بھی فروخت ہوجاتا ہے، لیکن بہت محنت کرنا پڑتی ہے‘‘۔گائوں سے جانور کس طرح شہر لاتی ہو؟ ’’سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں سے منڈی تک بہت گاڑیاں آتی ہیں۔ ہم جس گاڑی پر کراچی آئے تھے اس میں دوسرے بیوپاریوں کے جانور بھی تھے۔ اُس گاڑی والے نے کُل بیس ہزار روپے کرایہ لیا تھا۔ ہم سے پانچ بکروں کا پانچ ہزار روپے لیا تھا۔ ہمیں پیسہ بہت حساب کتاب سے خرچ کرنا ہوتا ہے،یعنی کسی ایک بکرے کے اخراجات فروخت ہونے والے دوسرے بکرے کے پیسوں سے پورے کرتے ہیں، بہت جوڑ توڑ کر کے روزی کمانی پڑتی ہے، غیر ماحول میں آکر سڑک کنارے کھڑے ہوکر مال فروخت کرنا آسان کام نہیں۔‘‘ گاہکوں کے رویوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لالی نے بتایا کہ ’’کراچی شہر کے لوگ بہت اچھے ہیں، ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ویسے تو میرا شوہر بھی میرے ساتھ ہی بکرے فروخت کرتا ہے لیکن گاہکوں کا رویہ اچھا ہوتا ہے۔ بھائو تائو بہت کرتے ہیں اور جانور سےمتعلق بہت سوالات کرتے ہیں۔ کراچی میں ہم بہت سکون سے جانور بیچتے ہیں، بس جھگیوں میں رہنا بہت مشکل ہے لیکن گائوں میں بھی کچا ہی مکان ہے اس لیے زیادہ فرق نہیں لگتا۔ 

ہم مشکل سے مشکل حالات میں رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ 30 ہزار کا بکرا 15 ہزار میں لینا چاہتے ہیں۔ لڑائیاں بھی کرلیتے ہیں، ہمیں صبر کرنا پڑتا ہے،لیکن جنہیں بکرا خریدنا آتا ہے وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم بکرے کا صحیح ریٹ لگارہے ہیں۔ عورتیں بھی بچوں کے ساتھ جانور خریدنے آتی ہیں، زیادہ تر اپنی مرضی کے ریٹ سے جانور لینا چاہتی ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ گزارا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں بس اللہ روزی دے دیتا ہے، وہی پال رہا ہے۔ ہم دو دو دن بھوکے سوجاتے ہیں۔ کبھی پیسے ہوتے ہیں اور کبھی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس تعلیم نہیں ہے ورنہ یہاں سڑک پر کھڑے ہوکر دکان نہ لگانی پڑتی۔ کون ماں باپ چاہیں گے کہ اپنے بچوں کو سوکھی روٹی کھلائیں۔ غربت کی وجہ سے سخت زمین پر سونا پڑتا ہے۔ ’’نرم بستر‘‘ سے محروم ہوں۔ ہماری کیا عید، کیا بقرعید… ہمیں تو عید کے دن سے ہی یہ فکر لگ جاتی ہے کہ سامان خرید کر ٹھیلہ لگانا ہے…

