• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن




کلیم عثمانی کا ایک مشہور شعرآج بھی لوگوں کی زبان پر ہے :

                 میں اپنے شہر میں پھر بھی اجنبی سا ہوں

                 جنوں   یہ  ہے کہ   وفا    کو   تلاش   کرتا   ہوں

اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی آج اس دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کا شعری خزانہ، ان کے فلمی گیت اور غزلیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ کلیم عثمانی کے مداح آج ان کی اٹھارہویں برسی منا رہے ہیں۔

کلیم عثمانی کی غزلوں میں رومانویت کی جھلکیاں ملتی ہیں اور عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صاف گو اور اصول پسند شخص تھے جنہوں نے زندگی بھر سچائی سے محبت کی اور منافقت سے نفرت۔

فلم ’فرض اور مامتا ‘کے لیے انہوںنے ملی گیت اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں تحریر کیا جسے روبن گھوش کی موسیقی کے ساتھ نیرہ نور نے گایا تھا یہ گیت پاکستان میں آج بھی بے حد مقبول ہے۔اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کا شمار بھی پاکستان کے مقبو ل ترین ملی نغمات میں ہوتا ہےجسے مہدی حسن نے گایا تھا ۔

کلیم عثمانی 28 فروری 1928ء کو ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے ۔کلیم عثمانی کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا بے حدشوق تھا۔ان کا ایک مشہور شعرآج بھی لوگوں کی زبان پر ہے :

ان کے والد فضل الٰہی بیگل بھی اپنے زمانے کے بہترین شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی اور1947ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئےوہاں انہوں نے احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے صحافت بھی کی ۔ پھر انہوں نے فلمی شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔

انہوں نے 1955میں فلم ’’انتخاب‘‘ کے گیت تحریرکیےاور یہاں سے ان کے کرئیر کی ابتدا ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ فلم ناکام ہو گئی لیکن کلیم عثمانی ناکام نہیں ہوئے۔اس کے بعد انہوں نے فلم ’’بڑا آدمی‘‘ کے گیت تحریر کیے ۔ مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں ان کا گانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوااور پھرہمایوں مرزا کی فلموں ’بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں ‘کےلیے بھی انہوں نے نغمے لکھے۔ فلم راز کے لیے تحریر کردہ ان کا نغمہ’ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘ بے حدمقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔

1966ء میں کلیم عثمانی نے ’’ہم دونوں‘‘ اور ’’جلوہ‘‘ کے گیت تخلیق کیے جس سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا جس سے ان کو کافی شہرت ملی تھی۔ بعد ازاںانہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کیے جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں’ عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی ‘ شامل ہیں۔

سال 1973ء میں انہیں فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا ۔

28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی، لاہور میں وفات پاگئے اور لاہور ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

                         ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت

                       پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت

تازہ ترین