• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیصر عباس …

شہر کی کچی آبادی میں عادل اپنی ماں کے ساتھ ایک خستہ حال مکان میں رہتا تھا۔ماں لوگوں کے گھروں میں جاکر کچھ کام کرتی اور بیٹا صبح سے شام تک ریوڑیاں بیچا کرتا تھا۔

صبح سویرے حسبِ معمول اُس روز بھی ماں، عادل کا ماتھا چوم کر اپنے کام پر چلی گئی اور عادل اپنے کام پر، چلتے چلتے عادل خود سےمخاطب ہوا ’’چل عادل! آج کہیں اور چل کر قسمت آزماتے ہیں۔‘‘ وہ نئے ولولے اور نئی امید کے ساتھ، آوازیں  لگاتا ہوا ایک طرف چل دیا۔

’’ریوڑیاں لے لو! ریوڑیاں!خالص دیسی گھی سے تیار کردہ ریوڑیاں! چکوال شہر کی مشہور ریوڑیاں! جو ایک بار کھائے گا ،وہ بار بار آئے گا!!‘‘

جب بھی کوئی لڑکا اُس سے ریوڑیاں لینے آتا تو وہ اُس کے سامنے اپنی ریوڑیوں کی تعریف کے پُل باندھ دیتا تھا۔

پھرتا پھراتا وہ ایک اسکول کے سامنے جاپہنچا، وہاں موجود ریڑھی والے پہلے تو اُسے گھور گھور کر دیکھنےلگے، پھر ُاس پر پھبتیاں کسنےلگے، مگر عادل پر اُن کی باتوں کا مطلق اثر نہ ہوا، وہ استغراق کے عالم میں حسرت آمیز نگاہوں سے اسکول جانے والے بچوں کو دیکھےجارہا تھا۔

کچھ دیر بعد اسکول کا گیٹ بند ہوگیا، تووہ لاری اڈے کی جانب چل دیا، وہاں اُس کی ریوڑیاں تو اچھی خاصی بکنے لگیں ،مگر بس ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں اور دیگر لوگوں نے اُس کی ریوڑیاں چگنا شروع کردیں۔ ان مفت خوروں سے گھبراکر وہ لاری اڈہ چھوڑ کر شہر کے چوک پرچلا گیا۔

شہر کا مرکزی چوک، ٹریفک جام ہوجانے کی وجہ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، گاڑیوںکے ہارن، کانوں کے پردے پھاڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ ریڑھی والے گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی اشیاء کے دام بتارہے تھے۔ اس شور شرابے میں اُس کی ہلکی آواز، اُس کے حلق سے نکلی تو سہی، مگر شور میں گم ہوکر رہ گئی۔ پاس کھڑے دو نوجوانوں میں سے ایک نے اُس کی جانب دیکھ کر کہا۔

’’آہ بیچارا!اس عمرمیں اسکول جانے کی بجائے،کتنی سخت مشقت کررہا ہے۔‘‘ یہ سن کر دوسرا لڑکا فوراً بولا۔ ’’پڑھ کر ہماری کون سی نوکریاں لگ گئی ہیں، ہم سے تو یہ لاکھ گنا بہتر ہے، کچھ نہ کچھ کما تو رہا ہے۔‘‘ پھر وہ خود پر اور حکومت پر طنز و تضحیک کے جملے کستے ہوے چل دیئے۔اُن کے جاتے ہی ایک ریڑھی والا عادل کے پاس آیا اور گرج کر بولا۔’’چل بے، ہماری ریڑھیوںکے سامنے سے ہٹ، کہیں اور جاکر بیچ۔ چل چل پتلی گلی پکڑ ،ورنہ ایک کان کے نیچے دوں گا۔ عادل بادلِ نخواستہ وہاں سے چل دیا۔

صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہونے کو آرہی تھی، مگر عادل کا سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیںلے رہا تھا۔اُس کا گلاب سا چہرہ ، چلچلاتی دھوپ میں پھر پھرکر سرخ ہوتا جارہا تھا، بالآخر غروبِ آفتاب سے ذرا پہلے، پرندوں کو اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹتا دیکھ کر عادل نے بھی گھر کی راہ لی۔

