• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بھر کے نابینا میری آواز پہچانتے ہیں، معروف کالم نگار، سماجی کارکُن اور اینکر پرسن، عمار مسعود

ذرایع ابلاغ کی دُنیا میں عمّار مسعود کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گرچہ وہ بنیادی طور پر میڈیا اینڈ کمیونی کیشن ایکسپرٹ ہیں، تاہم انہوں نے متعدد ٹی وی پروگرامز کی میزبانی کے فرائض انجام دے کر بھی خُوب نام کمایا۔ علاوہ ازیں، ایک مشہور کالم نگار اور ادیب بھی ہیں ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ، ’’محبت کے نیلے رنگ‘‘ شایع ہو چُکا ہے۔ نیز، فلاحی خدمات، بالخصوص نابینا افراد کی فلاح و بہبود کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عمّار مسعود لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد راول پنڈی منتقل ہو گئے، جہاں سے ایم اے، اکنامکس اور ایم بی اے کیا اور پیشہ ورانہ فرائض کے ساتھ قلم آرائی کا سلسلہ بھی جا ری رکھا۔ گزشتہ دِنوں ہمار ی ان سےایک خصوصی تفصیلی نشست ہوئی۔ اس موقعے پر ہونے والی گفتگو کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

س :آپ کا تعلق ایک ادبی خانوادے سے ہے ۔ آپ کے والد، انور مسعود مُلک کے معروف شاعر ہیں، لیکن آپ نے نثر میں مشقِ سُخن کی۔ شاعری کی طرف کیوں نہیں آئے؟

ج :اکثر دوست احباب مجھ سے یہی سوال پوچھتے ہیں۔ تاہم، اس ضمن میں صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ شاعری نہ کرنا میرا ذاتی فیصلہ تھا، کیوں کہ اگر مَیں کوئی اچّھا شعر کہتا، تو کوئی بھی تسلیم نہ کرتا کہ یہ میراشعر ہے۔ سب یہی کہتے کہ یہ شعر والد صاحب کا ہے اور اگر مَیں کوئی بُرا شعر کہتا، تو سب یہ طعنہ دیتے کہ انور مسعود کا بیٹا ہو کر بھی اچّھا شعر نہیں کہہ سکتا۔ سو، مَیں نے نثر کا میدان چُنا۔ پھر شاعری کرنا ایک قدرتی صلاحیت ہے۔ یعنی کسی کو شاعر بنایا نہیں جا سکتا۔ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھ میں شعر کہنے کی صلاحیت و اہلیت ہی نہیں ہے اور تمام احباب کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ فطرتاً شاعر نہیں ہیں، تو اس میدان میں گھوڑے دوڑانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

س :کہا جاتا ہے کہ گھنے پیڑ کے نیچے کوئی پودا نشو و نما نہیں پا سکتا۔ کہیں آپ کے والد کی شُہرت آپ کی کام رانیوں کی راہ میں رُکاوٹ تو نہیں بنی؟

ج :دراصل، چیزوں کو دیکھنے کا انداز، ان کی پہچان بدل دیتا ہے۔ مَیں آج جس مقام پر ہوں، یہ میرے والدین ہی کے رہینِ منّت ہے۔ میرا تعارف ہمیشہ میرے والد ہی رہے ہیں اور مُجھے اس پر فخر ہے ۔ پھر مَیں اتنا بڑا ہونا بھی نہیں چاہتا کہ میرا قد، والد سے بھی اونچا ہوجائے۔ مُجھے اُن کے سائے میں رہنے کی عادت ہے کہ یہی میری جائے پناہ ہے۔ والد کے علاوہ والدہ کی شخصیت کا بھی ہم سب بہن، بھائیوں پر گہرا اثر ہے۔ میری والدہ فارسی کی معلّمہ رہی ہیں اور ایک عالم و فاضل شخصیت ہیں۔ ہمیں اردو ادب سے روشناس کروانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ہم آج بھی اُن کو اپنی تحریر دِکھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ چوں کہ والدہ بنیادی طور پر معلّمہ ہیں اور درس و تدریس کے بغیر اُن کا وقت نہیں گزرتا، لہٰذا وہ ان دنوں گھر میں درسِ قرآن میں مصروف رہتی ہیں۔

پاکستان بھر کے نابینا میری آواز پہچانتے ہیں، معروف کالم نگار، سماجی کارکُن اور اینکر پرسن، عمار مسعود
والد، معروف شاعر انور مسعود کے ساتھ

س :آپ کی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ مثلاً آپ نے الیکٹرانک میڈیا میں کئی اعلیٰ عُہدوں پر فرائض انجام دیے، افسانے بھی لکھے، کم و بیش دو دہائیوں تک معذور افراد کی خدمت میں بھی مصروف رہے اور کالم نویس بھی ہیں۔ آپ ان سب میں سے کِسے اپنا مستند حوالہ قرار دیتے ہیں؟

