• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیصر عالم

’’پاکستانی ادب‘‘ کی پہچان کیا ہے؟ کیا وہ ادب جو پاکستان کی مختلف تہذیبی اکائیاں لکھ رہی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہم اپنے ہزار سالہ تہذیبی ورثے سے دستبردار ہوجائیں؟ عسکری صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’وہ پاکستانی ادیبوں سے سخت مایوس ہیں۔‘‘بہ قول ان کے دہلی کی بربادی پوری ایک تہذیب کی بربادی ہے اور ہمارے ادیب اس بربادی پر خاموش رہے۔ یہ بات انہوں نے 1948 میں لکھی۔ یعنی تقسیم کے صرف ایک سال بعد۔ وہ تقسیم کے بعد کا ایک واقعہ بھی بیان کرتے ہیں، جہاںدو افراد یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تقسیم ہند سے مسلمانوںکو کیا ملا؟ برابر ہی میںکھڑی ہوئی ایک بڑھیانے کہا ’’چلو مسلمانوں کو ایک کچاگھر تو مل گیا‘‘ اس جملے کو عسکری صاحب نے شدت احساس کے تحت بہت مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کیا اور لکھا کہ ابھی تک تو صرف ایک یہی جملہ آیا ہے اور لکھاکہ کیا یہ میر نہیں بول رہا؟ پاکستانی ادیبوں سے مایوسی، جہاں انہیں ادب کی موت کے اعلان کی طرف لے گئی، وہاں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی ادیبوں کی یہی بے حسی رہی تو اس سے بہتر ہے کہ آدمی مہا بھارت ہی کو دوبارہ پڑھ لے، کیونکہ بہ قول عسکری صاحب، مہا بھارت کے ایک واقعے کو بہرحال ایک ’’قصہ‘‘ تو بنادیا گیا۔

یہاں میں عسکری صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے تقسیم کے صرف ایک سال بعد ہی ادب کی موت کا اعلان کردیا۔ پاکستانی مصنفوں کو کم از کم پانچ سال تو دیتے کہ دہلی کی بربادی پر کچھ لکھ پاتے۔ شاعری میں تو کچھ شاعروں نے تقسیمِ ہند اور ہجرت کو ایک استعارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ناصر کاظمی اس میںسرفہرست ہیں۔ بعد میں انتظارحسین نے ’’بستی‘‘ لکھ کر کچھ حق ادا کیا، لیکن اس سب کے باوجود مسئلہ ایک دو شاعروںاور نثر نگاروںکا نہیں ہے۔ آج 2018 میں ہم نے کسی طور خود سے یہ سوال کرنا ہے کہ ’’پاکستانی ادب‘‘ کا اثاثہ کیا ہے اور اس کےخدوخال کیا ہیں؟