گاہکوں کی جھرمٹ میں بھائو تائو کرتی ہوئی لالی سے بات چیت کر کے جب ہم چند قدم آگے بڑھے تو مرد بیوپاریوں اور ان کے جانوروں کے ساتھ ہی اپنے چار بکروں کے درمیان کھڑی’’رتنی‘‘ گاہک کو اپنے بکرے کے ’’اوصاف‘‘ گنوا رہی تھی۔ کبھی بہت اونچی اور کبھی دھیمی آواز میں وہ گاہک کو باور کروانے میں مصروف تھی کہ اس کا بکرا مارکیٹ کی قیمت کے لحاظ سے بہت مناسب دام میںدستیاب ہے، لیکن گاہک آدھی قیمت پر بکرا لے جانے پر مصر تھا۔ چند منٹ کی اس تکرار کے بعد بھی معاملہ طے نہ ہوا۔بہرحال ہم نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا اور بات چیت شروع کی۔ رتنی نے بتایا کہ’’ میں تھرپارکر کی رہائشی ہوں اور ہر سال یہاں جانور فروخت کرنے آتی ہوں۔ان میں دو بکرے میرے اور تین ٹھیکیدار کے ہیں۔ادھار پر لائی ہوں منافع ہونے پر آدھا میرا حصہ ہوتا ہے۔‘‘کب سے جانور فروخت کررہی ہیں؟رتنی نے بتایا کہ’’میری شادی کو اٹھارہ سال ہوچکے ہیں،شادی کے بعد سے ہی گھر چلانے کے لیے مشقت شروع کردی تھی۔چھ بچوں کا پیٹ پالنا آسان نہیں۔شادی کے بعد سے ہی چھوٹے موٹے کام کے ساتھ بکرے فروخت کرنا شروع کیے‘‘آپ کےشوہر کیا کام کرتے ہیں؟رتنی نے بتایا کہ’’میرا شوہر نشے کا عادی ہے،وہ کوئی کام نہیں کرتا۔مجھے ہی گھر کا خرچ چلانا ہوتا ہے۔میں تعلیم یافتہ نہیں تھی اس لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔گاؤں میں کانچ کی چوڑیاں فروخت کرتی ہوں یا مٹی کے برتن خود بنا کر بیچتی ہوں۔ان چیزوں کے لیے بھی پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔

کچھ پیسہ جمع کر کے بکرے کے بچے پال لیتی ہوں۔سچ بات تو یہ ہے کہ ان جانوروں کو کھلانے تک کے پیسے نہیں ہوتے ہمارے پاس۔بس گزارا ہوجاتا ہے۔تھر میں تو سبزہ بھی نہیں ہے کہ جانوروں کا پیٹ بھر سکیں۔کبھی کبھی تو یہ جانور مر بھی جاتے ہیں۔بہت نقصان ہوجاتا ہے۔‘‘گاؤں سے اتنا لمبا سفر طے کرکے آنامشکل نہیں لگتا؟ہمارے اس سوال پر رتنی کا کہنا تھا کہ’’کسے اچھا لگتا ہے یہاں آکر بیٹھنا،لوگوں کی منتیں کرنا،نہ یہاں رہائش ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا انتظام،بس ہماری ضرورت یہاں کھینچ لاتی ہے۔گاؤں یا چھوٹے شہروں میں اچھے دام نہیں ملتے لیکن کراچی بڑا شہر ہے یہاں ہمارے جانور فروخت ہوجاتے ہیں۔لوگ بھاؤتاؤکرکے جانور لے ہی جاتے ہیں۔یہاں ہم جھگیوں میں رہتے ہیں،جو روکھی سوکھی مل جائے کھا لیتےہیں۔چھوٹی بیٹی کو ساتھ لے کر آئی ہوں باقی بچے گاؤں میں میری امی کے پاس ہیں۔‘‘اس سوال کے جواب میں ،کیا آپ کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں؟رتنی کا کہنا تھا کہ’’ نہیں ہمارے ہاں تعلیم کا رواج نہیں ہے۔کبھی بھی کوئی اسکول نہیں گیا۔ہمارے گاؤں میں کوئی اسکول نہیں ہے۔جنہیں پڑھنا ہوتا ہے وہ دوسرے گاؤں جاتے ہیں۔ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ بچوں کواتنا دور اسکول بھیجیں۔ گاؤں میں پینے کا پانی تک نہیں،جن تالابوں سے ہمارے جانور پانی پیتے ہیں ہم بھی وہی پانی پیتے ہیں۔روٹی دو وقت بھی مشکل سے ملتی ہےتو کیسے بچوں کا تعلیم دلواؤں،ہمارے نزدیک تعلیم تو عیاشی ہے۔انہیں کونسا افسر لگنا ہے۔ہمارے بچے بھی جانور بیچ کر زندگی گزاریں گے،ان کے کون سے دن رات نئے ہو جائیں گے۔ہمارے لیے زندگی بس یہی ہے کہ دو وقت کی روٹی مل جائے۔تعلیم حاصل کرنے کے لیے تو ہر کوئی لیکچر دیتا ہے لیکن مدد کوئی نہیں کرتا۔‘‘بہ حیثیت عورت سڑک کنارے کھڑے ہوکر جانور فروخت کرنا مشکل نہیں لگتا؟رتنی نے کہا’’حلال رزق کمانے میں شرم کیسی؟ہم کوئی چوری تو نہیں کر رہے؟ہمیں کچھ بھی برا نہیں لگتااور نہ ہی یہاں کا ماحول خراب ہے۔لوگ عزت دیتے ہیں،خیال کرتے ہیں اور تنگ بھی نہیں کرتے اس لیے ہمیں کراچی میں جانور بیچنا اچھا لگتا ہے اور پیسے بھی اچھے مل جاتے ہیں۔‘‘