ج :مَیں بنیادی طور پر نثر نگار ہوں ۔ لکھنے سے مُجھےمحبّت ہے۔ اگر مُجھے کسی جزیرے پر قید کر دیا جائے، تو سب سے زیادہ طلب لکھنے ہی کی ہو گی۔ مَیں بچپن میں اسکول کی تعطیلات کے دوران جب گجرات میں واقع اپنی دادی کے گھر جاتا، تو وہاں سے طویل ، دقیق مضامین خطوط کی صورت والدہ کو لکھ کر بھیجتا۔ تب میری عُمر 10برس سے بھی کم تھی اور میرے مضامین کے موضوعات ’’موت اور آنے والا کل‘‘ یا ’’موجود دَور کے ادبی رُجحانات‘‘ وغیرہ ہوتے۔ ان میں سے بعض مضامین 30،30صفحات پر مشتمل ہوتے۔ خط بھیجنے کے بعد مَیں کئی روز تک والدہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا رہتا۔ ان میں سے بعض نگارشات گجرات میں مقیم میری پھوپھی، بیگم بُشریٰ عظیم نے آج تک اپنے پاس سنبھال رکھی ہیں۔ گرچہ اب مَیں اپنی اُن بچگانہ تحریوں سے جان چُھڑانا چاہتا ہوں، لیکن یہ پھوپھی کو بہت عزیز ہیں۔

س :افسانہ نویسی خالصتاً ادبی صنف ہے، جب کہ اخباری کالم کو نصف ادب یا زود نویسی گردانا جاتا ہے، تو آپ افسانہ نویسی سے کالم نویسی کی طرف کیسے آئے؟

ج :دراصل، کہانی نویسی میرا پہلا عشق ہے۔ مُجھے ادبی تحریر لکھنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ میری پہلی کتاب، ’’محبّت کا نیلا رنگ‘‘ بھی افسانوں کا مجموعہ تھی اور یہ خالصتاً ادبی نوعیت کے افسانے تھے، لیکن اس کتاب کی اشاعت کے بعد مُجھے اندازہ ہوا کہ یہ دَور ادبی تحریروں کے لیے موزوں نہیں۔ اب لوگ بہت جلد باز ہو گئے ہیں، جب کہ ادبی تحریر استغراق کا مطالبہ کرتی ہے۔ نیز، اب لوگ فیس بُک کی دُنیا میں مگن رہتے ہیں ، سنجیدہ افسانہ شاید وقت کی ضرورت نہیں رہا، لیکن چوں کہ لکھنا میری سرشت میں شامل ہے، لہٰذا، مَیں نے کالم نویسی شروع کر دی اور مُجھے ماضی سے زیادہ پزیرائی ملی۔ تاہم، مُجھے کہانی نویسی اب بھی بے حد پسند ہے ۔ میرے کالمز میں بھی کہانی کا تاثر ملتا ہے۔ دراصل، کہانی قاری کے دِل پر زیادہ تیزی سے اثر انداز ہوتی ہے۔

س :کیا اس دَور میں ادبی کالمز اپنا مقام بنا سکتے ہیں؟

ج :جی نہیں۔ ادبی کالم بہت کم پڑھا جاتا ہے۔ ویسے بھی اخبار، ادب کے لیے نہیں، بلکہ خبر کے لیے ہوتا ہے۔ اخبار کا قاری خبر اور سیاسی صورتِ حال پر تجزیہ پڑھنا چاہتا ہے۔ جب مَیں نے کالم نگاری کا آغاز کیا، تو ابتدا میں ادبی و سماجی موضوعات کا انتخاب کیا، لیکن انہیں پڑھنے والوں کی تعداد خاصی کم تھی، کیوں کہ قارئین سیاسی موضوعات میں زیادہ دِل چسپی لیتے ہیں اور پھر کوئی بھی ادیب خود کو مُلک کی سیاسی صورتِ حال سے الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا۔ سماج کے اثرات شخصیات پر مرتّب ہوتےہی ہیں ، ان سے کسی صورت مفر ممکن نہیں۔ چُوں کہ میرے لیے سماجی و سیاسی صورتِ حال بہت اہم ہے، لہٰذا مَیں اسی پر قلم آزمائی کرتا اور ان سے نظریات تخلیق کرتا ہوں۔ کالم بہت جلد قارئین کے دِل میں گھر کر جاتا ہے اور وہ اسے اپنے خیالات کی ترجمانی سمجھتے ہیں۔ کالم نگار سے قارئین کی محبت خاصی دیرپا ہوتی ہے۔ یعنی یہ اداکاروں کے پرستاروں کی طرح وقتی چاہنے والے نہیں ہوتے۔

