• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بَھر میں حکومتیں اپنے عوام کو طرح طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ پُرسکون زندگی گزار سکیں، تاہم اس ضمن میں ہر حکومت کی اپنی ہی ترجیحات ہوتی ہیں، جن کا تعیّن پارٹی منشور کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ تمام ترقّیاتی فنڈز کسی ایک ہی شعبے پر خرچ نہیں کیے جاتے، بلکہ فنڈز کو ترجیحات کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مُلک میں تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ بجلی‘ روزگار‘ رہائش اور ٹرانسپورٹ سمیت تمام شعبے ترقّی کر سکیں۔ بعض مُمالک میں تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے، کیوں کہ وہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہوتی ہے، تو بعض حکومتیں صحت کی سہولتوں پر توجّہ مرکوز رکھتی ہیں۔ اسی طرح بنیادی انسانی ضروریات کے تحت پانی‘ بجلی‘ روزگار اور سڑکوں کی تعمیر پر توجّہ دی جاتی ہے۔ اسے بدقسمتی ہی کہہ لیجیے کہ پاکستان اُن مُمالک میں سرِفہرست ہے، جہاں کوئی ایک شعبہ پس ماندہ نہیں، بلکہ تمام ہی شعبوں کی حالت دِگرگوں ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے خیبر پختون خوا میں تعلیم اور صحت کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا اور اس ضمن میں کئی بنیادی نوعیت کے اقدامات بھی کیے، جن کی افادیت پر کوئی شک نہیں، تاہم خامیاں موجود ہیں، جو رفتہ رفتہ دُور ہو رہی ہیں۔ نیز، تحریکِ انصاف کی حکومت نے عمران خان کی مخالفت کے باوجود، بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تعمیر کا بھی اعلان کیا، جسے اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ چوں کہ عمران خان پنجاب میں میٹرو منصوبوں کو’’ جنگلا بس‘‘ قرار دے چکے تھے، لہٰذا مسلم لیگ نون نے بھی اُنہیں اسی طرح کے طعنے دیے۔ اس اَمر میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ضروریات میں تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ بجلی کو اوّلیت حاصل ہے، لیکن کیا پشاور کےشہریوں کو ایک بہترین ٹرانسپورٹ سسٹم اور بسز کی ضرورت نہیں ؟ آج بھی صُورتِ حال یہ ہے کہ لوگ پُرانی، پھٹیچر بسز میں جانوروں کی طرح سفر کرتے ہیں۔ 

ان بسز کی اُدھڑی ہوئی سیٹس اور ٹوٹے ہوئے شیشے مسافروں کو تماشا بناتے ہیں، تو بسز میں گندگی اور بدبُو کے سبب ان مسافروں کی جو حالت ہوتی ہے، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لوگوں کو شدید گرمی میں جانوروں کی طرح بسز میں ٹھونسا جاتا ہے، تو سردیوں میں بھی ان گاڑیوں میں سفر کسی عذاب سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں، شہر کے مختلف علاقوں میں کھٹارا بسز کے ساتھ، سوزوکیاں اور چنگ چیز بھی دوڑتی پِھرتی ہیں، جن سے لوگ’’ چمٹے‘‘ ہوتے ہیں، کیوں کہ اُن کے پاس اس طرح لٹک کر سفر کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی تو نہیں ہے۔ راقم نے تحریکِ انصاف کی خامیوں پر ہمیشہ تنقید کی ہے، لیکن اگر اس بس منصوبے میں ہزار خامیاں ہوں، تب بھی اس کی حمایت صرف اس لیے کی جا سکتی ہے کہ پشاور کی42لاکھ، 69ہزار، 79 نفوس پر مشتمل آبادی کو کم ازکم ایک باعزّت ٹرانسپورٹ سروس تو میّسر آئے گی، ورنہ خواتین‘ بچّے اور بوڑھے جس طرح روزانہ ٹرانسپورٹ مافیا کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں‘ وہ مناظر ہمارے لیے شرم کا باعث ہیں۔ پھر یہ بھی کہ اگر لاہور‘ راول پنڈی‘ ملتان اور دیگر شہروں کے لوگ اچھی سفری سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں، تو پشاور کے عوام کو اس بنیادی حق سے کیوں محروم رکھا جائے۔ صوبے بھر سے لوگ سرکاری اور نجی کاموں کے لیے پشاور آتے ہیں، لیکن شہر کا خستہ حال ٹرانسپورٹ نظام اُن کے لیے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک نے تمام تر مخالفت کے باوجود اس میگا پراجیکٹ کو شروع کرنے کا فیصلہ کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا، تاہم فیصلے میں تاخیر کے باعث منصوبہ اُن کے دَورِحکومت میں مکمل نہ ہو سکا۔ اب عوام نے ایک بار پھر تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا ہے، لہٰذا نئے وزیرِ اعلیٰ اس میگا منصوبے کو جلدازجلد مکمل کروائیں، کیوں کہ پشاور کے لوگ بے تابی سے منصوبے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