بہادرآباد کے پررونق علاقے میں بھی ’’بکروں کی بہار‘‘ہے۔سڑکوں کے کنارے چھوٹے بڑے بکروں کے ریوڑ لیے جابجا بیوپاری نظر آتے ہیں۔یہاں بھی خواتین چار یا پانچ بکروں کی ٹولیاں لیے بھاؤ تاؤ میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔انہی خواتین میں پانچ بکروں کے ساتھ سڑک کنارے کھڑی،’’شانتی‘‘سے بات کرنے کا موقع ملا۔شانتی نے نہایت مصروفیت کے باوجودبات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔انہوں نے بتایا کہ’’میں اپنے شوہر کے ساتھ دو دن پہلے میرپور خاص سے آئی ہوں۔میرے پاس پانچ بکرے ہیں اور شوہر کے پاس چار بکرے اور ایک دنبہ ہے۔ ہم کراچی یونیورسٹی کے پاس کچی بستی میں رہتے ہیں۔وہاں ہم نے ایک جھگی عارضی طور پر لی ہے۔وہیں چولہا بھی ہے،جو ہم گاؤں سے ساتھ لائے ہیں۔‘‘بکرے کی قیمت کیا ہے؟’’ایک بکرا ایک لاکھ دس ہزار کا ہے۔‘‘اتنا مہنگا بکرایہاں فروخت ہوجائے گا ؟شانتی نے مسکرا کر کہا’’جی ہاں کیوں نہیں،کراچی والوں کے پاس بہت پیسہ ہے ۔‘‘عید کے دن تک سارے بکرے فروخت ہوجائیں گے آپ کے؟ہمارے سوال کے جواب میں شانتی نے کہا کہ،’’ہاں ہو جائیں گے،اگر نہ بھی ہوئے تو ہم آخر میں ریٹ کم کر دیں گے،ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔اس کے باوجود بھی نہ فروخت ہوئے تو ہم انہیں واپس لے جائیں گے،کسی اور موقع پر فروخت ہوجائیں گے لیکن منافع اچھا نہیں مل سکے گا،یہ گھر کے پلے ہوئے بکرے ہیں،ان کی ڈیمانڈ زیادہ ہے ‘‘۔آپ سال بھر بکرے فروخت کرتی ہیں یاکوئی اور کام بھی کرتی ہیں؟شانتی نے بتایا،’’نہیں سال بھر تو انہیں پالتی ہوں ،ان کی خوراک کا خیال رکھنا ہوتا ہے،گندم اور بھوسا دیتی ہوں انہیں۔