س :آپ نے ٹی وی پر بھی کافی کام کیا۔ یہ ذریعۂ ابلاغ کیسا لگا؟

ج : گرچہ مَیں نے معاشیات میں ماسٹرز کیا ہے، لیکن مُجھے ہمیشہ ہی سے اردو ادب سے لگائو تھا۔ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایف ایم ریڈیو سے کیا۔ اُن دِنوں ایف ایم ریڈیو پاکستان میں نیا نیا متعارف ہوا تھا۔ یہاں مَیں نے ’’غزل ٹائم‘‘ نامی ادبی پروگرم کا آغاز کیا۔ یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہوا کہ آج بھی تمام ایف ایم چینلز پر کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ پھر پی ٹی وی پر ’’رات گئے‘‘ نامی پروگرام کا آغاز کیا ۔ اس پروگرام کا مرکزی خیال بھی مَیں نے ہی پیش کیا تھا۔ تب میڈیا میں شعرا اور ادیبوں کو نظر انداز کیا جا رہا تھا اور ’’رات گئے‘‘ انہیں متعارف کروانے کا ذریعہ بنا۔ اس ادبی پروگرام کے ذریعے کئی نئے شاعر و ادیب متعارف ہوئے اور متعدد مشاہیر کے انٹرویوز بھی سامنے آئے۔ اُس وقت ناظرین سنجیدہ ادبی موضوعات پر گفتگو اور اچّھی موسیقی کے متمنّی تھے اور مَیں نے انہیں ’’رات گئے‘‘ کے ذریعے یہ موقع فراہم کیا۔ اس موقعے پر مَیں نے محسوس کیا کہ اگر سنجیدہ بات سلیقے سے کی جائے، تو وہ بھی ناظرین کے دِلوں میں اُتر جاتی ہے۔ فکاہیہ ادب، اردو ادب کی ایک اہم صنف ہے۔ ماضی میں ادب کی اس صنف میں کئی شاہ کار سامنے آئے اور آج بھی یہ ناظرین کی ضرورت ہے، لیکن ان دِنوں سیاسی مزاح کے نام پر ٹی وی چینلز پر جو خرافات دکھائی جا رہی ہیں، وہ نہایت ہی عارضی ہیں ۔ ٹی وی پر آج بھی اچّھے اور سنجیدہ مزاح کی کافی گنجائش ہے۔ دراصل، ناظرین مزاح کے اس ذائقے سے واقف ہی نہیں ، مگر وہ وقت دُور نہیں کہ جب وہ ایسے مزاح کو پھکّڑ پن پر فوقیت دیں گے۔

س :آپ کے کالم خاصے جارحانہ ہوتے ہیں۔ کیا خوف نہیں آتا؟

ج :ہمارے سماج میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں کہ جن پر بات کرتے یا لکھتے ہوئے لوگ خوف زدہ ہو جاتے ہیں، لیکن ان موضوعات پر بات کرنا یا قلم اُٹھانا بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ ’’سِول سُپرمیسی‘‘ کی بات کرتے ہیں، تو اسے فوج کی مخالفت سمجھا جاتا ہے، جو ایک بہت بڑی حماقت ہے، کیوں کہ ہر محبِّ وطن اپنے مُلک کی فوج سے محبّت کرتا ہے اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور جوانوں کے حوصلے کی داد نہ دینا زیادتی ہے، لیکن سیاست میں فوج کے کردار کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ایوانوں میں بیٹھنے کی کوشش کریں گے، تو پھر اختلاف سامنے آئے گا۔ پاکستان کو وجود میں آئے 71برس ہو چُکے ہیں ۔ اس دوران3دہائیاں مارشل لا کے زیرِ سایہ گزریں اور یہی ادوار پاکستان کی بد قسمتی کا سبب بنے۔ یاد رہے کہ ممالک نظام دُرست ہونے سے ٹھیک ہوتے ہیں اور نظام کو قابلِ عمل ہونے کے لیے وقت درکار ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جمہوریت کی ابتدائی خامیوں ہی پر اتنا واویلا کرتے ہیں کہ اس کے دُور رس اثرات نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ مَیں سیاست دانوں کو کرپٹ، کافر اور غدّار قرار دینے اور صرف اُن کے احتساب کا سخت مخالف ہوں، کیوں کہ اگر قانون سب پر یکساں لاگو نہیں ہوتا، تو وہ انصاف نہیں، بلکہ انتقام کہلاتا ہے، لیکن آج 70برس بعد ووٹ کو عزّت دینا، اس سماج کا حق بن چُکا ہے اور اس سے رُو گردانی سے مزید تباہی پھیلے گی۔ یاد رہے کہ جمہوریت ہی دُرست نظام ہے اور اس کی تعظیم مُلک و قوم کو بہتر بنائے گی۔

س :آپ نے کئی نئے ٹی وی چینلز کا آغاز کیا، کئی اینکرپرسنز متعارف کروائے اور کئی نئے پروگرامز شروع کیے۔ کیا آپ الیکٹرانک میڈیا کی موجودہ صورتِ حال سے مطمئن ہیں؟

