• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی اورامریکا کے بگڑے ہوئے تعلقات پاکستان کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔اوّل توان دونوں ممالک سے پاکستان کے تعلقات کی بہت اہمیت ہے ۔ دوم، ترکی سے گہرے ذہنی روابط بھی پاکستانیوںاور پاکستان کے لیے ایک اہم امرہیں۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ پاکستانی بھی ترکی کرنسی ،لیرا خریدنے پر اتر آئے ہیں ۔ امریکا اور ترکی کے تعلقات میں بگاڑ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب ترکی میں گرفتا ہونے والے پادری،اینڈریو برنسن کو رہا کرنے سے ترک حکومت نے انکار کر دیا۔یہ پادری ترکی کے شہر ازمیر کے ایک گرجا گھر سے وابستہ ہے ۔ 

اس پر ترک حکومت نے الزام عاید کیاہے کہ وہ فتح اﷲ گولن کی تحریک اورکُردستان ورکرز پارٹی سے روابط رکھتا ہے۔ اکتوبر2016ء میں اس کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔پادری اینڈریو برنسن نے ان معاملات میں ملوث ہونے سے انکار کیا، مگر ترک عدالت نے اسے رہا کرنے سے انکار کر دیا۔امریکانے اس حوالے سے ترکی پر کچھ اقتصادی پابندیاں اور سختیاں عاید کردی ہیں۔اس کے نتیجے میں ترکی کی کرنسی لیرا ایک تہائی قدر کھوچکی ہے اور ملک میں اقتصادی بحران کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی تنہا یہ واقعہ ان تمام واقعات کا سبب بنا۔بلکہ دونوں ممالک میں کشیدگی درحقیقت شام میں جاری خانہ جنگی سے جڑی ہوئی ہے ۔

ترکی طویل عرصے سے کُرد علیحدگی پسندوں سے نبر د آزما ہے اور وہ ان پر دہشت گردی کے الزامات بھی عاید کر تا رہتا ہے۔جب شام میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو امریکانے بشارالاسد حکومت گرانے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا اور وہاں جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا ہونے دیے کہ داعش اپنے قدم جمالے۔پھر داعش کے خلاف کاروائی کا بہانہ کرکےکُردوں کو وسائل فراہم کرنا شروع کردیےکہ وہ داعش سے لڑیں گے۔یہ ترکی کے لیے خطرے کا سائرن تھاکیوں کہ مسلح کُردوں کی موجودگی کا بالآخر حقیقی نقصان ترکی کی علاقائی سالمیت کو ہی پہنچنا تھا۔ 

لہذا ترکی نے ان امریکی حمایت یافتہ کُردوں کے خلاف کاروائیوں کا آغازاورامریکاکا کھیل خراب کرنا شروع کر دیا۔امریکا اس سے بہت کبیدہ خاطر ہوا۔ اسی دوران صدر اردوان نے امریکی فوجیوں کے حوالے سے سخت بیان دے ڈالے۔امریکانےترکی میں موجود ایک فضائی اڈہ فوراً اپنے استعمال میں لانا چاہا، مگر ترکی اس معاملے پر اس سے تقریباً ایک سال تک مذاکرات کرتا رہا۔اس سے امریکا میں یہ خیال تقویت پا گیا کہ ترکی ایساجان بوجھ کر رہا ہے۔ پھر ترکی نے ایران کے معاملے میں بھی امریکا کی حکمت عملیوں کا ساتھ نہ دیتے ہوئے ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ایران کو اس معاملے میںبہت سہارامل گیا اور امریکا یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اس کےاور ترکی کے عالمی مفادات میں یک سانیت نہیں رہی ۔اسی دوران ترکی نے روس سے S400ایڈوانسڈ ائیر ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے لیے کام یاب مذاکرات کرلیے۔ نیٹو کا ساتھی ملک اور روس سے اس نوعیت کا دفاعی معاہدہ ۔اس سے ترکی کےبدلتے ہوئےتیور بالکل سامنے آگئے ۔ امریکا کا ترکی سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں تھا کہ وہ اس معاہدے سے ترکی کو روک سکتا، مگر اس نے یہ طریقہ کار اختیار کیا، کیوں کہ ترکی جدید ترین F35طیارے استعمال کر رہا ہے اور روس سے S400سسٹم خریدنے کے بعد روس کی رسائی ان طیاروں تک ہو سکتی ہے اور روس اس طرح ان طیاروں کو Detectکرنے کے لیے ضروری معلومات حاصل کر سکتاہےچناں چہ ترکی کو روس سے ایسا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے۔ مگر ترکی امریکا کو بالکل خاطر میں نہیں لایا۔