اگر گاؤں میں کوئی خریدار مل جائے تو انہیں بھی فروخت کر دیتی ہوں لیکن یہ بقرعید کے لیے پالے جاتے ہیں۔عام طور پر میں زمینوں پر کام کرتی ہوں ،کپاس چنتی ہوں ،لیکن بکرے پالنا ہمارا خاندانی پیشہ ہے۔میرا شوہر مزدوری کرتا ہے ،ہماری اچھی گزربسر ہوجاتی ہے۔ایک بیٹی ہے ،اسے گاؤں میں نند کے پاس چھوڑ کر آئی ہوں،گاؤں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں کے جی ون میں پڑھتی ہے۔ہم دونوں میاں بیوی مل کر گھر چلا رہے ہیں۔صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتی ہوں اور ہر سال بقرعید سے پہلے شوہر کے ساتھ بکرے لے کر کراچی آجاتی ہوں،یہاں اچھے دام مل جاتے ہیں۔‘‘ہمارے اس سوال پر کہ گھر سے دور شہر آکر کام کرنا کیسا لگتا ہے؟شانتی کا کہنا تھا کہ،’’بالکل اچھا نہیں لگتا،روزی کی خاطر یہاں آتے ہیں۔بہت مشکل سے یہاں فٹ پاتھ پر وقت گزرتا ہے،یہیں کوئی روکھی سوکھی مل جاتی ہے تو کھا لیتی ہوں۔گھنٹوں پیاسی بیٹھی رہتی ہوں یہاں پانی تک نہیں ملتا۔سارا سارا وقت گاہک کا انتظار کرتی ہوں،گاہک قیمتوں پر بہت جھک جھک کرتے ہیں۔مجھے شہر کا ماحول بالکل پسند نہیں ہے،گاؤں کی تازی ہوا یاد آتی ہے،یہاں ہم فٹ پاتھ پر دھوپ میں بیٹھے رہتے ہیں،لیکن گاؤں میں تو پنکھوں تک کی ضرورت نہیں ہوتی،ٹھنڈی ہوا چلتی ہے۔بس رب کا شکر ہے کہ ہم جانور خود پال کر فروخت کرتے ہیں کسی سے ادھار نہیں لینا پڑتا۔یہ بہت سکون ہے۔‘‘آپ کی واپسی کب ہوگی؟’’ہم عید کی رات گاڑی پکڑ کر گاؤں چلے جاتے ہیں۔زیادہ کرایہ بھی خرچ نہیں ہوتا کیوں کہ ایک ٹرک میں تیس ،چالیس لوگ ہوتے ہیں تو ہم بہت کم پیسوں میں راتوں رات گھر روانہ ہوجاتے ہیں۔وہاں پہنچ کر گھر کے کام کاج نمٹا کر دوبارہ زمینوں پر کام کرنا شروع کردیتی ہوں اور جو پیسے منافع کے ملتے ہیں ان سے بکرے کے بچے خریدلیتی ہوں۔

ہماری زندگی یونہی گھومتی رہتی ہے۔‘‘آپ بڑی منڈی میں جانور کیوں نہیں فروخت کرتیں؟’’ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہاں جا کر اسٹال لگائیں۔وہ ٹیکس لیتے ہیں۔ایک بکرے کے پندرہ سو روپے لیتے ہیں۔فی بکرا پانچ ہزار روپے کرایہ لے کر یہاں آتی ہوں پھر اگر منڈی میں بھی اوپر سے پیسے دینے پڑ جائیں تو ہمارے پاس کیا بچے گا۔ہمارے لیے تو یہ خسارے کا سودا ہے۔‘‘آپ نے تعلیم حاصل کی ہے؟شانتی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ،’’میں پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن میرا ذہن بہت اچھا ہے ، حساب کتاب اور بھاؤ تاؤ بہت اچھا کرلیتی ہوں۔رب کا شکر ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے،اپنے کاروبار کی خود مالکہ ہوں۔‘‘