ج :مَیں نے نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کے چینلز میں زیادہ عرصہ گزارا ۔ پاکستان میں ایسے صرف 17چینلز ہیں، جو کہ بہت کم ہیں اور پھر انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کی وجہ سے بھی چینلز کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز چینلز کا بنیادی مسئلہ ایجنڈا ہے۔ ہمارے ہاں خواہش کو خبر بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور جھوٹی خبریں تواتر اور وثوق سے نشر کی جاتی ہیں، تاکہ وہ سچّی لگنے لگیں۔ نیز، ہمارے نیوز چینلز پر اینکرز کا غلبہ ہے، حالاں کہ ان چینلز کے لیے رپورٹرز ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر ان کی اہمیت روز بہ روز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اینکرز کی مَن مانی کے سبب بہت سے نیوز چینلز ’’پروپیگنڈا مشین‘‘ بن چُکے ہیں، جو صحافت و جمہوریت کے لیے کسی بھی صورت دُرست نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق کی ضرورت ہے، لیکن ضابطۂ اخلاق کی آڑ میں آزادیٔ اظہار پر پابندی قبول نہیں کرنی چاہیے۔ یہ نیوز چینلز کی انتظامیہ کی اخلاقی ذمّے داری ہے اور جب تک وہ یہ ذمّے داری قبول نہیں کریں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پھر چینلز کی انتظامیہ کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ افواہوں کو خبر بنا کر ایک مرتبہ ریٹنگ تو حاصل کی جا سکتی ہے، مگر اس کے نتیجے میں چینل کی ساکھ متاثر ہو جاتی ہے اور اگر کسی چینل کی ساکھ ایک دفعہ متاثر ہو جائے، تو پھر وہ ناظرین کی نظروں میں اپنا مقام بحال نہیں کر سکتا۔

س :سوشل میڈیا کی صورت میں عوام کے پاس ایک نیا ہتھیار آ گیا ہے۔ اب لوگ اپنی رائے کے اظہار میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے، جس کی وجہ سے صحافیوں اور کالم نگاروں کو بھی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کیا آپ کو کبھی اس قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا؟

ج :سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس ذریعۂ ابلاغ نے عام افراد کو بھی اظہار کی قوّت بخشی ہے اور اب وہ تمام باتیں کہ جنہیں اخبارات اور نیوز چینلز میں جگہ نہیں ملتی، بڑی سہولت سے سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آ جاتی ہیں۔ اب اظہارِ رائے کو نہیں روکا جا سکتا، کیوں کہ ابلاغ کے نِت نئے ذرایع دریافت ہو چکے ہیں۔ اگر ایک راستہ بند ہوتا ہے، تو اس اثنا میں کئی دوسرے راستے کُھل جاتے ہیں۔ ان حالات میں صحافی اور کالم نگار اس لیے مشکل میں ہیں کہ اگر وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں کوئی دلیل دیتے ہیں، تو دوسری پارٹی کے حامی فوراً اُن پر ’’لفافہ صحافی‘‘ کا بہتان لگا دیتے ہیں۔ دیگر کالم نگاروں کی طرح میرے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا ہے، لیکن مَیں اشتعال میں آنے کی بہ جائے اس صورتِ حال سے خوب لطف اندوز ہوتا ہوں۔ البتہ میری اہلیہ اکثر یہ سوال کرتی ہیں کہ ’’اگر آپ کو اتنے ’’لفافے‘‘ملتے ہیں، تو وہ جاتے کہاں ہیں؟

س :کالم نویسی میں آپ کسے اپنا استاد مانتے ہیں؟

ج :چُوں کہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں میرے کالم کا آغاز سہیل وڑائچ صاحب نے کروایا، تو اس اعتبار سے تو وہی میرے استاد کہلائے۔ گرچہ مَیں دیگر اخبارات میں بھی کالمز لکھتا رہا ہوں، لیکن جو پزیرائی ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں لکھے گئے کالمز کو نصیب ہوتی ہے، وہ اُن کو کبھی نہیں ملی۔ تاہم، اگر مَیں کسی کو اپنا روحانی استاد مانتا ہوں کہ جن کی تحریروں سے میرے دِل میں لکھنے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا، تو وہ مشتاق احمد یوسفی مرحوم ہیں۔ اُن کی نثر نے مُجھے بے حد متاثر کیا اور مُجھے اُن کی کُتب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ مَیں نے یوسفی صاحب کی کُتب کو درجنوں بار پڑھا اور ایک زمانے میں تو مُجھے اُن کی کُتب کے کئی صفحات ازبر تھے۔ جیسی شُستہ، شگفتہ اور شائستہ تحریر یوسفی صاحب نے لکھی ہے، وہ کسی اور کے مقدّر میں نہیں۔

س :آپ نے معذور افراد کے لیے بہت کام کیا ۔ اس فلاحی کام میں دِل چسپی کی غایت کیا ہے؟