پشاور بس منصوبے کے لیے مئی 2013 ء میں پِری فیزیبلٹی کا آغاز کیا گیا، جس پر سات ماہ لگے اور مئی 2014 ءمیں رپورٹ مکمل ہوئی۔ نیز، ایشیائی ترقّیاتی بینک نے فیزیبلٹی کے لیے 15 کروڑ ڈالرز کی گرانٹ دی، جو فروری 2017ء میں شروع ہوکر جنوری2018 ء میں مکمل ہوئی۔ مئی 2017ء میں سی ڈی ڈبلیو پی نے پی سی وَن کی منظوری دی، جس کے تحت منصوبے کی کُل لاگت، 49ارب، 34کروڑ 60لاکھ روپے تھی، جس میں سے ایشیائی ترقّیاتی بینک 85فی صد رقم یعنی 41ارب 88کروڑ 10لاکھ روپے دے گا، جب کہ خیبر پختون خوا حکومت اپنے فنڈز سے 15فی صد رقم یعنی 7ارب 46کروڑ50لاکھ روپے دے گی۔ پھر اس پی سی وَن کو جولائی میں ای سی این ای سی نے بھی منظور کرلیا، جس کے بعد ٹینڈرنگ کا مرحلہ صاف وشفّاف انداز میں شروع ہوا۔ ٹینڈر دستاویز ای پی سی ایم کنسلٹنٹ نے تیار کیں اور ایشیائی ترقّیاتی بینک نے باقاعدہ منظوری دی، جس کے بعد مُلکی اخبارات کے ساتھ3 غیر مُلکی اخبارات میں بھی اشتہارات شایع کیے گئے۔ اس کے علاوہ، ایشیائی ترقّیاتی بینک‘ پیپرا‘ پی ای سی‘ کیپرا اور پی ڈی اے کی ویب سائٹس پر بھی اشتہارات لگائے گئے۔ نیز، میڈیا کے سامنے کُھلی بولی ہوئی اور ایشیائی ترقّیاتی بینک نے سب سے کم اخراجات پیش کرنے والی کمپنی کو پراجیکٹ دینے کی منظوری دی۔ پراجیکٹ کے آغاز سے قبل سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کا کام پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، جب کہ فلیٹ اور آئی ٹی ایس کے کام کی نگرانی ٹرانس پشاور کے سُپرد کی گئی۔ منصوبے کی نگرانی کے لیے بھی باقاعدہ نظام وضع کیا گیا، جس کے تحت پراجیکٹ مینجمنٹ کنسٹرکشن سُپر ویژن کنسلٹنٹ اور پی ڈی اے کو ذمّے داریاں سونپی گئیں۔ اس کے علاوہ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ‘ کمشنر پشاور‘ ڈی جی اور پی ڈی اے کے سینئر ڈائریکٹرز بھی کام کا جائزہ لے رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ خود بھی منصوبے کی نگرانی کرتے رہے، جب کہ اے سی ایس کے ہفتہ وار جائزہ اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ایشیائی ترقّیاتی بینک کا مشن بھی مختلف سائٹس کا معائنہ کرتا رہتا ہے۔ منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایس این جی پی ایل کی پائپ لائن‘ پیسکو کی ہائی ٹرانسمیشن لائنز ‘ ریلویز‘ ٹی اینڈ ٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کی تنصیبات کی منتقلی کے ساتھ، بارشوں اور خراب موسم نے مشکلات پیدا کیں‘ تو شہر میں ٹریفک کے بہائو کے لیے متبادل روٹس‘ منصوبے کے لیے خام مال کی متعلقہ مقام تک رسائی، بھاری مشینریز اور دیگر آلات کی منتقلی بھی بڑا چیلنج ہے۔

بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کا باقاعدہ افتتاح، اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک نے 15 اکتوبر 2017ء کو کیا اوراُن کا دعویٰ تھا کہ اس منصوبے کو مارچ تک مکمل کرلیا جائے گا، تاہم پھر اس کی مدّتِ تکمیل کو اپریل اور مئی تک توسیع دی گئی، لیکن ڈیزائن میں تبدیلیوں اور بسز کی آمد میں تاخیر کے باعث منصوبہ مقرّرہ مدّت میں مکمل نہ ہوسکا۔ منصوبے میں تبدیلیاں بعض ناگزیر وجوہ کی بناء پر کی گئیں۔ بس رُوٹ پر سڑک کی بجائے کنکریٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا، کیوں کہ زمین بہت زیادہ نرم تھی‘ تو پانی کی وجہ سے سڑک کے نیچے کیچڑ ہوگیا تھا اور زیرِ زمین ناقص نکاسیٔ آب کے نظام کی وجہ سے سڑک دھنسنے کا خدشہ تھا۔ شہر میں داخلے کے لیے مِکس ٹریفک فلائی اوور‘ بس اسٹیشن نمبر 3پر بجلی کی ہائی وولٹیج تاروں کی وجہ سے تبدیلی کی گئی۔ نیز، گلبہار بس اسٹیشن کے مقام پر بسز اور عام ٹریفک کے لیے یُوٹرن بنانے‘ عام ٹریفک سے بی آر ٹی بسز کی علیٰحدگی‘ نکاسیٔ آب کے نظام اور دیگر وجوہ کی بناء پر تبدیلی کی گئی۔ اسی طرح قلعہ بالا حصار اسٹیشن پر شاہی کٹھہ‘ قلعہ بالا حصار کو نقصان سے بچانے‘ بی آر ٹی بسز کو عام ٹریفک سے الگ کرنے اور ایل آر ایچ ‘ ملک سعد فلائی اوور اور چارسدّہ روڈ کی جانب ٹریفک کو موڑنے کے لیے الگ فلائی اوور کی تعمیر کی وجہ سے ڈیزائن تبدیل کیا گیا۔ ائیر پورٹ روڈ ٹی جنکشن‘ امن چوک‘ تہکال‘ تاتارا سیکشن‘ فیز 5حیات آباد میں زمین کی کمی اور بی آر ٹی بسز کو عام ٹریفک سے الگ رکھنے کے لیے بھی نقشے میں تبدیلیاں کرنا پڑیں، جب کہ کارخانو مارکیٹ تک بی آر ٹی کی رسائی کا فیصلہ بھی بعد میں کیا گیا۔ نیز، نگران حکومت کی عدم دِل چسپی کے باعث مزید تاخیر ہوئی۔ تاہم منصوبہ تحریکِ انصاف کی نئی حکومت کا انتظار کر رہا ہے تاکہ اسے جلداز جلد مکمل کیا جاسکے ۔

بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی مجموعی لمبائی ابتدا میں 26کلو میٹر تھی، جس کو کارخانو مارکیٹ تک دو کلومیٹر مزید توسیع دی گئی، جس سے منصوبے کی مجموعی لمبائی 28کلو میٹر ہو چکی ہے۔ بی آر ٹی میں 11کلو میٹر کا ٹریک زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، جب کہ 13کلومیٹر ستونوں پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ہر 400میٹر پر ایک اسٹیشن تعمیر ہوگا، جن کی مجموعی تعداد 31ہے۔ بس چوں کہ ایک مخصوص رُوٹ پر چلے گی، لہٰذا68کلومیٹر کے لِنک روڈ سے عوام کو بھی مین رُوٹ تک لانے کے لیے 154بسز چلائی جائیں گی تاکہ کوہاٹ روڈ‘ ورسک روڈ‘ چارسدّہ روڈ‘ پجگی روڈ سمیت سات روٹس کے لوگ بھی مین روٹ تک باآسانی آسکیں۔ بس ریپڈ ٹرانزٹ کے تحت تین بس ڈپوز بھی زیرِ تعمیر ہیں، جن میں پارکنگ کی سہولت بھی میّسر ہے‘ بس منصوبے کی خاصیت انٹیلی جینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم(Inteligent Transporte System) ہے، جب کہ اسکیلیٹرز (Escalater) ‘ ایلی ویٹرز (Elevator) بھی شامل ہیں ۔پہلے مرحلے میں 220بسز چلائی جائیں گی، جب کہ سڑک کے ٹریک کے ساتھ سائیکل لائن بھی موجود ہوگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، تقریباً 4لاکھ افراد ان بسز میں سفر کریں گے، یوں ہر گھنٹے میں 21ہزار افراد اس منصوبے سے مستفید ہوں گے۔ بس کی رفتار 25کلو میٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ اس کے علاوہ، حکومت نے پُرانی اور بوسیدہ بسز کے ڈرائیورز اور مالکان کو بھی ایک پیکیج دینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے ایک ارب 5کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ منصوبے کی ابتدائی لاگت 49ارب 34کروڑ 70لاکھ تھی، تاہم منصوبے میں بہتری کے لیے تبدیلیاں کی گئیں، جس سے لاگت میں بھی اضافہ ہوا۔ بعض جگہوں پر تیکنیکی اعتبار سے تبدیلیاں ناگزیر تھیں جب کہ بعض مقامات پر عوام نے احتجاج کیا، جس کی بنا پر ڈیزائن میں بہتری لائی گئی۔ یوں منصوبہ 67ارب 95کروڑ 30لاکھ تک پہنچ گیا۔ نظر ثانی شدہ اخراجات کے مطابق، ابتدائی طور پر بی آرٹی کی سڑک پر 21ارب 31 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا، جو42فی صد اضافے کے ساتھ، 29ارب 52کروڑ 9 لاکھ روپے ہوگئے، جو مجموعی لاگت کا 04.44فی صد بنتا ہے۔ منصوبے کی بہتری کے لیے ابتدائی طور پر 8ارب 9کروڑ 10لاکھ روپے رکھے گئے جو کہ 47فی صد اضافے کے ساتھ 11ارب 91کروڑ 10لاکھ روپے ہوگئے۔ یہ مجموعی لاگت کا 53.17فی صد بنتا ہے۔ نیز، فلیٹ اور آئی ٹی ایس کے لیے 9ارب 21کروڑ 30لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا، جو 25فی صد اضافے کے ساتھ 11ارب 49کروڑ 30لاکھ روپے ہوگئے، جو کہ مجموعی لاگت کا 91.16 فی صد بنتا ہے۔ تین علاقوں میں جدید طرز کے بس اور پارکنگ ڈپوز بنانے کے لیے ابتدائی طور پر 3ارب 77کروڑ 80لاکھ روپے رکھے گئے، جوکہ 124فی صد اضافے کے ساتھ 8ارب 45کروڑ 40لاکھ روپے ہوگئے، جو مجموعی لاگت کا 44.12 فی صد بنتا ہے۔ زمین کی خریداری کے لیے 3ارب 89کروڑ 30لاکھ روپے رکھے گئے ،جو بعد میں کم کرکے 3ارب 7کروڑ کر دیے گئے اور یہ رقم مجموعی لاگت کی 52.4 فی صد بنتی ہے۔ بائیک شیئرنگ کے لیے 13کروڑ 20لاکھ روپے رکھے گئے اور اس میں ردّوبدل نہیں کیا گیا۔ کے پی یو ایم اے اور ٹرانز پشاور کے لیے ایک ارب 55کروڑ 30لاکھ روپے رکھے گئے، لیکن بعدازاں اس میں 48فی صد کمی کرکے یہ رقم صرف 80کروڑ روپے کر دی گئی، جو کہ مجموعی لاگت کا 18.1فی صد ہے۔ منصوبے کی نگرانی کے لیے 49کروڑ 30لاکھ روپے رکھے گئے، جس میں 74فی صد اضافہ کرکے یہ رقم 85کروڑ 60لاکھ روپے کر دی گئی، جو کہ مجموعی لاگت کا 26.1فی صد ہے۔ فلیٹ اسکریپنگ کے لیے ایک ارب روپے رکھے گئے، جس میں 5فی صد اضافہ کرکے یہ رقم ایک ارب 5کروڑ 20لاکھ روپے کر دی گئی، جو کہ مجموعی لاگت کا 55.1فی صد ہے۔ اس کے علاوہ، ذیلی سڑکوں یا لنک روڈز کے لیے 9کروڑ 50لاکھ روپے رکھے گئے، جس میں 237فی صد اضافہ کرکے یہ رقم 32کروڑ روپے کر دی گئی اور یہ رقم مجموعی لاگت کی 47.0فی صد بنتی ہے۔ نیز، ماحولیاتی تحفّظ کے لیے 6کروڑ 80لاکھ روپے رکھے گئے، تاہم اس میں کمی بیشی نہیں کی گئی۔ عوامی دبائو اور ٹریفک کی روانی کے لیے ڈیزائن میں ہونے والی تبدیلیوں نے جہاں لاگت میں اضافہ کیا، وہاں اس منصوبے کی مدّتِ تکمیل میں بھی اضافہ ہوا۔

اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے دو فیصلوں سے کچھ ابہام پیدا ہوا ہے، جسے اب سپریم کورٹ ہی دور کر سکتی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، یحییٰ آفریدی اور جسٹس سیّد افضل شاہ نے بس منصوبے کے خلاف دائر درخواست نمٹاتے ہوئے 7دسمبر 2017ء کو ٹھیکے کو قانونی قرار دیا تھا، جب کہ ٹریفک پولیس‘ ادارہ تحفّظِ ماحولیات اور پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو ہر 14روز بعد پروگریس رپورٹ ماحولیاتی مسائل سے متعلق کیے گئے اقدامات اور متبادل ٹریفک پلان کی رپورٹ پشاور ہائی کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ’’ بس ریپڈ ٹرانزٹ سے متعلق معاملات اور اس کا ٹھیکا، قانون کے مطابق ہے اور ریکارڈ سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی، جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہو کہ کنٹریکٹ دینے میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔‘‘ ہائی کورٹ نے 17جولائی 2018ء کو کیس نمٹاتے ہوئے موجودہ ڈی جی، پی ڈی اے، اسرار الحق کو منصوبے کی تکمیل تک تبدیل نہ کرنے کا بھی حکم دیا، تاہم پشاور ہائی کورٹ کے موجودہ معزّز چیف جسٹس، وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مِس مسرّت ہلالی نے منصوبے میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے اس مقدمے میں منصوبے کی لاگت 49ارب 30کروڑ سے 67ارب 90کروڑ تک بڑھنے پر نیب کو تحقیقات کا حکم دیا ہے، جب کہ موجودہ ڈائریکٹر جنرل، پی ڈی اے، اسرار الحق کو بھی دوبارہ اپنے محکمے میں بھجوانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے اور نیب کی تحقیقات کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے اور کام کی رفتار نہایت سُست ہو چکی ہے، جس سے شہری عذاب میں مبتلا ہیں ۔