یاسین آبادکے پل کے نیچےقربانی کے جانور کے خریداروں کے ہجوم میں گھری اپنے اپنے بکروں کو ہانکتیں چندخواتین سے بھی گفت گو کا موقع ملا،ایک پلنگ پر براجمان چار بکروں کی مالکہ سعیدہ نے بتایا کہ’’کل سے یہاں بکرے لے کر بیٹھی ہوں ایک بھی فروخت نہیں ہوا۔گاہک کو قیمت پچیس ہزاربتاؤ تو وہ بارہ ہزار میں لینا چاہتا ہے،ہم اپنا گھربار چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہیںکہ دو وقت کی روٹی کے لیے پیسہ کما سکیں،لیکن گاہک چاہتے ہیں کہ بکرا مفت میں لے جائیں۔‘‘آپ کا تعلق کس شہر سے ہے؟سعیدہ نے بتایا کہ ’’میں دوڑ سے آئی ہوں ،میرے پاس چار بکرے ہیں۔لوگ بہت کم قیمت لگا رہے ہیں،بہت پریشانی ہے۔ سال بھر پال پوس کر یہ بکرے بڑے کیے ۔یہ کھاتے بھی بہت ہیں ان کی خوراک پر ہی اتنا پیسہ اٹھ جاتا ہے۔کبھی کبھی اپنے بچوں کے منہ سے روٹی چھین کران جانوروں کا پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔صرف اس لیے کہ عید کے موقع پر منافع کے ساتھ فروخت ہوجائیں گے تو آگے مزید جانور خرید لوں گی،لیکن یہاں تو کوئی صحیح قیمت دینے کو تیار ہی نہیں۔‘‘عام دنوں میں کیا کام کرتی ہیں؟اس سوال کے جواب میں سعیدہ کا کہنا تھاکہ’’میں آلو پیا ز کا ٹھیلہ لگاتی ہوں،شادی کے آٹھ سال بعد ایک حادثے میںشوہر کی ٹانگ ٹوٹ گئی وہ اب معذور ہے،کوئی کام نہیں کرتا،پانچ بچے ہیں،بہت مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔بچوں کا تعلیم دلانا تو دور کی بات ہے ان کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ادھار پر پھل ،سبزیاں بیچ کر گزارا کر لیتی ہوں۔دل چاہتا ہے کہ بچوں کو تعلیم دلواؤں لیکن یہ نا ممکن ہے میرے لیے۔یہاں اپنی ماں اور دو بچوں کے ساتھ آئی ہوں۔ساتھ ہی ایک جھگی لے لی ہے 200روپے یومیہ کرائے پر۔عید کے دن واپس چلی جاؤں گی۔‘‘قریب ہی کھڑی’’ نوری‘‘ نے گفت گو میں حصہ لیتے ہوئے کہا،’’کون عورت چاہے گی اس طرح فٹ پاتھ پر جانور بیچے ،لیکن مجبوری یہاں تک لے آئی ہے۔میرے پاس سیٹھ کے 4بکرے ہیں،500 روپے دیہاڑی ملتی ہے ،چار بچے ہیں میرے،میں بھی دوڑ سے آئی ہوں سعیدہ کے ساتھ،اسی کرائے کی جھگی میں ہم رہتے ہیں۔سارا سارا دن بھوک سے نڈھال ہوکر بکرے فروخت کرتے ہیں۔کوئی کمائی نہیں ہوتی بس گزارا ہوجاتا ہے۔‘‘شوہر کیا کام کرتا ہے ؟ہم نے سوال کیا،نوری نے بتایا،’’زمینوں پر کام کرتا ہے،پانچ بچے ہیں،مجھے بہت شوق ہے انہیں تعلیم دلواؤں لیکن نہ تو ہمارے گاؤں میں کوئی اسکول ہے اور نہ ہی ہمارے پاس پیسے ہیں کہ بچوں کو پڑھایا جائے۔‘‘آپ نے تعلیم حاصل کی ہے؟نوری کا کہنا تھا کہ،’’نہیں،مجھے بہت شوق ہے پڑھنے کا لیکن وسائل ہی نہیں۔بچپن میں ہمارے گاؤں میں ایک ڈاکٹر صاحبہ کا کلینک تھا،انہیں دیکھ کر مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق ہوا جو آج تک ہے۔اگر کوئی مجھے آج بھی ڈاکٹری پڑھانے کے لیے کہے تو میں سب چھوڑ کر ڈاکٹر بننے کو ترجیح دوں ،میرا سپنا ادھورا رہ گیا۔اتنے سخت حالات دیکھے ہیں کہ 33سال کی عمر میں بوڑھی لگنے لگی ہوں‘‘۔

ایسی ہی نہ جانے کتنی خواہشات دل میں لیے محنت مشقت کرتی یہ خواتین نہ صرف گھر کی کفالت کر رہی ہیں بلکہ سخت حالات کا تندہی سے مقابلہ کرتے ہوئے صبر و استقامت کے گھونٹ بھی پی جاتی ہیں۔یہ محنت کش خواتین،’’لوگ کیا کہیں گے‘‘جیسے سوالات و خدشات سے ماورا،اپنی دھن میں مگن زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہیں۔

تازہ ترین