ج :دراصل، میری پہلی اہلیہ، صائمہ عمّار مرحومہ نابینا تھیں اور انہی کی وجہ سے مَیں نے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ ہماری شادی کا قصّہ بھی بہت دِل چسپ ہے۔ مَیں جب ایف ایم ریڈیو پر پروگرام کرتا تھا، تو صائمہ اُسے بہت شوق سے سُنتی تھیں۔ جب مَیں نے ریڈیو چھوڑ کر پی ٹی وی جوائن کیا، تو وہ اپنی ایک سہیلی کے توسّط سے مُجھے ملنے آئیں۔ وہ 2برس کی عُمر میں بینائی سے محروم ہو گئی تھی۔اس ملاقات کے بعد ہم نے شادی کا فیصلہ کیا۔ صائمہ نہایت حوصلہ مند خاتون تھیں۔ ہم دونوں نے نابینا افراد کو تعلیم کی فراہمی کے لیے خاصا کام کیا اور بصارت سے محروم کم و بیش 4ہزار بچّوں کو آڈیو بُکس کی مدد سے تعلیم فراہم کی، جن میں سے بعض بڑے بڑے کارنامے انجام دے چُکے ہیں۔ علاوہ ازیں، مُجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان بَھر کے نابینا افراد میری آواز پہچانتے ہیں۔ میری اور صائمہ کی رفاقت 14برس قائم رہی اور پھر اللہ نے انہیں اپنے پاس بُلا لیا۔

س :اپنی پہلی اہلیہ کی کوئی ایسی خاص عادت یا خاص بات، جو آپ قارئین سے شیئر کرنا چاہیں؟

ج :اپنی زندگی کے آخری دِنوں میں صائمہ شدید علیل ہو گئی تھیں اور ایک دماغی بیماری کے نتیجے میں اُن کا تقریباً پورا جسم ہی مفلوج ہو چُکا تھا۔ انہوں نے اس حالت میں ایک سال4ماہ اور 18دن گزارے اور پھر اللہ نے اُن کی مشکل آسان کی۔ جس روز اُن کا انتقال ہوا، اُس دن مَیں لاہور میں تھا اور جب میری اُن سے آخری مرتبہ فون پر بات ہوئی، تو انہوں نے نہ جانے کیا سوچ کر کہا کہ’’جتنا آپ نے زندگی میں میرا خیال رکھا، اتنا کوئی کسی کا نہیں رکھ سکتا‘‘۔ صائمہ کا یہ جملہ اب ایک یاد کی صورت میرےذہن میں محفوظ ہے۔

س :پاکستان میں معذور افراد کے بنیادی مسائل کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

ج :ہمارے مُلک میں معذوروں کا بنیادی مسئلہ تعلیم کی عدم فراہمی ہے۔ گرچہ خصوصی افراد کے لیے درس گاہیں قائم ہیں، لیکن وہاں تعیّنات اساتذہ غیر تربیت یافتہ ہیں۔ پھر ان اسکولز کی تعداد بھی کافی کم ہے اور ان میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نیز، ہمارا معاشرہ بھی معذور افراد کو کم تر سمجھتا ہے اور اس ضمن میں ہمارے ادب اور میڈیا کا رویّہ بھی بہت سفّاکانہ ہے، لیکن اگر کوئی معذور فرد پڑھ لکھ کر ایک باوقار ذریعۂ معاش حاصل کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، تو معاشرے کی ساری منفیت، اثبات میں بدل جاتی ہے۔ پھر لوگ اُس معذور شخص کا حوصلہ بڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں اُس کا نام لیتے ہیں۔ تاہم، ملازمت کے حصول کے لیے تعلیم نہایت ضروری ہے اور یہ حکومت کی توجّہ اور دِل چسپی کے بغیر ممکن نہیں۔ گرچہ دیگر ممالک میں معذور افراد کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں، لیکن ہم ابھی تک انہیں بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کر سکے۔ ہمیں اس مسئلے پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم معذور افراد کے لیے خدمات انجام دینے کو صرف نیکی سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ نیکی کے ساتھ ہماری سماجی ذمّے داری بھی ہے۔

س :آپ کی دوسری اہلیہ صحافی ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ پیشہ ورانہ تفاوت، خانگی اختلاف تک جا پہنچا ہو؟