ٹرین اور بس منصوبوں کے ذریعے پشاور‘ نوشہرہ‘ مردان اور چارسدّہ کے عوام کو ملانا میرا مشن ہے‘ پرویز خٹک

خیبرپختون خوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ، پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ’’ میرا ویژن تھا کہ پشاور میں جدید طرز کی بس سروس شروع کی جائے، پھر موجودہ بس اسٹینڈ کو چمکنی منتقل کیا جائے، جہاں ایک کثیرالمنزلہ عمارت میں بی آر ٹی سسٹم اور سرکلر ریل سسٹم کو یک جا کردیا جائے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ بس ریپڈ ٹرانزٹ کے ذریعے پورے شہر کو لنک کیا جائے گا، جس کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، سی پیک کے تحت پشاور‘ نوشہرہ‘ مردان‘ چارسدّہ کے درمیان ریل لنک کا منصوبہ بھی تیار ہے، جس کے ذریعے پشاور کے لوگوں کو ٹرین اور بس کے ذریعے کئی شہروں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔ 

اگر کوئی شخص نوشہرہ‘ مردان‘ چارسدّہ سے پشاور آنا چاہے، تو وہ ٹرین میں بیٹھ کر چمکنی بس ڈپو اُتر جائے اور وہاں سے بس پکڑ کر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو جائے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ تحریکِ انصاف حکومت اپنے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرے گی‘ بس منصوبے میں کوئی سبسڈی نہیں دیں گے، بلکہ اس سے صوبے کو آمدن ہوگی۔ لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح پُرانی اور بوسیدہ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں‘ کوئی نوجوان صاف ستھرے کپڑے پہن کر ان پُرانی گاڑیوں میں سفر کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ اُنہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ تحریکِ انصاف اب وفاق اور صوبے میں حکومت سازی کے بعد خیبر پختون خوا کے عوام کی مزید بہتر خدمت کر سکے گی‘ ماضی میں فنڈز کی عدم فراہمی اور وفاق کے عدم تعاون کے معاملات اب رکاوٹ نہیں بنیں گے۔‘‘

