• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’روغنی ٹائلز‘‘ اس کام کا سب سے بڑا مرکز ہالاہے

نعمان جتوئی

سندھ کو اگر ہنر مندوں کی سر زمین کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، یہاں کی دست کاری کی مانگ دنیا بھر میں ہے، جو یہاں کی پہچان ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافت کا بھی ایک اہم جزو ہے۔’’روغنی ٹائلوں‘‘ کے فن کا شمار بھی سندھ کی صدیوں پرانی ثقافت میں ہوتاہے۔ہنر مندوں کے ہاتھوں کے بنے ہوئے روغنی ٹائل دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ کئی سو سال پہلے جب یہ فن اپنے عروج پرتھا، تو مساجد ، مقابرخوب صورت ٹائلوں سے مزین ہوتے تھے۔ یہ فن آج بھی زندہ ہے، لیکن اب ہنر مندی اتنی نہیں جتنی پہلے ہوا کرتی تھی، گو کہ آج بھی ایسے کاریگر ہیں جن کا کام مغل دور کے ہنرمندوں کی طرز کا ہے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔روغنی ٹائل بنانے والوں کی تعداد میں کمی ایک بڑی وجہ شاید اس کام میں کمی ہے، جیسے جیسے دنیا میںجدید مشینری آتی جا رہی ہے، ویسے ویسے ہاتھ سے بننے والی اشیا ء یا کاریگروں کی مانگ میں کمی ہو تی جا رہی ہے، اسی کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے جارہے ہیں اور ہنر مند اپنا آبائی پیشہ چھوڑی کر دیگرکام کرنے پرمجبور ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک اس کام میں گہرے اور ہلکے نیلے رنگ کے ٹائل استعمال ہوتے تھے۔

یہ ٹائل، مزارات کے گنبدوں اور مساجد وغیرہ میں لگائے جاتے ، شوخ عربی حروف میں مزارات وغیرہ کے لیے مختلف جسامت کی چوکھٹیں وغیرہ بھی بنائی جاتی تھیں۔انہیں تیار کرنے میں گہرے نیلے اور تانبے سے ماخوذ عمدہ فیروزی رنگ استعمال ہوتے تھے۔ٹائلوں کو تیار کرنے کے لیےچکنی مٹی کو دھیمی سی آنچ میں ایک مرتبہ پکاکر دھوپ میں سکھانے کے لیے رکھ دیتےہیں، سکھانے کے فوراً بعد رنگ و روغن کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام اشیاء کا مواد صرف چکنی مٹی ہے، جو دریا ئے سندھ سے حاصل کی جاتی ہے، جسے بالکل چھانا یا تیار نہیں کیا جاتا۔ آگ ایک عام بھٹی میں دی جاتی ہے، اور وہ بھی صرف دس گھنٹوں کے لیے۔

پہلےزمانے میں اس کی تیاری میں عمدہ نیلا رنگ بھی استعمال ہوتاتھا ، جس کا نسخہ اب مفقود ہوچکا ہے، اس کے بجائے اب بہت سے دوسرے رنگ استعمال ہوتے ہیں۔پرانی اینٹوں میں نیلے اور سبز کے علاوہ ہلکا پیلا رنگ بھی استعمال ہوتا تھا۔مکلی کی پہاڑیوں کے مزارات یا ٹھٹھہ کی مساجد میں استعمال شدہ اینٹوں اور ٹائلوں کا فن اب ختم ہوچکا ہے، مگر ان کی بناوٹ اور خوب صورتی میں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اب تک کمی نہیں آئی۔ان کی مینا کاری دیکھ کر کاریگروں کی مہارت کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

اس کام کا سب سے بڑا مرکز ہالاہے، لیکن یہ نصر پور، گُونی، ٹھٹھہ وغیرہ میں اب بھی جاری و ساری ہے۔ چوبی نقاشی کا فن بھی معدوم ہورہا ہے۔ بہت سے پرانے گھروں کے دروازے پیچیدہ ترین نقاشی کے حامل ہیں، جو عام طور پر پھولوں کے نمونے ہیں۔ ایسی ہی نقاشی دریائے سندھ کی کشتیوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہے، چوں کہ کشتی سازی کی صنعت اب معدوم ہو رہی ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ فن نقاشی بھی اسی کے ساتھ رخصت ہوجائے گا۔ 

تازہ ترین