ج :پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد 4برس مَیں نے بہت تکلیف میں گزارے۔ صائمہ کی موت کے بعد مَیں شدید پژمردگی کا شکار ہو گیا تھا۔ میرے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔ والدہ سے میری یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ سو، ایک روز اچانک انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’اگلے مہینے تمہاری شادی ہے۔ اب مَیں تمہیں اس حال میں مزید نہیں دیکھ سکتی۔‘‘ انہوں نے میرے لیے شنیلہ کو پسند کیا تھا اور میری ان سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ 7برس تک معروف صحافی اور اینکر پرسن، طلعت حسین کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کر چُکی تھیں۔ شنیلہ سے شادی کے بعد میری ذہنی حالت میں کافی بہتری واقع ہوئی۔ انہوں نے نہ صرف مُجھے غم کی کیفیت سے نکالا، بلکہ گھریلو امور کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ اب جہاں تک پیشہ ورانہ اختلافات کی بات ہے، تو میرے بعض احباب تو یہ تک کہتے ہیں کہ شنیلہ ہی نے میری صحافتی تربیت کی، لیکن اس کے باوجود بعض اوقات ہم دونوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دونوں سیاسی تجزیہ کار ہیں اور اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہر چند کہ شنیلہ ایک عملیت پسند صحافی ہیں، شعر و ادب سے کچھ دُور دُور رہتی ہیں اور تصوّرات کی بہ جائے حقائق پر یقین رکھتی ہیں، لیکن اہلِ ہُنر پھر بھی بیوی کی توصیف کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے ہیں۔ لہٰذا، مَیں اکثر انہیں وہ شعر سُناتا ہوں، جو والد میری والدہ کو سناتے ہیں کہ؎قسم خدا کی محبّت نہیں عقیدت ہے…دیارِ دل میں بڑا احترام ہے تیرا۔ اگر اس کے علاوہ آپ ان سے کچھ پوچھنا چاہیں، تو یہ آپ کے سامنے بیٹھی ہیں۔ جو سوال کرنا ہو، کر لیں، مجرم سرنِگوں ہے۔

س: بہن، بھائیوں سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: ہم پانچ بہن، بھائی ہیں، لیکن اُردو ادب سے صرف مجھے اور بڑی ہم شیرہ ہی کو لگاؤ ہے۔ بڑے بھائی، عاقب انور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور اُن کی اہلیہ، معروف شاعر، امجد اسلام امجد کی صاحب زادی ہیں۔ بھابھی پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور ادب میں خواتین کے مزاحمتی کردار پر ان کا بہت کام ہے۔ میری بڑی بہن فارسی کی استاد ہیں۔ ان کا شعری اور ادبی ذوق بہت ارفع ہے۔ ان کے شوہر، راشد عظیم نے بوٹنی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ چھوٹی ہم شیرہ، لینہ حاشر بہت اچھا لکھتی ہیں۔ سماجی موضوعات پر لکھے گئے اُن کے بلاگز نے خاصی شہرت پائی۔ اُن کے شوہر، حاشر ابن ارشاد میری خالہ کے بیٹے ہیں۔ چھوٹا بھائی، جواد اظفر ایک نیم سرکاری ادارے میں کام کرتا ہے اور اُن کی اہلیہ، زیبا جواد فیشن ڈیزائنر ہیں۔

س: آپ کیسے طالبِ علم تھے؟ زمانۂ طالبِ علمی کی کوئی شرارت، جو یاد ہو؟

ج: پڑھائی، لکھائی کے معاملات میں تو کارکردگی خراب ہی رہی، البتہ اُردو ادب پڑھنے کا بے حد شوق تھا، لہٰذا شاعری، افسانے، ناولز بچپن ہی میں پڑھ لیے تھے، لیکن نصابی کُتب میں کبھی دِل چسپی نہیں رہی، بہ مشکل پاس ہی ہو پاتے تھے اور گھر والے اس پر بھی شُکر ادا کرتے۔ مَیں نے آٹھویں جماعت میں ایک کُل پاکستان تقریری مقابلہ جیتا، جو ہمارے اسکول کے لیے ایک بڑا کارنامہ تھا اور اس خوشی میں اسکول میں ایک دن کی چُھٹّی کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس کارنامےکا نتیجہ یہ نکلا کہ مَیں نے اگلے سال کلاس میں داخل ہونا بھی پسند نہیں کیا، جس کے نتیجے میں نویں جماعت میں فیل ہوگیا۔

س: بچپن کیسا گزرا؟ والدین کی محبّت کو کس طرح بیان کریں گے؟

ج: بچپن شرارتوں سے بھرپور تھا، لیکن شرارت میں بدتمیزی نہیں، ذہانت ہوتی تھی۔ کسی کے جسمانی عیوب کا مذاق اڑانے کو ہمارے گھرانے میں کبھی شرارت نہیں سمجھا گیا۔ شعر وشاعری میں چہلیں بھی ہوتیں، مگر اختلاف، دلیل کے ساتھ ہوتا ۔ والدہ میری شرارتوں سے بہت پریشان رہتیں، مگر سب سے زیادہ پیار بھی مجھ ہی سے کرتی تھیں۔

س: والد صاحب کو کیسا پایا؟ کیا اُن کی حسِ مزاح سے اُس وقت بھی لُطف اندوز ہوتے تھے اور کیا وہ گھر میں بھی اشعار سُناتے ہیں؟

