• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم سب پرانے پاکستان میں رہتے تھے۔سکون کا دور دورہ تھا زندگی کے ہر شعبے میں مروت، دیانت، وضع داری اور تہذیبی روایات کا تسلسل ابھی موجود تھا۔

صحافت کے پیشے میں بھی سینئرز کا لحاظ اس حد تک تھا کہ آج کے صحافی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔آج سے ٹھیک انیس برس ادھر کی بات ہے کہ شام کو میری شادی تھی اور میں لاہور کے ایک موقر روزنامے کے نیوز روم میں اپنی ڈیوٹی پر تھا اور میرے ساتھی محمد اقبال بالا، جعفر چوہدری، شجاع الدین، فاطر ولید اور تجمل شیخ مجھے شادی کی مبارک باد دے رہے تھے،۔

آج کے ہمارے جونئیر صحافی حیران ہونگے کیونکہ وہ تو شادی کے لیے ایک ایک ماہ چھٹی مانگنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور نہ ملنے پر سخت واویلا مچاتے ہیں ان کو اندازا ہی نہیں کہ اخبار کے دفتر میں آنے کا تو وقت ہوتا ہے لیکن جانا کب ہے یہ بتانا بے حد مشکل ہے

مجھے یاد ہے کہ جب روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم میں کام کر رہا تھا تو افغان امریکہ اور پھر عراق جنگ کے دوران ایک ماہ تک چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا لیکن ہم سب صحافت کو ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن ایک عبادت سمجھ کر کرتے تھے، اپنے سینئرز کی بہت عزت کرتے تھے ان کی کسی بات کو رد کرنے یا ان کے سامنے اپنی علمیت و قابلیت جھاڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

ہمیں یہی بتایا گیا تھا کہ باادب بامراد، بے ادب بے مراد مزید براں علامہ اقبال رحمتہ اللہ کے اس ارشاد پر ہمیشہ عمل پیرا رہتے تھے کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں، اس زمانے کی صحافت اور آج کی صحافت میں وہی فرق ہے جو دن اور رات میں ہے، آج کا صحافی کچھ سیکھنا ہی نہیں چاہتا،وہ سمجھتا ہے کہ گوگل سے سب کچھ ملتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے

گوگل سے آپ کو سطحی نوعیت کا علم تو ملتا ہے لیکن گہرائی کے لیے مشقت کرنا پڑتی ہے کتاب کو دوست بنانا پڑتا ہے، تحقیق کرنا پڑتی ہے، جستجو کرنا پڑتی ہے اب جس قسم کی صحافت ہو رہی ہےخواہ وہ اخبارات میں ہو یا ٹی وی چینلز میں، بھلے اسے کہا تو صحافت ہی جا رہا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ صحافت نہیں بلکہ شر انگیزی ہے جو اخلاقیات، سماجیات اور روایات کا بڑی شان سے جنازہ نکال رہی ہے۔

ایک ایسا شخص جس کو تاریخ ،سیاست، معاشرت، فنون لطیفہ، نفسیات، معاشرت کا علم ہی نہیں وہ ہمیں اپنے کالموں یا ٹی وی پروگرام میں بھاشن دیتا نظر آتا ہے، انیس برس میں ہم پرانے پاکستان سے نئے پاکستان تک تو پہنچ گئے لیکن یقین مانیے کہ وہ پرانا پاکستان بہت یاد آتا ہے جس میں تہذیب تھی، روایات تھیں، ادب تھا، بھرم تھا۔ کاش کہ وہ پرانا پاکستان لوٹ آئے۔

تازہ ترین