پشاور، لاہور میٹرو کا تقابلی جائزہ

لاہور میٹرو بس پراجیکٹ، سابق وزیر اعلیٰ، شہباز شریف نے ستمبر 2011 ء میں شروع کیا اور فروری 2013 ء میں اس کا افتتاح ہوا۔2017 ءمیں اس میں فیڈر روٹس اور بسز بھی شامل کی گئیں۔ پشاور میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے بی آرٹی پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد نومبر2017 ء میں رکھا۔ لاہور میٹرو کے لیے سڑکوں اور پُلوں سمیت 27 اسٹیشنز کی تعمیر پر تقریباً 30 ارب کی لاگت آئی، جب کہ پشاور بی آرٹی کے لیے سڑکوں، پُلوں اور انڈر پاسز کے ساتھ، ایک اضافی سائیکل ٹریک بھی تعمیر کیا جا رہا ہے، جب کہ بی آر ٹی کا رُوٹ لاہور میٹرو سے ایک کلو میٹر زیادہ ہے۔ پشاور بی آرٹی میں300 بسز کی خریداری پر7اعشاریہ 5ارب کا خرچا آیا ہے ۔ پشاور میں موجود پُرانی بسز اور ویگنز کو حکومت خود خرید کر اسکریپ کرے گی، جس پر 1 ارب روپے کا خرچ ہوں گے، جب کہ لاہور میں کوئی ایک بھی پُرانی بس حکومت نے نہیں خریدی۔ پشاور بی آر ٹی پر ڈیوٹی اور ٹیکسیز کی مد میں2اعشاریہ 4ارب روپے خرچ ہوں گے، جب کہ لاہور میٹرو کی ڈیوٹیز اور ٹیکسیز وفاق نے معاف کیے یا خود ادا کیے۔ پشاور بی آرٹی کے رُوٹ پر، امن چوک پہ ایک جدید شاپنگ پلازا کی تعمیر بھی زیرِ غور ہے، جس میں 1100 دُکانیں بنائی جائیں گی۔ اس کے لیے8اعشاریہ 5ارب روپے رکھے گئے ہیں، جب کہ لاہور میٹرو میں کوئی ایک بھی دُکان نہیں، جو حکومتِ پنجاب کے لیے اضافی آمدن دے سکے۔ اسی طرح زمین کی خریداری پر بی آر ٹی میں تقریباً3ارب 70کروڑ روپے لگائے گئے، جب کہ پنجاب میں زمینوں کی خریداری پر کتنا خرچا آیا؟ کوئی سرکاری اور غیر سرکاری دستاویز موجود نہیں۔ بی آرٹی پشاور سسٹم چلانے کے لیے ایک ارب 50کروڑ روپے رکھے گئے ہیں‘ پشاور بی آرٹی کے اطراف میں تمام سڑکوں کی تعمیر، تزئین و آرائش اور شہر کی خُوب صورتی کے لیے11 ارب مختص ہیں، جب کہ لاہور میں میٹرو بننے کے بعد اس کے لیے الگ سے فنڈ رکھا گیا تھا۔ بی آرٹی کے اس 1 1ارب روپے میں8 فیڈر روٹس پر محیط 68 کلو میٹر رُوٹ کی تعمیر، اسٹیشنز اور لاجسٹک بھی شامل ہیں۔ لاہور میں فیڈر سروس2017 ءمیں شروع کی گئی اور اس پر5 ارب کا خرچا آیا، جو صرف ڈائیو بس سروس کو بسز خریدنے کے لیے دیے گئے۔ بی آرٹی کو ٹرانزٹ پشاور چلائے گی، جو اپنی آمدنی سے 59 ارب روپے کے قرضے اُتارے گی اور قرضہ اُتارنے کے بعد پورا بی آرٹی سسٹم خیبر پختون خوا حکومت کے حوالے کر دیا جائے گا۔ خیبر پختون خوا حکومت اس پراجیکٹ پر زیرو سبسڈی دے گی، جب کہ لاہور میٹرو کو چلانے کے لیے پنجاب حکومت اب تک 10 ارب کی سبسڈی دے چُکی ہے اور 2 ارب روپے ہر سال سبسڈی دیتی رہے گی۔

پراجیکٹ میں تبدیلیاں عوام کے اصرار اور احتجاج کے باعث کرنا پڑیں‘ ڈی جی، پی ڈی اے

پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل، اسرار الحق نے بتایا کہ’’ میگا پراجیکٹ کے ڈیزائن میں تبدیلیوں کے باعث منصوبہ مقرّرہ مدّت میں مکمل نہ ہو سکا۔ تمام تبدیلیاں عوام کے پُرزور اصرار اور احتجاج کے باعث کرنا پڑیں۔ بعض مقامات پر ٹریفک کے رَش اور تیکنیکی اعتبار سے بھی تبدیلی ناگزیر تھی۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ بی آر ٹی ایک صاف، شفّاف منصوبہ ہے، جس کی ایشیائی ترقّیاتی بینک مکمل نگرانی کر رہا ہے۔ بینک ٹھیکے دار کو براہِ راست ادائیاں کرتا ہے اور بِل کی تصدیق کنسلٹنٹ کرتا ہے، یوں پی ڈی اے کا براہِ راست ادائیوں سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ معیار پر قطعاً سمجھوتا نہیں کیا گیا‘ کوئی بھی منصوبے کے معیار کو چیک کر سکتا ہے۔ پشاور بی آر ٹی اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ ہوگا، جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے۔‘‘

تازہ ترین