ج: میرا اور بڑی ہم شیرہ، عدیلہ راشد کا رجحان ادب کی طرف زیادہ تھا، اس لیے ابّو ہمیں شعر سُناتے تھے۔ والدہ کا بھی شعری ذوق کمال کا ہے۔ ابّو سب سے پہلے نیا شعر اُن کو سُناتے ہیں، پھر ہماری باری آتی ہے۔

س: کیا والدہ بھی والد کی طرح حسِ مزاح سے آراستہ ہیں؟

ج: اُن کا روّیہ زیادہ تر متین اور سنجیدہ ہے۔ اُنہوں نے ہمیں سکھایا کہ مزاح میں ذہانت اور شائستگی نہ ہو، تو صرف پھکڑ پَن رہ جاتا ہے۔ اب بھی اُن سے کسی لفظ کے غلط تلفّظ پر ڈانٹ پڑ جاتی ہے، جسے ہم سعادت سمجھتے ہیں۔

س: والد صاحب کو مزاحیہ شاعری میں دنیا بھر میں جانا جاتا ہے، کیا آپ بھی اُس سے فیض یاب ہوئے؟ آپ نے اس کو کس طرح انجوائے کیا؟

ج: ہم نے بچپن سے دیکھا کہ لوگ ہمارے والد کے گرد اکھٹے ہو جاتے تھے۔ اُن سے فرمائشیں کرتے، تصویریں کھنچواتے اور آٹو گراف لیتے۔ یہ کیفیت صرف مُلک ہی نہیں، بیرونِ مُلک بھی ہے۔ بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی اپنی زبان کے ذائقے کو تَرسے ہوتے ہیں۔ ابّو کی شاعری میں اُنہیں اپنی شناخت اور ذائقہ ملتا ہے۔

س: زندگی کا یادگار لمحہ؟

ج: بہن، بھائی کہتے ہیں کہ مَیں نے والدہ کو اپنی شرارتوں سے بہت تنگ کیا ہے اور وہ بھی میری شرارتوں سے ہمیشہ نالاں ہی رہیں۔ 1997 ء کی بات ہے۔ والدہ کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور طبیعت کئی ماہ سے خراب تھی، جس کے سبب وہ کومے میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ۔ مَیں مُلک سے باہر تھا، مگر جیسے ہی اطلاع ملی، واپس بھاگا۔ تین دن سے والدہ نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں، لیکن جیسے ہی مَیں اُن کے کمرے میں داخل ہوا، اُنہوں نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں اور میرا نام پکارا۔ وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے یادگار لمحہ ہے۔ ماں کی محبّت عظیم ہوتی ہے اور عظیم تَر ہی رہتی ہے اور اس کا احساس انہی لمحات میں ہوتا ہے۔ بہرحال، اللہ نے اُنھیں صحت و تن درستی دی اور آج ماشاللہ وہ صحت مند ہیں۔

س: عشق و محبّت کا زندگی میں کس حد تک عمل دخل ہے؟

ج: محبّت ایک متوازن جذبہ ہے۔ یہ ایک فطری رجحان ہے، جو انسان کو ودیعت ہوتا ہے۔ یہ جذبہ تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ بس کچھ دِل ہوتے ہیں، جو محبّت کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ عشق توازن کا نام نہیں ہے۔ یہ جنون کی کیفیت ہے۔ سب کچھ لُٹا دینے کا نام ہے۔ ہوش و حواس کھو دینے کا نام ہے۔ مجھ سے پوچھا جائے، تو محبّت زیادہ سعد جذبہ ہے۔ عشق تو مجنوں کا کام ہے۔

س: شادی سے پہلے کی زندگی بہتر ہوتی ہے یا بعد کی؟

ج: شادی سے پہلے کی زندگی لاابالی سی ہوتی ہے، جب کہ شادی کے بعد کی زندگی نظم وضؓبط کی طرف لے کر آتی ہے۔ انسان کی خصلت میں تنہا رہنا نہیں ہے۔ ساتھی، ہم درد، غم گسار کا ہونا اس کی ضرورت ہے۔ مَیں خوش قسمت ہوں کہ شادی کے بعد اپنے آپ کو زیادہ مطمئن اور خوش حال محسوس کرتا ہوں اور اس کا تمام تر سہرا، میری اہلیہ، شنیلہ کو جاتا ہے۔

س: فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج: لکھنے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے کتاب اور قلم ہی فرصت کے مشاغل ہیں۔ اچھی فلم ضرور دیکھتا ہوں اور فلم میں سے بھی لکھنے کے موضوعات تلاش کرتا ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مجھے کسی جرم میں عُمر قید ہو جائے، تو دنیا کے سارے جھنجٹوں سے نجات پا کر خُوب لکھوں یا اگر مجھے پتا چلے کہ میری زندگی اب اتنے دن کی رہ گئی ہے، تو ان ایّام کی کہانی لکھوں۔