جیسا میں نے اوپر بیان کیا کہ ایک نظریاتی اور اسلامی ملک میں فنون لطیفہ کا کردارکیا ہے اور اس کی حدیں کہاںجاکر ختم ہوتی ہیں۔کیا ہم میر و غالب کی پیروی کرتے ہوئے شاعری کرتے رہیں یا اقبال کی طرح فارسی زبان میں مثنویاںلکھنے کی کوشش کریں۔ اسلام میں چونکہ مغربی تہذیب کے برعکس زندگی کا ’’الم انگیز تصور‘‘اور ’’عظیم ناکامی‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لیے ہمارے ہاںڈرامہ نہیں لکھا جاسکتا۔ پھر اسلام میں وقت کو ابدیت کے معنوں میں تسلیم کیا جاتاہے، جہاں وقت ترقی پذیر اور حرکی نہیں ہے۔ اس کی سند ایک حدیثِ قدسی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنےبارے میں کہتے ہیں کہ ’’زمانے (عصر) کو برا مت کہو، زمانہ تو میں  خود ہوں‘‘۔اب ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی ذات میںکسی طرح کا ارتقا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ہمارے ہاں رقص اور تھیٹر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔موسیقی، سماع یا مصوری پر خاصی بحث ہوچکی ہے ، اب یہ تقریباً طے ہے کہ سماع بغیر مزامیر کے جائز ہے، ورنہ حرام ہے۔ اس صورتِ حال میں راگ، ٹھمری وغیرہ کی بھی گنجائش نظر نہیں آتی، البتہ قرآنی آیات کی خطاطی آپ کو پوری مسلم تہذیبوں میں فنِ تعمیر کے ساتھ جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک نظریاتی ملک میں کیا اسی مخصوص نظریے کے تحت ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بالشویک انقلاب کے بعد روس میں حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود اشتراکی فلسفہ یا نظریے کے تحت ادب تخلیق نہیں ہوسکا۔ زیادہ تر ادیبوں نے جلاوطنی اختیار کی۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی اساس ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر رکھی گئی جو الوہی تھا یعنی مذہبی۔ اب ادب ایک انسانی سرگرمی ہے۔ کیا قرآن و حدیث پر مبنی کسی ریاست میں انسانی سرگرمی کی بنیاد پر ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ مغرب نے تو 1610 میں بائبل کو ایک ’’ادبی شاہکار‘‘ قرار دےکر مذہبی ذہن اور انسانی ذہن کا فرق مٹادیا۔ لیکن اس کا ہولناک نتیجہ یہ نکلا کہ 19 ویں صدی تک مغرب سے مذہب کا جنازہ ہی اٹھ گیا اور مغرب نےادب کو اعلیٰ ترین انسانی سرگرمی قرار دے دیا۔ ایک نظریاتی ملک ہونے کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کرسکتے۔تو پھر کیا کریں؟ کیا خالص جمالیات کا دامن تھام لیں اور اقرار کریں کہ ہم ہیں تو الحمدللہ مسلمان، لیکن دیگر انسانوں کی طرح ہمارے بھی کچھ جمالیاتی تقاضے ہیں۔ہم ان جمالیاتی تقاضوں کو مذہب کے متوازی معاشرےمیں فروغ دے سکتے ہیں اور اس طرح اپنی نظریاتی اساس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ غزل، نظم، مصوری، موسیقی وغیرہ ہمارے وجود کے جمالیاتی خلا کو پُر کرتے ہیں اور مذہب ہمارےنفس کو گمراہ ہونے سے بچاسکتا ہے! نفس کے حوالے سے یہ بات محلِ نظر رہے کہ اسلام میں وجود کے بجائے، نفس کی تین اقسام گنوائی گئی ہیں یعنی نفس امارہ، نفسِ لوامہ اور نفس مطمئنہ، یہی وجہ ہے کہ صوفیا کے تقریباً تمام سلاسل نفس کی تربیت ہی پر زور دیتے ہیں۔ وجود کی بحث اسلامی مابعد الطبیعات کا موضوع ہے، لیکن جمالیات کا قصہ بھی عجیب ہے۔ فلسفۂ زیست کے بانی کیر کے گارد نے اس سلسلے میں بڑے کام کی بات کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں تین ادوار آتے ہیں۔ پہلا جمالیاتی  دوسرا اخلاقی اور تیسرا مذہبی بقول کیرکے گارد ایک دور میں کئے گئے فیصلے، دوسرے دور میں فیصلہ کن نہیں ہوتے۔ وہ قصہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ گیرکے گارد نے کوپن ہیگن کی مشہور ماڈل گرل ریجنا اولسن سے جب منگنی کی تھی تو اُس وقت وہ جمالیاتی دور سے گزررہا تھا، لیکن جب اُس نے محسوس کیا کہ اب وہ اخلاقی دور میں داخل ہوچکا ہے تو اُس نے فوراً ہی یہ منگنی توڑ دی۔

قصہ مختصر، کیا ہم برصغیر میں ابھرنے والی تہذیبی اکائی کو اردو زبان کے ذریعے پاکستان میں منتقل کرپائے ہیں اور کیا ہم اس تہذیبی ورثے کو علاقائی تہذیبی ورثے میں منتقل کرپائے ہیں؟ اگر کرپائے ہیں تو پاکستانی ادب کی اصطلاح ٹھیک ہے، اگر ہم ہزار سالہ تہذیبی ورثے سے کٹ کر شاعری اور نثر لکھ رہے ہیں تو ہم بھی اردو میں ایک اور علاقائی ادبی ورثہ تخلیق کررہے ہیں۔ پاکستانی ادب کے خدوخال کیا ہیں، یہ میں یقین کے ساتھ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ ہم اپنے ہزار سالہ تہذیبی اکائی اور اس کے ورثے کو پاکستان کی علاقائی تہذیبی ورثے میں نہ تو منتقل کرپائے ہیں اور نہ اردو زبان میں 1947 کے بعد مجھے کوئی ایسے شواہد ملتے ہیں، جوپاکستانی ادب کو تاریخی اور تہذیبی سطح پر برصغیر کے ہزار سالہ تہذیبی ورثےسے جوڑے رکھتے ہیں۔

یہ وہ مسئلہ ہے،جس نے میری روح میں اضطراب پیدا کررکھا ہے اور اس اضطراب کے بطن سے وہ سوالات جنم لیتے ہیں، جنہیں میں نے اس مضمون میں بیان کرنےکی کوشش کی ہے۔جس مسئلے نے 48 میں عسکری صاحب کے ذہن میں ایک تلاطم پیدا کیا تھا،وہ آج 71 سال بعد اپنی تپش سے میری روح کو جھلسائے دے رہا ہے اور قریب ہے کہ میری اور میرے بعد آنے والی نسل کی تہذیبی شخصیت پارہ پارہ ہوجائے، ہمیںمل جل کر اس مسئلے کو سلجھانے کا جتن کرنا چاہیے۔

تازہ ترین