تھکان سے بے حال گھر پہنچتے ہی وہ باقی ماندہ ریوڑیاں ایک طرف رکھتے ہوئےبولا۔

’’ماں! آج تو بہت زوروں کی بھوک لگی ہے، کیا پکایا ہے؟‘‘ ماںاپنے لختِ جگر کی آواز سن کر بیدار ہوگئی اور کانپتی ہوئی آواز میں کچھ بولی، مگر الفاظ صحیح طرح سے ادا نہ کرپائی۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی زبان اُس کے قابو میںنہیں ہے، وہ دائیں جانب لڑھک جاتی ہے، پھر جب اُس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اُسے اپنے جسم کا دایاںحصہ بالکل سن محسوس ہوا۔ اُس نے دوبارہ کوشش کرکے ہکلاتےہوئے کہا ’’بے۔بییا۔بیٹا۔!‘‘عادل لپک کر ماں کی چارپائی کے پاس گیا۔ ’’ماں!ماں کیا ہوا۔‘‘اُس کی ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر چہرے پر تیر پڑے اور پھر یکلخت جسم میں شدید جھٹکے لگنے لگے۔ عادل آبدیدہ ہوکر ماں کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔ ’’ماں بتائو ناں…کیا ہوا تمہیں؟‘‘

اس بار اُس کی ماں نے دوسرےہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اُس کے جسم کا دایاں حصہ کام نہیں کررہا ہے، ساتھ ہی اُس کی آنکھوں سے آنسو کی ندیاں رواںہوگئیں۔ عادل، فرط ِجذبات سے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑکر بوسہ لیتے ہوئےبولا ’’ماں تو فکر نہ کر، میں ابھی ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں، وہ ڈاکٹر کو لینے چلا گیا۔

عادل: ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب!!! ایک بار میرے ساتھ چل کر میری ماں کی طبیعت دیکھ لو، پتا نہیں انہیںاچانک کیا ہوگیا ہے، وہ ٹھیک طرح سے کچھ بول بھی نہیں پارہی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اُس کی طرف دیکھ کرکہا ’’میری فیس 800 روپے ہوگی؟‘‘

عادل نے ڈاکٹر صاحب کو اُن کی فیس دیتے ہوئے کہا’’آپ بس جلدی سے چل دیجئے۔‘‘

گھر پہنچ کر دیکھنے کےبعد، ڈاکٹر صاحب نے کچھ ہدایات دیں اور ایک کاغذ پر چند ادویات کے نام لکھ کر دیتے ہوئے کہا۔ ’’عادل ،یہ میڈیکل اسٹور سے جاکر لے آنا۔‘‘ پھر ڈاکٹر صاحب عادل کو لے کر باہر آئے اور کہا۔ ’’تمہاری ماں کو فالج ہوگیا ہے، لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، میں نے جو دوائیں لکھی ہیں، وہ وقت پر دیتے رہنا، انشا اللہ جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔‘‘یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب کلینک کی طرف چل دیئے اور عادل میڈیکل اسٹور کی جانب۔

عادل نے میڈیکل سے جاکر دوائیاں لیں اور باقی پیسوں سے ہوٹل سے کھانا خرید کر لے آیا۔

گھر کے اندر داخل ہوتے ہی سامان اُس کے ہاتھوں  سے گر پڑا، چادراُس کی ماں کے چہرےسے ہٹی ہوئی تھی اور آنکھیں کھلی ہوئیں، مگر پتھرائی ہوئی تھیں۔اُس نے قریب جاکر لرزتے ہوئے آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھاکر اپنی ماں کی سانسوں کو دیکھا، پھر اضطراب کے عالم میں اُس کے سینے پر سے ہاتھ اٹھاکر نبض دیکھی، نبض دیکھتے ہی اُس کے حلق سے چیخ کی صورت میں لفظ ’’ماں‘‘ نکلا اور اس کے ساتھ ہی اُس کے قفس ِعنصری سے اُس کی روح نکل کر عالم ِآب و گلِ سے عالمِ ارواح کی طرف پرواز کر گئی۔چیخ کی آواز سن کر، پاس پڑوس کے لوگ گھر میں جمع ہوگئے اور اُن کی اس پرُاسرار موت پر چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ایک عورت اندر داخل ہوئی اور عالمِ حیرت سے پوچھا کہ ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ ایک عورت نے اشک آنچل سے پونجھتے ہوئےکہا ’’عتیقہ اور اُس کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ عورت حواس باختہ دوڑتی ہوئی تبسم کی لاش کے قریب گئی، روتی بین کرتی یہ کہتی اس کی چارپائی سے لپٹ گئی،بے چاری بیگم صاحبہ سے بارہا قسمیں کھاکھا کر کہتی رہی، میںنےچوری نہیں کی، میں نے چوری نہیں کی، پر بیگم صاحبہ…! ہائے اس کا شک نگل کر ہی رہا معصوموں کو! چور تو جبکہ اس کی لاڈلی بیٹی ہی تھی۔

تازہ ترین