س: گھر والوں کو آپ کی کون سی عادت ناپسند ہے؟ خصوصاً والد صاحب کو؟

ج: میری طبیعت میں بے چینی بہت ہے۔شاید اطمینان نصیب میں نہیں ہے۔ ہر وقت نئی تلاش، نئی کھوج میں رہتا ہوں۔ نیز، جَلد باز بھی بہت ہوں ۔ سکون سے بیٹھنا پسند نہیں۔ تحمّل نام کو نہیں ہے اور یہ بات گھر والوں کو کچھ زیادہ پسند نہیں۔

س: کوئی ایسی یاد، جسے دِل سے جدا نہ کرنا چاہتے ہوں؟

ج: اب اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، اس لیے ایسے موضوع سے اجتناب ہی بہتر ہے۔

س: دوستی کا شوق کس حد تک ہے؟

ج: اچھے دوست زندگی کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ میرے دوست ایک دوسرے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، لیکن ان میں ایک بات مشترک ہے کہ سب کی حسِ مزاح بہت کمال کی ہے۔ ویسے دوست وہی ہوتا ہے، جو آپ کے ساتھ ہنس سکے۔

س: زندہ رہنے اور جینے میں کیا فرق ہے؟

ج: اگر زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، تو اسے صرف جینا کہتے ہیں۔ اگر کوئی مقصد ہے، تو بات بنتی ہے۔ مَیں نے زندگی دو مقاصد کے تحت گزاری۔ ایک تو نابینا افراد کی تعلیم کے مسائل پر اپنی سی کوشش کی اور دوسرا، سِول بالادستی میرا سیاسی مؤقف ہے۔ زندگی گزارنے کو یہی کافی ہے۔

س: دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: میری دُعائیں بہت مختلف ہیں، لیکن ایک خواہش ضرور ہے کہ اس مُلک کا نام بہت روشن ہو۔ اس کا جھنڈا سب سے بلند ہو۔ اس کے سارے مسئلے حل ہوں۔ غربت، بے روزگاری اور نفرت کا خاتمہ ہو۔ سبز پرچم کی محبّت کا رنگ ہر چہرے پر ہو۔ سفید رنگ کی پاکیزگی سے سارا مُلک پُرنور ہو۔ بس یہی دعا اور یہی خواہش تڑپاتی ہے۔

عمّار پریکٹیکل نہیں ، انہیں میری خوشی، اپنی خوشی سے زیادہ عزیز ہے، شنیلہ عمّار

عمّار مسعود کی دوسری اہلیہ، شنیلہ عمّار بھی صحافی ہیں۔ہم نے جب اُن سے یہ سوال کیا کہ’’ آپ کا تعلق صحافت سے ہے ، جب کہ عمّار کا خاندان علم و ادب کے حوالے سے معروف ہے، تو کبھی صحافت اور ادب کا ٹکرائو تو نہیں ہوتا؟تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’میرا تعلق خالصتاً صحافت سے ہے ۔ ہمارے گھرانے میں بھی شعر و ادب پر بہت کم بات چیت ہوتی تھی، البتہ میرے بھائی، عدنان، انور مسعود صاحب کے بچپن ہی سے بڑے مدّاح تھا اور اکثر ہمیں بھی اُن کی نظمیں سُنایا کرتے تھے۔ مُجھے انور مسعود صاحب کی بہو ہونے پر فخر ہے کہ ان کی نسبت سے مُجھے ہر جگہ احترام ہی ملتا ہے۔ پھر چوں کہ مَیں عمّار کی امّی کی پسند ہوں، تو اس لیے وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر مُجھے عمّار کی شکایت لگانی ہو، تو مَیں اپنی امّی کی بہ جائے عمّار کی امّی سے کرتی ہوں۔ مجھ سے شادی کے بعد عمّار میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ پہلے یہ اُداس تحریریں لکھا کرتے تھے، لیکن اب ان کی بیش تر تحریریں تعمیری ہوتی ہیں۔‘‘ اپنے شریکِ حیات کی پسندیدہ اور نا پسندیدہ عادات سے متعلق کیے گئے سوال پر شنیلہ نے جواب دیا کہ ’’عمّار پریکٹیکل بالکل نہیں ہیں۔ انہیں مالی یا کاروباری معاملات کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ 

گھر کے تمام معاملات مَیں ہی دیکھتی ہوں۔ یہ بالکل پُر سکون رہتے ہیں، جب کہ مَیں سمجھتی ہوں کہ اس زمانے میں اتنی سادگی مناسب نہیں، البتہ مُجھے عمّار کی یہ عادت بہت پسند ہے کہ یہ اپنی اہلیہ کی حیثیت سے مُجھے بہت احترام دیتے ہیں ۔ قدامت پسند بالکل بھی نہیں۔ انہیں میری ہر خوشی، اپنی خوشی سے زیادہ عزیز ہے ۔ میری ہر بات ان کے لیے محترم ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔ عمّار کی یہ عادت انہیں عام لوگوں سے الگ، ممتاز کرتی ہے۔‘‘

تازہ ترین