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ترک حکومت کے خیال میں فتح اﷲ گولن اور ان کی گولن تحریک کا ہاتھ تھا ۔ ترکی امریکا سے یہ چاہتا ہے کہ وہ فتح اﷲ گولن کو اس کے حوالے کر دے، لیکن امریکانے موقف اختیار کر رکھاہے کہ وہ امریکی گرین کارڈکے حامل ہیںاس لیے امریکا انہیں ترکی کے حوالے نہیں کر سکتا۔اسی دوران امریکا اور ترکی کی دہری شہریت کے حامل پندرہ سے بیس افراد کو ترکی میں گولن تحریک سے وابستہ ہونے اور ناکام فوجی بغاوت میں شمولیت کے الزامات میں دھر لیا گیا۔ان افراد میں ناسا کا ایک سائنس دان بھی شامل ہے۔ ترکی نے ان تین ترک باشندوں کو بھی ان ہی الزامات کے تحت حراست میں لے لیا جو امریکی سفارت خانے میں ملازمت کرتے تھے۔ امریکا نے ان تمام افراد کی رہائی کی غرض سے ترکی پر زبردست دبائو ڈالنا شروع کر دیا ،مگر ترکی فتح اﷲ گولن کی حوالگی پر مصر رہا ۔

ترکی کے حوالے سے ایک اور بھی معاملہ سامنے آیا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اگر فتح اﷲ گولن کو حوالے نہ کیا جائے تو کم از کم اس ترک بینکار کو ضرور حوالے کر دیا جائے جسےنیو یارک کی ایک عدالت نے ایران پر پابندیوں کے باوجود ایران کی مدد کرنے کے الزام میں پابند سلاسل کر رکھا ہے ۔ لیکن امریکا ان دونوں افراد کو ترکی کے حوالے کرنے پر رضامند نہیں۔ان تمام حالات کے باوجود امریکا میں ایک ایسا طبقہ موجودہے جو امریکاسے ترکی کے تعلقات اور ترک معیشت کو بچانے کی غرض سے تین ،پانچ اور دس نکاتی لائحہ عمل پیش کر رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے سخت ٹوئٹس واضح کرتے ہیں کہ وہ فی الوقت یہ کشیدگی ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔امریکی وزیر خزانہ کا یہ بیان کہ وہ اینڈریو کو رہا کر دیں ورنہ ہمارے پاس اور بھی سخت پلان موجود ہے، اس امر کا عکاس ہے کہ معاملہ الجھتا چلا جائے گا۔ترکی بھی اپنی کرنسی بچانےکےلیے اقد ا ما ت کر رہا ہے۔ اس لیے امریکی مصنوعات ،کاروں، الکوحل اور تمباکوپر ٹیرف بڑھا دیاگیا ہے ۔ اس وجہ سے ترکی کی کرنسی کی قدر میں ہلکی سی بہتری آئی ہے۔ ترک وزیر خزانہ نے، بیرات البیرک ،جو ترک صدر اردوان کے داماد بھی ہیں، معیشت کو بچانے کے لیے تین نکاتی لائحہ عمل پیش کر دیاہے۔اسی دوران روس کے وزیر خارجہ سر گئی ترکی کے دورے پر پہنچ گئے۔ان کے ترکی پہنچنے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ معاملہ صرف امریکا اور ترکی کے مابین نہیں رہے گا،بلکہ دیگر طاقتیں بھی کسی وقت بھی معاملات کاحصہ بن جائیں گی۔

تازہ ترین